Episode 85 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 85 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” میں جا رہا ہوں۔ اگر وہ بعد میں بھی آ کر اپنے انعام کا مطالبہ کرے تو اسے بتا دیں کہ ٹھاکر رام دیال رائے کے دروازے اس پر ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں۔ وہ جب چاہے آ سکتاہے۔ وہ ہمارا مہمان ہوگا۔ میں اس کی جان کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں۔“
اس نے یہ لفظ بڑے رعب و دبدبہ سے کہے تھے۔ اور پھر ان معززین کا رد عمل دیکھے بغیر گھوڑا موڑ لیا۔ وہ میدان سے نکلا تو اس کا رُخ رام گڑھ جانے والے راستے کی طرف تھا۔
پہلی بار ایسا ہوا تھاکہ رام گڑھ کی جانب پلٹتے ہوئے اسے جیت کے نشے کا خمار نہیں تھا۔ اس کا من ہار تسلیم کر چکا تھامگر دماغ میں ابھی تک جیت جانے ہی کی سوچیں کلبلا رہیں تھیں۔ دماغ طرح طرح کی تاویلیں اور دلیلیں دے رہا تھا کہ وہ فتح مند ہے، لیکن دل کی ایک نفی ان ساری تاویلوں پر لکیر پھیر رہی تھی۔

(جاری ہے)

وہ قافلے کے ساتھ میدان سے نکل کر صحرا کے درمیان میں بنے ہوئے راستے پر ہولیا تھا۔

ٹھاکر رام دیال رائے ان سب سے آگے تھا۔ پہلے واپسی پر وہ نعروں کی گونج میں شادیانے بجاتے ہوئے آتے تھے۔ مگر اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔ کسی کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ جیت یا ہار جانے کے بارے میں لب کشائی کرے ۔ وہ بیس یا پچیس لوگ تھے اور وہ سب تیزی سے چلتے تھے۔ باقی لوگ ابھی پیچھے تھے۔ وہ اونٹوں ، گدھوں اور بیل گاڑیوں میں آ رہے تھے۔
 
اچانک انہیں سامنے موڑ پر ببول کے درختوں کے پاس اُگی ہوئی کریر کی جھاڑی کے ساتھ ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔اس نے کالی چادر اوڑھی ہوئی تھی اور اپنا سر گھٹنوں میں دیاہوا تھا۔شام کے ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں بھی وہ واضح دکھائی دے رہا تھا۔ وہ سراب کی مانند دھوکہ نہیں دے رہا تھاکہ کسی کو اس کا یقین نہ آتا۔ انہوں نے دور ہی سے اس شخص کو دیکھ لیا تھا۔
اس شخص نے بھی ان کی آمد پر سر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ٹھاکر رام دیال رائے کو یہ منظر خلاف معمول لگا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ شخص زندہ بھی ہو اور ان کی آمد کا احساس بھی نہ کرے ۔ تو پھر یہ ان کی راہ میں اس طرح کیوں بیٹھا ہوا ہے ؟ اگر یہ اس طرح بیٹھا رہا تو ہمارے گھوڑوں کی سمّوں تلے آکچلا جائے گا۔ یہ سوچتے ہی اس نے اپنے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں اور اس شخص سے تھوڑے فاصلے پر رُک گیا۔
پھر اس نے بھانوو کو دیکھ کر کہا
” کیا میں وہی دیکھ رہا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے؟“
” جی مالک ۔! میں پتہ کرتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور لمحوں میں اس شخص کے پاس پہنچ گیا۔پھر زور سے اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا
” کون ہو تم ، اپنا چہرہ اوپر کرو۔“
 بھانوو کے اس تخاطب پر اس شخص نے اپنا سر اٹھایا ، بھانوو کی طرف دیکھا اور پھر اسے کوئی اہمیت دئیے بغیر اسی طرح سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھ گیا جیسے وہ پہلے بیٹھا ہوا تھا۔
بھانوو نے جب اس کا چہرہ دیکھا تو وہ چونک گیا۔ اس نے اسے دوبارہ دیکھنے کے لئے کئی بار پکارا مگر اس شخص میں کوئی حرکت نہیں ہوئی ۔ جیسے اس کی آواز دینا نہ دینا ایک برابر ہو۔ وہ کچھ دیر کوشش کے بعد لوٹ آیا اور ٹھاکر رام دیال رائے کی طرف دیکھ کر گہرے لہجے میں بولا
” مالک۔! کوئی سادھو ، سنت معلوم پڑتا ہے۔؟“
ٹھاکر رام دیال رائے نے اپنے بڑوں سے کئی بار سُنا تھا کہ ناگ ہو یا سادھو ، سنت ، ان کا راستہ نہیں کاٹنا چاہئے۔
مگر یہاں صورت حال مختلف تھی۔ سادھو ، سنت اس کی راہ میں تھا، وہ بھی آدھے ادھورے راستے پر، وہ چاہتا تو اس کے پاس سے ہو کر گذر بھی سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں اچانک ہی بہت سارے خیال آتے چلے گئے ۔ جس میں یہ بات بھی تھی کہ اگر یہ سادھو سنت ہے تو پھر اس کا یہاں بیٹھنا بے معنی نہیں ہو سکتا، ضرور اس میں کوئی راز پوشیدہ ہے۔ کچھ دیر پہلے بھی تو میدان میں انہونی ہو گئی تھی۔
اگر اب یہ سادھو یہاں بیٹھاہوا ہے تو ضرور کوئی بات ہے۔ یہ یقین کرتے ہی اس نے کہا
” تم سب ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں۔“
” مالک اگر ؟“ بھانوو نے کہناچاہا تو ٹھاکر رام دیال رائے نے اس کی طرف سخت نگاہوں سے دیکھا ۔ تب وہ خاموش ہو کر وہیں کھڑا رہا۔ ٹھاکر رام دیال رائے گھوڑے پر سے اُترا اور ان سب کو وہیں چھوڑ کر آہستہ قدموں سے چلتا ہوا اس شخص کے پاس جا کر رکا اور سخت لہجے میں بولا
’کون ہو تم؟ سادھو یا …“ وہ پاکھنڈی کہنا چاہتا تھاکہ اس شخص نے اپنا سر اٹھا دیا۔
تبھی ٹھاکر رام دیال رائے پوری جان سے لرز گیا۔ یہ تو وہی نووارد تھا جس نے ابھی کچھ دیر پہلے میدان میں تلوار بازی کے جوہر دکھائے تھے۔ بھانوو کی پہچان میں اگر وہ نہیںآ یا تھا تو میدان میں اس کے گیسو سیاہ تھی ، لیکن اس وقت اس شخص کے ساری زلفیں دودھ کی مانند سفید تھیں۔ وہی تیکھا الف ناک ، بڑی بڑی خمار آلودپر جلال آنکھیں ، جن میں ایسا رعب موجود تھا جس کے سامنے ٹھاکر کو اپنی حیثیت ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
کشادہ پیشانی ، دبدبہ ظاہر کرتا ہوا چہرہ، وہ چند لمحے ٹھاکر رام دیال رائے کی طرف دیکھتا رہا، پھر کڑکتی ہوئی آواز میں بولا
” پہچانا مجھے ٹھاکر؟ میں کون ہوں؟“
 پہچان تو میں گیا ہوں … لیکن … جانتا نہیں کہ … آ… آپ ہیں کون؟“
 اگرچہ اس نے بڑے حوصلے سے کہا تھالیکن اس کی آواز کانپ گئی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اسے ایسے صورت حال سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے ۔
” چہرہ ہی پہچان گئے ہو تو اچھی بات ہے۔ ورنہ میری بات سمجھنے میں نجانے تجھے کتنا وقت لگتا۔ اور اس دوران تم نجانے کتنا نقصان اٹھا لیتے۔“ اس بار اس کا لہجہ تنبیہی تھا ۔
” لیکن آپ ہیں کون ؟“ ٹھاکر کا لہجہ مزید دھیما ہو گیا تھا۔
” یہ تم اگر چاہو بھی تو نہیں جان سکتے ہو۔ اور اگر کوشش بھی کرو گے تو اُلجھ جاؤ گے ۔ شاید میں تیرے سامنے کبھی نہ آتا، اگر تیرے غرور اور تکبر نے تمہیں، تیری اوقات سے باہر نہ کر دیاہوتا۔
“اس شخص کے لہجے سے اب غصہ چھلکنے لگاتھا۔
” یہ تو ہم راجپوتوں …“
” بس آگے کچھ مت کہنا۔ کیا تم اس دھرتی کا سینہ پھاڑ سکتے ہو، یا آسمان کو چھو لیا ہے تم نے … تم تو اتنے بے بس ہو کہ اپنی سانس کو اپنے تابع نہیں کر سکتے ہو، اور تو اور نسل کا وارث پیدا نہیں کر سکتے ہو۔“ اس کے لہجے میں تضحیک تھی۔
” یہ توبھگوان کی دِیّا ہوتی ہے … منش اس میں کیا کر سکتاہے ۔
“ ٹھاکر نے لرزتی ہو ئی آواز میں کہا
 ” پھر بھی … پھر بھی تمہیں اتنا غرور ہے ؟ کیا ایک عظیم طاقت کا احساس رکھنے والا، اپنے بارے میں نہیں سوچتا ہے کہ وہ خود کیا ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ مٹی پتھر کی بنی ہوئی بے جان مورتیاں کسی کو اولاد دینے کی سکت رکھتی ہیں۔ بے جان تو سراپا موت ہے، اس میں زندگی کہاں، اور تم اس میں زندگی تلاش کر رہے ہو؟“ اس شخص کے لہجے میں موجود دبدبے سے زیادہ اس کی بات نے دہلا کر رکھ دیا۔
اس کے ذہن میں آندھی کی طرح یہ خیال اٹھا کہ وہ تو اس کے دھرم کا اپمان کر رہا ہے۔ وہ جوش سے بولا
” آپ میرے دھرم کا اپمان نہیں کر سکتے ۔“ گو بات سخت کہی لیکن لہجہ نرم تھا۔
” سچی بات سے وہی گھبراتا ہے جس کے من میں چور ہو۔ میں نے اگر سچی بات کہہ دی ہے تو اس پر یقین کرنے کی بجائے اس پر بحث کر رہے ہو ؟ اتنی عقل بھی نہیں ہے کہ میری بات کو سمجھو اور اس پر غور کرو۔
ایک ذرا سی بات تم نہیں سمجھ سکے اور تجھے خود پر غرور ہے کہ جیسے کوئی بھی اس دھرتی پر تم جیسا نہیں ؟“یہ کہتے ہوئے اس شخص نے ٹھاکر کی طرف غور سے دیکھا۔ تو ٹھاکر نے بڑے مان سے کہا
” یہ دھرم کی باتیں ہیں، ان پر بحث ، سوچنا اور سمجھنا کیسا ؟پرکھوں کی کہی ہوئی باتیں کیا غلط ہو سکتی ہیں؟“
” اس کا مطلب ہے کہ تم اب بھی آڑے ہو ئے ہو ۔
“ یہ کہہ کر اس شخص نے ٹھاکر کی طرف گہری نگاہ سے دیکھتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا ،” جاؤ، تمہیں عقل سمجھ دینے والا اور یہی باتیں سمجھانے والا، تیری نسل سے پیدا ہوگا۔ پھر میں تم سے آ کر پوچھوں گاکہ بول ، پرکھوں کی باتیں کیا ہوتی ہیں، تیرا خون تجھے بتائے گا کہ بے جان مورتی میں موت اور انسانی صورت میں زندگی پڑی ہے ، جا“ ہر ادا ہوتے ہوئے لفظ کے ساتھ اُس شخص کا غصہ بڑھتا گیاتھا۔
مگر ٹھاکر کو اس کا غصہ یاد ہی نہیں رہا۔ وہ تو ان لفظوں پر چونک کر رہ گیا تھا، جو اس نے ادا کر دئیے تھے۔ وہ انتہائی حیرت سے بڑبڑایا، جیسے تصدیق کر رہا ہو۔
” میری نسل سے ؟“
” ہاں ، تیری نسل سے… لیکن یہ یاد رکھ، تیرے غرور کا یہ حال رہا تو بہت پچھتاؤ گے ۔“ اس نے سختی سے پھر تنبہہ کی ۔ لیکن ٹھاکر جیسے کسی سحر میں جکڑا گیا تھا۔
وہ وہیں آڑا ہوا تھا۔ اس کے لہجے میں خوشگواریت اتر آئی تھی۔ وہ پھر سے سرسراتے ہوئے انداز میں بولا
” میری نسل سے ؟“ 
 ”ہاں … ہاں، تیری نسل سے ، تجھ سے ایک صورت نے سامنے آنا ہے ۔ یہ طے ہے اور لکھ دیاگیا ہے ۔ کیونکہ اس میں سے بہت کچھ ظاہر ہونے والا ہے ۔ لیکن سن۔۔۔! موت کا خیال، زندگی نہیں دے سکتا ، جبکہ زندگی کو فقط زندگی ہی سمجھ سکتی ہے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا تو ہی تُوبچے گا ، ورنہ نشان بھی مٹ جائے گا۔
“ اس شخص نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو ٹھاکر نے کچھ کہنے کے لئے اپنے لب کھولے، مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے ٹھاکر کو روک دیا۔ اس شخص نے اپنے گرد سے لپٹی ہوئی سیاہ چادر ہٹائی تواس کے دائیں کاندھے میں تیر اسی طرح پیوست تھا۔ اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے وہ تیر کھینچ کر نکال لیا۔ ٹھاکر اپنی جگہ ٹھٹھک گیا تھا۔ وہ شخص چند لمحے ٹھاکر کی جانب دیکھتا رہا پھر تیر اس کی جانب بڑھا دیا۔
اس شخص کے کاندھے سے خون ابلنے لگا تھا۔ تیر خون آلود تھا۔ ٹھاکر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ تیر پکڑ لیا تو وہ شخص اٹھ کر چل دیا۔ ٹھاکر اسے آواز دینا چاہتاتھا ۔ مگر گنگ ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کے دل میں یہ شدت سے خواہش تھی کہ وہ شخص کو روک لے ، اس سے باتیں کرے ، اس سے معذرت کر لے ۔ اس سے اپنی نسل کے وارث بارے باتیں پوچھے، لیکن وہ آواز دے ہی نہیں سکا۔
جبکہ وہ شخص چلتا ہوا اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یوں ہوا کہ جیسے زمین اُسے نگل گئی یاآسمان اُسے کھا گیا۔ ٹھاکر کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ بت بنا کتنی ہی دیر تک وہیں کھڑا رہا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی بات گونج رہی تھی جس میں نہ صرف اس کے لیے خوشخبری تھی بلکہ ایک طرح سے تنبیہ بھی تھی۔
” جاؤ، تمہیں عقل سمجھ دینے والا اور یہی باتیں سمجھانے والا، تیری نسل سے پیدا ہوگا۔
پھر میں تم سے آ کر پوچھوں گاکہ بول، پرکھوں کی باتیں کیا ہوتی ہیں، تیرا خون تجھے بتائے گا کہ بے جان مورتی میں موت اور انسانی صورت میں زندگی پڑی ہے ، جا“
ٹھاکر دیال رائے کو یہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ اسی پر بیت رہا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا کہ وہ سپنا دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ خوشخبری اس کے عوض میں ملنی تھی کہ وہ اپنا غرور توڑ دے ۔
یا اس کے بھاگیہ میں کچھ اور ہی تھا، یا اس کا بھگوان اس سے کچھ دوسرا چاہتا تھا۔ پہلی بار بھگوان کے نام پر اس کا دل نہیں جما تھا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا خون آلودتیر، اسے اس کی حقیقت سے آ گاہی دے رہاتھا۔ یہ سپنا نہیں ہو سکتا تھا۔ دن کے ایک ہی پہر میں اتنا کچھ ہو جانا، کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
”چلیں مالک۔!“
بھانوو کی آواز پر وہ بری طرح چونک گیا۔
تب اسے احساس ہو ا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ چند قدم کے فاصلے پر رام گڑھ کے لوگ اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ بلاشبہ یہ سارا واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہوگا۔ وہ بھی اس کے گواہ ٹھہر گئے تھے۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا تیر ساری کہانی بیان کر رہا تھا۔ وہ کبھی اس تیر کو دیکھتا اور کبھی لوگوں کو۔ تبھی بھانوو نے آگے بڑھ کر وہ تیر اس کے ہاتھوں سے لے لیا۔وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا اپنے گھوڑے تک آیا اور اس پر سوار ہو کر چل دیا۔
تبھی قافلہ بھی اس کے ساتھ بڑھا۔ٹھاکر دیال رائے کو محسوس ہونے لگا کہ اس کے غرور پر یونہی ضرب نہیں پڑی۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔
                                        #…#…#
 جمال اور جسپال دونوں یوں کھڑے تھے، جیسے بُت بن گئے ہوں۔ ایک کے بعد ایک منظر بدلتا جا رہا تھا۔ اس وقت ان کے سامنے رام گڑھ کی وہ حویلی تھی، جس میں ٹھاکر دیال رائے رہتا تھا۔ وہ اس منظر میں کھو گئے ۔
                                      #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط