صبح کا سورج طلوع ہو گیا تھا۔ جسپال بیدار ہوا اورکتنی ہی دیر تک پڑا سوچتا رہا کہ سندیپ اگروال عرف سندو کو کہاں تلاش کرے ۔ اسے غائب کرنے والی بھارت کی ریاستی خفیہ تنظیم ’ را ‘ تھی ۔ اسے یہ تو اعتماد تھا کہ یہاں کام کے لئے وہ اکیلا نہیں ہوگا۔ اسے لوگ مل جائیں گے ۔مگر وہ کس سے کیا کام لے ؟ اگر یہ معلوم ہوتا کہ سندو کہاں ہے ، تب کوئی پلاننگ کی جا سکتی تھی ، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ بھارت میں بھی ہے یا نہیں، یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی ہے یا اسے مار کر اس کا وجودہی ختم کر دیا گیا ہو ۔
وہ پھر چاہیے ساری عمر ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے ۔ سندو ، اسے کہاں ملتا ۔ یہ سوچتے ہوئے اچانک اسے خیال آ یا یہ سب کہیں اس کے لیے دھوکا تو نہیں ؟ اسے خواہ مخواہ ایک ایسا ٹاسک دے دیا گیا ہے جس کا سرے سے کو ئی وجود ہی نہیں ۔
(جاری ہے)
وہ ایک دم سے بے چین ہو گیا اگر جسمیندر نے ایسا کیا تو یہ بہت غلط کیا تھا۔ کیا اب وہ اس کا دوست نہیں رہا اور اسے بڑے آرام سے راستے سے ہٹا دینا چاہتا ہے؟ جسپال کو بہت سے ایسے خیال آتے چلے گئے۔
ایک دم سے اسے لگاجیسے وہ اگر یہاں کچھ دیر اور پڑا رہا تو قنوطی ہو جائے گا۔ لہذا اسے یہاں سے اٹھ جانا چاہئے ۔ وہ اٹھا اور کچن کی طرف چل دیا۔ ابھی اس نے چائے کا پانی دھرا ہی تھا کہ گرمیت کسی جن کی طرح آ گیا۔
” اوہ بھائی جی مجھے بتاؤ ، میں آ پ کو چائے دے کے آتا ہوں۔“
” میں نے کہا تمہیں کیا تکلیف دینی ہے یار۔“ جسپال نے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” اوہ نہیں بھائی جی ، آپ بیٹھ جاکر ، میں لاتا ہوں چائے ، میڈم تو ابھی دیر سے اٹھے گی ، آپ ناشتہ کہو تو وہ بھی بنا دیتا ہوں۔
“
” ابھی چائے لے آ ۔“ یہ کہہ کر جسپال اپنے کمرے کی بالکونی میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ باہر کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا کہ گرمیت چائے لے کر آ گیا۔ جسپال نے سپ لے کر کہا
”یار چائے تو تم نے اچھی بنائی ہے ۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا پھر پوچھا۔”یار گرمیت تو نے کبھی سندو صاحب کو دیکھا ہے ؟“
” کیوں نہیں جی ، چھوٹاسا تھا جب میں ان کے پاس آیا تھا، پھر یہیں پلا بڑھا ہوں۔
“ اس نے تیزی سے بتایا تو وہ ایک دم سے چونکتے ہوئے بولا
” دیکھ ، تجھے معلوم ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں، تیری میڈم کو تو صرف اتنا معلوم ہے کہ سندو کا کچھ پتہ نہیں ، اب ہمیں تلاش کرنا ہے ، تو مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ تجھے کس پر شک ہے ۔“ جسپال نے پوچھا
” اگر مجھے معلوم ہوتا نا تو سندو صاحب کو اپنی جان دے کر بھی لے آتا۔“ اس نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھااور بولا
” چل تو مجھے یہ بتا کہ سندو کو سب سے زیادہ کس پر اعتماد تھا۔
وہ اپنے اہم مشورے کس سے کرتا تھا۔“ جسپال نے پوچھا
” ہاں ۔! یہ میں بتا سکتاہوں، یہیں چندی گڑھ کا ہی ایک نوجوان ہے ، سندو صاحب جتنی عمر تھی اس کی ۔ نام اس کا ہے سردار کلیان سنگھ لیکن سب اسے کولی کہتے تھے ۔ “
” تھے کا کیا مطلب؟“ جسپال نے چونک کر پوچھا
” بزنس تو وہ پہلے ہی کرتا تھا،اب اس کا بزنس بہت بڑھ گیا ہے ۔ وہ بڑا آدمی ہے، اب سارے اسے کلیان سنگھ ہی کہتے ہیں۔
“ گرمیت نے بتایا
” یہیں چندی گڑھ میں ہوتا ہے یا …“ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا
” یہاں ہوتا ہے جی ، یہاں کی سیاست میں اس کا بڑا نام ہے ، سندوصاحب سے جب دوستی تھی ، تب بھی سیاست میں اس کا نام بولتا تھا۔“ اس نے تیزی سے بتایا
” اچھا، تم کیا سمجھتے ہو کہ سندو کا سب سے بڑا دشمن کون تھا ؟“ اس نے پوچھا
” کئی سارے تھے ، کوئی ایک تھا۔
حکومت کے لوگ اس کے پیچھے تھے ، انڈر ورلڈ کے لوگ الگ ، کاروباری دشمن الگ، کوئی ایک نام تونہیں ہے ۔“ گرمیت نے بتایا
” اچھا تو ایساکر ، بہترین ناشتہ بنا میں اتنے میں تیار ہوتا ہوں۔ اس دوران تو نے یہ سوچنا ہے کہ سندو کا سب سے بڑا دشمن کون تھا اور وہ کہاں پایا جا سکتا ہے، بس اتنا یاد کر کے بتا۔“ جسپال نے اسے خالی مگ دیتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوئے پلٹ گیا۔
جسپال نے ایک سرا پکڑ لیا تھا۔ اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ اس کے آخر میں کچھ ملتا بھی ہے یا نہیں۔ اسے تو کوشش کرنا تھی۔ اسے نجانے کب یہ سنا تھا کہ چوری تلاش کرنی ہو تو پہلے اسی جگہ سے کرو ، جہاں چوری ہوئی ہو۔ بلا شبہ وہاں سے کوئی نہ کوئی ایسی راہ مل جائے گی۔ اور اگر چوری غائب کرنی ہو تو اس جگہ وہیں سے بھٹکایا جا سکتا ہے ۔
وہ تیار ہو کر ناشتہ کر چکا تو اسی دوران جسمیندر کا فون آ گیا
” لگتا ہے اچھا خاصا آرام کر لیا ہے تو نے۔
“
” تجھے خواب آگیا، یا ویسے ہی کہہ رہے ہو ؟“ جسپال نے خوشگوار موڈ میں کہا
” یار ہم جس دنیا میں ہیں نا ، وہاں لہجے سے نیت پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، تم نے فون نہیں کیا ، میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ تم آرام کر رہے ہو۔“
” میں نے آرام بھی کر لیا اور خود کو تیار بھی ، اب تم بولو۔“ جسپال نے کہا
” پہلی بات تو یہ ہے کہ نیہا کے اس ٹھکانے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہئے، اس کے پاس فی الحال کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔
تم جس قدر جلدی ہو سکے یہاں سے شفٹ کر جانا، دوسری بات یہ ہے کہ ابھی یہاں سے نکلو تو سکھنا جھیل کے جنوب مغرب میں گرو ساگر صاحب کاگروداوہ ہے ۔ وہاں ماتھا ٹیکنے پہنچو، وہیں کچھ لوگ تمہیں مل جائیں گے ۔ اگر چاہو تو اسی گرودوارے میں رہ سکتے ہو۔“
” مجھے ٹھکانے کی پرواہ نہیں ، بس بندے کام کے دے دینا، باقی رَبّ جانے۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔
نیہا ابھی تک سو رہی تھی ۔ میں نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور باہر نکلتا چلا گیا۔
سرور روڈ سے آگے جا کر اسے کچھ رکشے کھڑے دکھائی دئیے ۔ اس نے ایک رکشہ لیا اور گرودوارے چل پڑا۔اس نے گولف کلب کی طرف سے راستہ لیا تھا۔ تقریباً بیس منٹ بعد وہ گرودوارے کے سامنے تھا۔ ماتھا ٹیکنے کے بعد وہ پلٹ کر صحن میں آیا تو ایک نوجوان لڑکے نے اس کے سامنے آکر کہا
” ست سری اکال جسپال بھائی جی۔
“
” ست سری اکال ، کیا نام ہے تمہارا۔“ جسپال نے پوچھا تو وہ بولا
” نام تو سچے گرو مہاراج کا ہے جی ۔ ہم تو سیوک ہے ہیں جی ۔ آپ سیوک سنگھ ہی کہہ لو جی۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک طرف اشارہ کیا، جہاں ایک لڑکی کھڑی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔” آئیں جی ، میں آپ کو اپنی دوست سے ملواؤں۔“ یہ کہہ کر وہ اس طرف بڑھ گیا۔ جسپال اس کے پیچھے چلا گیا۔
ان کے پاس پہنچے تو نارنجی رنگ کے شلوار قمیض میں فربہ مائل لڑکی کی طرف اشارہ کرکے بولا
” یہ رونیت کور ہے، سمجھ لیں میری باس ہے ، یہیں چندی گڑھ سے پڑھی ہے ۔ باقی آپ اس سے خود پوچھ لیجئے گا۔“
” ست سری اکال جی ۔“ اس لڑکی نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، جسپال نے اس کے چہرے پر دیکھا، اس کی آنکھیں زیادہ روشن اور باتیں کرنے والی تھیں۔
اس نے بھی فتح بلائی تو دوسری کی طرف اشارہ کر کے کہا
” اگر یہیں بیٹھ کے بات کرنی ہے تو وہاں دلان میں بیٹھتے ہیں ، ورنہ کہیں باہر چلتے ہیں۔“
” میرے خیال میں یہیں باہر بیٹھ جاتے ہیں۔“ جسپال نے کہا تو سیوک سنگھ باہر کی طرف چل پڑا ، وہ تینوں بھی اس کے پیچھے چل پڑے ۔ گرودوارے کا کا فی کھلا لان تھا ۔ وہ وہیں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر اجنبیت دور کرنے میں لگ گئی ۔
تبھی جسپال نے ان کی طرف دیکھ کر کہا
” مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری کیسے مدد کریں گے ، لیکن ہمیں ایک آدمی تلا ش کرنا ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے ۔ زندہ بھی ہے یا پورا ہو گیا ہے ۔“
” آپ کے ذہن میں کوئی بات ہے ؟“رونیت کور نے پوچھا
” ہاں ہے ۔ مجھے ایک ایسے بندے سے اس کی تلاش شروع کرنا ہو گی جس پر مجھے محض شک ہے ۔
“ جسپال نے گہری سنجیدگی سے کہا
” کون ہے وہ ؟“ سیوک سنگھ نے پوچھا
” وہ اس شہر کا مشہور بزنس مین کلیان سنگھ ہے۔ مجھے اس کے بارے کچھ معلومات چاہیے۔“ جسپال نے کہا تو رونیت کور اور سیوک سنگھ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، پھر رونیت کور بولی
” جو بھی معلومات ہوں گی ، مل جائیں گی۔“
” تو پھر آج ہی سے کام شروع کر دیں۔“ جسپال نے کہا تو سیوک بولا
” اگرآپ گرودوارے میں رہنا چاہتے ہیں تو بات کر لیتا ہوں۔ مسئلہ کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن اگر آپ کہیں دوسری جگہ رہنا ہے توآپ ہمارے ساتھ چلیں ،یہ رونیت کور آپ کی میزبان ہو گی ۔“
” چلو۔“ اس نے اُٹھتے ہوئے کہا تو وہ دونوں اس کے ساتھ چل پڑے ۔
#…#…#