Episode 98 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 98 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

وقاص کی نمازِ جنازہ پر لگتا تھا پورا علاقہ ہی اُمنڈ آیا ہے ۔ ایک بڑے میدان میں اس کااہتمام تھا۔ میں چھاکے کے ساتھ جان بوجھ کر دیر سے پہنچا تھا۔میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسے موقعہ پر میرا دشمنوں سے آمنا سامنا ہو۔ ہم نے کار ایسی جگہ لگائی ، جہاں سے آسانی کے ساتھ نکلا جا سکے۔ میں پچھلی صفوں میں ایک جگہ کھڑا ہو گیا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم خاموشی سے نکلے اور نور نگر کی طرف چل پڑے۔

خلاف توقع چھاکا بہت خاموش تھا۔ جیسے ہی ہم گاؤں کے قریب آئے تو اس نے کہا
” ڈیرے پر چلو، بھیدے کے پاس ۔“
” خیر ہے ؟“ میں نے پوچھا اور کار کا رُخ اس جانب موڑ دیا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد ہم ڈیرے پر جا پہنچے۔ میں کار سے نکل کر صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھنے لگا تھا کہ چھاکے نے کہا
” اندر چلو۔

(جاری ہے)

میں اندر کی جانب بڑھ گیا۔
میں کمرے میں گیا تو سامنے زلفی کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے ذرا سی بھی حیرت نہیں ہوئی۔مجھے یقین تھا کہ جلد یا بدیر وہ مجھ ہی سے رابطہ کرے گا۔ میں کوئی بات کرنا چاہتا تھا کہ پیچھے کھڑے چھاکے نے کہا 
” یہ صبح کا یہیں ہے ۔ اب اس کا کیا کرنا ہے ، یہ تم بتا دو۔“
” کرنا کیا ہے ، ادھر رہے گا تو کسی نہ کسی کی نظر چڑھ جائے گا۔
ظاہر ہے ہمارے پاس ہونے کی وجہ سے وقاص کا قتل ہمارے کھاتے پڑ جائے گا۔“ میں نے کہا تو چھاکا بولا
” تو پھر کہاں رکھیں ، اب پولیس کے حوالے تو کریں گے نہیں ۔“
” ایسا کرو، صبح سویرے تک ٹھہرو، میں یہاں سے اسے نکال لوں گا۔ تم فکر نہ کرو۔“ میں نے زلفی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا تے ہوئے بولا
” مجھے دور کہیں مت بھیجنا ، میں یہیں کہیں رہنا چاہتا ہوں۔
میں اب پروین سے بھی زیادہ دور نہیں رہ سکتا۔“
” وہ بھی تیرے پاس ہی رہے گی ۔بہت جلد وہ تجھ سے آن ملے گی۔“ میں نے اسے حوصلہ دیا اور واپسی کے لئے نکل آیا۔ صحن میں آ کر میں نے کہا
”چھاکے۔! اب یہ کام تمہارا ہے ، اسے گاڑی میں ڈالو اور کرنل سرفراز کے فارم ہاؤس چھوڑ آؤ ، کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ زلفی ہے کہاں، کسی اپنے کوبھی نہیں۔
آج ہی یا جب بھی وقت ملے پروین کو بھی اس کے پاس چھوڑ دینا۔“
”ٹھیک ہے ۔“ اس نے میری بات سمجھتے ہوئے کہا تو میں نے فون پر کرنل سرفراز کے نمبر پش کئے ۔ رابطہ ہو جانے پر میں نے اشارے کنائے میں بات بتائی ۔ انہوں نے زلفی کو بھیج دینے کے لئے کہا تو میں نے اسی وقت چھاکے کو روانہ کر دیا، خود بائیک لے کے اپنے گھر آگیا۔ 
رات کا پہلا پہر ختم ہو چکا تھا۔
میں اور سوہنی چھت پر تھے۔ وہ مجھ سے ذرا فاصلے پر کھڑی مجھے دیکھے چلے جا رہی تھی ۔ اس نے جان ، کرسٹینا اور شعیب کے بارے تفصیلی بات کر کے سمجھ گئی تھی۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ اب سوہنی مجھے سے ذرا فاصلے پر رہتی ہے۔ میں سمجھ نہیں سکا تھا کہ اس میں شدت نہیں رہی یا اس نے خود پر قابو پا لیا ہے ، یا یہ اس کی ناراضگی کا اظہار ہے ۔ مجھے اس پر بہت پیار آرہا تھا۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے قریب کرتے ہوئے یہی باتیں پوچھیں تو وہ بولی 
” جمال۔! میں نے تمہیں اس دنیا میں جانے سے روکا تھا، لیکن میں غلط تھی ۔ شاید کسی مقصد کو حاصل کر لینا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔“
” یہ احساس کیسے ہوا؟“ میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پیار سے پوچھا
” بہت کچھ سوچا میں نے ،اپنا حق نہیں حاصل کر سکتی تھی ،اب کر تو لیا ، لیکن اگر طاقت نہیں ہوگی تو میں اسے کیسے سنبھال سکتی ہوں۔
اور اس وقت جو قوتیں ہماری دشمن ہیں ان کا بس چلے تو یہ سب اگلے ہی لمحے ہمیں ختم کر دیں۔یہ جو گلشن ہم نے بنا لیا ہے اور جس کی ابھی تعمیر نو بھی نہیں ہو سکی، اس کی حفاظت کیسے ہوگی ، بلا شبہ ہمیں طاقت چاہیے ہو گی ۔“ اس نے اپناسر میرے کاندھے پر رکھتے ہوئے جذب سے کہا تو مجھے اس پر بہت پیار آیا ۔ میں ان چند لمحوں میں ہر شے بھول جانا چاہتا تھا ۔
سوہنی کا قرب پا کر اب مجھے بھی سرشاری محسوس ہوتی تھی۔ 
” چھوڑو ان باتوں کو، مجھے یہ بتاؤ، پہلے تم میرے قریب رہنے کی کوشش کرتی تھی ، اب تم مجھ سے دور رہتی ہو ، اس کی وجہ کیا ہے؟‘میرے یوں پوچھنے پر وہ مجھ سے الگ ہوتے ہوئے بولی 
” جمال۔! جب ذمے داری کا احساس نہیں ہوتا تو سوچیں کچھ دوسری طرح کی ہوتی ہیں۔ہمارے مقصدبہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ، لیکن اب ذمے داری زیادہ ہے تو سوچیں بھی مختلف ہو گئی ہیں۔
یہ بات نہیں کہ مجھے تم سے محبت نہیں رہی ، اب تو سمجھو مجھے تم سے محبت ہی نہیں عشق ہو گیا ہے۔ تم جہاں بھی رہو، مجھے یقین ہے کہ تم میرے ہو ۔ تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔“
” میں اس یقین کی وجہ معلوم کر سکتا ہوں ۔“ میں اس کی باتوں سے سرشار ہوتا ہوا بولا تو وہ خمار آلودلہجے میں بولی 
”یہ تو میں بھی نہیں جانتی ، بس اماں نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ جس سے محبت کی جاتی ہے، اس پر اعتماد کرنا پڑتا ہے ، اعتماد کے بغیر محبت کاہے کی۔
محبت تو میرے اندر ہے نا اور اس کی آبیاری میں نے ہی کرنی ہے ۔ جتنے یقین کے ساتھ کروں گی ، اسی قدر پرسکون ہو جاؤں گی۔“ 
”جانتی ہو یہ محبت اور عشق ہوتے کیا ہیں ؟“ میں نے پوچھا تو وہ لذت آگہیں لہجے میں بولی 
” محبت صرف خوبیوں سے کی جاتی ہے ، اور عشق خوبیوں ، خامیوں سے ماورا ہوتا ہے ، اس میں صرف ذات سامنے ہوتی ہے ۔ اور تم میرے سامنے ہو ، ہر وقت ، ہر لمحے ۔
میں تو اتنا ہی جانتی ہوں۔“
” تمہیں ایسی باتیں سکھاتا کون ہے ؟“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی اچانک میرا سیل فون بج اٹھا۔ سارا سکون ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ میں نے فون نکالا تو وہ اجنبی نمبر تھے ۔ میں نے کال رسیو کی ۔
” جمال۔! تمہیں برا تو لگے لگا لیکن میں بتادوں کہ میں چوہدری شاہنواز بات کر رہا ہوں۔
“ دوسری طرف سے نفرت میں بھیگی ہوئی آواز میں کہا گیا تو میں سکون سے بولا
” اچھا کیا بتا دیا کہ تم شاہنواز بات کر رہے ہو۔ بولو کیا کہنا چاہتے ہو ۔“
” صرف تمہاری موت چاہتا ہوں۔ خواہش ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ماروں ۔“ اس نے اسی نفرت سے کہا 
” میں نے تمہیں منع تو نہیں کیااور پھر خواہشوں کا کیا ہے، وہ تو بے چاری ایک پدی بھی کرتی ہے ۔
“ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ تڑپ کر بولا
” میں چاہتا تو ابھی تم بات بھی نہ کر رہے ہوتے، جب تم وقاص کے ہاں سے واپس جارہے تھے تو میرے آدمیوں کی نگاہ میں تھے ۔ایک گولی ، تیری بولتی بند کر سکتی تھی ۔ لیکن نہیں میں نے تجھے اپنے ہاتھوں سے مارناہے ۔“ 
” کہاں آؤں، تیرے ڈیرے پر یا تیرے گھر پر، پھر دیکھتے ہیں کون مرتا ہے اور کون جیتا ہے ، زندگی موت تو میرے رَبّ کے ہاتھ میں ہے ، جس نے ، جب اور جیسے جانا ہے وہ مقرر ہے ۔
بولو ؟“ میں نے غصے میں کہا 
” کہا نا ایک گولی تجھے اگلے جہاں پہنچا سکتی ہے لیکن ایسے تھوڑی ماروں گا، سارا علاقہ تجھ سے عبرت پکڑے گا، اور ہاں ، وہ طوائف کی بیٹی سوہنی سے کہہ دینا، میلے پر اسی نے ناچنا ہے ۔ تیرے سامنے نچاؤں گا اُسے ۔“ اس نے انتہائی نفرت سے کہا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، سوہنی نے فون مجھے سے لے لیا۔فون سے چھن کر آنے والی آواز اس نے سن لی تھی۔
” سن اُوئے ہیجڑے۔! اتنا بڑا بول مت بول، میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں تیری بیٹی نچا دوں گی ۔ پر نہیں، میں عورت کی عزت کرتی ہوں۔ ہاں یہ ضرور کہوں گی کہ تجھے نچا دوں۔ اب میلہ بھی کتنی دور ہے ۔ فقط چند دن، ہمت ہے تو مقابلے پر آ جانا ۔ تیرے پیروں میں گھنگرو میں خود باندھوں گی ۔“اس نے کہا اور فون مجھے دے دیا۔ میں نے فون کان سے لگایا تو وہ گالیاں بک رہا تھا۔
میں نے فون بند کر دیا۔ 
ہم دونوں میں چند لمحے خاموشی رہی، میں نے اس کے چہرے پر دیکھا، جہاں مایوسی اور حسرت پھیل چکی تھی ۔شاید طوائف کی بیٹی ہونا اس کے لئے بہت بڑا طعنہ بن چکا تھا۔ تبھی میں نے اسے اپنی گلے لگایا تو پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ میں نے اسے رونے دیا، کافی دیر بعد اس کا جی ہلکا ہوا تو آنسو پوچھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور نیچے کی طرف چل دی۔
میں سونا نہیں چاہ رہا تھا۔مجھے چھاکے کی فکر تھی ۔ وہ زلفی کو لے کر کرنل سرفراز کے پاس گیا تھا۔ وہ جب تک وہاں بحفاطت پہنچ نہ جاتا، میں سو ہی نہیں سکتا تھا۔ آدھی رات گذر چکی تھی، لیکن اس کا فون نہیں آیا تھا اور نہ ہی میری کال جا رہی تھی ۔ اس کا فون بند جا رہا تھا۔ میں ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ مجھ سے لیٹا نہیں گیا ۔ میں باہر والے کمرے سے نکل کر چھت پر جانے کے لئے صحن میں آ گیا۔
پچھلی رات کا چاند ابھر آیا تھا۔ تبھی میری نگاہ اماں والے کمرے پر پڑی ، جس میں دھیمی روشنی ہو رہی تھی ۔ کیا اماں جاگ رہی ہے ؟ یہ سوچ کر میں اس کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے ہی سے میری نگاہ اندر پڑی ، اماں کونے والی چار پائی پر سورہی تھیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی جائے نماز بچھائے سوہنی بیٹھی دعا مانگ رہی تھی ۔ میں صرف اس کے بڑ بڑانے کی آواز ہی سن سکا جو آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔
وہ روتے ہوئے انتہائی جذب سے دعا مانگ رہی تھی ۔ میں نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا، دبے قدموں واپس صحن میں آ گیا۔ میرے لئے خوشگوار حیرت کی بات یہی تھی کہ وہی سوہنی ہے جو میلے ولے دن مجھے ملی تھی ۔ اِس گھر میں آئی تو نیم برہنہ تھی، اور آج … اس میں کوئی شک نہیں کہ رَبّ تعالی ، جسے چاہے اور جب چاہے ہدایت سے نواز دے۔ مجھے سمجھ آگئی تھی کہ وہ پر سکون انداز میں ، اتنے یقین کے ساتھ باتیں کیسے کر سکتی ہے ۔
میرے اندر خوشگوار ٹھنڈک کے ساتھ ایک نیا عزم بھی اتر گیا۔ مجھے اس وقت سوہنی پر بے تحاشا پیار آیا تھا۔ میں اسی کے بارے سوچتاہوا صحن میں پڑی چار پائی پر لیٹ گیا ۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب سو گیا۔
سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے پہلا خیال چھاکے کا آیا ۔ میں نے جلدی سے فون لیا اور اسے کال ملا دی۔اگلے چند لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔
” میں واپس گاؤں آ رہا ہوں۔ پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جاؤں گا۔سب کچھ حفاظت سے ہو گیاہے ۔“
” اچھا چل سیدھا ادھر ہی آنا،ناشتہ اکھٹے ہی کریں گے ۔“ میں نے کہا اور فون بند کرکے فریش ہونے چل دیا۔
                              #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط