” بتاؤ، کیا نام ہے تمہارا اور کہاں سے آئے ہو؟“
” میں نام اجمل ہے اور میں لاہور کے قریب رہتا ہوں ۔ وہاں سے آیا ہوں۔ “ اس نے بڑے سکون سے کہا تو میں نے اسے جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا
” اصل نام او ر جگہ بتاؤ، یہ جان لو کہ اگر تم نہیں بتاؤ گے تو تمہارا ہر ریشہ بتائے گا۔“
”تو ہر ریشے سے پوچھ لینا۔ “ اس نے لاپرواہانہ انداز میں کہا تو مجھے تپ چڑھ گئی ، میں نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا
” چلو ، پھر ایسے ہی سہی۔
“یہ کہہ کرمیں اٹھ گیا۔ اور قریب کھڑے لڑکے سے کہا،” اس کے کپڑے اتارو، اور دیکھو یہ مسلمان ہے یا نہیں؟“
” تمہیں کوئی شدید غلط فہمی ہو گئی ہے مسٹر، ہم یہاں اپنے سرکاری کام سے موجود ہیں۔ چاہے تو چوہدری شاہنواز کو بلاکر پوچھ لو۔
(جاری ہے)
بعد میں مت پچھتانا،میں تم سے …“
اس کے لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے ۔ وہ لڑکا اس کے کپڑے اتارنے لگا تھا۔
وہ اس کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ اس لئے باہر سے دو مزید لڑکے آ گئے۔ چند منٹ بعد اس کے کپڑے اتار دئیے گئے۔ وہ مسلمان نہیں تھا۔
” دیکھو، میں تم پر تشدد نہیں کرنا چاہتا، اپنے بارے میں اصل بات بتا دو گے تو ممکن ہے تمہارے بارے میں اچھا سوچ لوں۔ “
” تم لوگ کون ہو؟“ اُس نے ڈھیلے سے لہجے میں پوچھا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا
”ہمیں بزنس مین کہہ لو، ہر طرح کا کاروبار کرتے ہیں، جیسے جنگل سے کوئی جانور پکڑ لیا، اور اسے ایسے شخص کو بیچ دیا جو اس جانور کو پسند کرتا ہو، جیسے تم لوگ ۔
ہم انہیں دے دیں گے ، جنہیں تمہاری ضرورت ہے۔ وہ تم لوگوں کو بیچیں ، یا رکھ لیں یا مار دیں ، یا پھر انہیں ہی واپس کر دیں جس نے تم لوگوں کو پالا ہے۔ ہمیں تو نوٹوں سے غرض ہے پیارے ،مطلب تم سمجھ ہی گئے ہو گے ، اغوا برائے تاوان۔“
” میں تمہیں نوٹ دیتا ہوں ، تم ہمیں چھوڑ دو۔“ اس نے تیزی سے کہا
” کیسے دو گے، تم تو ہمارے پاس ہو اور تمہارے تن پر کوئی کپڑا نہیں ہے ، جس میں کوئی پیسا پڑا ہو ۔
“ میں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا
” دیکھو۔! چوہدری شاہنواز کو پیغام دے دو، تمہیں تمہاری مطلوبہ رقم مل جائے گی۔“وہ سنجیدگی سے بولا
”میں اپنی مطلوبہ رقم کا اندازہ کیسے لگاؤں گا۔ یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ جو تعارف تم نے کرایا ہے وہ غلط ہے۔ تم جو کوئی بھی ہو ، اپنا آپ چھپا رہے ہو۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ تم کون ہو ، کیا کرتے ہو، خیر نہ بتاؤ، میں اس لڑکی پر ٹرائی کر کے دیکھ لیتا ہوں۔
“
” تم چاہتے کیا ہو ؟“ لڑکی نے پوچھا
”میں تو نوٹ چاہتا ہوں ، نوٹ…“ میں نے کسی لالچی بندے کی طرح کہا تو وہ بولا
” کہا تو ہے کہ چوہدری شاہنواز سے رابطہ…“
” نہیں ہمارا طریقہ کار کچھ الگ سے ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تم تینوں میں سے ایک بندے کو چھوڑ دیا جائے گا۔ وہی ہمارا پیغام دے گا اور رقم پہنچائے گا، جہاں ہم کہیں گے۔
ہم فون وغیرہ کے چکرمیں نہیں پڑتے کہ وہ ٹریس ہو جاتا ہے۔ خیر، تم لوگوں کی قیمت کا اندازہ لگانا ہے ، اپنے بارے بتاتے ہو یا کروں اس حسینہ سے بات۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے چکنے گالوں پر کسی شہدے کی مانند ہاتھ پھیرا تو اس نے نفرت سے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
”میں نے کہا نا کہ چوہدری…“اس نے کہا تو میں نے پوری قوت سے تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا اور سخت لہجے میں کہا
”لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گے۔
“یہ کہہ کرمیں نے اپنی پنڈلی سے بندھا ہوا خنجر نکالا اور اس کے سینے پر کراس کا نشان بنادیا۔ نوک اتنی گہری نہیں رکھی تھی۔لیکن پھر بھی خون تیزی سے نکلنے لگا تھا۔ وہ ایک دم سے بلبلاتے ہوئے چیخ اٹھا۔ کمرہ اس کی دھاڑوں سے گونج گیا۔ میں نے قریب رکھا ہوا نمک اٹھایا اور اس کے زخموں میں بھرتے ہوئے کہا،” سنا ہے یہ تمہارے ملک میں بہت مہنگا ہے اور ہم اسے کھانے کی بجائے یوں بھی استعمال کرتے ہیں۔
اب بھی بولوگے یا…“ میں نے یہ کہتے ہوئے اس کی ران کی طرف اشارہ کیا۔
” میں اجمل ہوں۔اجمل مسیح، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتا ہوں ۔ ‘ ‘ اس نے دھاڑتے ہوئے کہا تو میں نے اس کی ران پر زخم بنا دیا اور کہا
” تم سوچو، میں اس حسینہ سے پوچھتا ہوں۔“ میں یہ کہہ کر اس کی طرف لپکا تو وہ تیزی سے بولی
” اتنے مرد ہو تو مجھے کھول کر …“
لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے اور میں نے خنجر کی نوک اس کی گردن پر رکھ دی۔
”میں نہیں چاہتا کہ میرے نوٹ کم ہو جائیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ تجھے زندہ رکھوں۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے لڑکوں کی جانب دیکھا اور اس نوجوان کے بھی کپڑے اتارنے کا اشارہ کیا۔ تبھی وہ لڑکا تیزی سے بولا
” میں مسلمان ہوں اور یہ دونوں ، انڈین ہندو ہیں۔ میں… فرحان ہوں، میں تمہیں ساری بات بتا دیتا ہوں۔“
” ٹھیک ہے ، تم بتاؤ، اگر تمہاری بات کی تصدیق ہو گئی تو…“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔
اس نے ایک لمحے کو سوچا اور کہنے لگا۔
” میں لاہور میں رہتا ہوں، علامہ اقبال ٹاؤن میں۔ یہ مجھے وہیں ملی۔ پہلی بار میں نے اسے مارکیٹ میں دیکھا تھا۔ پھر ہم میں بس تعلق ہو گیا۔ پھر یہ اچانک غائب ہوگئی۔ تقریباً ایک سال بعد مجھے ملی ۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ مجھ سے کیا کام لیتی رہی ہے۔ اب جبکہ میں پولیس کی نظروں میں مشکوک ہو گیا تو اس نے مجھے یہاں بلا لیا۔
یہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ یہ مشکوک لوگ ہیں اور ان کا تعلق بھارت سے ہے۔“
” اگر تمہارے بارے میں لاہور سے پتہ کیا جائے تو…“ لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ چھاکے نے رندھاوا کے آ جانے کی خبر دی۔ میں دیر اس لئے کر رہا تھا کہ رندھاوا انہیں آ کر لے جائے۔ یہ اس کا سر درد تھا کہ وہ کون ہیں۔ یہ اس نے ثابت کرنا تھا۔ میں نے تو محض اس کی مدد کی تھی۔
لیکن میں کسی نہ کسی طرح شاہنواز کو اپنے سامنے کھولنا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ آج نہیں تو کل ، ان کے بارے میں اسے پتہ چل جانا ہے کہ میں نے اغوا کیا ہے۔ میری دشمنی تو بن جانی تھی ۔ لیکن کم از کم اسے یہ تو معلوم ہو نا کہ وہ بھی غیرملکی ایجنٹ ہے۔ اس لئے میں باہر چلا گیا ۔ رندھاوا باہر لڑکوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔
” چوہدری شاہنواز پاگل ہو رہا ہے ۔ اس کے بندے تھانے میں بیٹھے ہیں تاکہ یہ آئیں اور انہیں لے جائیں۔ مگر میں انہیں اب ان کے ہاتھ میں نہیں دینے والا۔“ وہ تیزی سے بولا
” تو انہیں لے جا رندھاوا ، مگر شاہنواز کو کب پکڑنا ہے ، وہ میرے لئے درد سر بن جائے گا۔“ میں نے کہا تو بولا
” اس پر میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ خفیہ والے ہی ڈالیں گے ہاتھ اس پر۔
“
” لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ابھی ہتھے چڑھ جائے، اور وہ تیرے خفیہ والے اسے ابھی لے جائیں۔“ میں نے تیزی سے کہا
” یہ تو پھر بات کرنا پڑے گی۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا تو میں نے اسے اغوا والی بات بتا کر کہا
”ایک کوشش کر لیتے ہیں تو ان لوگوں سے بات کرو، ممکن ہے ابھی وہ نہیں تو اس کا کچھ نہ کچھ تو ثبوت ملے یار ۔“
” چل، جیسے تو چاہے۔ کوشش کر لے ۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا اور میرے ساتھ اندر چل دیا۔
وہ تینوں فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ رندھاوا اندر جا کر انہیں دیکھتے ہوئے بولا
” اب ان کا کیا کرناہے؟، بات کر لی ان کی؟“