Episode 82 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 82 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” ہم کچھ بھی ثابت نہیں کرنا چاہتے ، بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اس بار میلہ لگے اور تمہاری نگرانی میں لگے ۔“ ایک بزرگ نے کہا تو دوسرا فوراً بولا
” نگرانی میں نہیں بلکہ تم خود میلہ لگواؤ، انتظام ہم کر دیں گے ۔ علاقے کے شہ زوروں میں بہت مایوسی پھیل رہی ہے۔ وہ سب سارا سال تیاریاں کرتے ہیں۔“
” آپ سب میرے بزرگ ہیں ، یہ میں نے پہلے ہی اقرار کر لیا ہے ، آپ اس طرح نہ کریں، میں بہت چھوٹا سا بندہ ہوں ،میری کیا جرات کہ میں علاقے کے خلاف ہو سکوں ۔
آپ جو چاہیں سو کریں ، آپکو پورے علاقے نے اختیار دیا ہوا ہے ۔ مجھ سے جو خدمت چاہیں وہ میں حاضر ہوں۔“ میں نے انتہائی انکساری سے کہا۔
” دیکھو۔! سیدھی سی بات ہے ، علاقے کے لوگوں کو تمہاری طرف سے ہی خوف ہے ۔

(جاری ہے)

تم کچھ بھی کر سکتے ہو۔ تمہاری مرضی ہوئی تو میلہ لگ جائے گا ورنہ …“اُن میں سے ایک بزرگ نے کہتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔

” ورنہ کیا؟“ میں نے پوچھا
” ورنہ میلے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر تم میلے کی حفاظت کا ذمہ لو تو ہم میلے کا انتظام کرتے ہیں۔“ ایک نے کہا تو میں چونک گیا۔لیکن بڑے تحمل سے جواب دیتے ہوئے کہا
” یہ آپ سیدھے سیدھے مجھ پر الزام تراشی کر رہے ہیں کہ میں ہی میلے کو اجاڑنے کا سبب ہوں۔ آپ ایسا نہ کریں۔ مجھے آپ الجھن میں نہ ڈالیں ، میں اگر ذمہ داری لے لوں تو وہاں کوئی بھی اپنا کام کر جائے ۔
بات تو مجھ پر آئے گی۔ اور اگر میں ذمہ داری نہیں لیتا تو کوئی اپنا کام کر گیا تو پھر بھی مجھی پر بات ۔ آپ لوگ میرے خیر خواہ ہیں یا دشمن بن کر آئے ہیں ۔ کس نے بھیجا ہے آپ کو ؟“ میں نے ایک دم سے کہا تو ان میں ایک دو مسکرا دئیے ۔ میں نے ان کی توقع کے مطابق بات کی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ تبھی کچھ دیر خاموشی کے بعد ایک بولا
” دیکھو ۔
ابھی کچھ وقت ہے تم کل تک سوچ لو ٹھنڈے دل سے۔ ہم پھر آ جائیں گے۔ اب میلہ ہونا یا نہ ہونا تمہاری مرضی پر ہے ۔“
” ٹھیک ہے۔“
 اب ہم چلتے ہیں۔“ ایک نے کہا تو سبھی اٹھ گئے، انہوں نے میری ہاں یانہ، نہیں سنی اور خاموشی سے ہاتھ ملا کر باہر چلے گئے۔ وہ جب چلے گئے تو جسپال نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
” لگتا ہے تیرے خلاف کافی نفرت پھیلی ہوئی ہے یہاں پر ۔
اور یہ ’کھچرے بابے‘ تجھے پھنسانے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔“
” اور میں بھی جانتا ہوں کہ یہ کس کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ بڑی زبردست پلاننگ کی ہوئی ہے انہوں نے ۔ علاقے کے لوگوں میں جان بوجھ کر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔“ میں نے کافی حد تک دکھ سے کہا تو تانی تڑپ کر بولی
” تو پھر کیا ہوا جمال، نفرت ہی ہے نا۔ ہم اسے محبت میں بدل دیں گے۔
یہی بابے تمہارے گُن گائیں گے۔ میں کہتی ہوں لگائیں میلہ، اور پھر دیکھتے ہیں کون سے دشمن ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔“
” دشمن بھی سامنے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ خیر، جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“ میں نے سکون سے کہا تو وہ بولی 
” اب وہ آئیں نا تو کہہ دینا ، ہم میلہ کروائیں گے۔“ 
” اوہ تانی تُو یہ سب جذباتی انداز میں کہہ رہی ہے ۔
دیکھ رہی تھی کہ وہ سب سوچ کر آئے ہیں ۔ یہاں مقامی ہی نہیں ، باہر کے لوگ بھی اپنا کام دکھائیں گے۔میں نہیں چاہتا کہ وہ ساری کالک میں اپنے منہ پر تھوپ لوں۔ مجھے انہی لوگوں میں رہنا ہے ، انہیں میں کام کرناہے۔ میں یہاں نفرت نہیں محبت چاہتا ہوں۔ میںآ ج جا کر پیرزادہ وقاص کو گولی ماردوں۔ کیا سمجھتی ہو، میرے بارے افواہیں یقین میں نہیں بدل جائیں گئیں؟“
” تو پھر کیا کریں؟“ اس نے اُکتاتے ہوئے کہا تو میں نے سکون سے جواب دیا
” بتانے والے خود ہی بتا دیں گے ۔
دیکھتے ہیں، وہ کب اور کیسے بتاتے ہیں۔“
” چلو جی قصہ ہی ختم ، ویسے یار یہ تیرا میلہ ہوتا کب ہے ۔ “ جسپال نے پوچھا 
’ کیوں ، تو کیوں پوچھ رہا ہے ؟“ میں نے پوچھا
” اگر جلدی ہو جائے تو میں ادھررہوں، اور اگر دیر ہے تو چلا جاؤں ۔ یا پھر جو بھی فیصلہ کرنا ہو جلدی کر لینا، مجھے کچھ جلدی ہے ۔“ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تو میں ایک دم سے ہنس دیا۔
اس نے بڑی گہری چوٹ کی تھی۔ 
 ”جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ فی الحال تو سکون کے یہ دن گذارو۔“ میں نے کہا تو وہ بولا
” تم اسے سکون کہتے ہو، ادھر ہر پریت میری راہ تک رہی ہو گی۔“ جسپال نے حسرت سے کہا
” یار تمہیں واقعی اُس سے محبت ہو گئی ہے ۔“ میں نے پو چھا تو وہ مسکرا دیا
”ہاں۔ دل چاہتا ہے کہ اس کے پاس رہوں یا وہ میرے پاس رہے ۔
شاید اسے ہی محبت کہتے ہیں۔“ وہ دھیمے سے لہجے میں بولا۔ تبھی تانی نے گہری سنجیدگی سے کہا 
”محبت قربت کی محتاج تو نہیں ہے ۔ہزاروں میل کی دوریاں بھی ہوں نا تو محبت کم نہیں ہو جاتی ۔ یہ دوریاں ،یہ ہجر تو محبت بڑھاتی ہیں۔ دوسرے کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ وہ زیادہ یاد آتا ہے ۔“
” کیا تم قربت کی لذت سے انکار کرو گی ؟“ جسپال نے کہا تو وہ بولی 
” محبت ہونا تو پھر ہجر کیا اور وصال کیا، دونوں ہی لذت دیتی ہیں۔
” اچھا یہ محبت کے فلسفے کو کچھ دیر ایک طرف رکھو۔ ابھی چلیں، اماں انتظار کر رہی ہوگی ۔ چل کے ناشتہ تو کر لیں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بھی اٹھ گئے ۔کچھ دیر بعد ہم گھر پہنچ گئے توسوہنی نے ناشتہ لگا دیا ۔ وہ ہمارے انتظار ہی میں تھی۔
دوپہر سے ذرا پہلے میں اور چھاکا باہر والے کمرے میں تھے۔باقی سب حویلی میں تھے ۔ وہ اماں کو بھی وہیں لے گئے تھے۔
میں نے ڈیرے پر ہونی والی باتوں کے بارے میں اسے بتایا تو وہ چند لمحے سوچتا رہا اور پھر بولا
” پیر زادہ وقاص نے اپنی طرف سے یہ سازش کی ہے۔ وہ ہمیں پورے علاقے میں گندہ کرنا چاہتا ہے۔“
” پھر کیا کہتے ہو تم؟“ میں نے اس سے پوچھا
” میرے خیال میں تو سیدھے پیرزادہ وقاص ہی کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس پر کوئی اور مدعا ڈال کے ، اسی کو دبا دیتے ہیں۔
“ اس نے تیزی سے کہا
” لیکن وہ جو کیڑا لوگوں کے دماغ میں ڈال چکا ہے، اس کا کیا کیا جائے۔ اسے گولی مار دینا بہت آسان ہے۔وہ تو یہ چاہتا ہے ہم اس پر چڑھ دوڑیں اور وہ مظلوم بن جائے۔ منافق کا یہی تو کام ہوتا ہے کہ وہ مظلوم بن کر ہمدردیاں حاصل کرتا ہے۔ ایسا نہیں چھاکے ۔ سازش کامقابلہ ایسے کیا جائے کہ اس کی سازش اسی پر الٹ دی جائے۔یا کم از کم وہ ننگے تو ہوجائیں۔
ان کا گند باہر آجائے“ میں نے اسے سمجھایا تو وہ سوچتے ہوئے لہجے میں بولا
” تو پھر ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا ہوگا ، جب تک وقت ہمیں ایسا کوئی موقعہ نہ دے دے ۔“
” ہاں۔! یہ موقعہ ہمیں تلاش کر نا ہو گا۔پورے علاقے میں پھیل جاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ میرے رَبّ نے ہماری مدد کا ضرور بندو بست کیا ہو گا۔“ میں نے یقین سے کہا تو چھاکا سر ہلا کر رہ گیا۔
وہ سارا دن یونہی سوچتے ہوئے گذر گیا۔ میں گولی چلا سکتا تھا۔ سامنے آئے دشمن سے بھڑ سکتا تھا۔لیکن اس سازش کا مقابلہ کیسے کیا جائے، اس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔جسپال واپس کینیڈا جانے کی تیاریوں میں تھا۔ اس کی سفری دستاویزات لاہور میں سوہنی کے گھر پر محفوظ تھیں ۔وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اس کے ساتھ لاہور جاؤں اور اسے وہاں سے الوداع کہوں۔
یہ طے کرتے،کھاتے پیتے، باتیں کرتے دن گذر گیا۔
 رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا ۔اماں اور سوہنی گاؤں والے گھر میں چلی گئی تھیں۔میں اور جسپال باہر والے کمرے میں سونے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک مجھے یوں لگا جیسے کوئی مجھے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔میں نے تیزی سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھالیکن میں اپنی کلائی پر گرفت کو محسوس کر رہا تھا۔
کوئی مجھے کھینچ رہا تھا۔ میری طرح جسپال بھی حیرت سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ وہ بھی میرے جیسی کیفیت میں تھا۔ کوئی نادیدہ قوت چاہتی تھی کہ ہم اس کے ساتھ چلیں۔ میں نے مزاحمت چھوڑ دی اور اٹھ گیا۔ 
باہر والا دروازہ خود بخود کھل گیا ہوا تھا۔میں اندھیری گلی دیکھ رہا تھا۔میں نے جسپال کی طرف دیکھا۔وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ کر لیا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم دونوں ہی اٹھ گئے۔ وہ گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی۔ہم گلی میں آگئے تو وہ گرفت بھی ختم ہو گئی۔ اچانک ہمارے سامنے زمین پر ایک دودھیا لکیر پھیل گئی۔ جو ہمارے قدموں سے شروع ہوئی اورسامنے بڑھتی ہی چلی گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ہمیں راستہ سمجھا رہی ہے ۔ وہ لکیر گلی پار کر گئی تھی۔ ہم دونوں جیسے ہی اس لکیر پر چلنے لگے۔
ہمارے قدم اٹھ گئے۔جیسے ہوا میں معلق ہو گئے ہوں۔ ہم اس لکیر پر آگے ہی آگے بڑھنے لگے۔ کوئی نادیدہ قوت ہمیں اُڑا کر لے جانا چاہتی ہوں۔ ہم نے مزاحمت تو پہلے ہی چھوڑ دی تھی۔ ہم بے وزن ہوگئے اور اس لکیر پر اُڑتے ہوئے گاؤں سے باہر چلے گئے۔ وہاں سے بھی آگے نہر بھی پار کر گئے۔یہاں تک کہ ہم اسی میلے والے میدان میں مسافر شاہ کے تھڑے کے پاس آن رکے،جہاں پر وہ لکیر آ کر ختم ہو گئی تھی۔
 اسی لمحے میرے اندر اطمینان پھیل گیا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب مجھے کوئی نہ کوئی بات سمجھانے کے لئے ہو رہا ہے ۔ دشمن اگر سازش کر رہے تھے تو ہماری مدد کے لئے بھی کوئی موجود تھا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ مسافر شاہ کے تھڑے پر دودھیا روشنی پھیل گئی۔ اس میں روہی والے بابا جی کھڑے مسکرا رہے تھے۔
” وقت آ گیا ہے کہ اب تمہیں تیرے بارے میں بتا دیا جائے۔
” میں کون ہوں، کیا یہ آپ جانتے ہیں؟“میں نے مودب لہجے میں پوچھا
” میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا کہ میں تمہاری تین نسلوں سے تجھے جانتا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ جانتا مگر مجھے حکم ہی تین نسلوں تک کا ہوا ہے ۔ “ انہوں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتایا
” لیکن بابا جی آپ نے تو یہ بھی کہا تھاکہ آپ مجھے صرف دو بار ملیں گے۔
مگر آپ تو مجھے اب تک کئی بار مل چکے ہیں۔ اسے میں کیا سمجھوں۔“ میں نے اپنے دماغ کی الجھن ان کے سامنے رکھ دی ۔
” تمہاری یہ سوچ ہونی چائیے، کیونکہ ابھی تک تمہیں اس راز کی سمجھ نہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ تم اسے سمجھ جاؤ گے ۔ اور یہ یقین رکھو کہ میں تمہیں اب تک صرف ایک بار ہی ملا ہوں۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
”یہ تومزید الجھن والی بات ہو گئی بابا جی ۔
“ میں نے کسی ضدی بچے کی مانند کہا تو وہ بولے 
”کہا نہ ابھی تمہیں سمجھ نہیں ۔ ابھی تم صرف دیکھو، اسے سمجھنے کی کوشش کرو گے تو پاگل ہو جاؤ گے ۔اپنے اندر صرف جذب کی قوت پیدا کرو۔ اب دیکھو۔! میں تمہیں تمہارے بارے میں بتاناچاہتا ہوں اور تم دوسری باتوں میں الجھ رہے ہو۔“
”نہیں بابا جی ، جیسا آپ چاہیں۔“ میں نے تیزی سے کہا تو چند لمحے خاموش رہ کر بولے

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط