”ہمارے پاس وقت کم ہے دیارام جی‘ ان بموں کا ریموٹ کنٹرول باہر بھی ہے‘ مجھے زیادہ وقت ہوگیاتو یہ…“ میں نے اپنی آواز کوسرد بناتے ہوئے کہا تو وہ پھر سے لرز گیا۔ اس دوران میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کومزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔
”ٹھیک ہے‘ میں چلتا ہوں۔“ اس نے کہا تو میں نے اسے سہارا دے کراٹھالیا‘ وہ ہولے ہولے کانپ رہاتھا۔ میں نے اس کاہاتھ اپنی گردن پررکھااور اپنا ہاتھ اس کی بغل میں دے کر چل پڑا‘ دروازے پر سیکیورٹی والے حیران تھے کہ دیارام کو کیا ہوگیا ہے۔
انہوں نے آگے بڑھنا چاہاتو اس نے دور ہی سے منع کردیا۔ وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ چلتا چلاگیا۔ یہ تو ہونہیں سکتاتھا کہ خلاف معمول کارروائی سے وہاں ہلچل نہ مچے۔ آشرم میں ایک دم سے تیزی آگئی۔ بانیتا نے مجھے دیکھ لیاتھا‘ اوروہ فون کے علاوہ اشاروں سے اپنے بندوں کو ہدایات دے رہی تھی۔
(جاری ہے)
ہم کمرے سے نکل کرہال میں آئے اور وہاں سے برآمدے میں ‘ تب تک ایک فوروہیل جیپ ہمارے سامنے آ کر رک گئی۔
دروازہ کھلا اور میں دیارام کے ساتھ اس میں بیٹھ گیا۔ اسٹیئرنگ پر بھاری مونچھوں والا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی بڑھا دی۔ آشرم میں بہت سارے لوگ ہمارے پیچھے بھاگے تھے۔ جب تک ہم فوارے کے راؤنڈ اباؤٹ تک آئے‘ اس وقت تک کئی گاڑیاں ہمارے تعاقب میں چل پڑی تھیں۔ بلاشبہ ان میں کچھ ہمارے لوگ تھے اور کچھ آشرم والوں کے ‘جیسے ہی ہم گیٹ سے نکل کر مین روڈ پر آئے تو بانیتا نے فون پر کسی کو ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
”اپنے لوگوں سے کہو‘ گاڑیاں پیچھے لے جائیں۔“
اس کے چند منٹوں کے بعد کئی گاڑیاں پیچھے رہ گئیں۔ تین یا چار گاڑیاں تھیں جو ہمارے تعاقب میں بڑھتی ہی چلی آرہی تھیں۔ بانیتا نے سن روف کھولااور گن باہر نکال کرفائرنگ کرنا شروع کردی۔ اچانک ہی وہ گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے سڑک پر الٹ گئیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
میں نے دیارام کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ امرتسر سے باہر ہی سے ہم ترن تارن روڈ پرنکل گئے۔
ہمارے سفر کااختتام پھر اسی فارم ہاؤس پر ہوا‘ جہاں گزشتہ سے پیوستہ رات ہم رہے تھے۔ وہی جنگل کا ماحول ‘ جھونپڑیاں ‘ ایک چھوٹی سی ندی‘ درخت اور ہوکا عالم تھا۔ بانیتا اور میں دیارام کو لے کر ایک جھونپڑی میں آگئے۔ میں نے اپنی جیکٹ جیپ ہی میں چھوڑ دی تھی‘ اس لیے جب آنکھوں سے پٹی اتارنے پر اس نے مجھے بغیرجیکٹ دیکھاتو اس نے سکون کا سانس لیا۔
”ادھر بیٹھیں دیارام جی‘ ادھر۔“ میں نے گھاس پھونس پر ایک چادر بچھاتے ہوئے کہا‘ جو میں اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ وہ بیٹھ گیاتو میں نے اس کے حیرت زدہ سوالیہ چہرے پردیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ پریشان نہ ہوں‘ آپ نے ہماری بات مانی‘ ہم آپ کو کوئی زحمت نہیں دیں گے۔“
”بات کیا ہے۔“ اس نے کافی حد تک اعتماد سے کہاتو میں بولا۔
”بات یہ ہے دیارام جی‘ آپ کے پرکا ش اور دیپکا نے ہمارے ساتھ بے ایمانی کی ‘وہ بھی دوکروڑ کی‘ تیسرا کروڑ ابھی ہم نے دیناتھا۔
“
”ایساکیا کیا انہوں نے…“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”میرے باس کی ان سے ڈیل ہوئی تھی کہ دس پنجابی لڑکیاں دوبئی پہنچانی ہیں۔ اِس نے حامی بھرلی‘ ایک کروڑ اِس نے لے لیا‘ دوسرا اِس نے اُس وقت لیا جب لڑکیاں‘ امرتسر میں لے آیااور ہمارے بندوں کے حوالے کرنے کو کہا۔ طے یہ تھا کہ وہ دوبئی پہنچائے گا۔ تیسرا کروڑ اُسے وہاں ملے گا۔ اِس پر نہ صرف وہ لڑکیاں واپس لے گئے‘ بلکہ دو کروڑ بھی ہضم کرگئے۔
“
”کیا وہ یہ کام بھی کرتے ہیں؟“ دیارام جی نے حیرت سے پوچھا تو بانیتا نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ایسے نہ کرو سوامی جی‘ سب کچھ آپ کی آشیرواد سے ہوتا ہے‘ ہم نے اگر آپ سے اچھا سلوک کیا ہے تو اس کامطلب یہ نہیں کہ تم ہمیں بے وقوف بناؤ‘ سیدھے رہوگے تو ہم بھی سیدھے رہیں گے۔“
یہ دھمکی کار گرثابت ہوئی اور دیارام سہم گیا۔ میں اس کے رویے پر خود حیران تھا‘ وہ اداکاری کررہاتھا یا واقعتا خوف زدہ تھا۔
ورنہ اس کے بارے میں یہی معلومات تھیں کہ وہ ہپناٹائز کاماہر ہے‘ جوگ‘ سنیاس‘ اور یوگا تووہ جانتاہی تھا‘ میں نے کئی بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں‘ مگر مجھے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ میں نے بھی اُسے اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”دیارام جی‘ آپ توہپناٹائزم کے ماہر ہیں‘ ٹرانس میں لیں مجھے اور…“ میں نے جان بوجھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
تب وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہنے کے بعد بولا۔
”اب نہیں ہوتا یار‘ شراب اور عورت نے یہ ساری صلاحیتیں چھین لی ہیں۔ میں نے تو اپنے اردگرد بڑا حصار بنایا تھا لیکن تم مجھے وہاں سے نکال لائے۔“
”سیدھے لائین پر آؤ دیارام…“ بانیتا نے تلخی سے کہاتووہ نرم لہجے میں بولا۔
”کیاچاہتے ہو اب تم؟“
”ظاہر ہے‘ دو کروڑ واپس اورجرمانے میں وہی دس لڑکیاں‘ اور بس“ میں نے سکون سے کہا۔
”ا سے وقت بھی بتادو‘ صرف دو گھنٹے کے اندر اندر…“ بانیتا تیز لہجے میں بولی پھر اپنا فون نکال کراس پرنمبر ملائے اور صرف اتنا کہا۔
”پرکاش یا دیپکا سے بات کراؤ‘ دھیان رکھنا‘ وہ ہمارا فون نہ ٹریس کرلیں۔“ یہ کہہ کراس نے فون بند کردیا۔ اصل میں یہ صرف دیارام کوبتایا گیا تھا ‘ ورنہ یہ طے تھا کہ پرکاش کو فون لندن سے آنا تھا‘ جس کے کانفرس پر بانیتا نے بات کرناتھی۔
اس طرح پکڑے جانے کا امکان نہیں تھا۔ زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ بانیتا کا فون بج اٹھا۔ اس نے آواز سنی اور فون مجھے دے دیا۔
”پرکاش بات کررہا ہوں،کون ہو تم…؟“
”کیا تم دیارام جی سے بات کرنا چاہوگے؟“ میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہااور اسپیکر آن کردیا۔
”اوہ ،تو کیا یہ تم ہو۔اگر انہیں کچھ ہوگیا تو میں “
”کتے کی طرح بھونکنا بند کرو اور صرف میری سنو۔
“ میں نے بات کاٹتے ہوئے کہااور فون دیارام کی جانب بڑھاکر اسے اشارہ کیا۔ تبھی وہ بولا۔
”پرکاش! یہ میں کیا سن رہا ہوں‘تم نے باہر ہی باہر سے ان کے دوکروڑ کھالیے۔“
”ایسا کچھ نہیں ہے باپو!میری کوئی ڈیل نہیں ہوئی کسی سے‘ یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں؟“
”تمہیں کیسے پتہ کہ یہ کسی ڈیل کے دو کروڑ تھے؟“ دیارام نے اچانک کہا۔
”باپو آخر کسی ڈیل ہی کے دو کروڑ ملنے تھے‘ کوئی مفت میں تھوڑی دینے لگا ہے‘ بس تم مجھے یہ بتاؤ‘ انہوں نے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی‘میں پورے امرتسر میں آگ لگادوں گا اگر…“
”میں نے کہاناکتے کی طرح مت بھونک۔
“ میں نے سرد لہجے میں کہاتووہ ایک دم سے خاموش ہوگیا۔ دیارام نے کہا۔
”انہوں نے مجھے بڑے احترام سے رکھا ہے۔ اب تم سنو ان کے دوکروڑ روپے اور دس لڑکیاں‘ پنجابی والی‘ وہ ان کے حوالے کرو‘ صرف دو گھنٹوں میں۔“
”باپو یہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔ میں لڑکیاں کہاں سے لاؤں؟“ اس نے کہا تو میں بولا۔
”سن پرکاش! دیا رام جی سے اگر تم دوبارہ ملنا چاہتے ہو تو جیسا ہم کہتے ہیں ‘ ویسا کرو‘ صرف دوگھنٹے۔
“میرے یوں کہنے پر وہ چند لمحے خاموش رہا پھر ہنستے ہوئے بولا۔
”توپھر تم مار ہی دو اس بڈھے کو‘ اب یہ ہمارے کام کانہیں رہا‘کیا کرنی ہے دولت اس نے‘ میرے خیال میں اب تمہیں اسے مار ہی دینا چاہیے۔ اچھا ہوا‘ تم لوگ اسے لے گئے ہو۔ اب دوبارہ مجھے فون نہیں کرنا‘ کچھ نہیں ملنے والا یہاں سے۔“
”پرکاش! یہ تم کہہ رہے ہو‘ میرے بارے میں۔
“ دیارام نے چونکتے ہوئے اس طرح حیر ت سے کہا جیسے اسے بہت دکھ ہوا ہو۔
”ہاں‘ ہاں تمہارے بارے میں کہہ رہاہوں بڈھے‘ میرے خیال میں تونے بہت عیاشیاں کرلی ہیں ۔ اب تمہیں مرجانا چاہیے‘ بھگوان تمہیں سورگ دے۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔
”لوجی دیا رام جی‘ آپ کا توا نتم سنسکار کردیا اس نے ،اب بولو‘ ہم کیا کریں۔ “ میں نے طنزیہ انداز میں کہا تووہ بولا۔
”دھیرج رکھو اور مجھے وچار کرنے دو۔“ دیارام نے کہا تو بانیتا نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں نے وچارکرلیاہے‘اب یہ دونوں ڈرامہ کریں گے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ آشرم جو ان کی سلطنت بناہواتھا‘ اس میں پولیس اور خفیہ کے لوگ بھی جاسکتے ہیں‘ ہاسٹل میں موجود لڑکیاں‘ جن کی تازہ کھپت ”مالیرکوٹلہ“ سے آئی ہے‘ وہ ابھی تک وہیں موجود ہیں‘ دو گھنٹوں میں سے پانچ منٹ گزر چکے ہیں مہاراج۔
“
”دیپکا کو فون ہوسکتا ہے؟“ دیارام نے پوچھا‘ اس بار اس کے لہجے میں گہری سنجیدگی تھی۔
”وہ بھی ڈرامہ کرے گی‘ میں جانتی ہوں۔“
”تم بات تو کراؤ۔ “ اس نے بضدہو کرکہاتو بانیتا نے نمبر ملائے پھر کچھ دیر بعد کال آگئی۔
”باپو! تم ٹھیک تو ہونا۔“ دیپکا کی آواز ابھری۔
”یہ پرکاش کیا پاگل پن کررہا ہے‘ میرے مرنے کے بارے میں۔
“
”توٹھیک ہی کہا ہے نہ باپو ‘ اب تم نے کتنا جینا ہے ۔ “ ا س نے ہنستے ہوئے کہا تو بانیتا نے غصے میں کہا۔
”ارے بندریا‘ زیادہ ڈرامے نہ کر ایک گھنٹہ چالیس منٹ ہیں تم لوگوں کے پاس‘ اس کے بعد اسی بڈھے کی ویڈیو چینل کو دے دوں گی‘ جس میں یہ تم دونوں کے بارے میں وہ ساری بکواس کرے گا‘ جو ہم اسے کرنے کے لیے کہیں گے‘ مرکزی خیال یہی ہوگا کہ تم لوگوں کے جرائم سے تنگ آکر اس نے روپوشی اختیار کی‘ ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کردیا پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”دلجیت! اب زیادہ وقت نہیں دینا ان لوگوں کو‘ بیان ریکارڈ کرو اس کا اور ہر چینل کو بھیج دو۔“
اس کے یوں کہنے پر دیارام نے سریوں جھکا لیا جیسے وہ ہار گیاہو۔ پھر جب وہ بولا تو اس کالہجہ بھی اس کاساتھ نہیں دے رہاتھا۔
”تم لوگ اسے ڈرامہ مت سمجھو‘ میں اتنی آسانی سے تم لوگوں کے ساتھ آہی اس لیے گیا ہوں کہ ان دونوں کو سامنے لاسکوں‘ تم لوگوں نے جو کچھ بھی کرنا ہے ‘ جو بھی مجھ سے کہلوانا ہے‘ وہ میں کہنے کوتیار ہوں۔
اب ان لوگوں سے مجھے اپنا آشرم شدھ چاہیے۔“
”وہ توہم نے کرنا ہی ہے دیارام جی‘ اب آرام کرو‘ تھوڑی دیر بعد تمہیں تکلیف دیتے ہیں۔“ بانیتا نے کہا اور اپناسیل فون لے کرباہر نکل گئی۔ جاتے جاتے وہ مجھے بھی باہر آنے کااشارہ کرگئی۔ میں نے چند لمحے یونہی انتظار کیااوراس کے پیچھے جھونپڑی سے باہر آگیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔
”کیاخیال ہے‘ ڈرامہ ہے یاحقیقت ۔ کیا وہ لوگ اس دیارام سے جان چھڑاناچاہتے ہیں؟“
”کچھ بھی ہے‘ مقصد تو پرکاش اوردیپکا کو ختم کرنا ہے‘ تووہ ہوجاتے ہیں۔“ میں نے تحمل سے کہا ۔
”وہ کیسے؟“بانیتا پریشانی میں بولی۔