” سائیں ، یہ اچھا کیا ، یہاں تو یہ مثال بن گئی ، کہ زندہ مہرل شاہ لاکھ کا اور بے ہوش مہرل شاہ کروڑ کا ۔“
” اوئے نہیں اوئے کئی کروڑ کا ۔“ بدر نے کہا اور ایک دم سے ہنس دیا ۔ ماحول ایک دم سے بدل گیا ۔
” اس کا مطلب ہے کہ اس کے پیسے کھرے کرنا چاہتے ہو، لیکن اس کی رسائی حکومت تک ہے ، پوری حکومتی مشینری اسے تلاش کرنے نکل پڑے گی ۔“ جسپال نے اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” بلکہ تلاش کرنے کے لئے نکل پڑی ہوگی۔
میں جانتا ہوں۔ مگر تم ابھی زیادہ نہیں جانتے ہو یہاں کے بارے میں ، ابھی کئی چوہے بلوں سے نکالنے ہیں۔ اسے ابھی کچھ دیر کے لئے مہمان رکھنا ہوگا۔“ بدر نے سنجیدگی سے کہا
” کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ جو چوہے ہیں ، بلکہ جو اصلی والے چوہے ہیں، وہ گہری بلوں میں چلے جائیں گے۔
(جاری ہے)
ہاں چاہو تو رسک لے کر نوٹ کھرے کر سکتے ہو۔“ تانی نے کہا تو جسپال بولا
” چل کوئی بات نہیں خرچہ پانی بھی تو چلانا ہے۔
“ جسپال کے یوں کہنے پر وہ سبھی ہنس دئیے۔
رات کا نجانے کون سا پہر تھا، جب وہ سپر ہائی وے سے نیچے اتر آئے ۔ اس سے آگے، وہ چھوٹی سڑک پر مڑے اور چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انہیں روشنیاں دکھائی دیں ، جو دھیرے دھیرے ایک بڑے سے فارم ہاؤس کی صورت اختیار کر گیا۔ انہوں نے کار پورچ میں روکی۔ اسی لمحے کئی سارے بندے باہر آ کر ان کی کار کے گرد کھڑے ہوگئے۔
وہ تینوں باہر نکل کر اندر کی طرف چل دئیے ۔ وہ لوگ مہرل شاہ کو کار میں سے نکال کر اندر لے جانے لگے۔
” یہ کون سی جگہ ہے ، اور کس کی ہے ؟“ تانی نے عالیشان ڈرائینگ روم کے گداز صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
” یہ مہر سکندر یار کا ڈیرہ ہے، مہرل شاہ کا سب سے بڑا دشمن، اور ہمارا بھی یار …نہیں بلکہ مہر سکندر کسی کا بھی یار نہیں ہے ۔“ بدر نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا تو جسپال ہنس دیا پھر بولا
” یار ، یہ سب جو کوئی بھی ہے ، تو کچھ کھانے پینے کا بندوبست کروا ، بھوک لگ رہی ہے۔
“
” اوکے باس ، جیسا حکم ۔“ بدر نے کہا تو تانی نے ہنستے ہوئے کہا
” ویسے اب تم جسپال کو باس کہو گے ، احسان مانو اس کا ، نئی زندگی دی ہے اس نے تمہیں ۔“
” ہاں ، اگر یہ بروقت فیصلہ نہ کرتاتو …“ بدریہ کہتے ہوئے رکا اور پھر اچانک بولا،” ویسے تم بھی کمال کی چیز ہو ، اصل کریڈٹ تو تم ہو اس مشن کا ۔“
” اوئے تعریفیں بند کر اور جا ۔
ابھی اس سالے مہرل شاہ کو بھی بھگتنا ہے ۔ چل جا ۔“ جسپال نے کہا تو بدر اندر کی جانب چلا گیا۔
اس وقت سورج نکلنے کے آثار واضح ہو گئے تھے ، جب مہر سکندر یار ڈیرے پر آ گیا۔ وہ ایک بڑی سی گاڑی میں آیا تھا۔ اس نے آتے ہی بدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا
” ویسے وہ ہے ابھی زندہ نا؟“ یہ کہتے ہوئے وہ ان کے پاس بیٹھ گیا
” ابھی تک تو زندہ ہے، تمہارے آ دمیوں کے پاس ہے ۔
میں نے تو اسے مار دینا تھا۔ بس تمہارے لئے لایا ہوں۔ جو کرناہے کرو ۔“
” سودا کرنا ہے اس کے ساتھ ۔ یہ ایک دن میں تو نہیں ہوگا نہ یہ سب۔“ اس نے مسکراتے ہوئے تانی کی طرف دیکھ کر کہا تو بدر ہنستے ہوئے بولا
” دیکھ لو ہمیں یہاں رکھ بھی پاؤ گے؟“
” کیوں ، میں کیوں نہیں رکھ سکتا ، میں چاہوں نا تو تم میری مرضی سے جا بھی نہیں سکتے یہاں سے ۔
“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تو جسپال نے بدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
” بدر ۔! یہ کیا بات ہونے لگی ہے ، اسے کہو ، ہمیں روک کر دکھائے ، لے میں جا رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا ہی تھا کہ مہر سکندر یار نے ہنستے ہوئے کہا
” تیرا ساتھی بہت گرم دماغ کا ہے ، اسے میرے بارے میں بتایا نہیں تھا۔“
” نہ بھی بتاؤ تو یہ خود سمجھ دار ہے ، تم اپنی بات کرو مہر؟“ بدر کا لہجہ ایک دم سے تلخ ہو گیا تھا۔
تو وہ ٹھنڈے انداز میں بولا
” ٹھیک ہے ، اب کرو بات ، مہرل شاہ کومارنا ہے تو اسے لے جاؤ ، اور جہاں چاہو مار دو، اگر میرے حوالے کرتے ہو تو مانگو کیا مانگتے ہو۔“
” تم نے جو سودا کرنا ہے کرو، باقی مجھ پر چھوڑ دو۔“ بدر نے کہا تو جسپال نے پوچھا
” کیسا سودا کر رہے ہو بدر ؟“
” میں بتاتا ہوں۔“ مہر سکندر یار نے کہا، پھر لمحہ بھر رک کر بولا،” یہ مہرل شاہ ، حکومت میں بہت رسائی رکھتا ہے ، ہر بار میری وزارت مار جاتا ہے۔
اب اس سے وزارت تو لینی ہے نا ، اس لئے بدر کو تکلیف دی تھی۔ اب وزارت کی بات کرنے میں دن تو لگیں گے نا، اس لئے روک رہا تھا ، تم کچھ اور سمجھے ہو۔“
” دیکھو، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، تمہیں وزارت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ اسے سنبھال بھی پاؤ گے یا نہیں، ہم نے اسے مارنا ہے اور بس۔“ جسپال نے کہا تو وہ بولا
”اسے مارنا ہے تو پھر اسے بھی لے جاؤ، میں نے تو اس وقت تک اسے رکھنا ہے جب تک مجھے وزارت نہیں مل جاتی۔
“
” ٹھیک ہے ، اسے ہمارے حوالے کرو۔“ جسپال نے سرد لہجے میں کہا تو وہ قہقہہ لگا کر بولا
” بدر یہ تمہارا سودا خراب کرے گا۔ مجھے وزارت ملنے کا مطلب جانتے ہونا تو اسے سمجھاؤ، سنو۔! مجھے وزارت ملنے کامطلب ہے ، یہ پورے سندھ میں جو مرضی کرتا پھرے، کوئی نہیں پوچھے گا اسے ۔“
’ ’ بات اتنی کرتے ہیں ، جتنی بندہ کر سکے ، یہاں سندھ میں ایسے ایسے لوگ پڑے ہیں ، جو تمہیں کھا جائیں، یہ مہرل شاہ تم سے سنبھالا نہیں گیا ۔
اسے ہم چوہے کی طرح لے کر آئے ہیں۔ پورا سندھ۔“ جسپال نے طنزیہ لہجے میں کہا تو اچانک تانی نے کہا
” بدر ، جو کرنا ہے ڈن کرو، چلتے ہیں۔“
” ہاں یہ لڑکی سیانی لگتی ہے۔ ادھر رہو میرے پاس ، بہت اچھا وقت گذرے گا۔“
” اچھا، تو بہت اچھا وقت گذرے گا۔ کیسے یہ بتاؤ گے مہر صاحب۔“ تانی نے لچکتے ہوئے کہا تو جسپال نے بہ مشکل اپنا قہقہہ روکا۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ مہر کیا سوچ رہا ہے اور تانی کا اس پر کیا رد عمل ہوگا۔
” ادھر ہمارے پاس رہو گے تو ہی پتہ چلے گا نا۔“ اس نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا تو تانی شرما گئی ۔ جسپال کا مزید برا حال ہو گیا ، وہ قہقہہ نہیں لگا پا رہاتھا۔ انہیں لمحات میں ایک بندہ تیزی سے اندر آیا اور اسی تیزی سے بولا
” سائیں۔ !پولیس …“
ایک دم سناٹا چھا گیا تھا۔
اتنی جلدی یہاں پولیس آجانے کی صرف دو وجوہات ہوسکتی تھیں،یا تو پولیس ان کا پیچھا کرتی ہوئی یہاں تک آ گئی تھی یا پھر مہر سکندر اور پولیس کے درمیان پہلے ہی رابطہ تھا۔ جسپال نے مہر سکندر کے چہرے پر دیکھا ، جہاں خباثت بڑھ گئی تھی۔ اس نے ان تینوں کی طرف دیکھا اور پر جوش لہجے میں بولا
” بدر۔! تو پھر کیا کہتے ہو؟“
” میں تو کہتا ہوں ، ہمیں جانے دو۔
“ بدر نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔ اس پر مہر سکندر بولا
” پولیس آ گئی ہے ، اس کے ساتھ جانا چاہو تو ابھی چلے جاؤ، اگر پولیس کے ساتھ نہیں جانا چاہتے تو پھر رُکنا پڑے گا، پولیس کے ساتھ نہیں جانا تو پھر میں تجھے تحفظ دوں گااور یہ تحفظ میری شرائط پر ہوگا ، بولو کیا کہتے ہو،جانا ہے یا رُکنا ہے؟“
ایک دم سے خاموشی چھا گئی، جسے لمحہ بھر بعد تانی نے اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں توڑا
” یہ پاگل ہیں ، انہیں کیا سمجھ مہر جی ، آپ میرے ساتھ بات کریں۔
“
مہر سکندر نے تانی کی طرف خوشگوار حیرت سے دیکھا ، پھر ایک دم سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولا
” کہا نا یہ لڑکی زیادہ سمجھ دار ہے ۔ چل لڑکی تیرے صدقے انہیں معاف کرتا ہوں ، انہیں لے جا اندر، اور سمجھا، میں پولیس والوں کوواپس بھیجتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے مہر صاحب…“ تانی نے کہا اور جسپال کا ہاتھ پکڑ کر اندرکی جانب چل دی ۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے بدرکو پکڑا اور چلتی چلی گئی۔
تبھی انہیں مہر سکندر کی آواز آئی، وہ اپنے اس ملازم کو کہہ رہا تھا
” انہیں کہو ،واپس جائیں ،جب میں انہیں بلاؤں، تبھی آئیں۔“
” جی سائیں ۔“
وہ تینوں ڈیرے کی پچھلی طرف بنے لان میں چلے گئے تھے ۔ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا ۔ ان سے کافی دور سیکورٹی گارڈز کھڑے تھے۔ بظاہر وہاں سے فرار کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ، لیکن جسپال اور تانی یہاں سے نکل جانے کا راستہ سوچ چکے تھے ۔
انہیں پورا یقین تھا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں گے۔ بدر نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا
” تانی ۔! کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں۔“
” میں دشمن کو معاف کر دیتی ہوں ،مگر منافق اور دھوکے باز کو میں برداشت نہیں کرسکتی۔ اس مہر سکندر نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔“ اس نے غصے میں کہا تو جسپال بولا
” ہمارے ساتھ نہیں،بدر کے ساتھ۔“
” لیکن اب تو ہمارے ساتھ ہو گیا نا۔
“ تانی نے دبے دبے جوش سے کہا تو بدر سرد لہجے میں بولا
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔“
” تُو یہاں پرآیا ہی کیوں تھا، کوئی دوسری جگہ نہیں تھی کیا؟“ جسپال نے پوچھا
” میں نے کہا نا کچھ چوہے ہیں، جنہیں بلوں سے باہر لانا ہے ۔ یہ مہرل شاہ کے لئے ہی مجھ سے رابطے میں تھا۔ بڑی آفر کی تھی اِس نے،لیکن اب اس نے گیم بدل دی ہے، اس کا مطلب ہے میراشک درست تھا ۔“بدر نے الجھتے ہوئے کہا
” شک مطلب، تُو کہنا کیا چاہتا ہے؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔