Episode 17 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 17 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میری آنکھ صبح تڑکے ہی کھل گئی۔ اب سوائے نہانے دھونے کے میرے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ میں خوب نہایااور فریش ہو کر وارڈ روب سے اپنے لیے کپڑوں کو دیکھنے لگا۔ وہاں مختلف سائز کے کپڑے تھے۔ مجھے ڈریس پتلون اور چیک دار شرٹ مل گئی۔ میں نے وہ پہنی اور نیچے ڈرائنگ روم میں آگیا۔ وہ ادھیڑ عمر خاتون جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی۔ مجھے دیکھتے ہی ناشتے کے لیے پوچھا‘ میرے اقرار میں سرہلانے پر وہ اندر کی جانب چلی گئی۔

اس وقت میں ناشتے سے فراغت کے بعد چائے پی رہاتھا‘ جب گیانی کرم جیت سنگھ جی آگئے۔ وہ بڑے تپاک سے مجھے یوں ملے جیسے پہلی بار مل رہے ہوں‘ پھر وہیں صوفے پربیٹھتے ہوئے بولے۔
”وہ بلجیت سنگھ مرگیا ہے‘ جسے جسپال نے توڑا پھوڑا تھا۔“ یہ کہہ کر وہ اسی حوالے سے تفصیل بتانے لگے۔

(جاری ہے)

پھر بولے۔ ” میرا تو خیال تھا کہ انہی دنوں میں معاملہ صاف ہوجاتا‘ مگر لگتا ہے‘ ابھی اس کی زندگی ہے۔

”ہاں،آخری رسومات کی ادائیگی میں اس کے اردگرد بہت بھیڑ ہوگی۔“
”یہ بھی کنفرم نہیں ہے نا کہ وہ آخری رسومات کہاں ادا کرتا ہے‘ اوگی میں یا یہیں امرتسر میں‘ اس لیے کوئی پلان نہیں ابھی۔“
”تو اس کامطلب ہے‘ کوئی کام نہیں ہے یہاں پر…“ میں نے پوچھا۔
”بظاہر تو کوئی کام نہیں ہے۔بس یہی ہے کہ تم امرتسر کی سیر کرلو یاپھر یہاں آرام کرو۔
“ گیانی نے کہااور میرے چہرے پردیکھنے لگا۔
”ٹھیک ہے‘ جیسے آپ کی مرضی۔“ میں نے کہااور مگ میں بچی چائے ایک ہی سانس میں ختم کرکے مگ سامنے پڑے ہوئے میز پررکھ دیا۔ تب گیانی جی نے پوچھا۔
” تمہاری جو دستاویزات ہیں، جو بن گئی ہیں، ان دستاویزات کے مطابق تمہارا نام دلجیت سنگھ ہے۔ یہ تم ذہن نشین کر لو؟“
”جی‘ بالکل…! دلجیت سنگھ ولد بہرام سنگھ، قوم رندھاوا جٹ…“ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی طرف دیکھا۔
تبھی وہ خوش ہوتے ہوئے بولا
” اگر آرام کرنا ہے تو گھر میں رہو، ماحول ٹھیک ہے۔“
اس کے کہنے پر میں نے اپنی خواہش کااظہار کیا۔
”گیانی جی‘ یہاں امرتسر میں میرے لیے ایک ہی چیز ہے دیکھنے کی‘ او روہ ہے جلیانوالہ باغ‘ اگر کہیں تو وہ میں دیکھ آؤں۔“
”کیسے جاؤگے بھلا؟“ انہوں نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔
”یہی ٹیکسی رکشہ پکڑ کر نکل جاتاہوں‘ دوپہر کے بعد تک لوٹ آؤں گا۔
“ میں نے عام سے انداز میں کہا۔
”نہیں‘ تم کچھ دیر انتظار کرو‘میں نے اس کا انتظام کیا ہے۔وہ آ جاتی ہے یہاں پر‘ وہ تجھے دکھا لائے گی‘ تب تک تم انٹرنیٹ استعمال کرو‘ میں یہ باتیں تم سے فون پر بھی کرسکتا تھا‘ لیکن تم سے وعدہ کیاتھا اور میں نے ادھر سے گزر کرجانا بھی تھا‘خیر۔! اب میں چلتا ہوں‘ رب راکھا۔“ یہ کہہ کر گیانی اٹھ گیا۔
میں بھی اٹھااور اس کے ساتھ چلتا ہوا باہر پورچ تک آگیا۔
وہ چلاگیا تو میں نے باہر پھیلی ہوئی چمکیلی دھوپ کو دیکھا‘ صاف آسمان رنگین گھر اور دھیمی دھیمی چلتی ہوئی ہوا بہت بھلی لگ رہی تھی۔شاید میں کمروں میں پڑا پڑا تھک گیاتھااور آزاد فضاؤں میں گھومنا چاہتا تھا۔ میں وہیں کاریڈور میں کرسی پربیٹھ گیا اور گرمیوں کے بعد آنے والے سرد موسم کومحسوس کرنے لگا۔
بارش کے بعد ہوا میں نمی تھی جو بھلی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے وہاں بیٹھے ہوئے کافی وقت گزر گیا۔ یونہی اوٹ پٹانگ سوچیں سوچتا رہا۔ اسی دوران ایک سفید رنگ کی ماروتی کار گیٹ سے اندر آئی۔ پہرداروں نے اسے آنے دیاتھا تووہ بلاشبہ گیانی ہی سے متعلق تھی۔ وہ کار دھیرے دھیرے چلتی ہوئی پورچ میں آن رکی،جومجھ سے چند گز کے فاصلے پر تھا‘ اس کی ڈرائیونگ سیٹ سے ایک خاتون نکلی ۔
پہلی نگاہ میں وہ ادھیڑ عمر ہی لگتی تھی‘ لیکن جیسے ہی وہ میرے قریب آئی تو وہ بھرپور جوان تھی۔ شانوں تک بال جو سادے سے انداز میں باندھے ہوئے تھے‘ آنکھوں پر عینک ‘ ماتھا چوڑا‘ تیکھا ناک‘ پتلے ہونٹ‘ لمبی گردن‘ پتلی سی ‘بھاری سینے والی‘ لمبے قد کی جوان اور بھرپور لڑکی‘ سانولے رنگ کی شفاف چہرے والی نے گہرے نیلے رنگ کی جین اور سفید کرتا پہنا ہوا تھا۔
جس‘ پرہلکے سبز رنگ کے پھول تھے۔گلے میں سکارف نما دوپٹہ‘ پہلی نگاہ میں وہ کسی اخبار کی رپورٹر لگتی تھی یااس کاتعلق کسی لکھنے لکھانے والے شعبے سے لگتاتھا۔اس نے آتے ہی بڑے کھنک دار لہجے میں پوچھا۔
”آپ ہی دلجیت سنگھ ہیں نا۔“
”جی‘ میں ہی ہوں۔ اورآپ…؟“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”میں نوین کور ہوں۔گیانی صاحب نے مجھے بھیجا ہے‘ آپ کو امرتسر کی سیرکروادوں۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا‘ میں نے اٹھ کراس کاہاتھ تھام لیا۔ وہ بالکل ٹھنڈی تھی‘ یاشاید کار میں اے سی چلنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ ٹھنڈے تھے۔
”آئیں چائے یا جوس پی لیں‘ پھرچلتے ہیں۔“ میں نے اس کاہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا تووہ بولی۔
”مجھے ضرورت نہیں ہے‘ ویسے بھی باہر بہت کچھ کھایا پیاجاسکتا ہے‘ اگر آپ…“
”اوکے…!میں بتادوں…“میں نے کہااور اندر کی طرف چلاگیا۔
تب تک ادھیڑ عمر سکھ آگیاتھا۔ میں نے اسے بتایا اور ماروتی میں جابیٹھا۔ جس میں واقعتا اے سی چل رہاتھا۔
”کہاں چلنا ہے…“ گیٹ سے باہر آتے ہی اس نے پوچھا۔
”آپ کے رحم وکرم پر ہوں،جدھر لے جاؤ۔“ میں نے کہا تو اس نے سرہلانے پر ہی اکتفا کیا۔ ایسے میں میرا سیل فون بج اٹھا۔ دوسری جانب گیانی صاحب تھے۔ انہوں نے نوین کے بارے میں بتادیا تھا کہ کافی بھروسے مند لڑکی ہے۔
وہ مجھے مختلف راستوں سے لے جانے لگی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ انتہائی خاموشی سے گزر گیا۔ نہ اس نے کوئی بات کی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ اس نے کار میں میوزک تک نہیں لگایا تھا۔ آخر تنگ آکر میں نے کہا۔
”نوین کورجی‘ بندہ سیر کرنے کے لیے کیوں نکلتا ہے؟“
”یہی خوشگواریت کے لیے تاکہ موڈ فریش ہوجائے۔ ویسے میں سمجھ گئی ہوں کہ آپ نے میری خاموشی کومحسوس کیا ہوگا۔
”ویسے تم ہو تو عقل مند۔“ میں نے واقعتا خوشگواریت سے کہا۔
”دراصل میں آپ کاموڈ دیکھ رہی تھی‘ آپ خاموش تھے تومیں بھی ہوگئی۔“ یہ کہہ کر اس نے پارکنگ میں گاڑی لگانے کے لیے جگہ دیکھنا شروع کردی۔ ذرا فاصلے پر میں جلیانوالہ باغ کا بڑاسا بورڈ دیکھ رہا تھا۔ گہرے سبز رنگ والے بورڈ پرپیتل کے حروف سے لکھا ہوا ‘وہ چار زبانوں میں لکھا ہواتھا۔
بائیں جانب اردو میں تھا‘ کار پارک کرکے ہم تنگ سی گلی میں آگئے، جس میں بمشکل دو افراد ایک ساتھ گزر سکتے تھے۔ باغ کے اندر داخل ہوئے تو خاصا کھلا تھا۔
”اصل میں یہ ساری ساڑھے چھ ایکڑ زمین ہے۔ یہ ہمت سنگھ نامی ایک شخص کی تھی جسے راجہ رنجیت سنگھ نے دان کی تھی۔ وہ فتح گڑھ صاحب کے قریب جیلانامی جگہ کاتھا۔ کبھی راجہ رنجیت سنگھ بھی وہاں آیا تھا‘ اس لیے وہ شخص مشہور ہوگیااور یہ جگہ جلیانوالہ کے نام سے موسوم ہوگئی۔
”تبھی اُس نے یہاں باغ لگایا تھا؟“ میں نے پوچھا۔ اس وقت ہم ایک روش پر آہستہ خرامی سے چلتے چلے جارہے تھے۔
”نہیں بعد میں یہ ویسے ہی پڑی رہی‘ اسے شاید جالندھر کے علاقے میں جگہ مل گئی تھی‘ تب یہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کے کام آتی رہی تھی۔“ اس نے بتایا۔
”مطلب یہ شروع سے باغ نہیں تھا؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں۔! یہ بعد میں کہیں جاکر بنی تھی۔
اس کامالک تو 1829ء میں ہی سورگ باش ہوگیا تھا۔ پھر کسی نے پوچھا تک نہیں اس زمین کو‘ جب 13اپریل کو…یہاں سانحہ پیش آیا تھا‘ تب کبھی کا لگایا ہوا باغ بھی اجڑ چکاتھا‘ اس وقت یہ ہری بھری زمین نہیں تھی۔“
”یہاں نہتے لوگوں کوماراگیا۔“ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔
”ہاں۔! انگریزوں نے تو378بتائے تھے لیکن اس وقت کے سول سرجن ڈاکٹر سمتھ نے ایک ہزار پانچ سو چھبیس کی تصدیق کی تھی‘ لیکن بعد میں ثابت ہوا تھا کہ تقریباً دوہزار کے لگ بھگ لوگ مارے گئے تھے‘ متعدد جو شدید زخمی تھے‘ یا کنویں میں پڑے رہے ،جو اس طرف ہے۔
“ اس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کنویں کے اردگرد اور اوپر چھت بنادی گئی ہوئی ہے۔ یوں گول دائرے میں برآمدہ بن گیا ہے۔ ہم اس کے قریب چلے گئے۔ 
”آؤ ‘میں تجھے وہ تکونا پتھر دکھاؤں‘جس کے پاس کھڑے ہو کر جنرل ڈائر نے فائرنگ کا حکم دیاتھا۔“ اس نے کچھ دیر بعد کہا تو ہم وہاں تک چلے گئے۔”اور وہ دیکھو۔! وہ یہاں کے شہیدوں کی یاد گار سرخ پتھر سے بنائی گئی ہے۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط