”چل معاف کردیتے ہیں۔ لیکن تمہیں سچ بولنا ہوگا… بولے گا؟“ دلجیت نے اس کے بالوں کو جھٹکادیا۔
”پوچھو۔! “اس نے ہولے سے کہا تو دلجیت نے پوچھا۔
”تیرا یہاں کانیٹ ورک تو تباہ ہوگیا ہے۔ بھارت سے باہر کہاں کہاں ہے۔ بول…“
”میں صرف پاکستان میں نیٹ ورک کو دیکھتا ہوں۔“
”کیسے …؟“ اس نے پوچھا۔
”یہاں سے کافی مال جاتا ہے‘ اور ادھرسے بھی آتا ہے۔
اسی تجارت میں جو مال آتاجاتا ہے‘ اسی میں سب ہو رہا ہے۔“ اس نے جواب دیا۔
”کون ہے وہاں پر؟“ دلجیت نے پوچھا۔
”مقصود راجہ… میری طرف سے اس سے ڈیل ہے۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ جیون سنگھ نے گرج دار آواز میں کہا۔
”بکواس کرتا ہے‘ غلط بات کررہا ہے‘ اسے لٹکاؤ اُلٹا۔ بے غیرت غلط ٹریک پر ڈال رہا ہے۔
(جاری ہے)
“
اس پر وکی سنگھ نے چونک کر جیون سنگھ کی طرف دیکھا‘ پھر جیسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
”دیکھو وکی‘ تم وعدے کے مطابق غلط بیانی کرچکے ہو، اب تمہارے لیے معافی نہیں ہے۔“دلجیت نے کہا تووہ تیزی سے بولا۔
”میں نے اگر سچ کہہ بھی دیاتو کون سامجھے چھوڑنے والے ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ مجھے مار دوگے۔پھر کیوں سب کچھ بتاؤں۔ ماردو مجھے۔“ اس نے کہا تو میراایک بار دماغ پھر گیا‘ مگر میں نے خود پر قابو رکھا‘ اور بڑے تحمل سے کہا۔
”آپ سب دوسرے کمرے میں بیٹھیں‘ میں دیکھتا ہوں یہ کیسے نہیں بکتا‘ اسے شاید یہ نہیں معلوم کہ تشدد کہتے کسے ہیں۔“
یہ کہہ کر میں آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ پاؤں کھولنے لگا۔ جیسے ہی وہ آزاد ہوا تو میں نے پکڑ کر اسے کھڑا کردیا۔ پھراس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
”تمہارے دل میں حسرت نہ رہے وکی کہ تمہیں بے بس کرکے مارا گیا۔
اگر تم مجھے بے بس کردو‘ تو یہ ضمانت ہے کہ تم آزاد کردیئے جاؤگے… ورنہ… پھر مجھے تشدد کرنے کا پور احق ہوگا…“ یہ کہہ کر میں نے بانہیں پھیلادیں اور اسے وار کرنے کی دعوت دی۔ وہ چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر بولا۔
”نہیں، میں وار نہیں کروں گا‘ مجھے نہیں لڑنا۔“
”پر میں نے تو لڑنا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے پوری قوت سے مکااس کے منہ پر مارا۔
وہ لڑکھڑا گیا۔ میں نے ٹانگ اوپر لے جاکر ایڑی اس کے سینے پر ماری‘ وہ اوخ کی آواز کے ساتھ دھرا ہوگیا۔ میں نے دونوں ہاتھ جوڑے اوراس کی گردن پر مارے‘ وہ زمین پر چت ہوگیا۔ اس سے اٹھاہی نہیں گیا۔ میں نے ٹھوکر اس کے سر پر ماری‘ تووہ بے حس وحرکت ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اسے ہوش میں لایا گیا تو وہ میری طرف خوف زدہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ تب میں بولا۔
”تو کیا سمجھتا ہے‘ تجھے ایویں ہی موت مل جائے گی‘ جب تک تو نہیں بولے گا… تب تک یوں…“
”یہ دیکھیں پروفیسر صاحب…“ باہر سے ایک سکھ نوجوان اندر آتے ہوئے بولا‘ اس کے ہاتھ میں وہی چھوٹاسابیگ تھا‘ جو میں نے اس کی کار سے نکالا تھا۔”یہ کاغذ گو تجارت سے ہی متعلق ہیں‘ لیکن اس سے پتہ چل گیا ہے کہ ادھر کس سے لین دین ہے۔“
پروفیسر نے وہ کاغذ پکڑے‘ پھر گہری نگاہوں سے ان کاجائزہ لیا‘ کچھ دیر بعد وہ بولا۔
”یہ ٹھیک ہیں۔ یہ شیخ انور میں نے پہلے بھی مشکوک بندوں میں سنا ہوا ہے‘ یہ دیکھو‘ یہ ایڈریس ہے‘ذہن نشین کرلو۔“
میں نے وہ کاغذات پڑھے‘ وہ ایڈریس گلبرگ تھری ہی کاتھا۔ میں نے سب دیکھے اور پھر انہیں واپس کردیا تو پروفیسر نے کہا۔
”اس بے غیرت نے کالج میں میرے ساتھ بہت بدتمیزی کی تھی‘ میں نے اسے ایسی غلط حرکتوں سے روکاتھا۔
“
”پروفیسر۔! اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے کام کا نہیں‘ مار دیں اسے‘ لیکن یہ پسٹل…“میں نے انہیں پسٹل دیتے ہوئے کہا۔
”اوہ نہیں پتر…! یہ میرے شیر جوان اسے اور گاڑی دونوں کو جلادیں گے۔ سب ثبوت ختم‘ آؤ اب آرام کرو۔“ پروفیسر نے کہاتو وکی سنگھ چیخ پڑا۔
”رب کے لیے معاف کردیں، میں کچھ نہیں کروں گا…“
”تو نے سچ نہیں بولا‘ اب کوئی معافی نہیں۔
“ دلجیت نے کہا تووہ روتے ہوئے بولا۔
”میں ہر بات بتادوں گا۔“
”ٹھیک ہے‘ ان شیر جوانوں کوبتادینا۔“ یہ کہہ کر پروفیسر کمرے سے باہر نکلتا چلاگیا اور ہم بھی اس کے پیچھے چل پڑے۔
اس وقت پوہ پھٹ رہی تھی‘ جب گھر کے سامنے ایک وین آرکی۔ ہم سب صحن ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ساری رات باتیں چلتی رہی تھیں۔ دلجیت کو امرتسر پہنچنا تھا‘ گیارہ بجے کے قریب اس کی فلائٹ تھی۔
پروفیسر صاحب نے خود اسے ایئرپورٹ پہنچانے کا ذمہ لیا۔ رات کے آخری پہر اس نے سب کو نہانے اور تیار ہوجانے کے لیے کہا۔ وہیں مجھے اور جسپال کو سفید کرتا پاجامہ اور بسنتی پگڑی دی گئی۔ دلجیت اور ہرپریت کو موتیا رنگ کا شلوار قمیص دیاگیا۔ اس کی بیوی اور بیٹی بھی تیار ہوگئے اور یہ قافلہ امرتسر چل پڑا۔ وہاں سے لے کر امرتسر شہر پہنچ جانے تک پتہ چلا کہ ہائی الرٹ ہے۔
کئی ناکے عبور کیے‘ ہر جگہ پروفیسر جیون سنگھ ٹہوار نے ہی بات کی کہ وہ ہرمندر جارہے ہیں اپنی فیملی کے ساتھ‘ اور ہم سیدھے ہرمندر صاحب ہی پہنچے۔
میں اس وسیع وعریض عمارت کو دیکھ رہا تھا‘ نجانے کیوں میرے ذہن میں حضرت میاں میر بالا پیر کا نام گھوم گیا۔ جنہوں نے ہرمندر صاحب کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ انہوں نے اینٹ کو الٹا کر رکھ دیا۔
مگر وہاں کے ایک ’سیانے‘ نے اس اینٹ کو اکھاڑ کر سیدھی کردی۔ گرو نے بہت برامنایا کہ اگر حضرت میاں میر نے الٹی رکھ دی تھی تو کیا ہوا،اب ہرمندر صاحب میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایساہوتا آرہا ہے۔ میں پرکرماپر کھڑا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر میں شبد بیان ہو رہے تھے۔ کیرتن کی صدا گونج رہی تھی۔ وہ سب اپنے دھرم کے مطابق رسومات ادا کررہے تھے جبکہ مجھے مجبوری میں یہ سب کرناپڑ رہاتھا۔
اس وقت ہم درشنی ڈیوڑھی سے لنگر خانے کی طرف جارہے تھے جب دلجیت کو رکے پاس ایک نوجوان آیا۔ وہ خوشگوار انداز میں اس سے ملا‘ وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے‘ اور پھرو ہ باہر چلا گیا۔ دلجیت بڑے آرام سے ہمارے درمیان آگئی پھر اپنا سیل فون مجھے دیتے ہوئے بولی۔
”جمال۔! یہ لو‘ میں اس پر تم سے رابطہ کروں گی‘ اگر میں کینیڈا پہنچ گئی تو… باہر وہ لوگ مجھے لینے کے لیے آگئے ہیں جن کے پاس میرے سارے سفری کاغذات ہیں۔
وہ مجھے ایئرپورٹ پہنچادیں گے۔ میں چپکے سے جدا ہو رہی ہوں تاکہ شک نہ پڑے‘ یہاں بہت سارے خفیہ والے ہوتے ہیں۔ بعد میں سب کو بتادینا۔“
”اوکے ۔! وش یوگڈ لک۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا‘ اس کی آنکھوں میں بہت کچھ تھا‘ اس کا چہرہ میری نگاہوں میں محفوظ ہوگیا۔ میں آگے بڑھ گیا او روہ وہیں سے پلٹ گئی۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔ نجانے کیوں میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی تھی۔ اس کی جدائی کو میں نے محسوس کیاتھا‘پھر میں نے سر کو جھٹکتے ہوئے سوچا کہ سب کو لنگر خانے میں بتاؤں گا کہ دلجیت چلی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔