Episode 13 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 13 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”کتنا وقت لگے گا وہاں تک جانے کے لیے…؟“ میں نے پوچھا۔
”یہی کوئی آدھا گھنٹہ‘ ممکن ہے کچھ زیادہ لگے‘ کیونکہ وہ اندرون شہر ہے۔“ پریال سنگھ نے جواب دیا۔
”تو پھر نکلو!“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا پھر پریال سنگھ سے پوچھا۔ ”انفارمیشن والابندہ تو قابل اعتماد ہے نا؟“
”سو فیصد‘ وہ وہیں بیٹھا ہے اور ان کی نگرانی کررہا ہے۔
“ اس نے جواب دیا۔
”چلو…!“ میں نے باہر نکلتے ہوئے کہا تووہ سب چل دیئے۔
شیخاں والا بازار پرانا تھا۔ تنگ سے راستے کے اندر جیپ نہیں جاسکتی تھی۔ میں نے صورت حال کااندازہ لگاکر جسپال کو وہیں رہنے کو کہا‘ سویٹی اس کے ساتھ رہنے دی جو ہرپریت کے ساتھ تھی۔ میں ‘پریال اور دلجیت اس بازار میں داخل ہوگئے۔ چند قدم چلنے کے بعد میں نے پریال سے کہا۔

(جاری ہے)

”یار اپنے اس بندے سے پوچھ‘ وکی سنگھ کس گاڑی میں یہاں تک آیا ہے‘ اور اس کی گاڑی کس طرف کھڑی ہے۔ ظاہر ہے یہاں اس کی گاڑی تو نہیں آسکتی…“ میں نے کھلے ہوئے بازار کی صور تحال دیکھ کر کہا۔
میرے کہنے پر اس نے رابطہ کیا اور چند منٹ بعد بتایا۔
”سفید رنگ کی کرولا ہے اس کے پاس اور وہ بازار کے اس سرے پر کھڑی ہے۔“ اس نے مخالف سمت میں اشارہ کیا۔
”توپھر جسپال سے کہو‘ ادھر آجائے۔ کیااسے راستہ معلوم ہوگا؟“میں نے کہتے ہوئے پوچھا۔
”بائی جی‘ سویٹی جو ہے…“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بازار کے درمیان میں دائیں ہاتھ پر دو منزلہ پرانی سی عمارت کے نیچے دکانیں تھیں۔ انہی کے درمیان سے تنگ سی سیڑھیاں اوپر چڑھ رہی تھیں۔ میں کن اکھیوں سے جائزہ لے رہاتھا کہ دلجیت نے میرے بازو کو پکڑتے ہوئے ہولے سے کہا۔
”ہم نے اسے مارنا تو ہے نہیں‘ زندہ پکڑنا ہے ‘ یہاں مشکل ہوجائے گا‘ کیوں ناہم باہر اس کاانتظار کریں اور وہیں اسے قابو کرلیں‘ میرے خیال میں وہ زیادہ آسان ہوگا۔“
”تم ٹھیک کہتی ہو۔“ یہ کہہ کر میں نے پریال سنگھ سے پوچھا۔ ”تم نے اسے دیکھا ہوا ہے نا؟“
”جی‘ لیکن تقریباً دوسال پہلے… پہچان تولوں گا۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا توہم آگے بڑھتے چلے گئے۔
میں نہیں جانتا تھا کہ پریال کا انفارمیشن دینے والا بندہ کہاں تھا۔ بازار کے دوسرے سرے پر جب ہم پہنچے تو میں نے ایک سفید کرولا کھڑی دیکھی‘ اس کے آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ چند گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ہمیں وہاں کھڑے تقریباً پانچ منٹ ہوئے تھے کہ جسپال لوگ بھی آگئے ۔میں نے نئی صور تحال کے بارے میں بتا کر اگلا پلان بتایا۔ ہم وہاں یوں پھررہے تھے جیسے تفریح کے موڈ میں آئے ہوئے ہوں۔
سویٹی ‘دلجیت اور ہرپریت ایک کپڑے والی دکان میں گھس گئیں لیکن ان کی تمام تر توجہ ہماری طرف تھی۔ ہم تقریباً آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزار چکے تو پریال سنگھ کو وکی سنگھ کے نکلنے کی اطلاع ملی تو میرے اندر سنسنی پھیل گئی۔ چند منٹ کے بعد میں نے دیکھا۔ ایک نوجوان سکھ‘ جس نے سفید پتلون اور شرٹ کے ساتھ کالی پگڑی پہن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ دو گارڈ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے آرہے تھے۔
اس وقت تک جسپال‘ پریال‘ سویٹی اور ہرپریت جیپ میں بیٹھ چکے تھے۔ میں اور دلجیت آگے بڑھے۔ ایک سکھ نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور اس نے سفید کرولا کا دروازہ کھول دیا۔ وکی سنگھ پچھلی نشست پربیٹھا‘ بس یہی ایک لمحہ میرے کام کا تھا‘ میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کیے‘ سائیلنسر لگے پسٹل سے ٹھک ٹھک ہوئی اور ڈرائیور کے ساتھ ایک گارڈ گر گیا۔ اس وقت تک دلجیت نے بھی فائر کردیاتھا‘ دوسرا گارڈ کارمیں بیٹھ ہی نہیں سکا۔
وہ ہم سے چند قدم کے فاصلے پر تھے۔دلجیت نے بھاگ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی‘ اس وقت تک وکی سنگھ باہر نکلنا چاہ رہاتھا‘ میں نے پسٹل اس کی پسلی سے لگاتے ہوئے کہا۔
”بس وکی… خاموشی سے بیٹھے رہو۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی طرف دیکھااور پسٹل کا دستہ اس کی کنپٹی پر مارا وہ ایک دم سے ساکت ہوگیا۔ میں نے دروازہ لگایا تو دلجیت نے کار بڑھادی۔
جیپ نکل چکی تھی اور ہم اس کے تعاقب میں تھے۔ تقریباً دو منٹ کے اس ایکشن میں کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ہوگا کہ ہوا کیا ہے۔ مگر اب تک شور ہوچکا ہوگا۔بھرے بازار میں تین لاشیں پڑی تھیں۔ ہم انتہائی تیز رفتاری سے چلتے چلے جارہے تھے۔ اندھیرا پھیل جانے پر شہر کی روشنیاں جگمگا اٹھی تھیں۔ مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم کدھر جارہے ہیں۔ وہ گلیوں کے درمیان سنسان سی سڑک تھی جہاں جیپ رک گئی۔
چند قدم کے فاصلے پر ایک پراڈو کھڑی تھی‘ پریال تیزی سے میری طرف آیااور بولا۔
”یہ گاڑی چھوڑ دیں اور وہ لے لیں۔“
چند منٹ میں وکی سنگھ کو جسپال اور پریال نے اس پراڈو میں ڈالا‘ تب تک میں نے ڈیش بورڈ میں موجود سب چیزیں نکال لیں۔ پھر ادھر ادھر دیکھا‘ ایک چھوٹا سابیگ پڑا تھا‘ میں نے وہ بھی اٹھالیا۔ میں نے پراڈو میں جاکر وکی سنگھ کاسیل فون نکالااور اسے بند کرکے پریال کو دے دیا کہ کار میں پھینک دے۔
پریال اور سویٹی واپس چلے گئے‘ جبکہ ہم تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ اب یہ جسپال جانتاتھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔
وہ جالندھر اورامرتسر روڈ پر ایک گاؤں تھا۔ جس میں ایک حویلی نما مکان کھیتوں ہی میں بنا ہوا تھا۔ وہاں ہرپریت کا رابطہ تھا۔ اچھا خاصا اندھیرا تھا جب ہم پہنچے۔ اس بڑے سے گھر کے باہر جس بندے نے ہمارااستقبال کیا وہ لمبے قد کا تنومند آدمی تھا۔
اس نے سفید کرتا پاجامہ پہنا ہواتھا۔ کاندھے پر نسواری رنگ کی چادر اوراسی رنگ کی پگڑی پہنی ہوئی تھی۔ خشخشی داڑھی والا وہ بندہ پہلی نگاہ میں مجھے اچھا لگا تھا۔ اس نے ہم سب کو دیکھ کر ہاتھ جوڑے اور فتح بلائی۔
”ست تری اکال سب نوں… تے جے آئیاں نوں…آؤ…“
”وہ بندہ، سردار جی…“ہرپریت نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بولا۔
”اوہ تم لوگ آؤ‘اسے سنبھال لیتے ہیں…“ اس نے کہااور اندر کی جانب چل دیا۔ ہم صحن میں جا بیٹھے تو میں نے دیکھا‘ تین چار بندے پراڈو کے پاس آئے اور اسے وہاں سے لے گئے‘ میں خاموش رہا۔
”پُتر… میں سردار جیون سنگھ ٹہورا ہوں۔ جالندھر کالج میں استاد تھا‘ پڑھاتا تھاوہاں اور یہ ہرپریت میری شاگرد ہے۔ اب ریٹائرڈ ہو گیا ہوں، مجھے خوشی ہوئی کہ ہرپریت نے میری مدد چاہی۔
“ اس نے اپنا تعارف کروا کر ہم سب کی طرف دیکھا تو ہرپریت نے ہمارا مختصراً تعارف کرادیا۔ تبھی اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے یہاں ہونے کا مطلب ہے کہ تم لوگ کوئی بڑا کام کررہے ہو ‘ ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟“
”مدن لعل سرجی…“ہرپریت نے گلے پر انگلی پھیر کرکہا تووہ چونک گیا، پھر خوشی سے اُٹھااور مجھے گلے لگالیا۔ وہ بہت خوش دکھائی دے رہاتھا۔
جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ تبھی میں نے کہا۔
”یہ دلجیت… اس نے…میں تو اس کے ساتھ شامل تھا۔“
”بڑی بات ہے پُتر…بڑے بڑے سوہنے نوجوانوں کو انہوں نے روگی کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ مدن لعل سکھ قوم میں زہر یلا خنجر گھونپ رہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ اس کا سدباب ہوجائے مگر میرا بس نہ چلااور میں…واہ بیٹی واہ …کمال کردیاتونے…“
اتنے میں ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ایک نوجوان لڑکی اندر سے ٹرے اٹھائے آئے۔
وہ جیون سنگھ کی بیوی اور بیٹی تھی۔ وہ کھانا لگانے کا کہہ کر چلی گئیں اور ہم لسی پینے لگے۔
پرتکلف کھانے سے فراغت کے بعد ہم ڈیرے پرچلے گئے۔ وہ ان کے گھر سے کچھ کھیت چھوڑ کر تھا۔ چار دیواری کے اندر ایک قطار میں پختہ کمرے بنے ہوئے تھے۔ وہاں چند لڑکے تھے‘ جن کے ہاتھ میں اسلحہ دکھائی دے رہاتھا۔ ان میں سے ایک نے کونے والے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
ہم پانچوں اس کمرے میں چلے گئے۔ وکی سنگھ فرش پرپڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے پر شدید غصہ‘ حیرت اور خوف کی ملی جلی کیفیت تھی۔ دلجیت آگے بڑھی اور اس کی پسلی میں ٹھوکر مارتے ہوئے بولی۔
”آخر تم ایک چوہے کی مانند میرے قبضے میں گئے ہوناوکی سنگھ۔“
اس کی آواز پر وہ چونک گیا۔ وہ دلجیت کی طرف یوں دیکھنے لگا جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو۔
اس نے حیرت سے پوچھا۔
”تم وہی…فون…“
”ہاں…! کہا تھا نا‘ میں تم تک پہنچوں گی… مدن لعل تو گیا… اس کی کیمیکل فیکٹری بھی اُڑگئی۔ اب تو بے روزگار ہوگیا ہے۔ سوچا تجھے کسی کام پر لگادوں…“ یہ کہتے ہوئے اس نے وکی سنگھ کی پگڑی اتاری اور اس کے بال پکڑ لیے۔”تُو سکھ قوم کے ماتھے پرکلنک ہے بے غیرت… تووہ ناسور ہے جو سکھ قوم کے بدن میں زہر گھول رہا ہے۔“
”مجھے معاف کردو…آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا۔“ اس نے کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط