Episode 30 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 30 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”زیادہ ہیرو گیری نہ کر میرے سامنے‘ مال کہاں جانا تھاآج؟“
”اب آئی ہے مطلب کی بات پر۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”یہی بات تجھے پتہ کرنی ہے‘ لیکن کیا تو نہیں جانتی‘ دھندے کا اصول کیا ہے۔ رتن سنگھ کیا‘اس کاباپ بھی میرے نیٹ ورک کے بارے میں نہیں جان سکتا۔“
”تو غلط سوچ رہا ہے‘ صبح تک سب کچھ‘ تیرا سب کچھ برباد ہوجائے گا‘ تیرا نیٹ ورک توکیا‘تیرے غیر ملکی آقا بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔
کاش تویہ دیکھنے کے لیے زندہ رہتا۔“ یہ کہتے ہوئے بانیتا نے اپنا پسٹل نکال لیا۔ بہت کم لوگ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتے ہیں‘ جیسے ہی بلٹ لگنے کی آواز آئی‘ اس نے چونک کر دیکھا‘ پھر تیزی سے بولا۔
”جب تجھے سب علم ہے تو میرے ساتھ یہ ڈرامہ کیوں‘ مجھے وہیں شیڈ میں کیوں نہ گولی مار دی تونے ؟“
”ہاں‘ اب آیا ہے نا تو لائن پر۔

(جاری ہے)

“ بانیتا چہکی۔ ”تو بھی یہ بات جانتا ہے کہ امرتسر میں تیرے جتنے ٹھکانے ہیں‘ تیراسارا نیٹ ورک میں جانتی ہوں۔ اور مرنے سے پہلے تو یہ جان لے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں وہ سب میرے ہوں گے۔ تیرا وہ اسلحہ ‘ تیری وہ منشیات ہمارے لوگوں پر استعمال ہونے والی تھی‘ اب وہ تمہارے لوگوں پر ہوگی۔“
”یہ صرف تیری بکواس ہے‘ وہاں لوگ چوڑیاں پہن کرنہیں بیٹھے ہوئے۔
“وہ انتہائی غصے اور بے بسی کے عالم میں یوں بولا جیسے اس بات کااسے بہت دُکھ ہوا ہو۔
”چچ…چچ…ہائے…! کاش تم یہ دیکھنے کے لیے زندہ ہوتے۔ خیر۔! اس پورے علاقے میں اگر راج ہوگا تو صرف سردار رتن سنگھ جی کا اور پھر تیرے جیسے نرنکاری سانپ تو میں ویسے ہی بڑے شوق سے مارتی ہوں۔ اب سن‘ میں نے جو پوچھنا ہے‘ اگر تو آرام سے بتادے گا تو پھر تجھے موت بڑے سکون کی ملے گی‘ بس ایک فائر اور تو پار‘ نہیں بتائے گا تو تیرا ریشہ ریشہ بولے گا۔
بہت اذیت دوں گی۔ “یہ کہتے ہوئے بانیتا نے اس کے بال پکڑ لیے اور انہیں جھنجوڑتی ہوئے بولی۔”بول‘ تیرا وہ غیر ملکی آقا کون ہے‘ تھائی لینڈ کے شہر پتایامیں لوبیسٹرہوٹل کے کمرے میں ‘کیا ڈیل ہوئی۔“ یہ سوال کرتے ہوئے غصے کی شدت سے بانیتا کی آوازپھٹ گئی تھی۔ تب وہ حیرت کی انتہا پر اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
”ت…ت…تم… اس کے بارے میں کیا جانتی ہو؟“
”اپنی آزادی کی جنگ گھر بیٹھ کرنہیں لڑی جاتی‘ آنکھیں اور کان کھلے رکھنے پڑتے ہیں ۔
امرتسر ایک پوترا ستھان ہے‘ جہاں تم جیسے بے غیرت آگ اور خون کی ہولی ایک بار پھر سے کھیلنا چاہتے ہو‘ پہلی بار ہرمندر صاحب پر حملہ سکھوں کی بے خبری میں ہوگیا‘ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ تیرے جیسے نر نکاری بے غیرت‘ ہندو بنیئے کے ساتھ اس قدر گھٹیا پن پر اُتر آئیں گے کہ معصوم لوگوں کا قتل عام کریں گے‘اب نہیں‘ اب ہم جاگ رہے ہیں… بولو… بولو ورنہ …“ یہ کہتے ہوئے اس نے پوری قوت سے گھونسہ اس کے سینے پر دے مارا۔
وہ کھانسنے لگا۔ ”نکال اس سینے میں جو کچھ ہے‘نکال…“وہ جنونی انداز میں بولی اور دو چار گھونسے پھر ماردیئے‘ تبھی وہ کھانستے ہوئے بولا۔
”تو اگر اپنے لیے اتنا جذباتی ہوسکتی ہے تو پھر میں کیوں نہیں… تو دے اذیت… میں برداشت کرلوں گا۔“اس نے دانت بھنچتے ہوئے بانیتا کی طرف دیکھ کر کہا یہی وہ لمحہ تھا‘ جب میں نے آگے بڑھ کر کہا۔
”بانیتا! تم جاؤ‘ اور جاکر اپنے آپریشن کو دیکھو‘ لوگ اس کے ٹھکانوں پر پہنچ چکے ہوں گے۔ اس پر وقت ضائع نہ کرو‘ یہ تو ساری رات باتیں کرتارہے گا‘ میں دیکھتا ہوں اسے…“
میرے یوں کہنے پر بانیتا نے کہا۔
”تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں‘ ٹھیک کہتے ہو تم…اسے زیادہ وقت نہیں دینا۔“
میں نے پنڈلی سے بندھا خنجر نکالا‘ اور اس کے سینے پر ایک لکیر کھینچ دی‘ خون کی دھار سے خنجر کی نوک لتھڑ گئی‘ وہ درد ناک انداز میں چیخا۔
”مجھے مار دو… مار دومجھے …“
”وقت گزرگیا ہے…“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر خنجر کی نوک اس کے گال میں چبھودی‘ وہ تڑپنے لگا‘ چند لمحے اسی طرح خنجر رہنے دیا‘ پھر نکال کر دوسرے گال میں پیوست کردیا۔
”ٹکڑے کردو اس بہن…“ بانیتا نے غصے میں غلیظ گالی دی تووہ چیخ اٹھا۔
”وہ بنکاک کااسلحہ ڈیلر تھا‘ امریکہ سے آیا ہے‘ یہ اسلحہ… اس میں… را …ملوث ہے۔
”اتنی بڑی کھیپ کیوں آئی؟“میں نے پوچھا۔
”سکھ تنظیموں کے وہ لوگ مارنے ہیں…جو شدت پسند ہیں۔“ اس نے پوری قوت لگا کر کہا۔
”آزادی کے متوالے کہو اوئے بے غیرت۔“ وہ جنونی انداز میں چیخی اور اس کی ٹانگوں پرفائر کردیا۔
اس کی چیخیں حلق میں اٹک کررہ گئیں۔ وہ بے ہوش ہوگیا۔ تبھی اس نے پسٹل کی نال سیدھی کی اور فائر کردیا وہ ایک ہچکی لے کر اس جہان سے کوچ کرگیا۔
”ابھی اس سے مزید۔“
”سارا پتہ ہے بس تصدیق چاہیے تھی کہ را ملوث ہے کہ نہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے وہاں موجود دونوں بندوں سے لاش غائب کردینے کااشارہ کیااور تہہ خانے سے نکلتی چلی گئی۔ اب ہمارا وہاں پر کوئی کام نہیں تھا۔ سامنے گاڑی کھڑی تھی‘ہم اس میں بیٹھے اور چل دیئے ۔مین سڑک پر آتے ہی بانیتا بولی۔
”تم یہ جاننا چاہتے تھے ناکہ سکھ حریت پسند تحریکوں میں لڑکیاں اتنی فعال کیوں ہیں؟تو سنو‘سن چوراسی سے چھیاسی تک سکھ قوم پر ہی نہیں ‘ سکھ نوجوانوں پر بہت بھاری تھا‘ لڑکا ‘نوجوان اور جوان سب کوختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔
وہ لڑکیاں جو آج اٹھائیس سے تیس سال کے درمیان ہیں‘ انہوں نے اپنے بھائیوں کو مرتے دیکھا ‘ان کے لاشے دیکھے‘ ان پر بین کئے ہیں‘ اب اگر لڑکا گولی چلاسکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں‘ میں نے اپنے بھائیوں کے لاشے خود دیکھے ہیں۔ جنہیں انڈیا فورس نے مارا‘ ان بے غیرت نرنکاریوں کی سازش کی وجہ سے۔“
”لیکن نسل آگے بڑھانے کے لیے بچے کون پیدا کرے گا۔
“ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”بہت ہیں اور بہت پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے یہ خیال تھا کہ بنیئے کابیٹا پیدا ہوتا ہے تو ایک نئی دُکان کھل جاتی ہے اور جٹ کے گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو زمین تقسیم ہوجاتی ہے۔ اب ایسی سوچ نہیں ہے‘ اپنا وطن خالصتان ہوگا تو زمین بھی اپنی ہوگی۔“ اس نے بے حد جذباتی لہجے میں کہا تو میں نے پوچھا۔
”تمہیں نہیں لگتا کہ یہ تحریک سازشوں میں گھری ہوئی ہے؟“
”سازشیں کب اور کہاں نہیں ہوئیں دلجیت۔
ہماری صفوں میں بھی کئی ایسے لوگ ہوں گے‘ جو ہماری خبر اپنے آقاؤں کو دیتے ہوں گے‘ جیسے ہمارے لوگ ہمیں ”را“ کی خبر دے دیتے ہیں۔ تم شاید تصور نہیں کرسکتے ہو‘ جس قدر ہماری نسل کشی یہاں کی گئی ہے‘ خیر…ہم نے تو لڑنا ہے اپنا وطن حاصل کرنے تک‘ لڑتے رہیں گے۔ “اس نے کہا او رپوری توجہ سڑک پر لگادی۔ حویلی پہنچنے تک ہمیں تقریباً گھنٹہ لگ گیا۔
ایک تو فاصلہ تھا‘ دوسرا اس وقت ٹریفک اچھی خاصی تھی جو پرانے شہر میں ہی زیادہ تھی۔ پورچ میں گاڑی رکتے ہی وہ بولی۔
”دلجیت تم چلو اپنے کمرے میں‘ وہیں آتی ہوں میں‘ فریش ہوجاؤ اس وقت تک۔“ اس نے کہااور اپنا سیل فون نکالتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اس وقت تک میں فریش ہو کر بیڈ پر پڑا ٹی وی دیکھ رہاتھا‘ وہاں پر کسی قسم کی کوئی خبر نہیں تھی۔
اب تو یہ ممکن نہیں تھا کہ پولیس یا دیگر فورسز کومعلوم نہ ہو۔ ریلوے شیڈ میں اتنا بڑا ہنگامہ چھپ نہیں سکتاتھا۔ میں یہی سوچ رہاتھا جبکہ میری نگاہیں ٹی وی اسکرین پر تھیں کہ بانیتا اندر داخل ہوئی۔ اس نے سیلولیس ٹی شرٹ کے ساتھ شارٹس پہنے ہوئے تھے۔ پاؤں میں بلیک کلر کی ہلکی سی چپل تھی‘ یوں لگ رہاتھا کہ جیسے یہ لڑکی بیڈ پرپڑے پڑے تھک گئی ہے اور اکتاہٹ دور کرنے کے لیے اٹھ کرآگئی ہے ۔
وہ بڑے بے تکلفی سے میرے ساتھ بیڈ پرآکربیٹھ گئی۔ تومیں نے اپنی سوچ کا اظہار کردیا۔
”یہ خبر‘ ٹی وی چینل پر کیا‘ کسی اخبار میں بھی نہیں آئے گی۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ جس کام میں ”را“ ملوث ہو اور وہ خبر نہ دینا چاہیں تووہ عوام تک نہیں پہنچتی۔ ہم نے جو کیا وہ تو کچھ بھی نہیں‘ اس کے علاوہ بہت کچھ ہوچکا ہے۔“
”کیاہوچکا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہماری ہی طرح چار گروپ اور تھے جنہوں نے اس نیٹ ورک کے اڈوں کو تباہ کیا ہے‘ بہت سارا اسلحہ ہاتھ لگا ہے‘ جو اب تک امرتسر سے باہر نکل چکا ہوگا۔ ہمارے چھ بندے کام آ گئے ہیں اور لگتا ہے ایک آدھ اور جائے گا‘ بہت زخمی ہے وہ‘ یہ ہم ہی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ہوا۔“ اس نے یوں کہا جیسے وہ کسی ٹورنامنٹ کے بارے میں بات کررہی ہو‘ تبھی میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں جو تمہارے ساتھ تھا‘ اس لیے تمہیں کچھ نہیں ہوا۔“
”بے شک… تو ساتھ تھا‘ تیرے نشانے بازی بڑی کمال کی ہے دلجیت! رتن بابا یونہی اپنے گرد رتن نہیں رکھتا‘ اس میں کچھ ہوتا ہے تو ہی قریب آنے دیتا ہے۔ میں نے جان لیا ہے کہ تم میں بہت کچھ ہے۔“ اس نے خمار آلود نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا‘ آخری لفظوں میں اس کے چہرے پر اچھی خاصی سرخی آگئی تھی۔
”اتنا بڑا ہنگامہ ایک رات ہی میں۔“ میں نے اس کا دھیان کسی دوسری طرف لگاتے ہوئے کہا۔
”ہوں… ایک ہی رات میں…“ دراصل ان کی فیلڈنگ تو قریباً تین ماہ سے جاری ہے۔ شری جرنیل سنگھ بھنڈانوالہ کے مشن کو زندگی دینے کے لیے ‘ بہت کام ہو رہا ہے۔ اسے بہت زیادہ خفیہ نہیں رکھا جاسکتاتھا۔ آخر عوام میں بات لانی تھی۔ اب اس بار ”را“ کومعلوم ہونا ہی تھا۔
انہوں نے بھی اپنی پیش بندی کی ہے اور یہ فقط اسلحہ اکھٹا کرنے کی حد تک نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ کام کررہا ہے۔ غیر ملکی لوگ اس میں ملوث ہیں۔ انہوں نے تو اپنا اسلحہ فروخت کرنا ہے۔ صرف پیپسی کوکا کولا کی اجازت مانگنے کے لیے بھارت کو انہوں نے بہت کچھ دیا‘ تو پھر اسلحے کی بڑی مارکیٹ ہے‘ خیر… ایسے میں تمہاری آمد کے بارے میں معلوم ہوا تو ایک دم سے پلان آسان ہوگیا۔
ہمیں ماہر نشانہ باز چاہیے تھا‘ وہ مل گیا‘ اور وہ مشکل ترین ٹارگٹ آسانی سے مل گیا۔ اور…“ یہ کہتے کہتے وہ رکی پھر بدلے ہوئے لہجے میں بولی۔ ”اور ‘ اب تم میرے پاس ہو۔“ 
”وہ تو ہوں اب تیرے پاس‘ لیکن یہ پلان کیسے کیا؟“ میں نے یونہی بات بڑھائی۔
”اصل میں ریلوے شیڈ والا مرکز تھا‘ وہی سب سے اہم تھا‘ ہم صرف دونوں وہاں پر نہیں تھے۔
ہمارے اردگرد لوگ تھے۔ جیسے ہی ہم ”ہیرو“ کواغوا کرلیتے‘ انہوں نے اس جگہ پر دھاوا بول دیا۔ ان کے سارے بندے ہماری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ تم خود سوچو‘ اگروہاں ماہر نشانے باز نہ ہوتا تو صورت حال کیا ہوتی۔ بہت زیادہ فائرنگ ہوناتھی اور بندے بہت ضائع ہونا تھے اور پھر جب ان کی گاڑیاں ہم پرچڑھ گئی تھیں…“ اس نے سوچتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا۔
”اور کس طرح کا م ہو رہا ہے؟“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط