رات کا دوسرا پہر چل رہاتھا‘ جسپال اور ہرپریت کوٹھی کی چھت پر کافی دیر سے خاموش کھڑے اندھیرے کوگھور رہے تھے۔ کافی دوراُ وگی پنڈ کی روشنیاں ٹمٹمارہی تھیں۔ وہ کب کی چائے پی چکے تھے او ران کے ہاتھ میں خالی مگ تھے۔ تبھی ہرپریت نے اس خاموشی کوتوڑا۔
”جسپال۔۔۔۔۔ تم اچانک ایک دن چپکے سے چلے جاؤگے نا؟“
’یار‘بندے کو اس دنیا سے جانا تو ہے ‘ چاہے چپکے سے چلے جائے یاپھر شور مچا کر…“ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
”میں وہ بات نہیں کررہی جسپال‘ تمہارے کینیڈا جانے کی بات کررہی ہوں۔ دوبار تم ویزے کی معیاد بڑھا چکے ہو‘ لیکن ابھی تک تمہیں کاغذات نہیں ملے، یہاں کی ملکیت کے … “ اس نے بھی ہولے سے کہا۔
”مل جائیں گے یار‘ لیکن نہ جانے کیوں اس وقت میرا ذہن جمال کی طرف لگا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
وہ امرتسر جیسے شہر میں ہے اور اکیلا ہے‘ کوئی ٹھکانہ ملابھی ہوگایانہیں۔
“ وہ تشویش زدہ لہجے میں بولا تھااور مگ دیوار پر رکھ دیا۔
”تو اس سے رابطہ کرلو‘ پوچھ لو اس سے۔“ ہرپریت نے عام سے لہجے میں کہاتو وہ حیرت سے بولا۔
”منع کیا گیا ہے‘ اس کے پاس دلجیت کا فون ہے‘ نجانے کب کیا ہوجائے‘ اس لیے تو میں پریشان ہوں۔“
”جسپال۔! میں ایک بات کہوں۔“ اس نے اپنا مگ دیوار پررکھتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”بولو۔!“ اس نے جواب دیا۔
”جمال اپنا خیال رکھ سکتا ہے‘ میں نے اس جیسے مضبوط اعصاب کے بہت کم لوگ دیکھے ہیں۔یاپھر وہ بے حس ہے۔ اُسے آنے والے خطروں کااحساس ہی نہیں ہوتا۔ تم اس کی فکر نہ کرو‘ اتنا عرصہ اس کے ساتھ رہنے کے باوجود تم اس کے بارے میں نہیں جان سکے اور میں نے اسے کچھ دیر میں پرکھ لیا۔ “ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بڑے تحمل سے بولی۔
”وہ مضبوط اعصاب کا ہے یانہیں مگر دوستوں کے لیے مخلص اور دشمنوں کے لیے غضب ہے۔ میں تو یہی جانتا ہوں۔“ وہ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو ہرپریت نے واضح طور پر موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”ایک بات نوٹ کی ہے تم نے۔“
”کون سی…“ اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
”جب سے رنویر سنگھ پار ہوا ہے‘ نیا کوئی آفیسر نہیں آیا۔ یہیں کاایک جونیئر بندہ ہی انچارج ہے۔
اوراس نے ایک فون تک نہیں کیا۔“ اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”لیکن یہاں خفیہ والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ انہیں ہماری ایک ایک حرکت کے بارے میں معلوم ہے۔ اگرجمال ہمارے ساتھ یہاں آجاتاتو اس کے بارے میں خواہ مخواہ تفتیش شروع ہوجانا تھی۔ اچھا ہوا وہ ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ یہ بات مجھے یہاں آتے ہی انوجیت نے بتائی ہے۔“
”یہ تو رب کی مہر ہے ناہم پر… چلواچھا ہے۔
“ ہرپریت نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔
”یہی تو مجھے دکھ ہے کہ اب میں رویندر سنگھ کونہیں مار سکوں گا۔ ایک تو اس کی سیکیورٹی بہت سخت کردی گئی ہے‘ دوسرا میری ہر حرکت پرنظر ہے اور میرے جانے کے دن بھی بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔“ وہ حسرت سے بولا تو ہرپریت نے اس کے سینے سے لگ کر ذرا سا بھینچ لیا۔ جسپال کی گرم سانسیں اسے اپنے کاندھے پرمحسوس ہو رہی تھیں۔
پھراس نے اپنی ناک اس کی ناک کے ساتھ رگڑتے ہوئے افسردہ سے انداز میں کہا۔
”بس یہی بات مجھے دکھ دے جاتی ہے کہ تم جارہے ہو۔“
”دکھی نہیں ہوناپریتو، میں جانے کے فوراً بعد یہاں آجاؤں گا اورپھر آتے ہی تیرے ساتھ شادی کرنی ہے۔ میں نے یہاں کی شہریت لینی ہے۔ میری غیر حاضری میں تم نے یہاں بہت سارے کام کرنے ہیں۔ ایک بہترین اسکول بنانا ہے‘ اور ایک جدید سہولتوں والا ہسپتال، بعدمیں فیکٹریز‘ تمہارا یہ کام مکمل نہیں ہوگا‘ تب تک میں آجاؤں گا… ہمارا رابطہ تو رہے گا نا…“ جسپال نے اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا۔
ان کے درمیان ہوسکتاتھا مزید باتیں چلتیں۔ تبھی جسپال کا سیل فون بج اٹھا۔ انوجیت کی کال تھی۔ اس نے کال پِک کی۔
”سمجھ نہیں آرہی ہے جسپال کہ میں اس خبر پرخوشی کااظہار کروں کہ تشویش…“ انوجیت نے عجیب سے الجھے لہجے میں کہا۔
”کیاہوا؟“ اس نے پوچھا اور ہرپریت کوخود سے آہستگی سے الگ کردیا۔
”بلجیت سنگھ مرگیا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے…“ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔
”اوہ…کیسے…کیا ہوا تھا؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
”بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ توگیا تھا وہ پہلے ہی۔ بہت زیادہ پینے کی وجہ سے اس کاجگر خون بنانا چھوڑ گیاتھا۔ تین دن پہلے ڈاکٹرز نے جواب دے دیاتھا۔ وہ امرتسر والے گھر میں ہی تھا‘ جہاں اس کا بیٹا ہردیپ سنگھ رہتاتھا۔“
”اوہ۔! چلو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ یہ جاننا ہوگا کہ بلجیت سنگھ کی آخری رسومات کہاں ادا ہوں گی‘ یہاں اوگی میں‘ یا وہاں امرتسر میں۔
“
”اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجارہا۔ بہرحال تم محتاط رہنا‘ یہاں سے اس کے وفادار کوئی غلط سلط حرکت نہ کریں۔“ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ میں محتاط رہوں گا۔ تم اس وقت ہو کہاں؟“ جسپال نے اسے تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
”میں اوگی پنڈ میں ہی ہوں۔ میں کچھ دیر میں آجاؤں گا۔“ اس نے کہا تو جسپال نے فون بند کردیا۔ پھر ہرپریت کو تفصیل بتاکر بولا ۔
”یہ بڑا شاندار موقع ہے‘ رویندر سنگھ کوختم کرنے کا۔“
”لیکن ابھی کچھ دیر پہلے کہہ رہے تھے کہ اس کی سیکیورٹی بہت ہے؟“ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔
”ایسے وقت میں ہی وہ محتاط نہیں ہوگا۔ اگر ذرا سا پلان کرلیاجائے تو اس کامعاملہ بھی گول کیاجاسکتا ہے۔“ وہ بڑی حسرت سے بولا تو ان میں خاموشی آن ٹھہری۔ تبھی ہرپریت نے اسے دوبارہ اپنے بازوؤں میں لے لیا اور پرسکون لہجے میں بولی۔
”ابھی رسک نہیں لینا‘ بہت مواقع آئیں گے‘ فکرنہ کرو… اب چلو اور جاکر سوجاؤ‘ صبح جالندھر جانا ہے۔“
”ہاں ایسے ہی…“ جسپال نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالااور اسے لے کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ انہیں یہ خیال ہی نہیں آیا کہ چائے کے مگ چاردیواری پر پڑے رہ گئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔