Episode 39 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 39 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میں نے کچھ کہنے کے لیے لب وا ہی کیے تھے کہ انہوں نے اپنا رُخ موڑا اور مشرق کی سمت چل پڑے۔ انہوں نے میری بات ہی نہیں سنی۔ وہ چلتے چلے جا رہے تھے۔ جس وقت وہ پلیٹ فارم کے انتہائی مشرقی کونے تک پہنچ کر نیچے اتر گئے، اسی لمحے مجھے ادھر سے ریلوے انجن آتا دکھائی دیا۔ انجن زور زور سے وسل بجا رہا تھا۔ مجھے اس کی آواز سنائی دی تو میں نے غور کیا۔ مجھے لوگوں کا شور بھی سنائی دینے لگا تھا۔
میں ویسے ہی کھڑا تھا، مگر وہ لوگ مجھے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔سامنے ہی بابا سنگھ پریوار کھڑا تھا۔ وہ اپنا سامان اٹھا چکے تھے۔ میں جلدی سے آگے لپکا اور سامان اُٹھا لیا۔ بھائی سنگھ بوگی کے ساتھ ساتھ جا کر وہ بوگی تلاش کر رہے تھے، جہاں ہماری سیٹ تھی۔ میرے ذہن میں خوف نہیں تھا مگر تجسس اب بھی تھا کہ وہ لوگ گئے کدھر؟
ہم اپنی اپنی سیٹو ں پر بیٹھ چکے تھے۔

(جاری ہے)

سامنے بی بی کور کے ساتھ بھابی کور تھی۔اس کے ساتھ بھائی سنگھ تھا، میں اور بابا سنگھ ایک طرف بیٹھ گئے۔ تبھی میں نے کھڑکی میں سے دیکھا، وہ لوگ اسٹیشن پر پاگلوں کی مانند پھر رہے تھے۔ پھر اچانک غائب ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد وہ بوگی میں آن گھسے۔ میں حوصلے سے بیٹھا رہا۔ وہ قریب سے آگے نکل گئے۔ اور پھر ٹرین چل پڑی۔
 پاکستانی سرحد تک ساتھ ساتھ گھڑ سوار بھاگتے رہے۔
جیسے ہی پاکستانی سرحد آئی ،میں نے سُکھ کا سانس لیا۔ سہ پہر سے ذرا پہلے ہم واہگہ اسٹیشن پر تھے۔ اگرچہ پاکستانی وہاں سے اپنی کلیرنس دے کر جا سکتے تھے ، مگر میں ایک بھارتی تھا اور سکھ کے روپ میں تھا۔ مجھے بہرحال لاہور اسٹیشن پر جا کر ہی رُکنا تھا اور پھر ننکانہ صاحب جا کر اپنی حاضر ی بھی دینا تھی۔
لاہور اسٹیشن پر سکھ یاتریوں کی بڑی تعداد اُتری، میں بھی انہی میں شامل تھا۔
ہم چلتے ہوئے اسٹیشن سے باہر آگئے۔ کچھ یاتری وہیں سے ٹرین کے ذریعے ننکانہ جا رہے تھے۔ مگر میرا دل نہیں کیا۔میں نے بابا سنگھ کو یہی مشورہ دیا کہ ہم اپنی سواری سے وہاں جائیں گے۔ بابا سنگھ نے فوراً ہی میری بات مان لی تھی۔ اسٹیشن کی عمارت کے باہر جب ہم آئے تو شام ہو چکی تھی۔ 
میں کسی ٹیکسی کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی۔
مجھے لگا کہ جیسے میں نے اسے کہیں پہلے دیکھا ہوا ہے۔ وہ بھی پرشوق نگاہوں اور مسکراتے لبوں سمیت کھلتے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں ابھی اسے غور سے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ میری جانب بڑھ آئی، چند قدم کے فاصلے پر جب وہ آئی تو مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا، وہ تانی تھی۔ وہ جس طرح شدت ِ جذبات کے ساتھ میرے سینے سے آ لگی، اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اندر سے میرے لیے کیسا محسوس کر رہی ہے۔
وہ مجھ سے الگ ہوئی تومیں نے خوشی سے بھرپور لہجے میں پوچھا۔
”تانی تم، یہاں کیسے؟“ 
تب وہ اٹھلاتے ہوئے بولی۔
”کیوں، میں یہاں نہیں آسکتی کیا۔“
”لیکن تمہیں پتہ ہے کہ یہاں کتنے خفیہ والے پھر رہے ہوں گے، تیری یہ شدت انہیں متوجہ کر سکتی ہے کہ تازہ تازہ آئے سکھ کے ساتھ یہ کون جپھیاں ڈال رہی ہے۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”کچھ نہیں ہوتا، تو بھارت سے آیا ہے نا، اس لیے سوچ رہا ہے۔“
اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ ایک پریوار بھی ہے۔ میں نے تانی کا تعارف کرایا اور ان کے بارے میں بھی بتایا۔
”چلو اب چلیں۔“ تانی نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا۔
”کہاں لے جا رہی ہو؟“
”کہیں تو لے جاؤ ں گی، چلو‘ نا“ وہ بضد ہو کر بولی توبابا سنگھ نے مجھے مخاطب کر کے کہا۔
”بیٹا! تم جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔ ہم ننکانہ صاحب چلے جائیں گے۔“
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے، وہاں میرے بارے میں پوچھ ہو سکتی ہے کہ میں کدھر ہوں۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ کے پھر واپس …“
”نہیں پتر، اب یہ ضروری نہیں ہے ، میں تمہیں یہ بات یہاں آ کر بتانا چاہتا تھا“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوا پھر بڑے جذباتی لہجے میں بولا،”دیکھ پتر ہم نے تمہیں یہاں لا کر کوئی تم پر احسان نہیں کیا، میں خود کتنے برس سے اسی کوشش میں تھا۔
دراصل،میرا اپنا دلجیت سنگھ کئی برس سے یہاں پھنسا ہوا ہے۔ وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے یہاں آیا ہوا تھا۔ اس کا تعلق ببر خالصہ سے تھا۔ اب نہیں ہے۔وہ واپس گھر جانا چاہتا ہے لیکن کسی صورت جا نہیں پا رہا ہے۔تم آئے تو کچھ اُمید بنی۔ میرا اس سے رابطہ ہوا۔ اس نے سارے کاغذات بنوا لیے ہیں۔ اب وہ تیری جگہ ہمارے ساتھ ہوگا، وہیں ننکانہ صاحب میں اپنی انٹری کروائے گا کہ وہ ابھی بھارت سے پاکستان آیا ہے اور ہمارے ساتھ ہی واپس بھارت چلا جائے گا۔
”یہ بات ہے۔“ میں نے ایک طویل سانس لی۔
”ہا ں رَبّ نے تیری صورت میں مجھ پرمہر کی ہے اور اب مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پتر کو یہاں سے لے جاؤں گا۔“
”لیکن میں آپ کو ننکانہ ضرور…“ میں نے کہنا چاہا تواس نے میری بات کاٹ دی اور بولا
”نہ پتر اب ایسا نہ کر…ہمیں جانے دے۔“
”ٹھیک ہے،لیکن ابھی آپ کچھ دیر میرے پاس ٹھہرو، میں آپ کو بھجوا دیتا ہوں۔
“ میں نے کہا تو بی بی کور بولی۔
”نہ پتر ہمیں جانے دے۔“
”ٹھیک ہے ماں جی۔“ میں نے کہا اور تانی سے سیل فون کا نمبر لکھ کر دینے کوکہاتو وہ آگے بڑھ کے بی بی کور کو اپنے ساتھ لگا کر کہا۔
”بی بی!آپ مت گھبرائیں۔ بلکہ ہم پر اعتمادکریں۔ ہم آپ کے بہت کام آئیں گے۔“
بی بی کور نے اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے سوچنے کے بعد بولی۔
”چل دھیے! جیسے تیری مرضی۔“ 
 بی بی کورکے یوں کہنے پر بابا سنگھ کا پریوار ہمارے ساتھ ننکانہ صاحب چلنے کو تیار ہو گیا۔ تانی میرا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
”آؤ چلیں۔“
ہم سب اس کے ساتھ چل پڑے۔ کچھ ہی فاصلے پر سیاہ وین کھڑی تھی۔ اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی کلین شیو نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیا اور تانی کے پچھلا گیٹ کھولنے پر باقی سب نشستوں پر بیٹھ گئے۔
مجھے اگلی سیٹ پر بٹھایاتو وین چل پڑی۔
وین ریلوے اسٹیشن کی حدود سے نکلی اور اس وقت ہم بوہڑ چوک کراس کر گئے تھے کہ تانی نے پوچھا۔
”اب تم یہ نہیں پوچھو گے ، ہم تمہیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟“
”تمہارا مجھے یہاں لینے آنے کا مطلب میں سمجھ گیا ہوں کہ اب مجھے تیرے مطابق ہی چلناہوگا، تم بتاؤ کہ تم مجھے کہاں لے جانا چاہتی ہو۔
”یہ ٹھیک ہے کہ مجھے روہی سے تمہارے ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی ہے ، لیکن مجھے کوئی حکم نہیں ہے۔ ننکانہ صاحب کیوں جا رہے ہو، یہ تمہیں وہاں جاکر پتہ چلے گا۔“
”اوکے تو پھر ہم وہیں جاتے ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے میرے لہجے میں نہ جانے کتنی یاس بھر گئی تھی۔ مجھے میری ماں یاد آ گئی تھی۔ جو اسی لاہور شہر میں تھی۔ وہ میری منتظر تھی اور میں اس کے قریب سے ہو کر جا رہا تھا۔
اس پر تانی نے مجھے غور سے دیکھا اور خاموش رہی، تبھی ڈرائیور نے بڑی بے تکلفی سے کہا۔
”ظاہر ہے اماں اور سوہنی بھی تو ساتھ ہی ہو گی اس شہر میں، کیا ہوتا جو وہ ان سے مل لیتا بے چارہ۔ کچھ دیر ہی کی تو بات تھی۔“
اس کے یوں کہنے پر میں نے غور سے اسے دیکھا ، اس کا چہرہ مجھے شناسا لگا۔تبھی مجھے لگا کہ وہ آواز بنا کر بول رہا ہے۔ میں نے اسے پہچانتے ہوئے تانی سے پوچھا۔
”کون ہے یہ؟“
”پہچان لو تو تمہارا، ورنہ میرا۔“
”یہ کیا بات ہوئی؟‘ میں نے خوشگوار حیرت سے کہا تو وہ قہقہہ لگاکر ہنس دی ، ڈرائیور بھی ویسے ہی زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اس وقت ہم میکلوڈروڈ پر آ گئے تھے۔ 
”نہیں پہچانا، نا۔، ابے بدھو میں جسپال ہوں، جسپال سنگھ فرام کینیڈا…“
”اوئے تیری خیر ہوئے ،یہ سارے کیس صاف کرا دئیے، تم تو واقعی ہی پہچانے نہیں جا رہے ہو۔
“ میں نے حیرت سے کہا تو وہ بولا۔
”تم نے جو رکھ لیے ہیں… ویسے میں بھی تجھے نہ پہچان پاتا اگر تیری تصویر نہ دیکھی ہوتی۔“
 تبھی بابا نے حیرت اور دکھی لہجے میں پوچھا
”اوئے پتر یہ سکھ ہے؟“
”ہاں بابا،“ تانی نے تیزی سے کہا ، پھر لمحہ بھر رک کر بولی،”ایک مسلمان اس وقت سکھ کے روپ میں ہے اور سکھ اس وقت مسلمان بنا ہوا ہے۔
یہ وقت بھی آنا تھا۔“
”واہ گورو … واہ گورو۔“ بابا سنگھ نے بس یہی تبصرہ کیا اور پھر خاموش ہو گیا۔میں نے جسپال سے پوچھا۔
”تو کب آیا ہے؟“ 
”یار دل ہی نہیں لگا وہاں پر، یہیں روہی میں دل اٹکا ہوا تھا۔ بس سب کچھ سمیٹ کر ادھر آ گیا ہوں۔ پرسوں سے یہیں تیرا انتظار کر رہے ہیں ہم دونوں۔“
اس نے کہا تو مجھے بہت اچھا لگا۔
ماحول ایک دم سے خوشگوار ہوگیا۔ تبھی اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پوچھا۔
”اسٹیشن سے لے کر اب تک تم نے راستے کے بارے میں نہیں پوچھا،پرسوں تم یہاںآ ئے ہو اور تمہیں راستوں کا پتہ بھی ہے۔“
”رہے نا پینڈو کے پینڈو‘ ابے دیکھ ادھر ڈیش بورڈ پر یہ اسکرین، اس پر سارا راستہ بنا ہوا ہے۔ آج صبح ہی میں نے روٹ بنایا تھا ، سوہنی سے پوچھ کر۔
”تم سوہنی سے ملے ہو؟“ میں نے چونک کر پوچھا۔
”پرسوں سے اسی کے ہاتھوں کے پراٹھے کھا رہا ہیں باؤ جی …ماں نے بہت پیار دیا ہے یار۔“ وہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔
”تم دونوں مجھے پاگل کر دو گے۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر مسرت بھرے لہجے میں کہا اور خاموش ہو گیا۔ اس کی باتوں سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ میری ماں محفوظ ہے۔
 میں ان جذبات کو اپنے اندر شدت سے محسوس کرنے لگا کہ مجھے اپنی ماں سے ملے کتنا عرصہ ہو گیا ہے۔
کار میں خاموشی چھا گئی تھی۔ مجھے اس وقت یہ دھیان ہی نہیں رہا تھا کہ تانی کو سوہنی کے ان جذبات کے بارے میں معلوم ہو گیا ہوگا جو سوہنی میرے بارے میں رکھتی ہے۔ میں تو بس اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہا تھا اور ان لوگوں کے چہرے میری نگاہوں میں گھوم رہے تھے، جنہوں نے ہمیں ہمارے گاؤں سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری سوچوں کی تان اس وقت ٹوٹی، جب ہم جی ٹی روڈ پر آن چڑھے۔ہم سب میں خاموشی تھی۔ میں بہت کچھ جسپال سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بابا سنگھ پریوار کی وجہ سے نہیں پوچھ پارہا تھا۔
                              #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط