اندھیرا کافی گہرا تھا۔ ہر طرف سکون تھا۔ شام ہوتے ہی کرنل سرفراز کہیں چلے گئے تھے۔میں کافی دیر تک کاریڈور میں بیٹھا ان کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ ان کی یہ بات کہ انسان کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ اس میں محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہ خیال بہت ہی پرکشش تھا اور اسی کی وجہ سے مجھے سوچنے کے لئے کافی راستے مل گئے تھے۔ ڈنر پر ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
میں اکیلا ہی تھا ۔ ڈنر کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور کرنل کی باتوں پر سوچتا رہا۔ مجھے ان باتوں کے سوچنے پر مزہ آ رہا تھا۔ یہ ذہنی مشقت مجھے خود اچھی لگ رہی تھی۔ میں بیڈ پر پڑا سوچتا رہا اور پھر نجانے میری کب آنکھ لگ گئی۔ میری آ نکھ کھلی تو میں اٹھ کر کھڑکی میں چلا گیا۔ باہر گہرا اندھیرا اور سناٹا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے کافی دور کہیں کوئی گاڑی رکی ہے۔
(جاری ہے)
میں نے پہلے تو اسے اپنا وہم خیال کیا ، پھر یہ سوچا کہ شاید کرنل واپس آیا ہو۔
چند لمحے یونہی خاموشی کی نذر ہو گئے۔ اچانک اس گہرے سناٹے کو کتوں کی آواز نے چیر کر رکھ دیا۔ وہ بری طرح بھونکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی فائر ہوا جس نے فضا میں سنسنی بھردی۔ کتے مسلسل بھونک رہے تھے ۔میرے اندر اچانک ہی جوانی بھر گئی۔ میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، جسے ہاتھ میں لے کر باہر نکلتا۔
مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ میں وہاں بیٹھا رہتا۔ میں کمرے سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک ملازم تیزی سے اندر آیا۔ مجھ پر نگاہ پڑتے ہی بولا
” کچھ لوگوں نے فارم ہاؤس پر چڑھائی کر دی ہے۔وہ کون ہیں اس بارے میں نہیں معلوم، مگر باہر کچھ مشکوک لوگ ہیں۔“
” کتنے لوگ ہیں وہ ؟“ میں نے پوچھا
”یہ ابھی مجھے نہیں پتہ، مگر وہ دوگاڑیوں پر ہیں اور اندر آنے کی کوشش میں ہیں۔
ان کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے ابھی ۔“ اس نے تیزی ہی میں بتایاتو مجھے ایک دم سے خیال آیا ۔ تب میں نے پوچھا
” یہ سب تمہیں کیسے پتہ اور ان کے بارے کیسے معلوم ہو جائے گا؟“
” آئیں ، میں آپ کو بتاتا ہوں۔“ اس نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے جانے لگا۔ کتے مسلسل بھونک رہے تھے۔ دو تین راہداریاں مڑنے کے بعد وہ ایک کمرے میں لے گیا۔
وہ فارم ہاؤس کا کنٹرول روم تھا۔ اس میں چھ اسکرین لگے ہوئے تھے، جن میں مختلف مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں دو اسکرین ایسے تھے، جن میں فارم ہاؤس کے باہر کے مناظر تھے۔وہاں اچھی خاصی ہلچل تھی۔ فور وہیل جیپوں کے آگے چند لوگ متحرک تھے۔ وہ اندر داخل ہونے کی کوشش میں تھے۔ شاید وہ کتوں کی وجہ سے ابھی تک اندر داخل نہیں ہو پائے تھے۔ میں نے سارا ماحول سمجھا اور پھر اسی ملازم سے پوچھا
” یہاں پر اپنے بندے کتنے ہیں اور ہتھیار کہاں ہیں۔
“
” ہم یہاں پر صرف چار بندے ہیں۔ تین ہم اور ایک بندہ باہر گیٹ والے کمرے میں ہے۔“ اس نے بتایا تو میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
” تم فکر نہ کرو۔مجھے ہتھیار لا کر دو، باقی میں دیکھتاہوں۔‘ ‘
میرے یوں کہنے پر وہ مڑا اوراس نے دیوار میں لگی ایک الماری کے لوہے کے پٹ کھولے ۔ اندر پڑا جدید اسلحہ دیکھ کر میں خوش ہو گیا۔ میں نے اپنی پسند کا پسٹل لیا۔
فالتو راونڈاٹھائے اور باہر کی جانب جانے لگا تو ملازم نے کہا
” سر۔! آپ کو اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ویسے آپ باہر جائیں کوئی بات نہیں لیکن انہیں فارم ہاؤس کے اندرضرور آنے دیں۔ پھر آپ دیکھیں ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔“
” کیا مطلب، تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔“
” سر ۔! یہ جو کنٹرول روم میں بندہ بیٹھا ہے ، یہ سب دیکھ لے گا۔
“ اس نے کہا تو مجھے اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی ، میں اس کی بات سنی ان سنی کرتا ہوا باہرنکل گیا۔
باہر دھیمی روشنی تھی ، جس میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ویسے بھی مجھے ان کی لوکیشن کے بارے میں اندازہ تھا اور دوسرا کتے ان کی سمت بارے نشاندہی کر رہے تھے۔ میں کاریڈورکے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ کتے بڑی زور سے بھونکنے لگے تھے۔ مجھے یہ احساس تھا کہ اگر کتوں کو خاموش کرایا تو باہر آنے والے لوگ الرٹ ہو جائیں گے۔
اور ایسا نہ کیا تو وہ باہر والے لوگوں کی گولی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سو میں دم سادھے دیکھتا رہا۔ مجھ سے تقریباً سو قدم کے فاصلے پر ایک آدمی دیوار پر چڑھا اور اندر کود گیا۔ وہ چند لمحے دُبکا رہا، پھر سر اٹھایا۔ اس نے باہر کچھ پھینکا ، جس کے چند لمحے بعد دو آدمی اندر آ گئے ۔ اس کے ساتھ ہی تین اور آگئے۔ وہ چھ تھے۔ ایک دوسرے کو کور دیتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگے۔
وہ کافی حد تک پھیلے ہوئے تھے۔ کتے وہاں سے بھاگ کے دوسری جانب چلے گئے تھے اوروہ وہیں کھڑے ان پر بھونک رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک آدمی رُکا اور دوسروں کو رُک جانے کا اشارہ کیا۔ وہ شاید اندر کی سُن گن لینا چاہتا تھا۔ وہ چند لمحے کھڑا رہا ، پھر جیسے ہی وہ اندر کی جانب آگے بڑھا اور میں نے فائر کرنے کے لئے پسٹل سیدھا ہی کیا تھا اچانک سرخ رنگ کی شعاعیں ان کی جانب بڑھیں۔
انہیں جیسے کرنٹ لگ گیا تھا۔ انہیں اپنا ہوش ہی نہیں رہا اور پہلے ہی ہلے میں تین گر گئے ۔ دوسرے ابھی چھپنے کی جگہ تلاش کر رہے تھے کہ میں یکے بعد دیگرے ان پر فائر کرتا رہا۔ لیکن شعاعیں پہلے ہی اپنا کام دکھا چکی تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ ملازم کیاکہہ رہا تھا۔ ان میں سے ایک واپس مڑا اور دیوار کود کر باہر جانا چاہتا تھا کہ میرے نشانے کا شکار ہو گیا۔
ایک دم سے سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ کوئی کراہ بھی نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنی جگہ تبدیل کرلی تھی اور کاریڈورکے دوسرے سرے پر چلا گیا تھا۔ پھر وہی ہوا جس کا مجھے سو فیصدیقین تھا۔ اچانک دو آدمی اٹھے اور فائر کرتے ہوئے کاریڈور کی جانب بھاگے ۔ وہ سامنے سے فائر نہیں ہونے دینے چاہتے تھے۔یہاں تک کہ وہ کاریڈور کی سیڑھیوں تک آ گئے۔ شعاعیں پھر نکلیں۔
مگر وہ اس کے اثر میں نہیں آئے تھے ۔میں نے ان کے نچلے دھڑ کا نشانہ لیا اور فائر کرنا شروع کردیا۔ وہ وہیں پر ڈھیر ہوگئے۔ اچانک میرے سر کے اوپر سے ایک راکٹ فائر ہوا ۔ وہ کسی نے چھت پر سے چلایا تھا۔ اگلے ہی لمحے باہر کھڑی گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی۔ میں نے لمحہ بھر کی تیز روشنی میں ان بندوں کے بارے میں اندازہ کر لیا کہ کون کدھر ہے۔ دھماکے کے فوراً بعد ایک اور راکٹ چلایا گیا اور دوسری گاڑی بھی دھماکے سے تباہ ہو گئی۔
تبھی اندر سے ایک ملازم باہر آیا ، اس کے ہاتھ میں گن تھی ۔اس نے باہر آتے ہی کاریڈور میں سوئچ آن کر دیا۔ باہر لان میں دور تک روشنی ہو گئی۔ وہ چھ کے چھ وہیں پڑے دکھائی دئیے۔
” وہ جو باہر ملازم تھا، اس کا کیا ہوا ، اسے دیکھو۔“
” وہ محفوظ ہے اور رابطے میں ہے۔ وہ باہر والے اُس کمرے میں ہے ۔“ اس نے گیٹ کے ساتھ بنے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جس پر میں سر ہلا کر رہ گیا۔ تب اس نے کہا،” انہیں اٹھائیں، یا یہیں پڑا رہنے دیں؟“
” دیکھیں تو سہی یہ کون ہیں؟“ میں نے صلاح دی تو وہ محتاط انداز میںآ گے بڑھا۔ میں اس کے کور پر تھا۔ اتنے میں باہر والے کمرے سے بھی ملازم آ گیا۔ ان میں سے دو لوگ مر چکے تھے۔ جیسے ہی میری نگاہ کاریڈور کے ساتھ پڑے تین بندوں میں سے ایک پر پڑی تو میں چونک گیا۔
یہ وہی تھا ، جس نے مجھے چند دن پہلے اغوا کیا تھا اور جس کی وجہ سے میں یہاں پر تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ میری تلاش میں ادھر آیا تھا۔ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا تھا۔ میں نے ملازم سے اسے اٹھانے کو کہا۔ وہ بے ہوش تھا اور اس کا خون کافی حد تک بہہ گیا تھا۔ ایک ملازم نے اسے کاریڈور کے فرش پر لٹا دیا تھا۔
دوملازموں نے مرے ہوؤں کو الگ کیا اور باقی تین کوباہر والے کمرے میں لے گئے۔
وہ میرے سامنے بے ہوش پڑا ہوا تھا۔میں نے پانی اس کے منہ پر مارا تو وہ کراہ کر رہ گیا۔ میں نے اسے ہوش دلانے کے لئے اس کا منہ پکڑا ، تب اس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ میری جانب خوف زدہ نگاہوں سے دیکھتا رہا ، پھر اٹکتے ہوئے بولا
” میں … میں … نے مان … لیا … تم خط… طر ناک …ہو۔بہت تلاش … کیا میں نے … تمہیں اور … اب ۔ “ تکلیف کے باعث اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
” یہ تو مجھے معلوم ہے کہ تم بھارتی ہو اور تمہیں میرے قتل کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کس نے بھیجا ہے تمہیں یہاں تک؟“
” میں …بھیجا …نہیں گیا… مجھے بلوایا … گیا ہے ۔شاہنواز … کا پورا ایک گروہ ہے … جو ہمارے ساتھ کام کرتا ہے ۔ تت… تیرے علاقے میں ہمارا … پورا نیٹ ورک… چل رہا ہے ۔ اس کی حفاظت… تو ہم نے کرنی … ہے نا۔“ یہ لفظ اس نے بہت مشکل سے کہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ہچکیاں لینے لگا۔ میں نے پانی اس کے حلق میں انڈیلا ہی تھا کہ باہر کافی ساری گاڑیاں آن رکیں۔ ملازم تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔ اگلے چند لمحوں میں کرنل سرفراز کے ساتھ کئی دوسرے لوگ بھی آگئے۔ وہ لوگ آتے ہی ان لوگوں کو اٹھانے لگے۔ میرے سامنے پڑا نوجوان میری جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
” کیا چاہتے ہو؟“میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ بولا
” تم مجھے… اپنے ہاتھوں سے… مار دو۔
میں قید… ہونا نہیں چاہتا۔ “
” نہیں ، تجھے کوئی بھی نہیں مارے گا۔ تم اگر علاج سے زندہ بچ گئے تو میں تم سے ملوں گا۔ جاؤ اب ۔“ میں نے کہا اور وہاں سے پلٹ کر اندر کی جانب چلاگیا۔
میں چاہتا تھا کہ کرنل مجھ سے کوئی بات کریں،مگر وہ عجلت میں تھے۔ فوراً ہی واپس چلے گئے۔ میں آدھی رات گذر جانے کے بعد بھی یونہی جاگتا رہا۔ میرے حواس ہی نہیں ،میرا اندر بھی جاگ گیا تھا۔
مجھے نیند نہیںآ رہی تھی۔ میں یونہی ساری رات بیٹھا سوچتا رہا۔
اس وقت صبح کی نیلگوں روشنی ہر جانب پھیل گئی تھی،جب کرنل واپس آیا۔ جیسے ہی وہ میرے پاس آ کربیٹھا۔ اس کے پیچھے ہی ملازم دو کپ چائے لے کے آ گیا۔ اس نے ہمارے درمیان کپ رکھے اور واپس مڑ گیا۔ تبھی وہ بولا
” وہ نوجوان جس کے حلق میں تم نے پانی ڈالا تھا، وہ رستے ہی میں مر گیا۔
اس کی لاش فی الحال میں نے سرد خانے میں رکھوا دی ہے ، پھر بعد میں دیکھیں گے۔ویسے میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ۔“
” جی کہیں۔“ میں نے تیزی سے کہا
” میں مانتا ہوں چاہے جتنا جدید حفاظتی نظام ہو، جب تک بندے میں دل اور جگر نہیں ہوتا۔وہ جدید نظام بھی بے کار ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے سب سنبھال لیا۔ لیکن جب میں آیا تو تم دشمن سے اتنا پیار کیوں جتا رہے تھے؟“
” میں نے اس سے پیار نہیں کیا، بلکہ اس وقت وہ بے بس تھا۔
وہ چاہے دشمن تھا ،لیکن بے بس انسان کے ساتھ اور میں کیا کرتا۔“ میں نے اپنی طرف سے بہت مناسب جواب دیا تھا
” تم پہلے بھی ایسے ہی تھے یا یہاں پر کسی بات کا اثر لیاہے۔“
” شاید پہلے ہی سے تھا۔“میں نے سوچتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے ہنس دیا
” خوب۔! کسی کے اندر کچھ ہو توہی باہر آتا ہے ۔ انسان خود اپنے اعمال سے بتا دیتا ہے کہ اسے مٹی کیسی لگی ہے۔
مٹی بھی حلال اور حرام ہوتی ہے اور حرام مٹی فقط منافق کو لگتی ہے۔ اس کے ساتھ پیار جتانا خود اپنے آپ کے ساتھ دھوکا ہے۔“
” یہ منافق کا پتہ کیسے چلتا ہے۔“ میں نے پوچھا
” منافق ہوتا ہی وہی ہے جس کے بارے میں تب پتہ چلے ، جب وہ منافقت کر جاتا ہے۔ میں نے تیئس برس تک ایک ایسے بندے کو پالا جو خود کو انسان ثابت کرتا رہا۔ لیکن بعد میں جب وہ منافقت کر گیا تو پتہ چلا کہ ُاسے مٹی ہی حرام لگی ہوئی تھی۔
بابا بلھے شاہ سرکار نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے نا کتّے تیتھوں اُتّے۔“
”دوست اور دشمن کا پتہ اُسی وقت چلتا ہے۔ جب مشکل آن پڑے۔ان کے بارے بندہ کلیئر ہو جاتا ہے کہ وہ کیسے ہیں۔لیکن منافق کی منافقت کے بعد بھی بندہ نہ سنبھلے تو وہ خطا کھاتا ہے ۔ وہ پھر نہیں سنبھل سکتا۔“
”میںآ پ کی بات یاد رکھوں گا۔“ میں نے دل سے کہا تو وہ بولے
” آج تم نور نگرواپس جاؤ گے۔
پتہ نہیں آگے حالات کیا بنتے ہیں لیکن مجھے نجانے کیوں یہ احساس ہو رہا کہ تم لوٹ کر یہاں ضرور آؤ گے۔“ انہوں نے کچھ ایسے عجیب لہجے میں کہا کہ میں اندر سے بھیگ کر رہ گیا۔ اس لئے جلدی سے بولا
” یقین جانیں اگر نور نگر میں معاملات پھیلے نہ ہوتے تو میں یہیں رہ جاتا۔ بہت سکون ہے یہاں پر، میں یہیں رہنا پسند کرتا۔“
” لیکن تمہارے مقدر میں سکون نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خواہش کرنا۔
خیر۔! اب اٹھو، اور تیار ہو جاؤ۔ ڈرائیور تمہیں نور نگر چھوڑ آئے گا۔“
اس کے کہنے پر میں اُٹھا تو وہ بھی اٹھ گیا ۔ اس نے مجھے اپنے سینے سے لگایا تو ایک لمحے کے لئے مجھے وہ وقت یاد آ گیا ، جب میں گوپے میں بابا جی سے ملا تھا۔ ویسی ہی ٹھنڈک میرے اندر اتر گئی تھی ۔ میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ جیسے مجھے کائنات میں پھینک دیا گیا ہو اور میں بے وزن ہو گیا ہوں۔
چند لمحے یہی کیفیت رہی۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے الگ کیا میں خود میں بہت بوجھ محسوس کرنے لگا تھا۔ مجھے اس تبدیلی کا پورا پورا احساس تھا۔ یہ کیا معمہ تھا، اس کی مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی تھی۔ تقریباً دو گھنٹے بعد جب میں وہاں سے نکلا تو بہت زیادہ پر جوش تھا۔ وہ دونوں کتے میرے ساتھ گاڑی میں میرے ساتھ نور نگر جارہے تھے۔ جنہیں میں کتے کہہ رہا تھا۔ وہ منافقوں سے زیادہ اچھے تھے، انہیں میں کیسے بھول جاتا۔
#…#…#