”پھر سارہ سے تمہارا رابطہ نہیں ہوا؟“ میں نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ بلکہ مجھے اس کے ساتھ یہ فکر بھی کھائے جارہی ہے کہ اسے قتل نہ کر دیا گیاہو اور دوسری طرف میرے والد صاحب ، میرے بیٹے کو لے کر اچی ہی میں اپنے کسی عزیز یا جاننے والے کے ہاں روپوش ہیں۔ پتہ نہیں ان کا کیا بنا ہوگا۔“
”ہوں۔“اس کی طویل بات سن کر میں نے ہنکارا بھرا اور بولا،”اب تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟“
”ظاہری بات ہے، مجھے سارہ کی تلاش ہے۔
وہ مل جائے تو میڈیا کو جواب دیا جا سکے، عدالت میں ثابت کیا جا سکے، میرا بوڑھا باپ اور معصوم بیٹا اپنے گھر میں سکون سے رہیں۔ میرا کاروبار تباہ ہو رہا ہے اور پھر سب سے بڑی بات کہ مجھ پر الزام بہت زہریلا لگایا گیا ہے۔
(جاری ہے)
“
”میں سمجھ گیا۔“ میں نے کہا اور پھر جسپال کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”جاؤ اس کے ساتھ، مگر زیادہ دن مت لگانا۔میں ذرا یہاں دیکھ لوں۔
تانی کو ساتھ لے جاؤ۔ یہ تمہاری مدد کرے گی۔“
”ٹھیک ہے۔ ہم ابھی نکلتے ہیں۔“جسپال نے کہا تو میں نے تانی کی طرف دیکھا ، اس کے چہرے پر کوئی خوشگواریت نہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ جانا نہ چاہ رہی ہو۔ میں نے اسے نظر نداز کر دیا۔
جس وقت وہ نکلے، سہ پہر ہو چلی تھی۔ میں خود انہیں ائر پورٹ چھوڑ کرآیا تھا۔ انہیں یہاں سے سیدھا سکھر جانا تھا۔
میں انہیں چھوڑ کر واپس آیا تو سوہنی تیار بیٹھی تھی۔میں ،وہ اور اماں اسی وقت گاؤں کے لیے چل دئیے۔
رات گئے ہم گاؤں پہنچے۔ میں نے وہاں پہنچنے سے ذرا پہلے چھاکے کو فون کیا۔ وہ ہمارے اچانک آ نے پر حیران ہو گیا۔ وہ گاؤں سے باہر آکر ہماری راہ میں کھڑا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسا رنسپانس کرے۔ وہ بہت گرم جوشی سے ملا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ پسنجر سیٹ پر بٹھا لیا اور چل دیا۔
اماں اس سے حال احوال پوچھتی رہی۔جیسے ہی میں اس راستے پر مڑا جو اس کے گھر کی طرف جاتا تھا تو اس نے حیرت سے کہا۔
”جمال کدھر جا رہے ہو؟“
”ہم تیرے پاس آئے ہیں اور تیرے گھر ہی کی طرف جائیں گے۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ سب کو اپنے سامنے دیکھ کر،آپ سب میرے پاس آئے، یہ اس سے بھی بڑی بات ہے۔
لیکن…“
”اوئے چھاکے تو پاگل ہو گیاہے، جو اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
”یار میرے گھر میں کوئی عورت نہیں، گھر کا برا حال ہو رہا ہے، وہ گھر آ پ کے شایان شان بھی نہیں، بستر بھی نہیں کہ …“ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
”تو کہنا کیا چاہتا ہے؟“ میں نے ایک دم سے پوچھاتو وہ بولا
”یار جب تم لوگوں کااپنا گھر ہے تو آپ ادھر رہیں جا کر۔
“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مطلب۔“میں نے غصے میں پوچھا تو اماں نے خوشی سے کہا۔
”سمجھ گئی ، اس نے ہمارا گھر دوبارہ بنوا دیا ہوگا۔“
”دیکھا اماں سمجھ گئی۔“ چھاکے نے بھی خوشی سے کہا تو مجھے اس پر بہت پیار آیا۔ میں نے اپنے گھر کی جانب رُخ موڑ لیا۔
میں گھر کے سامنے رکا۔ ویسا ہی گھر تھا جیسے جلنے سے پہلے تھا۔چھاکے نے گیٹ کھولاتو میں کار اندر لے جاتا چلا گیا۔
”سب کچھ ویسا ہی بنا دیا ہے میرے اشفاق پتر نے،سارا سامان ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی چھوڑ کر گئے ہوں۔ بہت پیسہ لگا ہوگا نا؟“ اماں نے کہا تو وہ جذباتی لہجے میں بولا۔
”اماں، بیٹا بھی کہتی ہو اور پیسے کی بات بھی کرتی ہو۔ میرا کوئی حق نہیں ہے تم پر۔اماں تمہیں نہیں پتہ جمال یہاں سے جاتے ہوئے مجھے بہت کچھ دے گیا تھا اور اس کا ابھی بہت کچھ ہے میرے پاس۔
“
”اچھا چل باتیں نہ بنا،سامان رکھ اندر۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ حالانکہ سوہنی پہلے ہی سامان اندر رکھنے لگی تھی۔تب چھاکے نے کہا۔
”تیرا اوپر والا کمرہ بھی ویسا ہی بنوایا ہے اوراس میں وہ سب کچھ پڑا ہے جو اس میں ہوتا تھا۔“
”چل دیکھتے ہیں۔“ میں نے اسے ساتھ لیا اور اوپر چلاگیا۔ بہت دن بعد میں ان فضاؤں میں سانس لے رہا تھا۔
جبکہ وہ مجھے بتا رہا تھا
”دو بندے ہر وقت یہاں ہوتے ہیں۔ میرے پاس اب اچھے خاصے لوگ ہیں۔“
”تو یہ سب چھوڑ ، مجھے شاہ زیب کا بتا، کہاں ہے وہ ؟ اور اس کے حواری یہاں کون کون ہیں؟“ میں نے کہا تو وہ سنجیدگی سے بولا۔
”جمال لگتا ہے تو اپنے گھر میں واپس نہیں آیا، بلکہ شاہ زیب کی تلاش میں آیا ہے۔“
”ہاں۔ تھوڑا سا وقت تھا میرے پاس ، سوچا اپنا پرانا حساب برابر کر لوں۔
کہاں ہے وہ ؟“
”جب سے وہ یہاں سے گیاہے، واپس پلٹ کر نہیں آیا۔ اس کی حویلی میں وہی نوکر چاکر ہیں۔“ چھاکے نے بتایا تو میں نے پوچھا
”اس کا کوئی رابطہ نمبرہے تمہارے پاس؟“
”ہاں ہے، کیوں تونے بات کرنی ہے۔“اس نے پوچھا تو میں نے کہا
”وقت آنے پر اس سے بات تو کرنا ہوگی۔“
”ٹھیک ہے، صبح کرلیں گے بات، آؤ نیچے چلیں۔“ اس نے کہا تو میں اس کے ساتھ نیچے کمرے میں آگیا۔ ہم اپنے ساتھ بہت کچھ کھانے پینے کو لائے تھے۔ وہ کھا پی کر ہم بیٹھے تو چھاکا اور میں باہر والے کمرے میں چلے گئے۔
#…#…#