”صدیاں غلامی میں گزارنے کے بعد اب جاکر ہندوؤں کو آزادی نصیب ہوئی ہے۔ انہیں حکومت ملی ہے تو یہ ہندو اپنی اوقات سے باہر ہوگئے ہیں۔ یہ اپنی گھٹیا فطرت سے مجبور ہیں‘ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ دوسرے مذہب‘ دین یا دھرم کابندہ ان کے سامنے ہو‘ اس لیے مذہب اور دھرم کے نام پر ہر طرف انہوں نے جنگ چھیڑی ہوئی ہے‘ دراصل یہ وہ سانپ ہیں جو پٹاری میں بند رہیں تو اچھا تھا۔
“ نوین کور نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ اس وقت ہم تینوں لان میں بیٹھے شام کی چائے پی رہے تھے۔
”وہ تو جوہونا ہے سو ہے‘ تم بتاؤ‘ اب کرنا کیا ہے۔ شام تو سرپر آرہی ہے۔“ بکرم جیت نے تشویش زدہ لہجے میں کہاتووہ بولی۔
”دیکھو۔!نقشے پرمیں نے تم لوگوں کو سمجھادیا ہے کہ شمشان گھاٹ کہاں ہے‘ اس کے راستے کہاں ہیں‘ ابھی کچھ دیر میں بلجیت کو وہاں لے جایا جائے گا‘ وہاں اتنا رش نہیں ہوگا۔
(جاری ہے)
سیکیورٹی کی وجہ سے لیکن ارتھی جلانے کے بعد بہت سارے لوگ واپس آجاتے ہیں۔ اب رویندر سنگھ کے قریب تو ہم جانہیں سکتے ہیں۔ اس لیے اب سارا بھروسہ جمال پر ہوگا۔ دو رمارگن سے اس کانشانہ لینا ہے‘ اور وہاں سے نکلنا ہے‘ یہی نکلنا ہی ہماری سب سے اہم کارروائی ہوگی۔“ نوین کورنے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”لیکن یہ نشانہ لگانا کب ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”سورج غروب ہونے کے بعد‘ جب انہوں نے پھول چننے ہیں۔تم پھول چننا سمجھتے ہو دلجیت‘ مطلب جب وہ ارتھی کی راکھ اور ناخن اکٹھے کریں گے۔ایسے وقت میں…“ نوین کور نے سکون سے کہا۔
”نکلنے کے لیے تمہارا کیا پلان ہے؟“
”پہلی تو بات یہ ہے کہ ہم الگ الگ نہیں ہوں گے، اکٹھے ہی رہیں گے۔بکرم جیت دوسری گاڑی میں ہمیں کور دے گا۔ تم نے چونکہ امرتسر دیکھا نہیں‘ اس لیے تمہیں جتنا بھی سمجھاؤں‘ تم نہیں سمجھ سکتے‘ اس پراپنا دماغ مت کھپاؤ‘ اس کارروائی کے بعد محفوظ مقام پر لے کرجانا میرا کام ہے۔
“
”اوکے ۔! میرا خیال ہے بکرم‘ اب نوین کو تقریر کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ ہاں تو ہندوؤں نے کیا کیا۔“ میرے کہنے پر وہ دونوں مسکرادیئے ۔ پھر وہ بولی۔
”ٹھیک ہے‘ تم لوگ تیار ہوجاؤ‘ میں کچھ لوگوں سے رابطہ کرلوں۔“ اس نے کہا اور اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہوگئی۔
امرتسر پر شام اترنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ نوین اور میں پراڈو میں تھے اور بکرم اپنے چند مقامی ساتھیوں کے ساتھ دوکاروں میں ہمارے کور پر تھا۔
وہ ہمیں اودھم سنگھ کالونی کے پاس ریلوے پھاٹک پر ملاتھا۔ ہم بغیر رکے اس کے پاس سے گزر گئے۔ تاہم ہماری رفتار اتنی زیادہ نہیں تھی۔ ریلوے لائن کے پار گرلز سکول کے ساتھ وہ شمشان گھاٹ تھا‘ جہاں بلجیت سنگھ کی ارتھی کوجلایا گیاتھا۔ وہاں پر موجود بندے نے ہمیں بتایا تھا کہ ارتھی مکمل طور پر جل چکی ہے اور کچھ دیر میں وہاں سے ”پھول“ اٹھائے جائیں گے۔
یہی وہ وقت تھا جس میں ہم نے اپنا کام کرنا تھا۔ گرلز اسکول کی طرف سے اس شمشان گھاٹ کا عقب تھا۔ شمشان گھاٹ کی چار دیواری چھوٹی تھی‘ جس سے ذرا فاصلے پراینٹوں سے بنے چار ستونوں پر ٹین کی چھت تھی۔ اس کے نیچے کیا ہو رہاتھا‘ یہ تومیں نہیں دیکھ سکا‘ لیکن اس سے ذرا فاصلے پر کافی لوگ کھڑے تھے۔ وہ سب وہیں، اسی سمت دیکھ رہے تھے‘ ہم پہلے اس کے قریب سے گزر کر آگے نکل گئے ‘میں دراصل وہاں کی سیکیورٹی کے بارے میں اندازہ لگانا چاہتاتھا۔
وہاں میرے اندازے کے مطابق سیکیورٹی کافی تھی۔ انہوں نے شمشان گھاٹ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ ایسا ہوسکتاتھا کہ تقریباً ڈیڑھ سومیٹر کے فاصلے پر شمشان گھاٹ کے اندر کھڑے کسی شخص کو نشانہ بنایاجاسکتاتھا لیکن وہاں سے نکلنا پھر بہت مشکل تھا۔ یہ بڑارسک تھا۔وہاں میں نے اس آسانی کو قبول نہیں کیا‘بلکہ نوین سے کہا۔
”تم ایسا کرو‘ کسی طرح گرلز اسکول کے اندر پہنچ جانے کی ترکیب کرو۔
“
”لیکن وہاں سے نکلنے میں بہت وقت لگ سکتا ہے‘ میری پلاننگ میں صرف اتنا وقت ہے کہ تم شوٹ کرو اور میں گاڑی وہاں سے بھگادوں‘ بس…“ نوین نے تشویش سے کہا۔
”چلو پھر واپس اور بتادو کہ ان میں رویندر سنگھ کون ہے۔“ میں نے گن جوڑتے ہوئے کہا۔
”ان میں سفید کرتے پاجامے میں ہے اور اس نے سیاہ رنگ کی پگڑی پہنی ہوئے ہے۔ خاص بات کہ اس کے گلے میں بسنتی رنگ کی مالاہے۔
“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”وہ تو سب کا ہے اور اتنی باریکی نہیں۔“
”اوکے۔! وہ جو کمانی دار سنہری عینک لگائے ہوئے ہے ‘ لمبا سا…“
”ٹھیک ہے‘ اب تم اپنی ڈرائیونگ پر دھیان دینا۔“ میں نے کہااور گن تیار کرلی۔سنائپر اورسائلنسر دیکھااور تیار ہوگیا۔ نوین نے دھیمی رفتار رکھی ہوئی تھی۔ میں نے تیزی سے دیکھا۔
نوین کی بتائی ہوئی نشانیوں والا وہ شخص کافی لوگوں کے درمیان میں کھڑا تھا۔ میں نے نوین سے تصدیق کی اور رویندر سنگھ کانشانہ لے کر ٹرائیگر دبادیا۔ ہلکی سی آواز ابھری تھی۔ میں نے رویندر سنگھ کو ساکت ہوتے ہوئے دیکھا تھا‘ تب تک نوین نے گاڑی بھگالی۔
ہم نواں کوٹ کی جانب سیدھے چلے گئے۔ نوین کابکرم جیت سے پہلے ہی رابطہ تھا۔ میں نے گن پچھلی سیٹ کے نیچے رکھی اور فون لے لیا۔
پھرمیں نے بکرم جیت سے رابطہ کیا۔ وہ ہمارے عقب ہی میں تھااور ہم ریلوے لائن کی ساتھ سڑک پر چلے جارہے تھے۔ ایک جگہ تھوڑا رش تھا‘نوین کو وہاں گاڑی کی رفتار دھیمی کرناپڑی پھراس کے ساتھ ہی بکرم جیت ہمارے ساتھ آلگا۔ پراڈو ہمارے لیے اب خطرے کی علامت تھی۔
”نوین! اب ہمیں پراڈو چھوڑنا ہوگی۔ بکرم ہمارے آگے آجاؤ۔“ میں نے کہاتو ایک موڑ پر اس نے گاڑی روک لی۔
میں نے انتہائی تیزی سے دستی بم کی پن نکالی اور گاڑی میں پھینک دی‘ پھر آگے کھڑے بکرم جیت کی گاڑی میں بڑھے۔ اس میں بیٹھتے ہی اس نے تیزی سے گاڑی بڑھالی۔ چند ہی لمحوں بعد دھماکے کی آواز آئی۔ تب تک ہم ریلوے پھاٹک کراس کرچکے تھے۔
وہ امرتسر کا پرانا سا علاقہ تھا۔ بہت گنجان آباد‘ انتہائی تنگ بازار میں سے نوین مجھے اپنے ساتھ لیے جارہی تھی۔
ہم نے کچھ دیر پہلے بکرم کی گاڑی چھوڑ دی تھی اورایک آٹو رکشہ کے ذریعے یہاں اس بازار تک آئے تھے۔ تنگ بازار میں میرا سانس گھٹ رہاتھا۔ جبکہ مجھے حیرت یہ تھی کہ وہاں عورتوں اور مردوں کا رش تھا۔ کچھ دیر بعد ہم اس بازار کے دوسرے سرے پر گئے تو آگے رہائشی علاقہ شروع ہوگیا۔ درمیان میں ایک سڑک تھی جسے پار کرنے کے بعد ہم ایک گلی میں داخل ہوگئے۔
چند گلیاں پار کرنے کے بعد وہ ایک گھر کے دروازے پرآن کررک گئی اور پھردھیمے سے لہجے میں بولی۔
”یہ میرا گھر ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے بیل دے دی۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھے سکھ نے دروازہ کھولا‘ اس نے ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور پھر پلٹ گیا۔جیسے کسی اجنبی کااس گھر میں آنا پہلی بار نہیں تھا‘ ہم اندر داخل ہوگئے۔ ڈیوڑھی ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی دائیں جانب سیڑھیاں تھیں۔
نوین نے مجھے اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیااور اوپر چڑھ گئی۔ دوسری منزل کو بھی اس نے پیچھے چھوڑا تیسری منزل پر وہ پرانی طرز کا کمرہ تھا اور اس کی حالت ایسی تھی کہ جس کے بارے میں افراتفری ہی کہا جاسکتاتھا‘ بہت کچھ تھا‘ مگر سب بے ترتیب ۔اس نے ٹی وی لگاتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا کمرہ ہے اور آپ نے یہ رات ادھر گزارنی ہے۔ آپ ٹی وی دیکھو‘ میں کھانے کابندوبست کرکے آتی ہوں۔
“ یہ کہتے ہی وہ الٹے پیروں واپس پلٹ گئی اور میں مختلف چینل بدلنے لگا کہ اپنے مطلب کی خبر سن سکوں۔ ایک مقامی چینل پر رویندر سنگھ کے بارے میں خبر دی جارہی تھی۔ وہ سورگ باشی ہوگیاتھا۔ اس کے ساتھ ہی پراڈو میں دھماکے کی بھی خبر کو اہمیت دی جارہی تھی۔ اس واقعہ کا سرا وہ دہشت گردی سے جوڑ رہے تھے۔ میں کچھ دیر اس کی تفصیلات سنتارہا‘ پھر چینل بدلنے کاسوچ ہی رہاتھا کہ ایک خاتون رپورٹر نے کافی چونکا دینے والی بات کی۔
اس نے رویندر سنگھ قتل اور مدن لعل کے بیٹے منوہر کے قتل کو ایک ہی قاتل کے ساتھ جوڑ دیاتھا۔ اس کاکہنا تھا کہ دونوں قتل کسی ایک ہی بندے نے کیے ہیں‘ کیونکہ شوٹ کرنے کاانداز ایک ساہی تھا۔ میرا نہیں خیال تھا کہ وہ اتنی گہرائی میں سوچ سکتے تھے‘ لیکن اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ تحقیقات کس سطح پر ہو رہی ہیں۔ میں نے اندر سے یہ محسوس کرلیا کہ میرے لیے خطرہ بڑھ گیاہے، مجھے حد درجہ محتاط ہو جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔