Episode 110 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 110 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میلے والا میدان سج گیا تھا۔ پچھلے برس میلہ نہیں ہوا تھا، سو اس بار پورے علاقے کے لوگوں میں جوش و خروش عروج پر تھا۔ سب کچھ ویسے ہی ہو رہا تھا ، جیسے ہر برس ہوتا تھا۔ چھاکا اور اس کے ساتھی پوری طرح اس میلے کی نگرانی کر رہے تھے۔ علاقے سے بہت سارے شہہ زوروں نے اپنے طور پر بھی ذمہ داری لے لی تھی کہ وہ میلے میں کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں ہونے دیں گے۔
پہلے دن کی شام جب میں وہاں گیا تو میلہ بھر پور تھا۔ میں نے ایک چکر لگایا اور واپس بر گد کے درخت کے پاس آ گیا جہاں پر وہ درویش ملے تھے۔ اس وقت وہ درخت کے پاس نہیں تھے، بلکہ آگ اسی طرح جل رہی تھی اور پرانی سی کیتلی میں چائے اُبل رہی تھی۔ اُن کی گدڑی اور دوسری چیزیں ویسے ہی پڑی ہوئیں تھیں۔ میں ایک جانب ہو کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے وہ اچانک درخت کے پیچھے ہی سے نمودار ہوئے ہوں ۔

(جاری ہے)

وہ آ کر اپنی گدڑی پر بیٹھتے ہوئے بولے
” ہاں بھئی نوجوان ، تیرا میلہ تو بہت زوروں کا لگا ہے ۔ بڑے لوگ آئے ہیں یہاں پر۔“
” میرا میلہ کیا ہے بابا جی ، آپ خود ہی رونق لگا کر بیٹھے ہیں۔ ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔“ میں نے عاجزی سے کہا 
” عاجزی اچھی شے ہے نوجوان، پر بندے کی اپنی انّا بھی تو ہونی چاہئے۔ جس طرح بندگی میں خلوص اور ریاکاری ہوتی ہے ۔
اس میں ذرا سا ادھر ادھر ہو جانے سے بندگی میں عروج آ جاتا ہے یا پھر بندگی ہی سے خارج ہو جاتا ہے ، اسی طرح بندگی میں عاجزی بڑی ضروری ہے کیونکہ یہ بندے کی شان ہے اور تکبر رَبّ تعالی کی شان۔ ہم اگر اتنا ہی کہہ دیتے ہیں کہ تو خُدا ہے ، تو میں اس میں کہاں ہوں ۔ میں نے اپنے آپ کو تو خارج کر دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تُو میرا خُدا ہے تو اس میں میرا ہونا ہوا ۔
اور عاجزی یہ ہے کہ کہا جائے میں تیرا بندہ ہوں۔اس میں، ’ میں‘ کا وجود ہوا ۔ رَبّ تعالی پر یقین کے ساتھ اس پر کلّی بھروسہ ہی عاجزی ہے ۔ یہ بندہ ہی کرتا ہے۔“
” یہ زندگی ، اور اس میں بندگی ایک وجود کے ساتھ ہی ہے نا ، یہ تو میں نے بات سمجھ لی ہے ۔“ میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا
” اور اس وجود میں’ ’میں“ کیا کچھ ہے ؟یہ فطری سی بات ہے کہ ہم اسے عقل کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ عقل بھی تو اسی وجود میں پڑی ہے۔
عقل سے سوچنا بھی تو فطری ہے ، یہی وہ شے جو اس راستے پر ڈالتی ہے جہاں ہم اشیاء کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ یہ فطرت ہے کہ عقل حیران ہوتی ہے تو تجسس بڑھتا ہے ، تجسس ایک راستے پر ڈالتا ہے اور عقل اس کی راہنمائی کرتی ہے ، یہاں تک کہ عقل ایک منزل پر آکر ٹھٹھک جاتی ہے ۔ کیونکہ عقل سے جہاں حیرتیں ابھرتیں ہیں ، وہاں عقل ایک تماشہ بھی کرتی ہے ۔
” وہ تماشے کیا ہے بابا جی ؟“ میں نے تجسس سے پوچھا تو وہ ہلکا سا مسکرائے اور بولے 
” عقل ہر وقت ایک نیا بُت گھڑنے میں مصروف رہتی ہے ۔ یہ ہمارے ارد گرد جو نت نئے بُت وجود میں آتے ہیں یہ عقل ہی تو گھڑ رہی ہے ، اب کسی بُت کا ظاہری وجود ہے اور کسی کا ظاہری وجود نہیں ۔ عقل بُت خانہ سجائے بیٹھی ہے ، یہاں تک کہ کوئی ابراہیم  آ جاتے ہیں اور وہ بُت خانہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
اب دیکھو عقل کی منزل کہاں پر ظاہر ہوتی ہے؟ اور عشق اپنی تمام تر جولانیاں کہاں دکھاتا ہے ؟ یہاں تک کہ اس حلقہ آفاق میں جو گرما گرمی ہے ، یہ کس کے دم سے ہے ، اسی انسانی وجود سے ۔“
” بابا جی جہاں تک میں سمجھ چکا ہوں کہ انسان اپنے ہی خیالات سے بُت گری کرتا ہے اور اسی میں ہی بُت خانہ ختم ہو جاتا ہے ۔“ میں نے بات سمجھتے ہوئے اسے دُھرایا ۔
 
” یہ نہیں سمجھو گے کہ عقل کے بُت کون سے ہیں ،عورت کی خواہش، لالچ ، تکبر ، حکومت، حسد، یہ سب عقل میں بُتوں کی طرح نصب ہوجائیں تو وجود بُت خانہ بن جاتا ہے ، اور بُت خانوں میں کیا ہوتا ہے ، کیا تم نہیں جانتے ہو؟“ انہوں نے دھیمے انداز میں کہا تو میں سر ہلا کر رہ گیااور پھر جواب دیتے ہوئے کہا
” وہاں تو پھر بُت پرستی ہوگی ، “ 
” ایک دوسری طرح کے بُت بھی ہوتے ہیں، وہ نظریات ہیں ۔
اپنے طور پر نظریہ گھڑ لیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے، اب اس سے کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ، یہ ایک الگ سی بحث ہو گی ، مگر یہ دیکھو تمام فلسفے اور نظریات بھی تو اسی صورت میں سے ہوتے ہیں ، جو انسانی وجود میں ہے۔“
” یہ تو ہے ۔“ میں نے تیزی سے کہا
” ابھی تم نے پوچھا کہ زندگی کے یہ تماشے ؟“ یہ کہہ کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے ،” زندگی کیا ہے ؟ پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا ، زندگی کو تسخیر کرنے کے عمل کو ہی زندگی کہتے ہیں ۔
” زندگی کو تسخیرکیسے کیا جاتا ہے بابا جی ؟“ میں نے پوچھا تو ہولے سے ہنس دئیے ، پھر میری طرف پر شوق نگاہوں سے دیکھ کر بولے 
” اپنے آپ کو تسخیر لو ۔ زندگی خود بخود تسخیر ہو جائے گی۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے ہو کہ تم خود زندگی کے مظہر ہو، خود زندگی ہو، جو رَب تعالی نے تمہیں تفویض کردی ہے۔“
یہ کہہ کر انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔
کتنی دیر تک وہ اسی کیفیت میں رہے ۔ اس دوران میں نے میدان کی جانب دیکھا۔ میلہ اپنے بھرپور انداز میں سجا ہوا تھا۔ وہ میدان جہاں سارا سال اندھیرا چھایا رہتا تھا ، اس رات برقی قمقموں سے یوں روشن تھا ، جیسے دن چڑھا ہو ۔ وہ درویش آنکھیں بند کئے پڑے رہے ، کافی دیر گذر جانے کے بعد بھی انہوں نے توجہ نہ کی تو میں اٹھا اور واپسی کے لئے چل دیا۔
 میں گھر آیا تو اماں کے پاس سوہنی موجود تھی ۔ میں ہاتھ منہ دھو کر کھانے کے لئے بیٹھا تو اماں نے کہا
” حویلی میں جا کر کھاؤ، تانی کئی بار تمہارا پوچھ چکی ہے ۔ آج نجانے کیوں وہ بہت اداس لگ رہی ہے۔ اس کی دل جوئی کرو جا کر ۔“
میں چند لمحے اماں کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر سوہنی کی طرف دیکھا، جس کا آدھے سے زیادہ چہرہ آنچل میں چھپا ہوا تھا ۔
وہ سر جھکائے بیٹھی تھی ، اس نے ایک لفظ نہیں کہا۔ میں اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا۔
 تانی اب کافی حد تک ٹھیک ہو گئی تھی ۔ وہ اب اپنے سہارے اٹھ بیٹھ جاتی تھی۔ جب سے تانی واپس نور نگر آئی تھی ، میں نے اس کی بھر پور نگہداشت کی تھی۔ تانی اسی میں خوش تھی کہ میں اس کے پاس ہوں اور میلے کے انتظامات کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔
تانی ایک کمرے میں دھیمی روشنی کئے پڑی تھی۔
میں نے جا کر کمرہ روشن کر دیا تو میری نگاہ اس کے چہرے پر پڑی ۔ تانی نے تیزی سے یوں اپنے آنسو پونچھے ، جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ۔ اس نے ایک سیاہ ٹراؤزر پر سفید کرتا پہنا ہوا تھا۔ میں اس کے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گیا تو وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔ میں نے اسے منع نہیں کیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس حد تک ٹھیک ہے ۔ وہ سکون سے بیٹھ گئی تو میں نے دھیمے سے پوچھا
” تانی کیا بات ہے ، کیوں رُو رہی ہو ۔
میرے یوں پوچھنے پر اس نے میری طرف حیرانگی سے دیکھا اور بولی 
” تمہیں کس نے کہا کہ میں رُو رہی ہوں ، یہ تو ایسے ہی آنکھوں میں چبھن ہو رہی ہے ۔“
” اچھا تم ایسا کرو، اٹھو، میں تمہیں ایک اچھا سا سوٹ دیتا ہوں ، وہ پہنو ، ہم میلے پر گھوم کر آئیں ۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا
” سوٹ میں نکال کر پہن لیتی ہوں ، لیکن میلے پر نہیں جا پاؤں گی، یہ جو فائر لگا ہے اس کا زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوا۔ بے احتیاطی کی تو …“ اس نے کہا تو میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا
” چلو ، اٹھو تو سہی ، ایک لڑکی دکھائی دو، پھر کھانا کھاتے ہیں اور گپیں لگاتے ہیں۔“ 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط