وہ حویلی میں موجود اپنی خواب گاہ میں بڑے کروفر سے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے سے اس شخص کا چہرہ ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم اور غیر معمولی واقعہ تھا۔ جس سے اس کا غرور و تکبر خاک میں مل گئے تھے، جو اس کی موت کے مترادف تھا۔ راجپوتوں میں یہ روایت رہی تھی کہ اگر وہ میدان میں ہار جاتے تو پیٹھ دکھانے کی بجائے مر جانے کو ترجیح دیتے تھے۔
اس شخص نے تو اُسے ایسی موت دے دی تھی، جو لمحہ بہ لمحہ اسے مر جانے کا احساس دے رہی تھی ۔ اس کے اندر کوئی پکار پکار کر کوئی کہہ رہا تھا کہ ناجائز طریقے سے وہی جیتا کرتا ہے ، جن کے بدن پر لگی مٹی ناجائز ہوا کرتی ہے۔جیت ہار تو کھیل کا حصہ ہوا کرتی ہے ۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسے ذاتی انّا کا مسئلہ بنا لیاجائے ۔
(جاری ہے)
یا پھر ناجائز مٹی سے بنے جسموں کی فطرت ہی یہی ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی قوت کے اظہار کا یہی طریقہ اپناتے ہیں۔
اس وقت جبکہ وہ میدان میں تھا اوراس نے بڑے ظالمانہ انداز میں نووارد کے بارے میں موت کی خواہش کی تھی۔ وہی لمحہ اس کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔جس کی اذیت وہ اب محسوس کر رہا تھا۔ وہ ایک خطرناک سانپ کی مانند ہو رہا تھا، جس کا زہر نکال دیاجائے ۔ مجروع انّا اور احساسِ شرمندگی کے ساتھ اس کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ انسان تھا ، شاید اس لئے ایسا سوچ رہا تھا، ورنہ ناجائز مٹی سے بنے ایسے جذبات کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس شخص نے ٹھاکر دیال رائے کو ایک ایسی اُمید دی تھی، جس سے وہ مایوس ہو چکا تھا۔ اس کی یہ بات تو اس کے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی تھی کہ ” جاؤ، تمہیں عقل سمجھ دینے والا اور یہی باتیں سمجھانے والا، تیری نسل سے پیدا ہوگا۔ پھر میں تم سے آ کر پوچھوں گاکہ بول، پرکھوں کی باتیں کیا ہوتی ہیں، تیرا خون تجھے بتائے گا کہ بے جان مورتی میں موت اور انسانی صورت میں زندگی پڑی ہے ، جا“ وہ جس قدر اس بات پر سوچتا اسی قدر اسے اس کی دوسری باتوں پر یقین آتا جا رہاتھا۔
اگرچہ اسے اپنے دھرم کے انوسار کچوکے ہی دے رہی تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی مزید سوال بھی اٹھ رہے تھے۔ اس شخص کی یہ بات کہ” پھر بھی … پھر بھی تمہیں اتنا غرور ہے …؟ کیا ایک عظیم طاقت کا احساس رکھنے والا، اپنے بارے میں نہیں سوچتا ہے کہ وہ خود کیا ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ مٹی پتھر کی بنی ہوئی بے جان مورتیاں کسی کو اولاد دینے کی سکت رکھتی ہیں۔
بے جان تو سراپا موت ہے، اس میں زندگی کہاں، اور تم اس میں زندگی تلاش کر رہے ہو؟“ اسے تکلیف تو دے رہیں تھیں، لیکن وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ دوسرا کون ہے جو اولاد دیتاہے ؟ میں اگر اپنے دھرم کے انوسار انہی دیوی دیوتاؤں کو اولاد دینے والا سمجھتا ہوں تو پھر میں بے اولاد کیوں ہوں؟ جن سے میں نے اولاد مانگی ، کیا وہ اس قدر بے بس ہیں کہ میری نسل کا وارث مجھے نہیں دے سکتے ہیں؟ میری بیوی جیوتیکاکی گود نہیں بھر سکتے ہیں؟ جبکہ وہ تو دیوانوں کی مانند پرار تھنا کرتی ہے ۔
ہم نے ہر طرح کی بھینٹ دی ہے، کیا کسی دیوی دیوتا نے کچھ بھی سوئیکار نہیں کیا؟ آخر کیوں ؟ کیا کمی کوتاہی ہے ؟ کیا میرے بھاگیہ میں ایسا لکھ دیا گیا ہے ، اگر ایسا لکھ دیا گیا ہے تو کس دیوی یا دیوتا نے لکھا ہے ، کیا میں اس لئے بے اولاد ہوں کہ جس نے لکھا اسے میں نہیں جانتا ہوں؟ سوالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
یہ سوچ یہیں رُک جاتی تو ایک نیا سلسلہ دراز ہو جاتاکہ وہ شخص کیسی شکتی رکھتا تھا ؟ تبھی وہ سارے منظر اس کی نگاہ میں گھوم جاتے۔
اس کی تلوار بازی کے جوہر، ایک ہی وار میں ڈھال کو دو ٹکڑے کر دینا، اس کے چہرے کا جلال ، میدان میں جوان ِرعنا، اور راستے میں بوڑھا، مگر چہرہ اتنا ہی پر کشش، دمکتا ہو ا جیسے ماہتاب، اور اس وقت تو وہ کانپ کر رہ گیا تھا جب اس نے تیر نکال کر اسے تھاما دیا تھا، اس کی ہمت نہیں پڑی تھی کہ اسے روک سکے ۔ انہی شکتیوں کا رعب تھا کہ وہ اس شخص کی بات پر ذہن اور دل گواہی دے رہاتھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
کسی بھی زیرک اور عقل مند شخص کے کسی بھی قسم کی بے بسی باعث سکون نہیں ہوتی۔ اس کے دماغ پر وہی شخص حاوی تھا اور بے چینی تھی کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہی تھی۔
وہ انہی سوچوں میں الجھا ہو اتھاکہ اس کی پتنی جیوتیکااس کے پاس آ گئی ۔ اور بڑی محبت سے اس کے پاس بیٹھ کر بولی
” ایک بات پوچھوں ناتھ ؟“
” ہاں ۔! پوچھو۔“ اس نے ہنکارا بھرنے والے انداز میں کہا۔
ٹھاکر دیال رائے کی سنجیدگی کم ہی نہیں ہو پائی تھی ۔
” میلہ ختم ہوئے کئی دن ہو گئے ہیں ۔میں نے دیکھا ہے کہ جب سے آپ واپس آئے ہیں، آپ کو چپ لگ گئی ہے ۔ نہ ہنستے ہیں اور نہ ہی بات کرتے ہیں۔ بس ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ناتھ ؟“ جیوتیکا نے بہت مان اور محبت سے پوچھا تو ٹھاکرد یال رائے نے ایک طویل سانس لی اور بولا
”ہاں جیوتیکا، ایک ایسا انہونا واقعہ ہوا ہے کہ جسے میں چاہتے ہوئے بھی اپنے دماغ سے نہیں نکال پا رہا ہوں۔
“
” ایسا کیا ہو گیا ہے ناتھ؟“ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی تو ٹھاکر د یال رائے نے اس کی طرف دیکھا، پھر چند لمحوں تک یونہی دیکھتا رہا۔ جیسے وہ اس کی بات کا جواب دینا چاہ رہا ہو لیکن اسے لفظ نہیں مل رہے ہوں ۔ تب جیوتیکا نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پیار سے اپنی بات دہرائی تو جیسے اسے ہوش آ گیا۔ اس نے آہستہ آ ہستہ ساری بات سنا دی۔
پھر اپنی خواب گاہ کی دیوار پر سجائے اس تیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” یہ وہی تیر ہے جیوتیکا۔ ! وہ شخص میرے دماغ سے نہیں نکل رہا ہے ۔ ایک طرف اس نے مجھے موت دے دی ۔ میرا غرور، میرا تکبر ، میری تمکنت اور میری شان اس نے اپنے پاؤں تلے مسل دی۔ اور یہی ایک راجپوت کی موت ہوتی ہے ۔ مجھے وہیں خود کشی کر لینی چاہیے تھی۔ لیکن ۔۔۔۔! اسی زبان سے اس نے مجھے جیون بھی دان کر دیا ہے ۔
اس پر مجھے غصہ بھی بہت آ رہا ہے اور اس کی بات پر یقین کر لینے کو دل بھی چاہتا ہے ۔ لیکن…“
” لیکن کیا ناتھ ؟“ جیوتیکا تیزی سے بولی
” میں ڈرتا ہوں۔‘ ‘وہ شرمندہ لہجے میں بولا
”آپ ناتھ … آپ ڈرتے ہیں۔ مگر کس سے ؟“ اس نے حیران کن لہجے میں پوچھا
”اپنے آپ سے … اپنے بھاگیہ سے اور …“ وہ یوں بولا جیسے اپنے آپ سے لرز گیاہو ۔
تو وہ بھی ڈولتے ہوئے لہجے میں بولی
” میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے ناتھ، بھگوان کی سوگند، میں مر جاؤں گی اگر آپ نے اپنی بات مجھ سے نہ کہی ۔ کیوں ڈرتے ہیں آپ؟ کیا ہو گیا ہے ؟ آپ تو بھگوان سے بھی لڑنے کی جرات رکھتے ہیں۔ تو پھر بھی ؟“
” تم غلط نہیں ہو جیوتیکا۔! لیکن یہ سوچو، میرے غرور کو مٹی میں ملا دینے والا، مجھے میری نسل کے وارث کا اعلان بھی کر رہا ہے۔
میں کہتا ہوں یہ سب ہوا کیوں؟“ اس کا لہجہ دل دہلا دینے والا تھا جیسے کوئی مرتے ہوئے زندگی کی بھیک چاہ رہا ہو۔
”آپ…“ اس نے کہنا چاہا مگر ٹھاکر دیال رائے نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
”اسی برس گرمیوں میں مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی تھی۔ رام گڑھ میں ایک ہی گھر مسلمانو ں کا تھا۔ اور اس کے پریوار میں صرف تین لوگ تھے ۔“
” ہاں میں جانتی ہوں۔
وہ کسان ہے، اور ان گرمیوں میں ان کی فصل کو آگ…“یہ کہتے ہوئے جیوتیکا بری طرح چونک گئی۔ اور پھر حیرن کن نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ یاس بھرے لہجے میں بولا
” وہ آگ میں نے لگوائی تھی۔ “
” کیوں ناتھ ،کیوں؟“ وہ حیرت سے بولی
” تاکہ وہ ایک ایک دانے کو محتاج ہو جائے ۔ وہ میرے پاس آ کر گڑ گڑائے، مجھ سے بھیک مانگے یا پھر یہاں سے چلا جائے ۔
“ وہ حسرت سے بولا
” آپ نے ایسا کیوں کیا ناتھ ؟“ اس نے پوچھا
” وہ رام گڑھ میں ایک ہی پریوار تھا۔ میں چاہتا تو ان تینوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کر دیتا،یا پھر انہیں یہاں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیتا۔ مگر اس طرح بات پورے علاقے میں پھیل جاتی ۔ میں جانتا ہوں کہ علاقے میں اتنے سے مسلمان ہیں جو سب مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔
میں نے ایسا کرنے کے لئے عقل کا استعمال کیا۔ میں نے اس کے کھیتوں کو آگ اس لئے لگوائی تھی کہ وہ دانے دانے کو محتاج ہو کر میرے پاس آئے اور میں اس کی زمین منہ مانگے دام دے کر خرید لوں اور اُسے یہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دوں۔ “
” لیکن ایسا ہوا نہیں ناتھ ۔ وہ پریوار تو اب بھی رام گڑھ میں موجود ہے ۔ وہ آپ سے مدد مانگنے بھی نہیں آیا۔
“ جیوتیکا نے تیزی سے کہا
” ہاں ایسے ہی ہوا ہے ۔ معلوم نہیں وہ اپنا جیون کیسے بتا رہے ہیں۔ وہ میرے پاس ہی نہیں کسی کے پاس بھی مدد مانگنے نہیں گئے ۔میں نے سوچا تھا کہ میں میلے سے آنے کے بعد اس کو خود بلاؤں گا اور اسے یہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دوں گا ۔“ ٹھاکر نے حسرت سے کہا
” آخرکیا بگاڑا تھا انہوں نے، جو آپ نے انہیں یہاں نہیں رہنے دینا چاہ رہے ہیں۔
وہ تو کسی سے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے، یہ تو دو برس پہلے یہاں آئے ہیں، ان کااتنا اثر بھی نہیں ہے؟۔“ جیوتیکا نے پوچھا
”یہ معاملہ دھرم کا بھی ہے جیوتیکا۔! پنڈت چرن جی لعل نے مجھ سے کہا کہ یہ مسلمان ملیچھ ہوتے ہیں۔ شودروں کی مانند، انہی کا منحوس سایہ اس علاقے پر ہے کہ انہی دو برسوں میں نہ بارشیں ہوئیں ہیں اور نہ فصلیں اچھی ہوئیں ہیں اور یہ علاقے میں انہی مسلوں کی نحوست ہے کہ میرے ہاں وارث پیدا نہیں ہو رہا ہے۔
“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوا اور پھر کہتا چلا گیا،” کیاکروں جیوتیکا، جب میں تیری طرف دیکھتا ہوں، اتنے سال کی رفاقت… اپنی وراثت اور ایک بیٹے کی خواہش ،مجھے پاگل کر دیتی ہے ۔ تم ہی بتاؤ، ہم نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کس مندر میں نہیں گئے ، کہاں کہاں ماتھا نہیں ٹیکا، یہاں تک کہ کمبھ کے میلے میں بھی گئے ، کتنے سادھو ، سنتوں سے پرار تھنا کروا کے دیکھ لی ،کتنے پیڑوں پر تم نے سُوت نہیں باندھا، گاؤ ماتا کی پرارتھنا تم اب بھی کرتی ہو، یہاں مندر بنوایا، کیا ہم نہیں جانتے کہ ہم میں ایک بیٹے کی خواہش کتنی شدید ہے ۔
کیا ہم نہیں چاہتے کہ بھگوان ہم پر دِیاّ کرے ۔“ ٹھاکر کے لہجے میں مایوسی گھلی ہوئی تھی۔
” چاہتے ہیں ، کیوں نہیں چاہتے۔ اگر پنڈت جی نے کہا ہوگا تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ انہیں یہاں سے نکال دیں ، ان کا جو نقصان ہوا ، اس سے زیادہ انہیں دے دیں۔آپ نراش نہ ہوں۔ شاید بھگوان ہماری کٹھنائی اس طرح دورکردے ۔“ وہ بھی اس کی ہمنوا بن گئی۔ٹھاکر خاموش رہا تھا تو وہ بولی ،” آپ میری بات مان لیں ناتھ ۔
“
” نہیں شاید میں مُسّلے پریوار کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کر پاؤ ں گا۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا
” کیوں؟“ وہ حیرت سے بولی
” مجھے لگتا ہے جیوتیکا، جیسے اس مُسّلے پریوار کو ستانا ہی میرا دوش ہے ۔ پنڈت نے جو کہا اس کا الٹ ہو رہا ہے ۔ اس بندے کی شکتی میں اپنے آنکھوں سے دیکھی ہے ۔ وہ کوئی سپنا نہیں، حقیقت تھی ،اگر اب بھی میں نے آنکھیں بند رکھیں تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔
“
” کیا ایسا کرکے دھرم بھرشٹ نہیں ہوگا؟“ جیوتیکا نے حیرت سے لرزتے ہوئے کہا
” کیا دھرم اور کیا اَدھرم، یہ تو کچھ اور ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے بھاگیہ میں کیا ہے ، اَوش ہم کیا جانیں۔ “ ٹھاکر نے کھوئے ہوئے لہجے میں سامنے ٹنگے ہوئے تیر کی طرف دیکھ کر کہا تو جیوتیکا نے اپنا سر جھکا لیا۔کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد بولی
” تو کیا کریں گے آپ؟“
” ہمیں اس مُسّلے پریوار سے شمّا مانگنی ہوگی۔
“ ٹھاکر نے کہا تو جیوتیکا کو یوں لگاجیسے ساری راجپوتی انّا مٹی کا ڈھیر ہو گئی ہے۔ اس کے من میں بھی ایک طوفان اٹھا اور پھر لمحوں میں وہاں شانتی آگئی ۔ اس نے یوں کہا جیسے اپنی موت مرتے ہوئے زندگی چاہ رہی ہو۔
” اگر یہ راز ہی رہے تو…؟“ اس نے کہا تو ٹھاکر نے آہستگی سے سر کو ہلا دیا۔ جیوتیکا نے محسوس کیا کہ ٹھاکر نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے چہرے پر امید کے چراغ روشن ہو گئے ہیں۔
#…#…#