Episode 64 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 64 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میرا اندازہ یہی تھا کہ آدھی سے زیادہ رات گذر چکی ہے ۔ میں اکیلا اور میرے ساتھ دونوں کتے تھے۔ ہم ایک سیدھے راستے پر چلتے چلے جا رہے تھے۔ میں ایک کچی سڑک پر باباجی کی باتیں سوچتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن مجھے کسی بات کی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ میں دریا پار کرنے سے پہلے ان کتوں کو دشمنوں ہی کی طرف سے سمجھا ہوا تھا۔ لیکن پھر یہ سوچنے لگا کہ ممکن ہے یہ تائید غیبی ہو ۔
مگراس بات کو دل قطعاً نہیں مان رہا تھا۔ وہ کتے دشمنوں ہی کی طرف سے تھے۔ ایک ہی رات میں بہت کچھ انہونا ہو گیا تھا۔ شاید مجھے سمجھ اس لئے بھی نہیں آ رہی تھی کہ میرے بدن پر لگے زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ سر بھاری ہو رہا تھا۔ بدن کی خراشوں میں سے جلن تیز ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ران کا زخم سوج گیا تھا۔ بھیگے ہوئے بدن پر کپڑے چپکے ہوئے تھے اور ہوا سے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔

(جاری ہے)

میں جانتا تھا کہ جو دریا میں نے ابھی عبور کیا ہے وہ دریائے ستلج ہے۔لیکن کہاں سے پار کیا، اس کا مجھے بالکل بھی پتہ نہیں تھا۔ میں جہاں پر تھا ، وہاں سے میرا گاؤں نور نگر کس جانب ہے اس کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ میں چلتا چلا گیا۔ 
 شاید اس وقت پوہ پھٹ رہی تھی ۔ جب میں نے اپنی دائیں جانب کچھ گھنٹیوں کی آواز سنی جو لمحہ بہ لمحہ نزدیک آتی چلی جا رہی تھی۔
میں ٹھٹک کر رک گیا۔ وہ کوئی ریڑھے والا گوالا تھا۔ میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ رک گیا۔ گوالے نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا پھر مقامی زبان میں پوچھا 
” کون ہو تم اور کدھر جانا ہے؟“
” مسافر ہوں بابا، جدھر چاہو لے جاؤ، یا کسی اڈے پر اتار دینا۔“
” آ جاؤ۔“ اس نے کہا تو میں آگے بڑھ کر ریڑھے پربیٹھ گیا۔ میرے ساتھ وہ کتے بھی آ گئے تو اس نے ریڑھا آگے بڑھا دیا۔
ظاہر ہے مجھے تجسس تھا اس لئے پوچھا
” یہ کون سی جگہ ہے ، اور تم کدھر جا رہے ہو؟“
میرے پوچھنے پر جب اس نے بتایا تو میں حیران رہ گیا۔ میں نور نگر سے کوئی سو کلومیڑ سے بھی دور تھا۔میں معلومات لیتا ہوا باتیں کرتا رہا۔ایک گاؤں کے چھوٹے سے بس اسٹینڈ پر جب اس نے مجھے اتارا تو دن نکل آیا تھا۔ کتے بھی میرے ساتھ ہی اتر آئے ۔ میرے ذہن میں سوہنی کا فون نمبر تھا۔
میں نے ایک پی سی او پر جا کر کال ملائی تو اس نے فوراً فون رسیو کرلیا۔ میں نے اپنی جگہ بتائی ہی تھی کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ روتے ہوئے بولی
” میں تجھے لینے کے لئے آ رہی ہوں۔“
” تم مت آنا ، پہلے مجھے چھاکے کے بارے میں بتاؤ۔“ میں نے تیزی سے پوچھا
” وہ تو ٹھیک ہے،اور تجھے تلاش کر رہا ہے۔ تجھے پیرزادہ وقاص نے غلط اطلاع دی تھی ۔
وہ دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔“ اس نے بتایا تو میں نے کہا
” اچھا، تم ایسے کرو۔مجھے اس کانمبر دو۔ میں بات کرتا ہوں۔“
اس نے مجھے نمبر دیا۔ میں نے چھاکے کو کال ملائی توا س نے بھی وہی پیرزادے والی بات بتا کر کہا
” میں آتا ہوں تجھے لینے کے لئے ، لیکن تم اپنا خیال رکھنا۔ہو سکتا ہے دشمن آگے پیچھے ہوں۔ میں کرتا ہوں کچھ۔“ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔
میں اُسی پی سی او کے ساتھ بنے بینچ پر بیٹھ گیا۔ مجھے چکر آرہے تھے اور میری حالت بگڑنے لگی تھی۔ شاید پی سی والے کو میری حالت پر رحم آ گیا تھا۔ اس نے اپنے لئے چائے منگوائی تو ساتھ میرے لئے بھی منگوا لی۔ میں چائے پی چکا تو میرا دل خراب ہونے لگا۔ چکر تیز ہوگئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میرے حواس میرا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ میں اپنے آپ پر قابو پانے میں ناکام ہو گیا۔
ایک دم سے مجھے قے آگئی ۔ میں بہ مشکل اس پی سی او سے باہر نکلا تھا۔ میں صرف اتنا دیکھ سکا کہ کتے میرے ارد گرد منڈلانے لگے تھے۔قے کرنے کے ساتھ ہی میں زمین پر گرپڑا۔پھرمجھے ہوش نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں۔ میرے آنکھوں کے سامنے پہلے دھند چھائی ، پھر سب کچھ غائب ہو گیا۔ میں بے ہوش ہو گیا تھا۔
میری آنکھ کھلی توکچھ دیر تک مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کہاں ہوں۔
میرے بدن میں اگرچہ درد کم تھا لیکن تیز بخار سے نڈھال ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ میں کسی ہسپتال میں ہوں جو اتنا اچھا نہیں تھا۔ وہ دیہاتی علاقے کا چھوٹا سا ہسپتال تھا ۔ وہاں چند بیڈ پڑے ہوئے تھے، جو سب بیڈ خالی تھے ۔ میرے پاس سادہ سے لباس والا ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہوا تھا۔ چہرے مہرے سے اس کی شخصیت بہت جاذب نظر تھی۔
چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی، پتلے لب، بھاری چہرہ، جس میں آنکھیں بہت شفاف اور جاندار تھیں۔ مجھے یوں لگا جیسے ان میں پوری زندگی بس رہی ہے۔ وہ اپنی چمک دار اور پرکشش آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرے ہوش میں آتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ اسے دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ فطری طور پر نکلا۔
” میں کہاں ہوں؟“
” جہاں تمہیں ہونا چاہیے۔
مطلب ہسپتال میں ہو تم۔“ اس نے بھاری اور شفیق لہجے میں کہا 
 ” آپ لائے ہیں مجھے یہاں؟“ میں نے پوچھا
” ہاں ، میں اڈے سے گذر رہا تھا۔ میں تمہیں دیکھا، تمہاری حالت بہت خراب تھی، میں تجھے یہاں لے آیا۔ وہ پی سی او والے کو میں نے تمہارے ذمے جو پیسے تھے ، وہ اسے دے دئیے ہیں۔ تمہارے کتے باہر بیٹھے ہیں۔ انہیں میں نے کھانے کے لئے روٹیاں ڈال دی ہیں۔
اور تم اب ٹھیک ہو۔“ اس نے مجھے تفصیل سے بتایا تو میں خاموش ہو گیا۔ چند لمحے بعد مجھے خیال آیا تو میں نے کہا
” آپ کا بہت شکریہ کہ …“
” نہ نہ ، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ خیر، تمہارے کچھ ٹیسٹ میں نے شہر بھجوائے ہیں، آ جائیں گے تو تمہاری دوائیاں بھی آ جائیں گی۔ یہاں ہسپتال میں کوئی سہولت نہیں ہے۔ چاہو تو یہاں رہو، یا پھر میرے ساتھ میرے گھر آ جاؤ، یا پھر جیسے تم کہو۔
“ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اور میری طرف دیکھنے لگا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ اسے کیا جواب دوں ۔ پھر اگلے ہی لمحے اس پر اعتماد کر لیا۔ اگر وہ میرا دشمن ہوتا تو اب تک میرے ساتھ جو چاہتا کر لیتا۔
” جیسا آپ چاہیں۔ اس وقت میں اپنے آپ کو آپ ہی کے حوالے کرتا ہوں۔“ میں نے کہا تو وہ بولا
” تو پھر اٹھو، اگر چل سکو تو آؤ، گھر ہی چلتے ہیں۔
“ یہ کہہ کر وہ بینچ پر سے اٹھ گیا اور مجھے سہارا دیا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے بدن سے بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں۔ وہ ساری قے مجھ پر ہی ہوئی تھی۔میں اس بُو سے خود پریشان ہو گیا ۔ میں نے اس شخص کے چہرے پر اس بُو کا رد عمل دیکھنا چاہا۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا ، جیسے اسے یہ بُو آئی ہی نہ ہو۔مجھے خاصی حیرت ہوئی۔ وہ مجھے سہارا دے کر باہر لایا۔
اس دیہاتی ہسپتال کا ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر باہر دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔ انہی کے پاس کتے بیٹھے ہوئے تھے ،جو میری طرف آ کر ذرا فاصلے پر رک گئے۔ ان سے ذرا فاصلے پر ایک کیبن فور وھیل کھڑی تھی۔ تبھی ڈاکٹرنے پوچھا
” جا رہے ہیں آپ؟“
 ” ہاں ڈاکٹر، ٹیسٹ آ جائیں گے تو میں آپ کو زحمت دوں گا۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا
” نہیں نہیں سر ، آپ بس مجھے ذرا سا فون کر دیں ، میں فوراً پہنچ جاؤں گا۔
ویسے تو میڈیسن بھی آ ہی جائیں گی۔“ ڈاکٹر نے تیزی سے کہا، تووہ بولا
” ہاں وہ تو ہے ۔ خیر آپ ذرا میری مدد کریں گے ، اسے گاڑی تک…“
” کیوں نہیں، ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ دونوں میری جانب بڑھے۔ وہ میرے قریب آئے تو میں نے واضح طور پر انہیں بُو سے پریشان ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ انہوں نے مجھے جلدی سے گاڑی میں ڈالا۔ مگر آفرین ہے اس شخص پر ، اس کے ماتھے پر ذرا شکن نہیں آئی۔
کتے گاڑی میں بیٹھ گئے تو وہ چل دیا۔
ہمارے سفر کا اختتام ایک فارم ہاؤس پر ہوا۔ پہلی نگاہ میں یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ جنگل میں منگل ہے ۔ دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ وسیع چاردیواری میں اندر ایک رہائشی عمارت تھی، جس کے پورچ میں اس نے گاڑی روکی اور مجھے سہارا دے کر اندر لے جانے لگا تو چند لوگ آگے بڑھے ۔ اس نے انہیں دور رہنے کا اشارہ کیا تو وہ ہٹ کر کھڑے ہو گئے ۔
وہ مجھے ایک شاندار کمرے میں لے گیا۔ جہاں جہازی سائز کا ایک بیڈ تھا۔ وہاں مجھے لٹا کر بولا
” یہاں آرام کرو، میں ابھی آتا ہوں۔ “ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا اور میں اپنے آپ پر قابو پانے لگا۔ 
تقریباً دو گھنٹے کے بعد تک میں صاف ستھرے لباس میں پڑا ہوا تھا۔ میرے سائیڈ ٹیبل پر میڈیسن تھیں۔ میرا پیٹ بھر چکا تھا اور بخار کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔
اور وہ میرے پاس کئی چکر لگا چکا تھا۔ میں اب تک اس کے بارے میں یہی اندازہ لگاپایا تھا کہ وہ اس فارم ہاؤس کا مالک ہے۔بہت ہی اچھا انسان ہے ۔ اس نے شہر میں ٹیسٹ کے بعد وہیں کے اچھے ڈاکٹروں سے رابطے کے بعد دوائیاں منگوا کر مجھے دیں۔ میرے کپڑے خود تبدیل کئے ۔ کھانا کھلایا اور میڈیسن دے کر چلا گیا۔میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جان سکا تھا۔ نہ میں نے پو چھا اور نہ اس نے مجھے بتایا۔
شاید دوائیوں کا اثرتھا، میں غنودگی میں تھا اور پھر نجانے کب سو گیا۔
جب میری آنکھ کھلی تو ہر جانب اندھیرا تھا۔ میں ویسے ہی پڑا رہا۔ کچھ دیر بعد روشنی ہوئی تو وہ میرے سامنے تھا۔ اس کے ہاتھ میں کھانا تھا۔ اس نے میرے سامنے رکھا اور پوچھا
” کیسا محسوس کر رہے ہو جوان؟“
” بہت بہتر۔“ میں نے کہا تو اس نے کھانے کی طرف اشارہ کر کے بولا
” کھاؤ۔
پھر دوا بھی لینی ہے ۔“
” آپ اپنے بارے میں مجھے نہیں بتائیں گے ۔“ میرا تجسس لبوں پر آ گیا تو وہ ذرا سا مسکرایا اور بولا
” تم کھانا کھاؤ ، میں تمہیں بتاتا ہوں۔“
” بہتر ۔“ میں نے کہا اور ٹرے اپنے سامنے رکھ لی۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا
” میں آرمی سے ریٹائر کرنل ہوں۔ میرا نام سرفراز حسین ہے ۔ میری بیوی بچے ، پوتے پوتیاں ہیں۔
وہ سب شہر میں رہتے ہیں۔ یہ فارم ہاؤس میں نے بنایا ہے ۔ میں یہاں بھی رہتا ہوں اور شہر میں بھی۔ شاید تمہارے بارے میں مجھے اس لئے بتایا گیا کہ میں ہی تمہارے نزدیک تھا۔“
” میرے بارے میں بتایا گیا تھا آپ کو؟“ میں نے پوچھا تو اس نے کہا
” ہاں،اُسی میجر نے، جو تم سے بھارتی لے گیا تھا۔میں تم تک پہنچا اور تجھے یہاں لے آیا۔ تمہارے جسم میں زہر اثر کرنے کے ابتدائی مرحلے میں تھا۔
جس کی وجہ سے یہ سب ہوا ۔ کچھ زخم تھے ، بہر حال تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔ “
” مجھے یہاں رہنا ہوگا ؟“ میں نے پوچھا
” جانا چاہو تو میں تمہیں روکوں گا نہیں۔ لیکن مشورہ دوں گا کہ کچھ دن یہاں رہو، آرام کرو ، گپ شپ کرو میرے ساتھ، پھر چلے جانا۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا ، پھر یوں بولا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو ،” اور ہاں ، تم گھر والوں کی فکر مت کرنا۔
انہیں بتا دیا گیا ہے۔ وہ مطمئن ہیں۔ کل میں تجھے فون دوں گا۔ باتیں کر لینا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں پر سکون ہو گیا۔ میں نے کھانا کھایا تو وہ خود برتن لے گیا۔ میں نے وہ دوائیاں کھائیں جو اس نے میرے سرہانے رکھ دیں تھیں۔ میں لیٹا اور ان حالات پر غور کرنے لگا کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اسی لمحے میرے ذہن میں روہی والے بابا جی دَر آئے تو میں ان کی باتوں پر سوچتے ہوئے نجانے کب سو گیا۔
                              #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط