Episode 48 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 48 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”کس کا خون کھول رہا ہے یہ سب دیکھ کر؟“اس پر کوئی نہیں بولا تو وہ پرسا رام کی طرف دیکھ کر بولا،”تیری بیٹی لے کر جا رہاہوں۔سارہ واپس کر دو گے تو مل جائے گی یہ بھی،وعدہ رہا۔“ اس نے کہا تب تک تانی اس لڑکی کو اٹھا کر اپنے آگے لگا چکی تھی۔ وہ اسے لے کر جیسے ہی باہر نکلی۔ پرسا رام کی بیوی چلا اٹھی۔
”بھگوان کے لیے میری بچی کو مت لے کر جاؤ۔
اس بے چاری کاکیا قصور…“
”سارہ کا کیا قصور ، اس کے ماں باپ کو مارا اور اب اسے اغوا کر کے رکھا ہوا ہے۔“
”میں بتاتی ہوں۔وہ ڈیرے پر قید ہے۔“
”ہوگی،مجھے اب اسے لے کر نہیں جانا۔ تم لوگ خود اسے کراچی میں اس کے گھر چھوڑ کے آؤ گے۔“ یہ کہہ کر اس نے زمین پر پڑے لڑکے کو ٹھوکر ماری اور اسے اٹھایا،”چل تو بھی چل اور دیکھ تیری بہن کے ساتھ کیا ہوتا ہے ، چل“ جسپال نے اسے کالر سے پکڑا اوراپنے ساتھ لے جانے لگا تواس کی ماں دھائی دینے لگی۔

(جاری ہے)

جسپال نے ایک فائر اس کے پاس بھی جھونک دیا اور کہا،”جس کی موت آئی ہے یا جو اِن بہن بھائی کی موت چاہتا ہے وہ ہمارا پیچھا کرے، سارہ کو چھوڑ آؤ۔ یہ مل جائیں گے۔“
 تانی اور جسپال ان دونوں کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لائے اور جیپ میں لا پھینکا۔ اگلے چند منٹ میں وہ وہاں سے نکل چکے تھے۔
”دیکھو، چاہے جتنا لمبا سفر پڑ جائے۔چیک پوسٹ کی طرف سے نہیں جانا، اب تک وہاں فون ہو گیا ہوگا۔
”نہیں سر۔ یہ لوگ اب فون نہیں کریں گے۔ اور اب ہم نے اس طرف سے جانا بھی نہیں ہے، ہم کہیں اور جا رہے ہیں۔“ اس ڈرائیور نے کہا تو جسپال نے اثبات میں سرہلا دیا۔تبھی ڈرائیور جیپ کی رفتار بڑھاتا چلا گیا۔
جیپ میں خاموشی طاری تھی۔آدھے گھنٹے سے زیادہ سفر طے کر لینے بعد جب شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا، ایسے میں تانی نے پوچھا۔
”مزید کتنا سفر باقی ہے؟“
”بس جی ہم اس گوٹھ کے بالکل قریب ہیں، جہاں ہم نے جانا ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ جسپال نے کہا اور ایک طویل سانس لی۔
ہر طرف اندھیرا اچھا خاصا پھیل گیا تھا، جب وہ ایک گوٹھ کے قریب پہنچ گئے۔ وہ آبادی میں نہیں گئے بلکہ مصنوعی جنگل کے درمیان بنے راستے پر مڑ گئے۔ تقریباً دس منٹ کے سفر کے بعد وہ ایک ڈیرہ نما حویلی میں جارکے۔
وہ دونوں بہن بھائی جیپ سے نکال ایک کمرے میں ڈال دئیے گئے، جہاں سامان کے نام پر کوئی شے نہیں تھی۔ تبھی ڈارئیور نے پوچھا۔
”ان کا ابھی کیا کرنا ہے، اگر آپ کہیں تو …؟“
”انہیں ابھی کچھ نہ کہو، رات بھر پڑے رہیں گے تو صبح ان کی آواز میں بڑا درد بولے گا۔“ تانی نے تیزی سے کہا تو جسپال بولا۔
”یہ روہی نہیں ہے تانی، یہاں لمحہ لمحہ قیمتی ہے۔
”تو پھر کرو جو کرنا ہے۔“
”رات ذرا مزید ڈھل جانے دو، بلکہ تم ایسا کرو،شاہد سے رابطہ کرو، ادھر کے حالات کیا ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ تانی نے کہا اور فون کرنے لگی۔ جسپال ایک سجے ہوئے اور آرام دہ کمرے میں جا بیٹھا۔ کچھ ہی دیر بعد تانی نے آ کر بتایا۔
”وہاں ایک دم خاموشی ہے۔ کسی نے ان سے بات نہیں کی، لیکن وہ اس بات پر الرٹ ہو گئے ہیں کہ پرسا رام کے دونوں بچے ہماری پاس ہیں۔
”مطلب انہیں معلوم ہے کہ دونوں بہن بھائی ہمارے پاس ہیں۔“
”یس۔ وہ امن ، سکون اور شانتی سے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ جسپال کے پاس آ بیٹھی۔ کچھ دیر بعد ان کے سامنے کھانا چن دیا گیا۔
کھانے سے فراغت کے بعد وہ اس کمرے میں چلے گئے جہاں وہ دونوں بہن بھائی تھے۔لڑکی کافی حد تک سہمی ہوئی تھی ، جبکہ لڑکے میں خاصا غصہ تھا۔ تانی نے جاتے ہی اس کی پسلیوں میں ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔
”ہاں اب بول، سارہ کہاں ہے۔“
”مجھے نہیں معلوم، ایسے معاملات بڑا بھائی دیکھتا ہے۔“ اس نے کافی حد تک غصے میں کہا تو تانی نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور اسے بالوں سے پکڑ کر آگے کی طرف جھٹکا دیا۔ وہ منہ کے بل گرا، تانی نے اپنا پیر زور سے اس کی گردن پر مارا تو وہ تڑپ اٹھا۔ اسی لمحے اس کی بہن بول پڑی۔
”اسے باپو نے ڈیرے پر رکھا ہوا ہے۔
”یہ سمجھ دار لڑکی ہے۔“ جسپال نے کہا اور پھر اس سے پوچھا،”وہ ڈیرہ کہاں ہے؟“
”ہمارے گھر سے کافی دور کھیتوں میں۔“
”وہ ابھی زندہ ہے نا؟“ جسپال نے پوچھا۔
”تب تک تو زندہ ہی تھی۔“ لڑکی نے سہمے ہوئے انداز میں کہا۔
”دیکھو۔ اگر تمہارا یہ کہنا غلط ثابت ہوا نا تو پھر دیکھنا، تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔
“ تانی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
”نہیں ، میں نے ٹھیک بتایا۔“ وہ حتمی لہجے میں بولی تو جسپال باہر نکل گیا۔ اس نے فون پر وہاں سلطان پور کے نزدیک آدمیوں سے کہا کہ وہ معلوم کریں ،کیا سارہ ڈیرے پر قید ہے۔ فون بند کر کے وہ کمرے میں چلاگیا۔ اس نے تانی کو باہر آنے کا اشارہ کیااور آکر کمرے میں بیٹھ گئے۔ انہیں سلطان پور سے اطلاع کا انتظار کرنا تھا۔
ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شاہد کا فون آگیا۔ اس کے لہجے میں گہری تشویش تھی۔ جسپال کی آواز سنتے ہی بولا۔
”ابھی پرسا رام کافون آیا تھا۔کہہ رہا تھا کہ اس کے دونوں بچے واپس کر دیں ، ورنہ بات بہت دور تک جائے گی۔“
”کہاں تک چلے جائے گی، بکواس کرتا ہے وہ ، سارہ اس کے پاس ڈیرے میں قید ہے اور…“
”یہی بات تو کہہ رہا ہے۔
اس نے مجھے بتایا ہے کہ سارہ اس کے پاس ہے۔ اس نے اپنی ہندو برادری کو اکٹھا کر کے کہا ہے کہ مسلمان حملہ آور سارہ کے عوض اس کے بچے لے گئے ہیں، اب کیا کرنا چاہئے۔وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ بات وزیر اعلی تک فوراً پہنچائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی بتایا جائے او ر جو عالمی تنظیمیں ہیں انہیں بھی آ گاہ کیا جائے۔ وہ بہت زیادہ واویلا کریں گے“
”تم کیوں گھبرا رہے ہو شاہد، وہ تجھے کیوں بتا رہا ہے، جائے جا کر ان سب کو بتائے، اس نے جو سارہ کے ماں باپ قتل کیے ہیں ان سے بچنا چاہتا ہے، بہرحال میں سارہ کو ضرورواپس لے آؤں گا۔
”بات اگر ہندو مسلم تنازعہ میں چلی گئی تو …“
”اوئے تو کیا بھارت میں رہ رہا ہے، تھوڑی ہمت کر۔“ جسپال نے کہا۔
”ٹھیک ہے ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ سارہ کو نقصان پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ وہ اسے ختم کرکے الزام تم پر لگا دیں۔پرسا رام کا کیا پتہ؟“ شاہد نے کہا تو جسپال بولا۔
”تو ایسا کر، تھوڑا سکون کر، میں دیکھتا ہوں۔
“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ تبھی جسپال نے ایک دم سے فیصلہ کر لیا۔ کچھ دیر بعدجسپال اور تانی اپنے ڈرائیور کے ساتھ پھر سلطان پور کی جانب چل دئیے۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ سارہ ڈیرے پر ہے۔
سورج مشرق کی اوٹ سے نہیں نکلا تھا، جب وہ دونوں سلطان پورپہنچ گئے۔ شاید جسپال یوں سیدھے وہاں نہ جاتا اگر وہاں اس کے لوگ نہ ہوتے، انہوں نے یہ کھوج لگا لیا تھا کہ سارہ ابھی تک ڈیرے پر ہے اور اس وقت اس کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
دوسرا ابھی جو نیلگوں نور چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، وہ اس ملگجی روشنی کا فائدہ لینا چاہتا تھا۔ جسپال کو سلطان پور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ راستے ہی میں ان کا ایک آدمی مل گیا۔ اس نے ساری تفصیل بتا دی تھی۔ اس نے گاڑی کچھ دور ہی چھوڑ دی اور فصلوں کے درمیان سے ہوتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔
وہ آدمی اس سے آگے تھا اور اس سے ذرا پیچھے تانی کور دیتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔
یہ ممکن ہی نہیں تھاکہ ڈیرے کی چھت پر کوئی بندہ نہ ہو۔ اس لیے بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھتے گئے ، یہاں تک کہ وہ ڈیرے کی دیوار کے پاس پہنچ گئے۔ لکڑی کا پھاٹک کھلا ہوا تھا۔ وہ جیسے ہی اندر گئے، سامنے دالان میں چار پائی پر دوبندے بیٹھے ہوئے تھے ، انہیں دیکھ کر ایک دم سے بولے۔
”کون ہو تم؟“
بولنے والوں کے لفظ منہ ہی میں رہ گئے تھے ، جسپال نے ان پر یکے بعد دیگرے فائر کھول دیا۔
ایک دم سے پرسکون فضا میں خوف پھیل گیا۔ وہ وہاں نہ رکے بھاگ کر دالان میں چلے گئے۔ تبھی سامنے والے کمرے سے دو بندے نکلے،تانی نے ان پر فائر جھونک دئیے۔ تبھی اندر سے کسی عورت کے چیخنے کی آواز آئی۔ تانی فوراً اندر گئی۔ ایک عورت فرش پر بندھی ہوئی پڑی تھی۔ جسپال اور آدمی باہر کھڑے رہے۔ تانی نے اسے کھولا اور ساتھ میں اسے سمجھاتی رہی
”گھبراؤ مت ،ہمیں شاہد نے بھیجا ہے۔
بس اب نکلنے کی کرو۔“
”میں کیسے یقین کر لوں کہ …“
”یہاں سے نکلو، تیری بات کرواتے ہیں۔“ تانی نے تیزی سے کہا اور اس کا بازو پکڑ کر دالان میں آ گئی۔ ایسے میں اوپر چھت پر سے فائرنگ ہو نا شروع ہو گئی۔ وہ جو کوئی بھی تھا، ایک ہی شخص تھا، ایک تو وہ انہیں روکنا چاہتا تھا ، دوسرا اس قدر فائرنگ سے وہ لوگوں کو مطلع کرنا چاہتا تھا۔
اگرچہ سارہ انہیں مل گئی تھی۔ لیکن اب نکلنا مشکل ہو رہا تھا۔ تبھی جسپال نے اس آدمی سے کہا۔
”میں نکلتا ہوں، تم کور دینا اور تانی تم گیٹ سے نہیں، اس چھوٹی دیوار سے…“
تانی سمجھ گئی کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ وہ چھلانگ مارکر دیوار پر چڑھ گئی۔ وہاں سے اس کا سر منڈیر تک جا پہنچا تھا۔ جیسے ہی جسپال صحن میں گیا ، ایک دم سے دو فائر ہوئے ایک اوپر سے اور ایک تانی کی طرف سے۔
وہ اوپر چھت والا بندہ دھپ سے گرا۔ جسپال گیٹ پار کر گیا۔ تانی نے سارہ کا ہاتھ پکڑا اور دیوار پر کھینچ لیا۔ تب تک جسپال دیوار کے دوسری جانب آ گیا۔ وہ تیزی سے ان کے قریب آیا اوراس نے سارہ کو پکڑا کر زمین پر اتار لیا۔ اس کے پیچھے ہی تانی نے چھلانگ مار دی۔وہ تینوں اس جانب بھاگے ، جدھر ان کی جیپ کھڑی تھی۔
روشنی خاصی پھیل چکی تھی۔ انہوں نے دیکھا ، سلطان پور گاؤں کی طرف سے کافی سارے بندے بھاگتے ہوئے چلے آ رہے تھے، بلاشبہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہوسکتا تھا۔
جسپال اب کسی طرح بھی رسک نہیں لے سکتا تھا۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔وہ جیپ کے قریب آئے تھے کہ ہجوم کی طرف سے فائر ہوگیا۔ وہ تیزی سے جیپ میں بیٹھے تو ڈرائیور نے جیپ بھگا دی اور پھر وہ ہر آنے والے لمحے کے ساتھ ہجوم سے دور ہوتے چلے گئے۔
راستے میں جسپال نے شاہد کا فون ملایا۔جلد ہی ان کا رابطہ ہوگیا۔ جب اس نے یہ سنا کہ وہ سارہ کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ ان کے ساتھ ہے تو وہ بے تاب ہو گیا۔ اس نے سارہ سے بات کر کے اسے حوصلہ دیا اور فوراً اس کے پاس پہنچ جانے کے لیے کہا۔ آدھے گھنٹے کے بعدوہ اسی ٹھکانے پر پہنچ گئے ، جہاں سے نکلے تھے۔
                                     #…#…# 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط