Episode 70 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 70 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” اب مجھے سمجھ آرہی ہے ۔ وہ اب مہرل شاہ کے سامنے اچھا بن جائے گا کہ اس نے مہرل شاہ کی جان بچائی۔ اس احسان کے عوض وہ بہت ساری مراعات لے گا ۔ لیکن مجھے یہ نہیں لگتا… ابھی اسے مزید سمجھنا ہوگا ۔“ بدر غصے میں بولا
” تم جتنامرضی سمجھ لو ، وہ مہرل شاہ کے ساتھ جو بھی کرے…“ تانی نے کہنا چاہا تو بدر اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
”ہاں وہ مہرل شاہ کے ساتھ جو کچھ بھی کرے ، اسے مار دے یا اس پر احسان کر دے ،لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
اس کے دماغ میں کیاہے، میں یہ بھی نہیں جانتا ،مگر اتنا معلوم ہے کہ ہمارے بارے میں وہ اچھا قطعاً نہیں سوچ رہا ہے ۔“ جسپال نے کہا
” وہ جو سوچتا ہے ، اسے سوچنے دو، ہم نے جو کرنا ہے ، وہ ہم کریں گے ، یہ اب مجھ پر چھوڑ دو۔

(جاری ہے)

“ تانی نے کہا تو جسپال مسکراتے بولا

” وہ تو ٹھیک ہے ،لیکن بدر ، تم اسے پہچان ہی نہ سکے کہ یہ کیسا بندہ ہے ؟“
” یہ اب تک میرے ساتھ ٹھیک چل رہاتھا اور پھر یار وہ منافقت ہی کیا جس کا پتہ چل جائے۔
خیر دیکھتے ہیں وہ کیا کرتا ہے۔“ وہ سوچتے ہوئے بولا
”وہ بلوچ، وہ کدھر ہے ، اس کا کچھ پتہ ہے کہ نہیں؟“ جسپال نے کہا 
” اگر ابھی تک ہم ہیں تو وہ بھی ہوگا۔“ بدر نے غصے بھری بے بسی سے کہا تو چند لمحوں کے لئے ان کے درمیان خاموشی چھا گئی۔
وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ اندر سے ایک ملازم آیا اور انہیں لے کرپھر سے اندر چلا گیا۔
مہر سکندر صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ان تینوں کو بیٹھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ انہیں چند لمحوں تک دیکھتا رہا پھر بولا
” میں جانتا ہوں کہ تم لوگوں کو یہاں پابند نہیں کیا جا سکتا ۔ تم یاتو مر جاؤ گے ، یا پھر میرے بندوں کا خون خرابہ کر کے نکلنے کی کوشش کرو گے۔ مگر میں کہتا ہوں تم معزز مہمانوں کی طرح یہاں رہو ،مجھے وزارت ملنے تک انتظار کرو، مہرل شاہ کو مارنے کی ضد نہ کرو۔
یا پھر اسے چھوڑ کر یہاں سے چلے جاؤ۔“
” جیسے آپ کہیں گے،ویسا ہی ہوگا۔“ تانی نے کہا اور گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا
” ٹھیک ہے۔“ 
یہ کہہ کر اس نے اپنے ملازم کی طرف دیکھا ۔وہ ان دونوں کی جانب بڑھتے ہوئے انہیں باہر جانے کا اشارہ کیا۔بدر اور جسپال دونوں اس کے ساتھ چل دئیے ۔جبکہ تانی خود جا کر اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
مہر سکندر ایک دم سے خوش ہو گیا۔ اس نے بڑے پیار سے تانی کے دائیں گال پر ہاتھ پھیرا اور پھر پیار بھرے لہجے میں بولا
” تم بہت سمجھ دار ہو،جب تک ادھر رہو ،ہمارے ساتھ عیش کرو اور جب جانا چاہو تو…“ 
 اس پر تانی نے تڑپ کر کہا
” نہیں،میں کہیں نہیں جانا چاہتی۔ میں آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں، اور اگر آپ نہ بھی رکھیں تو کم از کم ان دونوں سے میر ی جان چھڑوا دیں، میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،میں ان سے بہت دور چلے جانا چاہتی ہوں۔
” کیا مطلب…؟“ مہر سکندر نے چونکتے ہوئے پوچھا تو وہ رُو دینے والے انداز میں بولی 
” میں ان سے بہت دور چلے جانا چاہتی ہوں ، ایسی جگہ جہاں ان کا سایہ بھی نہ پڑے۔ بس آپ میری اتنی مدد کردیں، میری ان سے جان چھڑوا دیں، تاکہ میں ان سے آزاد ہو جاؤں۔“
” جیسا تم چاہو ،ویسا تو میں کروں گا ہی ، لیکن ایسا کیوں ، کیسے تم ان کے ہتھے چڑھ گئی؟“ مہر سکندر نے تیزی سے پوچھا تو وہ اپنے آنسوپو نچھتے ہوئے بولی 
” یہ ایک لمبی کہانی ہے ، میں آپ کو پھر بعد میں بتاؤں گی ۔
“ تانی نے روہانسہ ہوتے ہوئے کہا تو وہ پیار سے بولا 
” ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ۔ ہم بعد میں بات کریں گے ، ابھی تم فریش ہو جاؤ۔ آرام کرو میرے بیڈ روم میں ، پھر بات کرتے ہیں۔“
” ٹھیک ہے ۔“ وہ ایک دم سے تیار ہو گئی۔ تبھی اس نے دور کھڑے اپنے ایک ملازم کو اشارے سے بلایا اور تانی کو اپنے بیڈ روم میں لے جانے کو کہا۔ تانی مسکراتی ہوئی اس کے ساتھ چل دی ۔
مہر سکندر اس کی طرف للچائی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
 دوپہر ڈھل چکی تھی۔مہر سکندر کے ڈیرے پر سکوت طاری تھا۔جسپال اور بدر نجانے کہاں تھے۔ بلوچی کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا۔ سیکورٹی گارڈز کے سوا کوئی دوسرا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مہرل شاہ کا بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ابھی تک ڈیرے پر ہی ہے یااسے وہاں سے کہیں پہنچا دیا گیا ہے۔وہاں پر ایسا سکوت طاری تھا، جیسے یہاں کبھی کوئی ہنگامہ ہوا نہیں تھا۔
ایسے وقت میں تانی ،مہر سکندر کے بیڈ روم میں تھی۔وہ خوب سوئی تھی۔ اسے کچھ دیر پہلے جگا کر بتا دیا گیا تھا کہ مہر صاحب آنے والے ہیں۔ وہ تیار ہو جائے۔ یہ پیغام دینے والا اس کے لئے کپڑے اور کافی کاسمیٹکس بھی رکھ گیا تھا۔ تانی انہیں چند لمحے دیکھتی رہی اور نیند کا خمار اتارتی رہی ،پھرکپڑے اُٹھا کر ملحقہ باتھ روم میں چلی گئی۔
کافی وقت گذار کر جب وہ بیڈ روم میں آئی تو وہی سناٹا تھا۔
وہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر خود کو سنوارتی رہی ۔ جب تیار ہو چکی تو اس کے لبوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ رینگ گئی۔ انہی لمحات میں دروازے پر دستک ہوئی اور وہی ملازم اندر آ گیا
” مہر سائیں آپ کو باہر یاد کر رہے ہیں۔“
” اچھا میں آتی ہوں۔“
” آپ کو کیا پتہ کہ کدھر جانا ہے ، میں لے چلتا ہوں نا آپ کو۔“ اس نے مودب سے لہجے میں کہا تو وہ اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دی۔
وہ اسے باہر لان میں لے گیا، جہاں دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ مہر سکندر بید کی کرسی پر پھیل کر بیٹھاہوا تھا۔ اس کے اردگرد بھی ایسی ہی کرسیاں پڑی تھیں۔
” آؤ ، آؤ سوہنا ، آؤ ، بیٹھو۔“ اس نے اپنے ساتھ والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ اس کے ساتھ ہو کے بیٹھ گئی اور بڑی ادا سے بولی 
” میں نے سوچا تھا کہ آپ اُدھر بیڈ روم میں ہی آؤ گے۔
” جلدی کاہے کی ہے ، ابھی بیٹھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں ، کوئی تعارف کرتے ہیں، اب دیکھو نا سوہنا ، مجھے تمہارے نام ہی کا پتہ نہیں ہے۔“ اس نے سوقیانہ انداز میں کہا ۔ تانی نے ایک ادا سے اس کی طرف دیکھا اور بولی 
” تانی نام ہے میرااورمیں بھارت کے شہرممبئی سے تعلق رکھتی ہوں۔“
اس کے یوں کہنے پر مہر سکندر ایک دم سے چونک گیا اور سیدھے ہوتے ہوئے بولا
” تم انڈیا کی ہو ، ممبئی سے ، میرا مطلب ہے، وہاں سے کہاں؟ “
” ہم وہاں جوہو کے علاقے میں رہتے تھے۔
میری قسمت خراب کہ میں کمانے کی غرض سے دبئی چلی گئی۔ میں بہت اچھی کمپیوٹر گرافکس ہوں۔ بس وہیں ان کے ہتھے چڑھ گئی، یہ مجھے یہاں لے آئے ۔“ تانی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا
” غیر قانونی طور پر لائے ہوں گے نا۔“ اس نے تصدیق چاہی
” بالکل ، یہ جسپال ہے نا اس سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ ہم کافی ملتے تھے کبھی کسی پارک میں ، کبھی کسی ہوٹل میں خوب موج کرتے تھے، ایک رات اس نے مجھے ایک فیری میں لے جانے کی آفر کی کہ وہاں ہلا گلا کریں گے، کھائیں پئیں گے، موج کریں گے۔
میں اس کے ساتھ فیری میں چلی گئی۔ وہ رات تو موج میں گذری ، لیکن صبح ہوتے ہی ماحول بدل گیا تھا۔ میں کراچی میں تھی اور تب سے ان کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہوں۔ آپ مجھے ان سے کسی طرح…“ اس نے کہنا چاہا تو مہر سکندر اس کی بات کاٹ کر بولا
” اب تم میری پناہ میں آگئی ہو، اب یہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ تم یہ بتاؤ، تمہارے کاغذات، مطلب پاسپورٹ وغیرہ کدھر ہیں؟“
” وہیں دبئی میں ہیں۔
“ تانی نے تیزی سے کہا
” مطلب اب اگر تم دبئی جانا بھی چاہو تو غیر قانونی طور پر جانا ہوگا۔“ مہر سکندر نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا
”ظاہر ہے، مجھے وہیں جانا ہے ۔ لیکن میں بہت جلد وہاں سے بھارت چلی جاؤں گی۔“ تانی نے تیزی سے کہا تو وہ بولا
” یار تم تو بڑے کام کی چیز ہو۔ اگر ہم تمہیں بھارت ہی پہنچا دیں تو…؟“
” اس کا کیافائدہ ہوگا، میرے سارے کاغذات تو…؟“
” اوئے چھوڑو ان کو ، یہ سب بن جاتے ہیں۔
“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
” یہ کیسے ممکن ہے؟“ تانی نے پوچھا
” ابھی ممکن کر دیتے ہیں،“ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے سیل فون نکالا اور چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لا کرپوچھا” دبئی کا کوئی فون ہے تو بتاؤ، وہاں سے سارے کاغذات منگوا لیتے ہیں۔ کوئی دوست ، سہیلی ، کوئی کمپنی کا دوست…؟“
بلا شبہ وہ اس کے بیان کی تصدیق چاہ رہا تھا۔
تانی نے ایک لمحہ کو اپنے ماتھے پر انگلیاں پھیریں اور یاد کرتے ہوئے ایک نمبر بتایا۔ مہر سکندر نے وہ نمبر ڈائل کیا اور پش کر دیا۔ دوسری طرف کال جانے لگی۔ رابطہ ہوتے ہی اس نے اسپیکر آن کیا اور اور فون اسے تھما دیا۔ دوسری طرف سے کوئی مرد ہیلو ہیلو کہہ رہا تھا۔
” میں تانی بات کر رہی ہوں،تم احسان الحق بات کر رہے ہو نا۔“
” ہاں ہاں ، میں احسان الحق ہی بات کر رہا ہوں۔
مگر تم بتاؤ تم کہاں ہو ، کدھر غائب ہو ، یہ نمبر تو پاکستان کا ہے ۔ کیا تم بھارت چلی گئی تھی ، یہ کیا چکر ہے ؟“
” میں بہت بری طرح پھنس چکی ہوں۔ وہ جسپال بھی نا، میں کیا بتاؤں، قید میں ہوں۔ ایک دردمند بندے سے میری ملاقات ہوئی ہے ۔ اسی کے فون سے بات کر رہی ہوں۔ تم ایک کام کر دو پلیز ۔ “ تانی نے گلو گیر لہجے میں کہا تو اس نے پوچھا
” بولو ، بتاؤ۔
” کسی طرح میرے فلیٹ چلے جاؤ اور مالنی سے میرے کاغذات لے کر مجھے پوسٹ کر دو۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔ میں پھنسی ہوئی ہوں۔“ تانی نے بتایا تودوسری طرف سے پوچھا گیا
” اچھا ، میں کوشش کرتا ہوں۔ اپنا ایڈریس بتاؤ۔“ دوسری طرف سے پوچھا گیا تو تانی نے مہر سکندر کو اشارے سے پوچھا کہ کیا بتاؤں۔ اس نے بات کو گول کر جانے کا اشارہ کیا تو وہ بولی 
” میں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتی ، جب تم کاغذات لے لو تو اسی نمبر پر رابطہ کرنا۔
“ تانی نے کیا
” اوکے ۔ میں آج تو نہیں کل جا سکوں گا۔“ اس نے کہا تو تانی بولی
” جیسے بھی ہو پلیز میرا یہ کام کر دینا۔“ یہ کہہ کر اس نے الوداعی کلمات کہے اور فون بند ہو گیا۔
 مہر سکندر کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا تھا۔ اسے یقین آ گیا تھا کہ تانی نے جو بھی کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔ اس لئے وہ بڑے اطمینان سے بولا
”خیر تم ادھر رہو میرے پاس ، کرلیں گے سب کچھ، ابھی ان سب سے جان چھڑاتے ہیں تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
“ مہر سکندر نے برا سا منہ بنا کر کہا 
” کن سے جان چھڑانی ہے مہر صاحب ؟“ تانی نے پوچھا
” او یہی جسپال اور بدر، میرا پلان یہ ہے کہ انہیں ختم کریں تو ان کی سر دردی ختم، وہ ڈرائیور بے چارہ بھی ان کے ساتھ مارا جائے گا۔ رہا مہرل شاہ، تو دیکھتے ہیں اس کے ساتھ کیاسودے بازی ہوتی ہے یا اسے بھی مارنا ہوگا۔“
” انہیں مار کر مہرل شاہ کو کیوں مارتے ہیں۔ پہلے مہرل شاہ سے سودے بازی…“
” نہیں، اس سے سودے بازی میں وقت لگے گا،انہیں پہلے ہی ختم کرنا ہوگا۔“ اس نے حقارت سے کہاتو تانی پرجوش لہجے میں بولی
” بس پھر تو میں آزاد ہوں گی ۔ سکون سے ادھر رہوں گی۔ ویسے اب تک آپ نے ان کو ختم کیوں نہیں کیا؟“ تانی نے پوچھا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط