Episode 2 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 2 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

رات گہری ہوچلی تھی۔ ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔ میں اور جسپال دو اونٹوں پر سوار چلتے چلے جارہے تھے۔ صحرا میں چلنے اور منزل پر پہنچنے کی تربیت ہمارے کام آرہی تھی۔ میں ستاروں کی ترتیب سے اپنی راہ پر تھا۔ مجھے چوکیوں کے بارے میں خوب اندازہ تھا۔ ان سے بچتے بچاتے ہم دونوں باڑ تک آپہنچے جو ابھی ہم سے کافی دور تھی۔ ہم نے اونٹوں کوواپس ہانک دیا۔
اس وقت میں نے زمین پر لیٹ کر آلہ نکالا تاکہ اپنی سمت درست ہونے کا تعین کرلوں۔ویسا ہی جسپال کررہاتھا۔ چند لمحوں بعد ہمیں اپنی سمت کے درست ہونے کا یقین ہوگیا۔
 ہم کرالنگ کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ ہمیں باڑ کے نیچے بنی سرنگ میں سے گزرنا تھا۔ جو مقامی بھارتی اسمگلروں نے اپنے لیے بنائی تھی اور اس رات انہوں نے اسی سرنگ سے پار آنا تھا۔

(جاری ہے)

ہم بہت قریب جاکر رک گئے۔ ہمارے اندازے کے مطابق انہیں اب تک سامنے آجانا چاہیے تھا۔ ہم زمین سے چپکے ہوئے تھے اور ہماری نگاہیں سامنے لگی ہوئی تھیں۔ روشنی پھیلنے میں ابھی تین گھنٹے سے زیادہ کاوقت تھا۔ تاہم باڑ پر لگی روشنی سے اردگرد کا سارا منظر صاف دکھائی دے رہاتھا۔ بلاشبہ وہ اسمگلر وہاں کی سرحدی فورسز کے میل ملاپ ہی سے سرحدپار کرتے تھے۔
ہم زمین سے لگے انتظار کررہے تھے۔ تبھی سرنگ میں سے ایک بندہ رینگتا ہوا باہر نکلا‘ اس نے ایک دولمحے باہرکاجائزہ لیا اور پھر آگے بڑھ آیا۔ اس کی کمر پربڑا سابیگ تھا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے چھ بندے باہر آئے‘ ان کے پاس ویسے ہی بیگ تھے۔ نجانے اس میں کیا تھا۔ وہ رینگتے ہوئے ہم سے کچھ فاصلے پر دائیں جانب بڑھتے چلے گئے۔ ہم مقررہ وقت کاانتظار کررہے تھے۔
جیسے ہی وہ وقت ہوا‘سرنگ میں سے ٹارچ کی روشنی دوبار جل کربجھ گئی۔ہم تیزی سے رینگتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔یہاں تک کہ سرنگ میں سے ہو کر دوسری جانب باہر نکل آئے۔
 سامنے کوئی نہیں تھا‘ہم رینگتے ہوئے کافی فاصلہ طے کرگئے‘ یہاں تک کہ ہمیں ٹارچ کی روشنی سے پھر بتایا گیا کہ ہم نے کدھر جانا ہے‘کچھ ہی فاصلے پر تین بندے کھڑے تھے۔ ہم نے کھڑے ہو کر ان سے ہاتھ ملایا تو ان میں سے ایک بولا۔
”چلو بھائی‘ اب گاڑی میں بیٹھو۔“ اس نے ٹارچ کی روشنی میں ذرا سے فاصلے پر کھڑی فوروہیل جیپ کی جانب اشارہ کیا۔ ہم اس میں بیٹھے تو گاڑی چل دی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ سفرطے کرنے کے بعد ایک ڈیرے میں جاپہنچے۔ اس دوران انہوں نے ہم سے کوئی بات نہیں کی۔ گاڑی سے اترے تو دیکھا‘ ایک طرف کچے کمروں کی قطار تھی‘ جس کے باہر مویشی بندھے ہوئے تھے۔
سامنے رہائشی عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ ایک طرف کچھ لوگ چارپائیوں پرپڑے سو رہے تھے۔ وہ تینوں ہمیں لیتے ہوئے رہائشی عمارت کی جانب چل پڑے۔ سامنے ہی بڑے سے کمرے میں ایک ادھیڑ عمر موٹا سا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ سفید ململ کا کرتااور دھوتی پہنے ہوئے تھا‘ سر پر خشخی چھوٹے چھوٹے بال‘ موٹے چہرے پر موٹی مونچھیں‘ باقی نقوش کے مقابلے میں اس کی آنکھیں چھوٹی تھیں۔
”آؤ بھیا آؤ، وقت پر پہنچ گئے۔ آؤبیٹھو۔“ اس نے اپنے دائیں جانب دھری کرسیوں پر بیٹھنے کااشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ تینوں اندر چلے گئے تووہ بولا۔ ”جسپال کاتو ادھر کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ مسئلہ جمال کا ہوگا۔“
”کیسامسئلہ ؟“ میں نے پوچھا۔
”کاغذات تو تیرے بن گئے ہیں۔ تو امرتسر کا رہائشی ہے۔ جس خاندان سے تو تعلق رکھتا ہے اس بارے میں سب کچھ تیرے ای میل میں ہے‘ دیکھ لینا‘ بس ذرا دھیان سے زبان سے نہ پکڑے جانا۔
باقی سب ٹھیک ہے۔تیرا خاندان مسلمان ہی ہے اور تقسیم سے پہلے کا امرتسر میں رہ رہا ہے۔“ 
”چلو یہ تو میں دیکھ لوں گا، کوئی اور بات؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولا۔
”اب کہانی سن لو…“ اس نے چند لمحے جسپال کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”تجھے چند غنڈے اٹھا کر لے گئے تھے چندی گڑھ سے۔ انہوں نے ہی تم پر شاپنگ مال میں فائرنگ کی تھی پھرانہوں نے تجھے کہاں رکھا‘ یہ نہیں معلوم۔
بس یہی بات منواتے رہے کہ تونے رنویرسنگھ انسپکٹر کو قتل کیا ہے۔ ویسے بھی تمہاری حالت پہلے والی نہیں رہی۔ وہاں سے تمہیں نکال کر نجانے کس جگہ لے جارہے تھے کہ راستے میں جمال کی مدد سے تم فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اب جالندھر میں ہو‘ یہ تم پریس کانفرنس میں کہوگے‘ اور یہ بھی کہ ہر طرح کی عدالت میں‘ ہر طرح کی تفتیش کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو،اور سیدھے سبھاؤ رویندر سنگھ اور رنویر سنگھ کانام لے دینا ہے۔
”کیا جمال کو پریس کے سامنے لایاجائے گا۔میرا خیال …“ جسپال نے کہنا چاہا لیکن وہ بات کاٹ کر بولا۔
”تمہارا خیال ٹھیک ہے۔ یہ کسی جگہ رہے گا‘ بعد میں تمہارے ساتھ آن ملے گا۔ ان چند دنوں میں اسے کچھ سکھایا جانا ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ جسپال مطمئن ہوگیا۔
”اب تم لوگ رہنا چاہو تورہو‘ اپنی حالت درست کرو‘ کھانا وغیرہ کھاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ‘ تم لوگوں نے تقریباً دس بارہ گھنٹے کا سفر کرنا ہے۔
“ اس نے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی دونوجوان آئے اور ہماری ایک کمرے تک رہنمائی کی۔ وہاں کچھ دیر رہے او ر پھر اگلی سہ پہر تک ہم جالندھر جاپہنچے۔
…###…
وہ جالندھر شہر کے باہرکوئی پوش علاقہ تھا۔ جس کے ایک بڑے سارے بنگلے میں مجھے ڈراپ کرکے وہ جسپال کو لے کرچلے گئے۔ میں بہت تھک گیا تھا‘مگر سامنے اپنی میزبان کو دیکھ کرجی خوش ہوگیا۔
وہ لمبے قد کی سروقدحسینہ تھی‘ سانولے رنگ کی‘ جس کے نقوش تیکھے تھے۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میری جانب د یکھ رہی تھی۔ اس کے گیسو‘ محض بوائے کٹ تھے‘ سلیولیس شرٹ اور شارٹس پہنے ہوئے تھی‘ اس کے دائیں ہاتھ میں لوہے کاکڑا تھا۔ اگرچہ وہ پتلی سی تھی لیکن نسوانی حسن میں خاصی بھاری اور پرکشش تھی۔ اس نے میری جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میں دلجیت کور…آپ کی میزبان، آپ مجھے صرف دل بھی کہہ سکتے ہو۔
میں نے اس کاہاتھ تھامتے ہوئے ٹھیٹھ پنجابی میں کہا۔
”لیکن یہ آپ جناب تو نہیں چلے گا اگر میں صرف دل کہوں گا تو؟“
’اوہ تم جو مرضی کہنا، اندر تو آجاؤ کہ ساری باتیں ادھر ہی کرنی ہیں۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہااور ہم چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں صوفوں پر آبیٹھے۔ تب وہ بولی۔”میں تجھے آرام کااس لیے نہیں کہوں گی کہ ابھی جسپال کی پریس کانفرنس ٹی وی پر آنے والی ہوگی‘ وہ سن لیں تو پھر آرام کرلینا۔
لیکن اتنا وقت ہے کہ تم نہا کر کپڑے بدل لو‘ اگر…“
”میں فریش ہونا چاہتا ہوں۔“ میں نے کہا تووہ مجھے لے کر ایک کمرے میں آگئی۔
میں فریش ہو کر واپس ڈرائنگ روم میں آیا تو وہ صوفے پر ٹانگیں سیدھے کیے نیم دراز تھی۔ اس کا رخ ٹی وی کی طرف تھا‘ میز پر چائے دھری ہوئی تھی اور ایک لیپ ٹاپ سامنے والے صوفے پر پڑاتھا۔
”جمال۔! اپنی ای میل دیکھ لو‘ پھر باتیں ہوں گی۔
میں نے لیپ ٹاپ کھولااور اس میں کھوگیا۔ امرتسر والے جمال کے بارے میں کافی معلومات تھیں‘ تصویریں اور ویڈیوز تھیں۔ میں انہیں دیکھ رہاتھا کہ دلجیت بولی۔
”ادھر دیکھو جمال! وہ دائیں طرف سنہری عینک والا کیشیو مہرہ ہے۔“
ٹی وی پر جسپال کافی ساری صحافیوں میں گھرا ہوا تھا‘ وہ بڑے اعتماد سے وہی کہانی دہرا رہاتھا‘ وہ جب کہہ چکا تو ایک صحافی خاتون نے سوال کیا۔
”وہ شخص ‘ جس نے آپ کو فرار ہونے میں مدد دی ‘ اب وہ کہاں ہے؟“
”میں نہیں جانتا‘ میں چاہوں گا کہ وہ مجھے ملے‘ میں اس کااحسان مند ہوں‘ میں نے اسے اپنے گاؤں کے بارے میں بتادیاتھا۔“
”انہوں نے آپ پرتشدد بھی کیا۔“
”پہلے پہل کیا‘ پھر ذہنی اذیت دیتے رہے‘ میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے ہی قانونی چارہ جوئی کروں گا۔
اس طرح کی کچھ باتوں کے بعد جسپال کی پریس کانفرنس ختم ہوگئی۔ میں چائے ختم کرچکاتھا‘ تب دلجیت بولی۔
”اب جاؤ اور آرام کرو۔ رات کھانے پر جگاؤں گی۔“
”وہ تو ٹھیک ہے‘ لیکن کیا یہاں تیرے علاوہ کوئی دوسرا نہیں رہتا؟“ میں نے تجسس سے پوچھا تو وہ دائیں آنکھ دبا کر بولی۔
”کیوں، نیت خراب ہو رہی ہے مجھ پر۔ تُو اگر مجھے ہاتھ لگالے تو میں تیری، پھر جو مرضی کرلینا۔
“اس نے یہ لفظ کہے تو نجانے مجھے تانی کیوں یاد آگئی۔ ایسا ہی خمار اس کاتھا۔ مجھے ایک دم سے اس پر غصہ آگیا۔ تاہم میں نے تحمل سے کہا۔
”میری تو نہیں‘ ممکن ہے تمہاری نیت خراب ہو۔ اس لیے یہاں اکیلی ہو‘ اور باقی رہی ہاتھ لگانے والی بات‘ تو میں عورتوں سے نہیں لڑتا۔ ورنہ ہاتھ تو کیا توپوری کی پوری میرے ساتھ آلگے۔“
”تو نہ سہی میں تو مردوں سے لڑتی ہوں۔
“ یہ کہتے ہوئے وہ چشم زدن میں اٹھی اور تن کرمیرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اس کے تیور دیکھے اور لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتے ہوئے اس کے چہرے پر دیکھا۔ تب وہ بولی۔ ”یہیں لڑوگے یا…“ یہ کہتے ہوئے اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا ۔ تبھی وہ ہوا میں اچھلی اور کک ماری‘ میں اگر محتاط نہ ہوتا تو وہ میری گردن پر پڑتی۔
میں وہاں سے ہٹ گیاتھا اور اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ کوئی عام فائٹر ہوتا تو خالی جانے والی کک سے تھوڑا بہت ہی لڑکھڑاتا‘ مگر وہ اپنے ہی پاؤں پر گھومی اور مجھ پر جست لگادی۔ وہ میرے سر کے برابر تک آگئی تھی۔ میں ذرا سا جھکا‘ وہ جیسے ہی میرے سر کے اوپر آئی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسے قابو کرلیا۔ وہ کمر کے پاس سے میرے قابو آئی تھی۔ میں نے اپنے جسم کو لچک دی ‘ دونوں ہاتھوں پر اسے گھمایا اور پوری قوت سے صوفے پر دے مارا۔
ایک لمحے تک وہ اٹھ ہی نہ سکی‘ میں چاہتاتو وہیں پر اسے ڈھیر کردیتا‘ مگر میں نے اس کے اٹھنے کاانتظار کیا۔ تبھی وہ اچھل کر یوں کھڑی ہوگئی جیسے اس میں اسپرنگ لگے ہوئے ہوں۔ وہ میرے مدمقابل تھی۔ وہ چند قدم لے کر مکا میرے منہ پر مارنا چاہتی تھی لیکن یہ اس کی چال تھی۔ وہ یکدم جھکی‘ ہتھیلی زمین پر ٹکائی اور اپنی ٹانگ میرے پیٹ پر مارنا چاہی‘ یاشاید اس کانشانہ کچھ اور تھا‘ میں نے ذرا سا پیچھے ہو کر اس کی ٹانگ پکڑلی‘ میں نے اسے دوبارہ زمین پر نہیں ٹکنے دیا۔
بلکہ دائرے میں گھمانا چاہا۔ ابھی دائرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس نے جسم کی کمال لچک دکھائی ‘وہ خود کو لپیٹتی ہوئی میری جانب آئی اور میرے کاندھوں پر اپنے ہاتھ جمادیئے۔میں نے اس کی ٹانگ چھوڑی تو اس نے اپنا سارا وزن مجھ پر ڈال دیا۔ تبھی میں نے پھر اسے پیٹ ہی سے پکڑا‘ ایک جھٹکے سے اسے اوپر اٹھایا‘ اور پھر گھما کر صوفے پر دے مارا‘ میں جان بوجھ کر اسے فرش پر نہیں مارنا چاہتاتھا۔
اگلے ہی لمحے وہ پھر اچھل کر کھڑی ہوگئی اوراس کے ساتھ ہی وہ مجھ پر جھپٹی‘ میں جان بوجھ کر آگے بڑھ گیا اور اسے یوں گلے لگالیا جیسے معانقہ کررہا ہوں۔ وہ میرے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور میں اس کی کمر پرزور ڈال کراسے دہری کررہاتھا‘ میں اس وقت حیران رہ گیا جب وہ دہری ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اس کا سر اس کی پشت سے لگ گیا۔ وہ اپنے جسم کی لچک کا بہت فائدہ لے رہی تھی۔
میں نے ایک دم سے اسے چھوڑ دیا۔ وہ مجھے پکڑنا چاہ رہی تھی‘ لیکن میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن پکڑلی۔یہ بڑا خطرناک داؤ تھا‘ اس کی گردن کی ہڈی بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ وہ بالکل بے بس ہوگئی‘ دونوں ٹانگوں کے درمیان سے پکڑی ہوئی گردن‘ وہ دہری تھی اوراس کاپیٹ اوپر تھا۔ وہ اپنی لچک ہی میں مار کھاگئی۔ میں نے چند لمحے اسے یونہی رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔
وہ قالین پر گر گئی۔ میں نے اپناپاؤں اس کے پیٹ پررکھ دیا۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے میری جانب دیکھا‘ پھر ہنس دی۔ اور اپنا ہاتھ اٹھادیا۔ میں نے پاؤں ہٹایا تو اٹھتے ہوئے بولی۔
”گڈ۔!اب تم مجھے ہاتھ لگا سکتے ہو۔“
”مگر میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔“ میں نے کہا اور لیپ ٹاپ کے پاس صوفے پربیٹھ گیا۔ پھراس کے بدن کو بھرپور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم میں لچک بہت ہے‘ لیکن اس کابے جااستعمال تمہارے لیے خطرناک ہوسکتاہے۔“
”میں نے آج محسوس کیا ہے‘ چلو‘ اب دوستی…“ اس نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھایا‘میں نے انتہائی احتیاط سے اس کاہاتھ تھام لیا۔ تب وہ بولی۔ ”تمہارے لڑنے کاانداز بھی اچھا ہے‘ خیر‘ اب جاؤ اورجاکر آرام کرلو، رات کھانے پرملاقات ہوگی۔“
میں اٹھااور اپنے لیے مخصوص کمرے میں چلا گیا۔
آتے وقت میں لیپ ٹاپ لانا نہیں بھولا‘ میں کچھ دیر اس کے ساتھ کھیلتا رہا‘ پھراسے بند کرکے ایک طرف رکھا‘ دلجیت کے ساتھ ذرا سی ہاتھاپائی سے میں سمجھ گیا تھا کہ میرے یہاں کے میزبان صرف میرے بارے میں جاننا چاہ رہے تھے‘ممکن ہے ابھی کچھ مرحلے مزید آئیں۔ میں نے سب کچھ ذہن سے نکالااور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
                                         …###…

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط