پرتکلف ڈنر کے بعد دلجیت کور نے میری طرف دیکھتے ہوئے پرسکون لہجے میں کہا۔”کیا خیال ہے‘ آئس کریم کہیں باہر سے چل کر کھائیں۔“ اس کے ساتھ ہی قریب کھڑے ملازم کو برتن اُٹھانے کااشارہ کردیا۔
”کیا ایسے ہی چلوگی‘ یا کوئی ڈھنگ کے کپڑے بھی پہنوگی۔“ میں نے کہا تو ہنستے ہوئے بولی۔
”جیساتم کہو۔“ اس نے آنکھ دبا کر کہا۔ پھر اٹھتے ہوئے بولی۔
”تمہارے لیے کپڑے بیڈ پرپڑے ہیں‘ وہ پہن کے آؤ‘ پھر نکلتے ہیں۔“
میں اٹھ کر کمرے میں گیا تو وہاں پر نیلی جین اور سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ پڑی تھی۔ قریب ہی جاگر پڑے تھے۔ میں نے شلوار قمیص کی جگہ وہ پہن لی اور تقریباً دس منٹ بعد جب میں ڈرائنگ روم میں آیا تووہ ہلکے نیلے رنگ کے شلوار سوٹ میں تھی۔ اس کی شلوار خاصی گھیر والی اور قمیص سلیولیس اور بہت تنگ تھی۔
(جاری ہے)
یوں لگ رہاتھا کہ اس کااوپر ی جسم باہر نکلنے کے لیے احتجاج کررہا ہے اس وقت تک ملازمین نے ڈائننگ ٹیبل صاف کردیاتھا۔ وہ کھڑی انگلی میں چابی گھمارہی تھی۔ مجھے اپنا جائزہ لیتے ہوئے دیکھ کر وہ بولی۔
”مجھے ہی نہ دیکھتے رہو‘ چلو باہر کی دنیا دکھاتی ہوں۔“
اس پر میں کچھ نہ بولا‘بلکہ باہر کی جانب قدم بڑھادیئے۔پورچ میں سیاہ رنگ کی کرولا ٹائپ کار کھڑی تھی۔
وہ ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھ چکی تو میں پسنجر سیٹ پر آن بیٹھا۔ چوکیدار نے گیٹ کھولا اور جیسے ہی ہم باہر نکلے تو مین سڑک کی جانب جاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولی۔
”میں جالندھر کی نہیں ہوں‘ مجھے یہاں آئے ہوئی تین ماہ ہوگئے ہیں‘ میرے ذمے ایک خاص مشن ہے‘ اس کے لیے کچھ لوگ مجھے دیئے گئے ہیں‘ جن میں سے ایک تم بھی ہو۔ وہ سارے اسی بنگلے میں نہیں ہیں‘ اسی شہر کے مختلف علاقوں میں ہیں۔
“
”اور تم مجھے ان سے ملوانے لے جارہی ہو۔“ میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”نہیں ابھی تو صرف آئس کریم کھلانے لے جارہی ہوں۔ “ اس نے ہلکا ساقہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”اور کچھ بتانا چاہوگی۔“ میں نے فطری تجسس کے تحت پوچھا۔
”بہت کچھ۔ ابھی تو میں نے اپنے دل کاحال تم سے کہنا ہے۔ “ اس نے فریفتہ ہوجانے والے انداز میں کہااور اصل بات گول کر گئی۔
میں نے بھی دوبارہ نہیں پوچھا تو کچھ دیر بعد بولی۔ ”میں اس خاص مشن کی ساری تفصیلات واپس آکر پوری تفصیل سے بتاؤں گی۔ اس دوران ہم تھوڑا بے تکلف تو ہو جائیں۔“ اس نے بایاں ہاتھ کی پشت سے میرا گال سہلادیا۔ میں سمجھ رہاتھا کہ جو کچھ وہ دکھائی دے رہی ہے‘ وہ ویسی نہیں ہے۔ میں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کمرشل ایریا میں جاپہنچی۔
جہاں اچھی خاصی رونق تھی۔ وہ ایک جگہ جاکررک گئی۔ ہم کار سے اترے او رایک دُکان کی جانب چل دیئے۔ اس آئس کریم شاپ کے سامنے دور تک کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور لوگ اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ انجوائے کررہے تھے۔ آئس کریم کا آرڈر دے کر اس نے دھیرے سے مگر گہری سنجیدگی سے پوچھا۔
”یہ اردگرد کی عمارتیں دیکھ رہے ہو جمال؟“
”ہاں دیکھ تو رہا ہوں‘ کوئی خاص بات ؟“ میں نے عام سے انداز میں جواب دیتے ہوئے پوچھا تو اس نے ایک خاص عمارت کانام بتاتے ہوئے کہا۔
”وہ عمارت ایک ڈانسنگ بار ہے‘ شہر کے مخصوص لوگ یہاں آتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ہلاگلا کرنے ‘جوا کھیلنے اور عیاشی کرنے۔ اور اس سے کچھ دیر بعدیا کافی دیر بعدایک بندے نے اپنے گارڈز کے گھیرے میں نکلنا ہے‘ اور ہم نے اسے شوٹ کرنا ہے۔“
اس کے یوں کہنے پرمیں نے غیر محسوس انداز میں دوبارہ اس طرف دیکھااور پھر اردگرد کاجائزہ لیا۔
”تم نے دیکھا ہوا ہے اسے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں‘ کئی بار‘ وہ جب بار سے نکلے گا تو میں تمہیں بتادوں گی‘ میری آنکھیں اسی عمارت کے اندر موجود ہیں۔“ اس نے سنجیدگی سے کہاتومیں نے پوچھا۔
”ٹھیک ہے‘ لیکن نکلنے کا راستہ تم نے طے کیا ہوا ہے؟“
”ہاں‘ اس کی تم فکر نہ کرو۔ تمہارے پاس زیادہ سے زیادہ دو منٹ ہوں گے۔ پسٹل اور گن‘ جوتم چاہو‘ وہ کار میں پڑا ہوا ہے۔
“ اس نے ویٹر کوآتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ”یہاں کی آئس کریم بہت اچھی ہے۔“ ویٹر تیزی سے آئس کریم رکھ کرچلاگیا اور میں ذہنی طورپر پلان کرنے لگا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کچھ دیر بعد جب ہم آئس کریم ختم کرچکے تب میں نے کہا۔
”دلجیت اٹھو۔“
”لیکن ابھی …“اس نے کہنا چاہا تو میں نے کہا۔
”میں کہہ رہاہوں نا کہ اٹھو۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تووہ بھی اٹھ گئی۔
ویٹر تیزی سے آیا تو دلجیت نے اس کابل دے دیا۔ ہم ٹہلتے ہوئے کار میں چلے گئے۔”اگر یہی پلان تم مجھے پہلے بتادیتی تو میں تمہیں یہاں نہ بیٹھنے دیتا‘ ہم یہاں نظروں میں آچکے ہیں۔“
”ممکن ہے تمہاری سوچ ہو‘ لیکن میں تقریباً روزانہ آتی ہوں اور کوئی نہ کوئی میرے ساتھ ہوتا ہے اور دیکھنا میں کل بھی تمہیں لے کر یہاں آؤں گی۔“
”اچھا چلو کار نکالو۔
“ میں نے کہااور پچھلی نشست پر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست کے نیچے گن اور پسٹل پڑا ہوا تھا۔ دلجیت نے کار آہستہ آہستہ نکال لی‘ اس کی نگاہیں سیل فون پر تھیں اور میں اس پورے علاقے کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے گن اٹھالی‘ وہ زیادہ رینج کی تھی‘ اس پر سائیلنسر لگاہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھا‘ اسے اچھی طرح چیک کرنے کے بعد اپنے پاؤں میں رکھ لی‘ یہ اطمینان کرنے کے بعد میں نے کہا۔
”جیسے ہی تمہیں اس کے باہر نکلنے کی اطلاع ملے‘ کار اس عمارت کے سامنے لے آنا‘ مجھے صرف اتنا بتادینا کہ وہ کون ہے‘ کار روکنا نہیں ‘ اسپیڈ سے چلتے جانا۔“
”اوکے ۔“ اس نے کہا اور کار لے کر ایک سڑک پرچل دی۔ وہ بہت آہستہ رفتار سے جارہی تھی۔ اچانک اس نے تیزی سے یوٹرن لیااور بولی۔ ”وہ باہر نکل رہا ہے۔“
اس نے کہا تو میں الرٹ ہوگیا۔
میرے بدن میں سنسنی دوڑنے لگی۔ بہت عرصے بعد میں نے یوں محسوس کیا تھا۔ تقریباً دو منٹ کے بعد وہ عمارت دکھائی دینے لگی۔ ذرا اور قریب جاکر دلجیت بولی۔
”وہ دیکھو‘ وہ چار لوگوں کے درمیان لمبے بالوں والالڑکا‘ ریڈ شرٹ ‘ابھی کار سامنے آئے گی اور وہ اس میں بیٹھ جائے گا۔“
”تیز چلو۔“ میں نے کہااور گن کی نال ونڈو پر رکھ دی۔ بالکل سامنے جب وہ آیا تو میرے نشانے پر تھا‘ میں نے فائر کردیا۔
ذرا سی آواز ابھری تھی‘ میں نے گھوم کردیکھا‘ وہ اپناسینہ تھامے تڑپ رہاتھا۔ ”دل تیزنکلو۔“
”کیابنا؟“
”فائر لگ گیا ہے۔“ میں نے کہا تو دلجیت انتہائی تیز رفتار ی سے کار بڑھاتی چلی گئی۔ ایک کراس پر اس نے رفتار دھیمی کی اور پھر نارمل انداز میں چلنے لگی۔ تبھی اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے کان سے لگایا‘ پھر جوش سے بولی۔
”یس…جمال…یس…پھاڑ دیا سینہ اس کا…چل اب گھر جاکے سیلی بریٹ کرتی ہوں۔
“ یہ کہہ کر وہ چلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ بنگلہ آگیا ۔ چوکیدار نے گیٹ کھولا تو وہ کار پورچ میں لے جاکر روک دی۔ میں باہر نکلا تووہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترتے ہی میرے گلے لگ گئی۔ خوشی میں نجانے کتنی بار میرا منہ چوم لیا۔
”اُوہ خیر تو ہے،پاگل ہوگئی ہے تو…“ میں نے اسی پرے دھکیلتے ہوئے کہا۔
”اویار‘ اس قتل کااثر کیا ہے‘ تم نہیں جانتے ‘آؤ بتاؤں۔
“ یہ کہہ کر اس نے میرا بازو پکڑااور ہم اندر چلے گئے۔ وہ ڈرائنگ روم میں نہیں رکی‘ بلکہ مجھے اپنے بیڈروم میں لے گئی۔ اس نے ٹی وی آن کیا‘ اور اپنے جوتے اتار کرمیرے جوتے اتارنے لگی۔ میں اس کے طرز عمل پر حیران تھا۔ میں جب آلتی پالتی مار کربیڈ پربیٹھ گیاتووہ بولی۔”سن جمال! یہ جس لڑکے کو تم نے قتل کیا ہے‘ یہ یہاں کے سب سے خطرناک اور بااثر بندے کا اکلوتابیٹا ہے۔
مدہن لعل نام ہے اس کا۔بظاہر بڑا سرمایہ دار ہے‘ صنعت کار ہے ‘لیکن اس شہر پر راج کرتا ہے‘ اور پچھلے تین برس سے وہ پورے جنوبی ایشیا میں پھیل جانے کے لیے پرتول رہا ہے۔“
”اتنے بڑے آدمی کابیٹا اور یو ں کھلے عام ، چند گارڈز کے ساتھ؟“ میں نے پوچھا۔
”جنگل میں ایک ہی شیر حکومت کرتا ہے اور مدہن لعل ایسا ہی ہے‘ کوئی اس کے خلاف سر اٹھانے کی جرات نہیں کرپارہا ہے۔
“ اس نے جوش سے کہا۔
”تمہارااس کے ساتھ کیا لینا دینا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہ میرا مشن ہے ۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو ُرکی پھر بولتی چلی گئی،”اس شخص مدہن لعل نے یہاں بہت بڑی کیمیکل فیکٹری لگائی ہے جو بظاہر بے ضرر ہے لیکن یہ اس میں ایک ایسا کیمیکل تیار کررہا ہے جوپانی میں ملادیاجائے تو وہ تیز شراب بن جاتا ہے‘ جو فوری طور پر تو کوئی برُے اثرات نہیں دکھاتا‘ لیکن چند ہی ہفتوں بعد شراب پینے والا کینسر جیسے موذی مرض کاشکار ہوجاتا ہے۔
“
”اصل بات بتاؤ۔سیاسی بیان نہ دو۔“
”توسنو۔! یہ بندہ سکھ قوم کے انتہائی خلاف ہے جس طرح انتہا پسند ہندو‘مسلمانوں کو بھارت میں نہیں دیکھنا چاہتے اور انہوں نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا‘ مدہن لعل ان لوگوں میں شامل ہے جو سکھوں کو بھارت میں نہیں دیکھنا چاہتے‘ اور خالصتان تحریک کے اس قدر مخالف ہیں کہ اپنی زندگی اس کی مخالفت میں لگادی ہے۔
یہ شراب اس کاسب سے بڑا وار ہے‘ وہ اپنے پورے پلان کے ساتھ یہ شراب سکھ نوجوانوں کومفت دے رہا ہے‘ ابھی یہ اس کے تجرباتی مراحل میں ہے‘اس کا پلان ہے کہ جنوبی ایشیاء میں ایک تنظیم کھڑی کرے اور اُس تنظیم کو باقاعدہ اس کام پر لگادے‘ کاروباری بنیاد پر، تاکہ لوگ اس میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں دولت کمانے کے لئے ۔اور میں، اس کا سب کچھ ختم کردینا چاہتی ہوں۔
“ آخری لفظ دلجیت نے انتہائی نفرت سے کہے۔
”کیا یہ اکیلا ہی ایسا کررہا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں ‘ یہاں کی خفیہ ایجنسی اس کے ساتھ ہے۔ اب دیکھنا اس قتل پر کتنا شَور مچتا ہے۔ یہ سیدھے سیدھے الزام دہشت گردوں پر لگائے گااور سخت سے سخت قانون بنانے کامطالبہ کرے گا لیکن اب ہمارے پاس صرف پانچ دن ہیں۔ صرف پانچ دن۔“
”وہ تم جانو کہ تم کیا کرتی ہو‘ مجھے بتاؤ‘ میں نے کیا کرنا ہے۔
“
”فی الحال یہ دیکھو۔! “اس نے ٹی وی اسکرین پر نگاہیں جماتے ہوئے کہا۔منوہرلعل چل بساتھا۔
”تم دیکھو‘ میں سونے کے لیے جارہاہوں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو اس نے مجھے اپنی بغل میں لیتے ہوئے کہا۔
”اوئے ٹھہرجا،ابھی تو سیلی بریٹ…“
میں نے آہستگی سے اپنا آپ چھڑایااور باہر کی جانب چل پڑا۔
…##…