Episode 51 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 51 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

اس وقت شام ڈھل رہی تھی۔ میں اس وقت سوہنی کے ساتھ اپنے ڈیرے پر تھا۔ بھیدہ بہت خوش تھا۔ چھاکے نے اس کا بہت خیال رکھا تھا۔ ڈیرے پر بھی ڈھور ڈنگروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ ہم اس کے پاس سے نکل کر کار کی طرف آ رہے تھے، 
”بہت عرصے بعد سکون کے چند دن دیکھنے کو ملے ہیں، کیوں نا چھاکے کی شادی کر دیں، چند دن ہلا گلّا رہے گا۔“ سوہنی نے ہنستے ہوئے کہا تو میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کاراسٹارٹ کردی پھرگیئر میں ڈالتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر کہا۔
”ہاں، یہ ٹھیک ہے، تیرے ساتھ وہ حویلی میں رہے گی مہارانیوں کی طرح۔“
 تبھی وہ ایک دم سے سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔
”جمال میں نے حویلی میں نہیں، اماں کے پاس رہنا ہے اور تب تک رہوں گی، جب تک تم یہاں ہو۔

(جاری ہے)

ورنہ میں اماں کو لے کر یہاں سے واپس چلی جاؤں گی۔“ سوہنی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

”یار ، تم نے تو میری ماں پر قبضہ جما لیا ہے۔
”یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے، میں کیا کروں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں نے کہا۔
”بس، اتنا ہی تھا تمہارا جذبہ بڑے دعوے کررہی تھی کہ یہاں علم کی روشنی پھیلاؤں گی، اس کا کیا ہو گا، خدا نخواستہ میں نہ رہوں تو یہ لوگ پا چکے علم کی روشنی اور وہ بھی تیری دی ہوئی۔“
”وہ تو میں نے ایک پورا پراجیکٹ بنا یا ہوا ہے۔ میں کو ئی ماہرِ تعلیم نہیں، میں نے ایک این جی او سے بات کی ہے۔
وہ چلائے گی سب، میں تو پیسہ دوں گی۔میں نے ان کو بلوا لیا ہے، تجھے پتہ ہے کہ ان کے کچھ لوگ آ گئے ہیں اورانہوں نے اپنا کام بھی شروع کردیا ہے۔ تیری طرح نہیں، میں اس کی حفاظت کروں گا۔“ اس نے میری نقل اتارتے ہوئے کہا تو میں سر ہلا کررہ گیا پھرمیں نے پوچھا۔
”اور وہ چھاکے کی شادی والی بات … ؟“ 
”پہلے چھاکے سے پوچھتے ہیں، وہ کیا کہتا ہے ، کوئی پسند تو ہو گی نا اس کی؟“وہ تیزی سے بولی۔
”ہاں یہ تو ہے،“ میں نے کہا تو انہی لمحات میں چھاکے کا فون آ گیا، میں نے پوچھا۔ ”ہاں بول کیا بات ہے؟ ابھی تیرا نام لیا تھا کہ…“
”شیطان ٹپک پڑا۔ خیر۔ بڑے دنوں بعد پیرزادہ وقاص کا فون آیا ہے، وہ تم سے بات کرنے کے لیے مجھ سے نمبر مانگ رہا ہے،کیا خیال ہے دے دوں؟“
”تم نے پو چھا نہیں وہ کیا چاہتا ہے؟“ میں نے کہا تو وہ تیزی سے بولا۔
”کہہ رہا ہے وہ اور اس کے ساتھ علاقے کے چندمعززین تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“
”یار تم خود ہی اس سے وقت طے کر لو اور پھر مجھے بتا دینا۔ مل لینے میں کیا حرج ہے،نمبر مانگے تو دے دینا۔“ میں نے کہا تو بولا۔
”میں شام کا کہہ دیتا ہوں۔“
”کہہ دینا۔“ میں نے کہااور فون بند کر دیا۔
ابھی سہ پہر ہی کا وقت تھا کہ پیر زادہ وقاص،چوہدری شاہنواز اور علاقے کے کچھ زمیندار میرے گھر کے سامنے آ رُکے۔
چھاکا انہیں بیٹھک میں بٹھا چکا تھا ، جب میں ان کے پاس گیا۔ کافی عرصے بعد میں نے پیرزادہ وقاص کو دیکھا تھا۔ خوشگوار ماحول میں بات شروع ہوئی لیکن اس وقت یہ بات الجھ گئی جب چوہدری شاہنوازنے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”بھئی جمال، تم نے جس طرح شاہ دین کی پوری جائیداد حاصل کر کے اپنا بدلہ لے لیا،اسے ہم مانتے ہیں۔تمہارا شمار اب علاقے کے زمینداروں میں ہو گا۔
ہم تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور خیر سگالی کے طور پر تمہارے پاس آئے ہیں۔“
”آپ سب کی مہربانی کہ مجھے مان دیا لیکن میرا بدلہ ان کی ذات کی حد تک تھا ، جائیداد کی صورت میں نہیں تھا۔ مجھے جائیداد کا نہ پہلے لالچ تھا اور نہ مجھے اب ہے۔ وہ سب کچھ شاہ دین کی بیٹی اور شاہ زیب کی بہن، سوہنی کا ہے۔“ میں نے ان کے سامنے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں جمال۔ صرف ہم ہی نہیں سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ وہ لڑکی تیری مرضی کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھاتی اور نہ ہی اس میں اتنی جرات ہے۔ یہاں جو بھی ہو رہا ہے تیری مرضی کے بغیر نہیں ہو رہا ہے۔“ پیرزادہ وقاص نے کہا تو میں بولا۔
”وقاص۔ یہ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ مجھے اس جائیداد سے کوئی سروکار نہیں۔اب مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ آپ لوگ کسی بات سے خوش نہیں ہیں۔
کھل کر بات کریں ، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”تو پھر سنو، زمینداری کرو، الیکشن لڑو، جو مرضی کرو، لیکن یہ پڑھنا پڑھانا، یہ حویلی کو کسی سکول میں بدلنا، یہ ٹھیک نہیں ہے، کیوں غریبوں کے بچوں کی محنت مزدوری چھین رہے ہو، سوہنی کواگر ایسا شوق ہے تو وہ ادھر شہر میں پورا کر لے۔“چوہدری شاہنواز نے پر جوش انداز میں کہا تو میں سمجھ گیا وہ کس نیت سے آئے ہیں۔
تب میں نے صاف لفظوں میں کہا۔
”یہ سوہنی کا ہی نہیں میرا بھی خواب ہے کہ یہاں کے بچوں کی قسمت میں بھی تعلیم ہو۔ وہ خواب ہم پورا کریں گے۔ آپ غریبوں کے بچوں سے اتنی ہمدردی نہ کریں کہ انہیں صرف محنت مزدوری تک محدود کر لیں۔ آپ بھی ان پر مہربانی کریں۔ انہیں محض غلام نہ بنا کر رکھیں۔ انہیں بھی اپنی قسمت بنانے کا موقعہ دیں۔“
”تم لوگ بہت پچھتاؤ گے۔
یہ غریب ایسا جن ہے اگر اسے قابو میں رکھیں گے تو ہی خود محفوظ رہیں گے۔ تم نئے نئے امیر ہوئے ہو، تمہیں بہت بعد میں سمجھ آئے گی، انہیں اگر دبا کر نہیں رکھو گے تو یہ تمہیں کھا جائیں گے۔ بہر حال ہمیں یہ کام پسند نہیں ہے۔ ظاہر ہے ہم اس کی مخالفت کریں گے۔“ چوہدری شاہنواز نے کہا تو میں نتحمل سے بولا۔
”چلیں۔ آپ کریں مخالفت، ہم اپنا کام کرتے ہیں، آپ اپنا کام کریں۔
“ 
”مطلب تم ہمارے سمجھانے سے نہیں سمجھو گے۔ اتنے لوگ آئے ہیں تمہارے پاس ، تم نے ان کی قدر نہیں کی جمال۔“ اس نے غصے میں کہا 
”میں ہر اس بندے کی قدر کرتا ہوں ، جو مجھ سے اپنی قدر کروانا چاہے گا۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو چوہدری شاہنواز ایک دم سے کھڑا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے لوگ بھی کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہ جیسے آئے تھے ، ویسے چلے گئے۔
میں اور چھاکا بہت دیر تک ان کی باتوں پر تبصرہ کرتے رہے۔ پھر میں اسے باہر والے کمرے میں چھوڑ کر اندر چلا گیا۔ میں نے سوہنی کو لوگوں کے آنے کے بارے میں بتایا تو کافی حد تک رنجیدہ ہو گئی۔ اس کا یہی خیال تھا کہ یہ شاہ زیب ہی کی مخالفت ہے۔ جس پر میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
شام کا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ سوہنی مجھے اپنے ساتھ لے کر حویلی چلی گئی تھی، اس کا خیال تھا کہ وہ ان لوگوں کو بھی علاقے کے ماحول کے بارے میں بتا دے۔
وہاں تھوڑی دیر ان سے گپ شپ کے بعد ہم یونہی باتیں کر رہے تھے کہ چھاکے کا فون آ گیا۔
”او یار تجھے یاد ہے، وہ ایک انسپکٹر افضل رندھاوا تھا، جس نے تیری بہت مدد کی تھی۔“
”ہاں ، یاد ہے مجھے ، کیا ہوا ہے اسے؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولا۔
”وہ آ یا بیٹھا ہے، تجھے ملنا چاہتا ہے، کہہ رہاہے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“
”میں آ رہاہوں ،“ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
مگرمیرے اندر نجانے کیوں ایک طرح سے بے چینی ہونے لگی۔
میں گھر پہنچا اور سیدھا افضل رندھاوے کے پاس گیا۔ وہ سادہ لباس میں تھا۔ اگرچہ وہ مسکراتے ہوئے ملا ،مگر اس کے چہرے پر سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی۔ہم اطمینان سے بیٹھ گئے تو وہ بولا۔
”پتہ نہیں جمال ، میں تم سے یہ بات کیوں کر رہا ہوں، میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا، لیکن تم تھے نہیں اب پتہ چلا کہ تم ادھر ہو تو میں نے تم سے یہ شیئر کرنے کا سوچ ہی لیا۔
“ وہ بات کرتے ہوئے الجھ رہا تھا۔
”رندھاوا صاحب آپ کھل کر کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔اس طرح تو مجھے سمجھ نہیں آئے گی کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو؟“ میں نے سکون سے کہا تو وہ کتنی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا ، پھر بولا۔
”تمہیں پتہ ہے نا کہ میں معطل ہو گیا تھا اور وہ مجھے شاہ زیب او ر وقاص پیرزادہ نے کروایا تھا؟“
”تو کیا آپ اب تک بحال نہیں ہوئے؟“میں نے پوچھا۔
”ہو گیاہوں، لیکن ابھی تک زیر عتاب ہوں۔ ان کی رسائی اوپر تک ہے، میں ڈی ایس پی ہو سکتا ہوں اگر کوئی کام دکھا دوں تو؟“ وہ اصل بات پر آ گیا۔
”مثلاً کیسا کام؟“میں نے پوچھا۔
”دیکھو، تم میری مدد کر پاؤ گے یا نہیں لیکن یہ بات تیرے پاس امانت ہو گی۔“ اس نے اپنے طور پر تسلی چاہی تو میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
”آپ کہو،بلاجھجک کہو۔
“ 
”میں تمہیں شروع سے بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رُکا پھر کہتا چلا گیا۔
”یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے ڈیروں پر بدمعاش، ڈاکو اور اشتہاری عام طور پر رہتے ہی ہیں۔ہم چاہیں بھی اور ہمیں معلوم بھی ہو تو ہم انہیں نہیں پکڑسکتے۔ میں معطل تھا۔ انہی دنوں، کچھ خفیہ والے ادھر آئے انہوں نے یہاں سے کچھ ایسے سگنل پکڑے ہیں، جن کی انہیں سمجھ یہی آئی ہے کہ یہاں ، اس علاقے میں ملک دشمن لوگ کام کر رہے ہیں۔
ہم یہاں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکے۔ وہ واپس چلے گئے۔ ممکن ہے وہ تفتیش جاری رکھیں،مگر میں نے بھی اپنا کام جاری رکھا۔ مہینہ بھر پہلے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں، چوہدری شاہنوازکے ڈیرے پر کچھ ایسے لوگ ہیں جو ملک دشمن ہیں۔“
”آپ کیا چاہتے ہو؟“میں نے اسی سکون سے پوچھاتو صاف گوئی سے بولا۔
”جمال، میں معطل ہوا ، محکمے میں بڑی سبکی ہوئی ہے۔
بحال بھی ہوگیا، کوئی گناہ ثابت بھی نہیں ہوا ، نوکری ٹھیک ہے ، مگر میں اپنا تاثر ٹھیک کرنا چاہتا ہوں، میں بالکل یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں یہ وطن کی محبت میں کرنا چاہتا ہوں۔ سال بھر بعد میں ریٹائر ہو جاؤں گا۔ بس…“ یہ کہہ کر وہ اچانک خاموش ہو گیا۔ میں اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔
”مجھے ایک بار وقاص پیرزادہ لے کر گیا تھا وہاں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب شاہ زیب نے میرا گھر جلایا تھا،یاد ہے نا وہ دن؟“
”یاد ہے، تم نے دیکھا ہوا ہے وہ ڈیرہ؟“ اس نے تیزی سے پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں ،میں نے دیکھا ہے، لیکن کیا آپ کو یقین ہے، اگر یقین ہے تو پھر پلان کیا ہے؟“
”دو باتیں ہیں کھل کر ایک دم سے چھاپہ مارا جائے یا پھر خفیہ طور پر وہاں جایا جائے۔ میں ان دونوں صورتوں میں ساری گیم اپنی طرف لے آؤں گا۔ اس کی تم فکر نہیں کرو۔“ اس نے میری آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”بندوں کے بارے میں پتہ ہے یا وہ بھی معلوم کرنے پڑیں گے۔
“ میں نے پوچھا۔
”وہ کنفرم ہیں۔میرے پاس ان کی تصویریں ہیں۔ یہ سیل فون میں ہیں۔“ اس نے اپنی جیب سے فون نکالتے ہوئے کہا۔
”گڈ۔ لیکن ایک بات ہے رندھاوا، یہ بات ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی کہ تم مجھے ہی کیوں بتا رہے ہو اور میری مدد کیوں چاہتے ہو، تم یہ سب کچھ پہلے بھی کر سکتے تھے؟“ میں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا۔
”تمہارا یہ سوال بنتا ہے جمال، کیا آج ہی وہ تمہارے پاس نہیں آئے؟ اور پھر تم خود بتاؤ، اس علاقے میں کوئی دوسرا ہے بتا دو ، جو یہ کام کر سکے؟“ اس نے تیزی سے کہا۔
”بات یہ نہیں ہے ،مجھ سے بھی بڑے جگرے والے یہاں پر ہیں ،مگر انہیں کوئی چوٹ نہیں لگی، چڑیا کو بھی تنگ کرو گے نا تو سانپ کو مارنے پر تُل جاتی ہے۔ خیر۔ جب کچھ کرنا ہو تو مجھے بتا دینا۔“
”مجھے معلوم تھا کہ تم میری بات مان جاؤ گے۔ میری طرف سے تو چاہئے آج رات ہی کو…“ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر میری طرف دیکھا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ ساتھ ہو گے یا یہ کام مجھے ہی کرنا ہوگا۔“
”میں ساتھ ہوں گا، پوری نفری ہوگی۔“ اس نے جوش سے کہا۔
”مجھے پلان بتاؤ، سب کر لیں گے۔“ میں نے کہا تو ایک دم سے اُٹھ گیا۔پھر چمکتی آ نکھوں سے میری طرف دیکھ کر بولا۔
”میں صرف دو گھنٹے بعد تمہیں کال کر تا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ میری سنی ان سنی کرتا ہوا باہر نکل گیا اور میں اپنے بدن میں وہ سنسنی محسوس کرنے لگا، جو لوگوں کو نچانے کے وقت میرے اندر پھیلتی تھی۔
                                  #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط