”دیکھو‘ اپنے کسی بندے سے کہو‘ کہ وہ پولیس افسران اور مختلف چینل میں دیارام کی روپوشی کی اطلاع دے دیں‘ آشرم میں ہلچل تو پہلے ہی مچی ہوئی ہوگی‘ وہ کسی کونکلنے نہیں دیں گے‘ وہ دونوں باہر ہی ہوں گے‘ ان میں شک کا زہر تو آگیا۔ دیارام انہیں کیسے واپس آشرم میں آنے دے گا۔ پھرہم انہیں تلاش کرلیں گے۔“ میں نے کہا تو وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
”نہیں‘ وہ تو ہاتھ نہ آئے‘ اپنے‘ انہیں‘ ان کے بلوں سے نکالنا ہے۔
“
”پھر اسی باپ سے ان کے ٹھکانے پوچھ‘ نکال لیتے ہیں انہیں۔“ میں نے کہاتو وہ بولی۔
”چلو‘ ابھی کچھ دیر انتظار کرو۔“
اس نے کہااور جیپ سے تھیلا اٹھا کر لائی تھی ‘اس میں سے ٹین پیک سوڈا نکالا‘ ایک مجھے دیا‘ ایک خود لے کر تیسرا نکال کر جھونپڑی میں چل دی۔
(جاری ہے)
دیارام ایک طرف ٹکٹکی لگائے سوچ رہاتھا‘ ہماری آہٹ پاکر وہ سیدھا ہو کربیٹھ گیا۔
”دیارام… یار کیاکھویا‘ کیاپایا تم نے یار“ میں نے اس کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
”سب کھودیامیں نے‘ سب ‘ اس وقت میرے کچھ بھی کام نہیں آرہا ہے‘ لیکن ایک کوشش اب بھی کی جاسکتی ہے۔“
”وہ کیا؟“ بانیتا نے پوچھا۔
”اگرایک بندے کو فون ہوجائے تو وہ ان دو نو ں کومنٹوں میں قابو کرسکتا ہے‘ اسے ان دونوں کے بارے میں سب علم ہے۔
“ دیارام نے کافی حد تک اعتماد سے کہا۔
”کون ہے وہ‘ اس کانمبر بتاؤ۔“ بانیتا نے تیزی سے پوچھا۔
”ایک نمبر ہی تو میرے پاس نہیں ہے‘ اگر تم کسی طرح آشرم کے مہلا ہاسٹل کانمبر لے لو تو بات بن سکتی ہے۔“ دیارام نے کہا۔
”وہ ہے نمبر میرے پاس۔“
”توپھر ملاؤ‘ میں بات کروں گا۔“ اس نے کہا تو بانیتا نے نمبر ملانے کی بجائے لندن ہی ملایا۔
میرے ذہن میں تھا کہ ممکن ہے وہ کسی بے شعوری میں غلطی کرجائے‘ ایسا نہیں ہوا‘ کچھ دیر بعد مہلاہاسٹل میں رابطہ ہوگیا‘ تو ایک عورت نے گھبرائے ہوئے پوچھا۔
”باپو‘ آپ کہاں ہیں، آپ ٹھیک تو ہیں۔“
”میں ٹھیک ہوں‘ میری بات غور سے سنو‘ کسی بھی مہلا کوہاسٹل سے باہر نہیں جانے دینا‘ چاہے کچھ بھی ہوجائے‘ اور میری اک مدد کرو‘ مجھے اپارہ سنگھ باجوہ کانمبر دوفوراً۔
“
”ابھی دیتی ہوں پر باپو! آپ کہاں ہیں اور کس کے ساتھ ہیں؟ ہم نے تو یہی سنا ہے کہ آپ کو اغواء کیا گیا ہے۔“ اس عورت نے الجھتے ہوئے کہا۔
”نہیں‘ میں اغواء نہیں ہوا۔ پرکاش‘ اور دپیکا سے چھپاہوں‘ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ تم یہ بات خود بھی اپارہ سنگھ باجوہ کو بتادو۔“
”لکھو باپونمبر“ اس عورت نے کہا اور نمبر لکھوادیا‘ اس کے ساتھ ہی بانیتا نے نمبر بند کردیا‘کچھ دیر بعد اپارہ سنگھ باجوہ کانمبر مل گیا‘ کچھ دیر تمہید ی باتوں کے بعد دیارام نے کہا۔
”وہ دونوں مجھے چاہیے ،ورنہ میرا قتل ہوجائے گا۔“
”آپ فکرنہ کرو‘ آپ آدھے گھنٹے بعد رابطہ کرنا۔“اس کے بعد فون خاموش ہوگئے۔
عجیب کھچڑی سی پک گئی تھی۔ ہم نے سوچا کچھ اورتھا‘ لیکن اندر سے معاملہ ہی کچھ اور نکلا تھا۔ ہم دونوں کھلی فضا میں آکربیٹھ گئے اوراس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے رہے ۔بانیتا نے ساری صورت حال حویلی بتادی۔
ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد ہم جھونپڑی میں گئے۔ دیارام بہت افسردہ بیٹھا ہواتھا۔ بانیتا نے باجوہ کو فون ملایا۔ تب دوسری طرف سے پرجوش انداز میں کہاگیا۔
”دیارام جی! وہ دونوں میرے پاس ہیں‘ کیاحکم ہے ان دونوں کے لیے۔“
”مجھے یقین تھا کہ ایک تمہی ہو جو انہیں قابو کرسکتے ہو۔ ورنہ ان حالات میں وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرنے والے۔
“ دیارام نے نفرت سے کہا۔
”نہیں‘ میں ابھی ان کی تلاش کرنے والا تھا‘ کہ انہوں نے خود رابطہ کرلیا ہے۔ اصل میں آپ کو صورت حا ل کا نہیں اندازہ ‘ آشرم کو پولیس نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے اور تلاشی لینے کے لیے بات چیت کررہے ہیں۔ اسی خوف سے یہ دونوں میرے پاس آگئے ہیں۔“
”انہیں قابو میں رکھو‘ میں کچھ بندے بھجواتاہوں‘ انہیں ان کے حوالے کردینا۔
اس کے بعد ہی میں آشرم میں آکر سب سنبھال لیتاہوں۔“ دیارام نے تیزی سے کہا‘ پھر کچھ کورڈ وڈ طے ہوئے‘ اور فون بند ہوگیا۔
بانیتا ایک دم ہی سے پرجوش ہوگئی تھی۔ دیارام نے باجوہ کا پورا اتہ پتہ بتایا‘ اس کے بعد بانیتا نے اپنے چند بندوں کو اس کام پر لگادیا۔ وہ بڑے صبر آزما لمحات تھے۔ یاتو بانیتا کے بھیجے ہوئے بندے غائب ہوجانے تھے یا پھر اتنی محنت کرنے کے بعد کامیابی مل جانے والی تھی۔
میں اس کی اضطراری کیفیت دیکھ رہاتھا۔ آدھے گھنٹے بعد اس کافون بج اٹھا۔ اس کے لوگ تھے‘ اپارہ سنگھ ان سے تصدیق چاہ رہاتھا‘ فوراً ہی دیارام کی بات کروادی گئی‘ کچھ ہی دیر بعد پرکاش اور دیپکا کو ان بندوں کے حوالے کردیاگیا لیکن اپارہ سنگھ باجوہ نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان دونوں کو کچھ نہیں کہاجائے گا‘ اور دیارام انہیں معاف کردے گا‘ بانیتا کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔
اس نے دیارام کو لیااور جھونپڑی سے باہر آگئی۔ ڈرائیور گاڑی لے آیا تھا۔ دیارام کی آنکھوں پر ویسے ہی پٹی باندھ دی گئی اور ہم وہاں سے نکل پڑے۔ ترن تارن سے امرتسر روڈ پر آئے تو ہم نے جیپ چھوڑ دی۔ ڈرائیور دیارام کو لے کرچلا گیا۔ ایک دوسری کار ہمارے انتظار میں تھی۔ ہم اس پرنکل پڑے۔ ہمارے سفر کااختتام شہر سے باہر ایک فیکٹری میں ہوا۔ یہ رتن دیپ سنگھ ہی کی فیکٹری تھی اور یہاں کچھ فوڈ پراڈکٹ تیار ہوتے تھے ۔
کچھ ہی دیر بعد ہم فیکٹری کی پچھلی جانب ایک بڑے سارے سٹور میں جارکے۔ اس وقت اندھیرا پھیل چکا تھااور روشنیاں جگمگااٹھی تھیں۔
سٹور کے ایک کونے میں بڑی میز کے اردگرد کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ دوکرسیوں پروہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ بانیتا اور میں ان کے سامنے جاکر بیٹھ گئے۔ تب پرکاش نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
”میرا نہیں خیال کہ ہمارے درمیان کوئی دشمنی ہے‘ میں نے کوئی ایسی ڈیل نہیں کی جس میں…“ اس نے کہنا چاہا تو بانیتا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”فضول باتیں مت کرو پرکاش‘ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ سکھ قوم کے خلاف کیا کچھ کرتے رہے ہو اور ا ب بھی کررہے ہو۔ میں مانتی ہوں کہ تمہارے پیچھے ہندو تنظیمیں ہیں لیکن تم وہ (نازیبا گالی بکتے ہوئے )ہو جو اپنی ہی ہم وطن بہنوں کو غیروں کے ہاتھ فروخت کررہے ہو‘ کیا سکھ عورتیں بھیڑ بکریاں ہیں یا مویشی ؟“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کی آواز پھٹ گئی تھی۔
”میں ایسا کچھ سوچ کرنہیں…“ اس نے پھر کہنا چاہا تو بانیتا نے پوری قوت سے تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا۔
”بکواس کرتا ہے سالا۔ “ یہ کہہ کر وہ دیپکا کو دیکھ کر بولی۔ ”اور یہ کتیا ابھی توبھونکے گی ۔“ تبھی اس کا فون بجا تووہ سننے لگی پھر چند لمحوں بعد ہی اس نے کچھ فاصلے پرکھڑے ایک گارڈ سے کہا۔ ”اے! ٹی وی لاادھر‘ جلدی۔“یہ کہتے ہوئے وہ خاموش ہوگئی۔
کچھ ہی دیر بعد ایک ٹی وی لایا گیا‘ اس کاکنکشن لگایا تو کئی چینل آنے لگے۔ وہ ایک پررک گئی جہاں دیارام پریس کواپنا بیان دے رہاتھا۔
”وہ لوگن …میرے سیوک تھے‘ پرنتو معالم نہیں تھا کہ وہ آشرم میں‘اندرہی اندر …بھیانک کام میں ملوث تھے۔ مجھے معالم ہواتومیں نے انہیں روکا۔ وہ میری جان کو آگئے‘ مجھے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے‘ انہوں نے مجھے یہاں یرغمال بنالیاتھا‘ پھرمیں نے کچھ لوگوں سے مدد لی‘ اب وہ فرار ہوچکے ہیں۔
پولیس سے بنتی ہے کہ وہ انہیں جلد از جلد گرفتار کرلے‘ پنجاب کے مختلف علاقوں کی مہلائیں یہاں قید تھیں‘ وہ ابھی پولیس کی حوالے کی ہیں‘ ابھی ان کے جرم سامنے آرہے ہیں۔“
”تم لوگوں کا کام تو کردیا دیارام جی نے۔“ میں نے طنزیہ انداز میں کہاتووہ دونوں حیرت سے ٹی وی کو دیکھنے لگے جیسے کچھ انہونی ہوگئی ہو پھر دیپکا غراتے ہوئے بولی۔
”یہ دیارام …اس نے … یہ خود بڑا مجرم ہے سالااور… ہمیں مجرم کہہ رہا ہے۔“
”دیکھو‘ اگر تم لوگ زندہ رہنا چاہتے ہو‘ اپنا پورا نیٹ ورک تفصیل سے بتادو… کون کون اس کے پیچھے ہے‘ یہ تم دونوں کو بتانا ہوگا… آرام سے بتادوتو ٹھیک ورنہ ۔“ بانیتا نے کہاتو پرکاش نے ایک دم غصے سے کہا۔
”میں جانتاہوں کہ تم لوگ ہمیں زندہ چھوڑنے والے نہیں‘ اور نہ ہی ہمیں پولیس کے حوالے کروگے تو پھر دوسروں کوبتانے کافائدہ… ماردو… “ اس نے کہا ہی تھا کہ میں نے اسے کالر سے پکڑ کر اٹھایااور پوری قوت سے گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا۔
اس نے مجھے پکڑ لیا اور میرے ساتھ گتھم گتھا ہوگیا۔ وہ بہترین فائٹر تھااور میرے ساتھ زور آزمائی پراتر آیا تھا۔ اس نے اپنا گھٹنا میرے پیٹ میں مارا‘ جس سے درد کی شدید لہر میرے اندر اتر گئی۔ اس وقت میں نے اسے ذرا سی ڈھیل دے دی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے‘ چند لمحوں ہی میں وہ میرے پیچھے تھا‘ اس کابازومیری گردن میں تھا‘ دوسرے ہاتھ سے اس نے میری کلائی پکڑی ہوئی تھی‘ بانیتا حیرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی‘ تبھی پرکاش بولا۔
”ہلنا مت… ورنہ ایک جھٹکے سے تیری گردن ٹوٹ جائے گی۔“
اس لمحے دیپکا اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے میرے پیٹ میں گھونسہ مارتے ہوئے نفرت سے کہا۔
”نیٹ ورک کے بارے میں پوچھتا ہے‘ چل…ہمیں باہر لے کر چل…“ پھر گھوم کر سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اپنی جگہ نہیں چھوڑنی …ورنہ یہ تو جان سے جائے گا۔“
میں حیران تھا کہ انہوں نے گرگٹ کی طرح کیسے رنگ بدلا ہے۔
میں نے چند لمحے مزید انہیں دیکھا‘ پھر مڑنے کی اداکاری کرتے ہوئے اچانک اس کاہاتھ اپنی گردن سے نکالاور اس کی دونوں کلائیاں اپنے ہاتھ میں لے کر اس طرح جھٹک دیں کہ اس کے منہ سے اذیت ناک کراہ نکلی‘ پھر تیز چیخ کے ساتھ اس کے دونوں ہاتھ لٹک گئے۔ میں نے دونوں کھڑے ہاتھ اس کی گردن پر مارے تووہ چکرا کر‘ زمین پر گر گیا۔ تب میں نے دیپکا کی طرف دیکھا تو وہ ششدر تھی‘ میری طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو‘ میں اس کی طرف بڑھا تو بانیتا نے تیزی سے کہا۔
”نہیں دلجیت! اسے میں دیکھتی ہوں‘ تم اِسے ہوش میں لاکرمزید دھلائی کرو۔“
میں نے پرکاش کے پہلو میں ٹھوکر ماری۔ وہ ہوش میں آگیا لیکن اسے سدھ بدھ نہیں تھی۔ میں نے قریب کھڑے سکھ سیکیورٹی گارڈ کی کرپان نکالی اور اس کی ران میں پیوست کردی‘ پھر دوسری ران میں ماری وہ ذبح کئے ہوئے جانور کی طرح بلبلانے لگا‘ تبھی چٹاخ کی آواز کے ساتھ ماحول گونج اٹھا‘ بانیتا نے دیپکا کو اپنے آگے رکھ لیاتھا‘ کچھ ہی دیر بعد وہ چیختے ہوئے کہنے لگی۔
”میں بتاتی … ہوں…بتاتی ہوں…“
میں نے تب تک پرکاش کے دونوں ہاتھ کاٹ کر دیپکا کے سامنے پھینک دیئے‘ وہ خوف اور حیرت سے پیلی پڑ گئی۔
رات گئے تک ساری معلومات لے لینے کے بعد ان دونوں کو ایک شاہراہ پرپھینک دینے کے لیے بانیتا نے انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ پرکاش تقریباً مرچکاتھا اور دیپکا کو مار دینے کاحکم دے دیاگیاتھا۔
وہاں سے نکل کر اس گھر میں گئے اور پھر تہہ خانے کی سرنگ کے ذریعے حویلی میں جاپہنچے۔
رات کے اس پہر رتن دیپ سنگھ ہمارے انتظار میں تھا۔ اس نے ہم دونوں کو اپنے گلے لگایا‘دیر تک اپنے سے چمٹائے رکھا‘ پھر جب اس نے ہمیں الگ کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”بہت ساری بیٹیوں کو بچالیا ہے تم نے‘ کئی گھروں کی عزت‘ سکھی کی شان تو بیٹیوں سے ہے‘ میں احسان مند ہوں‘ تم دونوں کا‘ مانگ جمال کیامانگتا ہے تو مجھ سے ۔
“ یہ کہہ کر اس نے ہم دونوں کو خود سے الگ کردیا‘ اور میرے چہرے پر دیکھنے لگاتو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کا پیار۔“
میرے یوں کہنے پر اس نے مجھے دوبارہ اپنے سینے سے لگالیا‘ پھر روتے ہوئے بولا۔
”تو مجرم نہیں ہے… نہ ہی ہوسکتا ہے … تیرا اندر پاک صاف ہے پتر… میں تیرا احسان نہیں دے سکتا۔ پوری سکھ قوم نہیں دے سکتی۔
“
وہ بے حد جذباتی ہو رہا تھا۔
کچھ دیر تک وہ اسی حوالے سے بات کرتا رہا‘ پھر ہمیں آرام کرنے کا کہہ کروہ اندر کی جانب چلاگیا۔
میں فریش ہو کر بیڈ پر پھیل کر لیٹا ہواتھا۔ مجھ پراچھی خاصی تھکن سوار تھی‘ ایسے میں بانیتا شارٹس پہنے اور ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے نمودار ہوئی۔ اس نے ٹرے میرے سامنے رکھا اور بولی۔
”دلجیت جی کچھ کھاپی لو‘ یہ چکن تکہ ہے‘ اورسوڈا … کھالو اور پھر سوتے ہیں۔
“
میں کھانے لگا‘ اس وقت آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ جب میں لیٹا‘ مجھے معلوم تھا کہ بانیتا کو نیند نہیں آتی‘ وہ یونہی بیٹھی رہے گی‘ اس لیے میں پھیل کر سوگیا۔
وہ صبح کا وقت تھا جب اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے خواب میں اپنی ماں کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے اسی پرانے مکان کے صحن میں جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہی مکان جسے شاہ زیب کے کارندوں نے جلادیاتھا لیکن اس و قت خواب میں وہ جلا ہوا نہیں تھا۔
میں حسب معمول کمرے سے باہر آیا تو ماں نے میری طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ نگاہ بھر کے دیکھا کرتی تھیں اور پھر سے اپنے وظیفے میں مشغول ہوجایا کرتی تھیں‘ لیکن خواب میں انہوں نے تسبیح روک دی‘ پھر میری طرف نگاہ بھر کے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کہاں تھا تو۔ مجھے دکھائی کیوں نہیں دے رہا تھا تو؟“
”اماں میں یہیں کمرے میں سویا ہواتھا۔“ میں نے حیرت سے کہا۔
”لیکن میری نگاہوں سے تو اوجھل تھا‘ چل ادھر آبیٹھ تیرے لیے میں ناشتہ بناتی ہوں۔“ انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا تو میں بولا۔
”ٹھیک ہے اماں‘ تو ناشتہ بنا‘ میں ڈیرے سے ہو کر آیا۔“
”نہیں‘ تو پھر غائب ہوجائے گا۔ ناشتہ کرلے‘ پھر چلے جانا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ کچن کی طرف چل دیں اور میں چارپائی کی جانب بڑھا۔ تب میری آنکھ کھل گئی۔ میں ایک دم سے اُداس ہوگیا۔ مجھے اماں شدت سے یاد آنے لگی تھیں۔
…###…