” نوٹوں کا معاملہ طے ہو گیا ہے نا، اس کے بعد جو ہو ،ہمیں کیا۔“ میں نے کہا تو وہ سمجھ گیا اس لئے جوش سے خوش ہوتے ہوئے بولا
” اصل میں ان کی رقم بڑی تگڑی مل رہی ہے۔ یہ بڑے اہم لوگ ہیں۔ بھارت کی تنظیم را کے ایجنٹ ہیں۔یہ فرحان تو پاکستانی ہے، اور اس لڑکی کے ہاتھوں استعمال ہوا ہے ۔ اس کا باپ اتنی زیادہ رقم نہیں دے رہا ہے۔ اسے شاید چھوڑنا پڑے۔
“
” اور ان لوگوں کے بارے تو ہم ان کی حکومت سے بات نہیں کر سکتے، انہیں تو مارنا ہی پڑے گا۔“ میں نے سکون سے کہا تو وہ جلدی سے بولا
” ارے نہیں، میں نے ان کے پکڑنے سے پہلے ہی سارے آپشن دیکھے تھے، ان کی حکومت سے نہ سہی ، ان کے مخالفین تو ہیں۔“
” چلو پھر ڈن کرو اور انہیں یہاں سے غائب کرو۔“ میں نے اطمینان سے کہا
” دیکھو! اگر تم لوگوں کو دولت ہی چاہئے تو میں دے سکتا ہوں۔
(جاری ہے)
“ اُس نے کہا جس نے اپنا نام اجمل مسیح بتایا تھا۔
” کیسے… کیسے دے پاؤ گے تم؟“ رندھاوا نے پوچھا
” صرف ایک بار چوہدری شاہنواز سے بات کر لیں، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ وہ منہ مانگی رقم دے دے گا۔ آپ لوگ بات تو کرو۔“ اس نے الجھتے ہوئے کہا تو میں بولا
” تم نے اپنے بارے میں درست نہیں بتایا تو میں یہ بات کیسے مان لوں۔ تمہارا یا شاہنواز کا کیا اعتبار۔
“
” اب جاننے کی ضرورت نہیں ہے ، مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ ان کے نوٹ مل رہے ہیں ۔میں ابھی انہیں لے جاتا ہوں۔“ رندھاوا نے کہا
” دیکھو، ایک بار ، میری بات کرا دو۔“ لڑکی نے کہا تو میں نے ایک دم سے کہا
” چلو ، تیری بات مانتے ہیں۔ کرتے ہیں فون۔“ میرے یوں کہنے پر ان کے چہروں پر ایک دم سے رونق آ گئی۔ مجھے ایسی بات کرنے کا تجربہ تھا ۔
میں نے اس کا نمبر پوچھا اور باہر آ کر روہی میں فون ملا کر انہیں نمبر دے دیا۔ چند منٹوں کے بعد رابطہ ہو گیا۔ میں نے اپنی آواز بدلتے ہوئے کہا
” تیرے ڈیرے سے جو لوگ اغوا ہوئے ہیں وہ میرے پاس ہیں۔“
” تو جو کوئی بھی ہے۔ وہ لوگ زندہ رہیں یا مر جائیں ۔ لیکن تو زندہ نہیں رہے گا ، میں تجھے ڈھونڈ نکالوں گا، تجھے پتہ نہیں تو …“
” بکواس کرتا رہے گا یا اپنے ان رشتے داروں سے بات بھی کرے گا، جو تیرے ساتھ بات کرنے کو بے تاب ہیں۔
“
” بات کراؤ،“ اس نے کہا تو میں نے فون اس لڑکی کو دے دیا۔ اس نے فون کان سے لگاتے ہی کہا۔” شاہنواز جی ، انہیں ان کی مطلوبہ رقم دے دیں۔ وہ آپ کو مل جائے گی۔“ پھر دوسری طرف سے نجانے کیا سنتی رہی،لیکن میں بات مکمل نہیں ہونے دی اور فون لے کر کہا
” اب کیا خیال ہے؟“
” جتنی چاہو اورجہاں چاہو، میں رقم تجھے ابھی دینے کے لئے تیار ہوں ، لیکن میرے بندوں کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔
“ اس نے سخت لہجے میں کہا
” نہیں ہوگا اگر تم نے وعدہ خلافی نہ کی تو۔“ میں نے کہا
” نہیں وعدہ خلافی نہیں ہوگی۔ رقم بولو۔“ اس نے کہا تو میں بولا
” تین کروڑ۔“ میں نے اس سے رقم مانگ لی تو اس نے لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور بولا
” ڈن ہو گیا۔“
اس نے رقم دینے کا وعدہ کر لیا۔ میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ رقم کیسے لینی ہے، اور بندے کیسے دینے ہیں۔
وہ مان گیا۔میں اور رندھاوا باہر آگئے۔
” چوہا، بل سے باہر آرہا ہے، میں ساری صور ت حال بتاتا ہوں ۔“
یہ کہہ کر رندھاوا نے فون پر بات کی ۔ ہم وہیں کھڑے تھے ۔شاید وہ لوگ قریب ہی تھے ۔کچھ ہی دیر بعد چند فوجی جو اس وقت عام شلوار قمیض میں تھے، تیزی سے اندر آئے اور کمرے کی جانب بڑھے۔ انہوں نے زیادہ وقت نہیں لیا، ان تینوں کو اٹھا کر لے گئے۔
ایک میجر رینک کے آفیسر کے سامنے یہ کارروائی ہوتی رہی۔ ٹرک ان تینوں کو لے کر چلا گیا تو وہ آفیسر میرے پاس آیا اور ہاتھ ملا کر بولا
” مسٹر جمال ۔ آپ نے بہر حال ایک اچھا کام کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ شاہنواز اب سامنے آئے گا۔“
” اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس شاہنواز کو پکڑتا ہوں۔“ میں نے تیزی سے کہا تو وہ مضبوط لہجے میں تیزی سے بولا
” نہیں، اب ہم اسے پکڑ لیں گے۔
“
” ٹھیک ہے ، جیسے آپ کی مرضی۔“ میں نے کاندھے اچکا کر کہا تو اسی انداز میں بولا
”میں مانتا ہوں کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں نے انہیں ٹریس تو کر لیاتھا لیکن تلاش نہیں کر پائے۔ یہ ایک امر ناتھ تھا اور وہ لڑکی ، مالنی دیوی تھی۔ یہ دونوں تقریباً چھ سال سے اسی علاقے میں کام کر رہے تھے۔وہ لڑکا فرحان اس لڑکی کے جال میں پھنس گیا تھا۔
یہ اس لڑکے سے مختلف کام لیتی تھی۔ اسے اپنی محبت وغیرہ کا چکر دیا ہوا تھا۔ جو ان کا طریقہ ہوتا ہے، آپ کو معلو م ہی ہو گا ۔“
” چلیں اب تو میدان صاف ہو گیا،لیکن مجھے نہیں لگتا، ان کے اثرات تو یہاں ہوں گے؟“ میں نے کہا تو وہ بولا
”ظاہر ہے ان کے اثرات ابھی یہاں ہوں گے۔ اور ممکن ہیں ہوں بھی۔ شاہنواز کے پاس یہ چھپے ہوئے تھے ، اسے ابھی پکڑنا ہے ، آپ محتاط رہنا، وہ ہاتھ آ گیا تو پھر میدان صاف ہوگا۔
میں آج کل میں آپ کے ساتھ دوبارہ ملتا ہوں۔ آپ نے پلان کر لیا، شکریہ۔ “
” اگر وہ ابھی ہاتھ نہ آیاتو؟“ میں نے پوچھا
” ہمارے پاس دوسرے راستے بھی ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا
” میجر ، جیسے یہ آپ کا وطن ہے ، ویسا ہی میرا بھی ہے۔ مجھے اپنے وطن کے لئے کام کر کے خوشی ہوگی۔ میں آپ کا انتظار کروں گا۔“ میں نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر پلٹ گیا۔
” او یار جمال تیری مہربانی ، لیکن بہت خیال رکھنا، شاہنواز کی کہانی ختم سمجھو۔“رندھاوا نے کہا ،ہاتھ ملایا اور تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔ اس وقت دن نکلنے کو تھا،جب ہر طرف ایسی خاموشی چھا گئی ، جو طوفان آنے سے پہلے کی ہوتی ہے۔
#…#…#