Episode 104 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 104 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” تم یہیں ٹھہرو،بائیک کے پاس اور ہر طرف سے محتاط رہنا۔“ میں نے کہا اورگن اسے تھما کر قریبی درخت پر چڑھتا چلا گیا۔ میں نے ڈیرے کی طرف دیکھا۔ وہاں اچھی خاصی ہلچل تھی۔ پھر ایک دم سے گیٹ کھلا اور تین گاڑیاں تیزی سے نکل کر چلتی چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد ہی سکون چھا گیا۔ ان میں کون کدھر گیا تھا ، میں یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ میں نے چھاکے کو فون کر کے بتایا
” میری گاڑی ان کے پاس …“
” تم کہاں ہو ، وہ بتا رہے ہیں کہ تم اکیلے کہیں نکل گئے ہو ۔
’ ’ میں شاہنواز کے ڈیرے کے باہر ہوں۔ “ میں نے بتایا تو اس نے دھاڑتے ہوئے کہا
” تم وہاں ؟“ 
” ہاں ، میں وہاں ہوں ، لیکن میری بات سنو، اپنے ان دوستوں سے کہو کہ وہ کہیں بھی چھپ کر سکون سے بیٹھ جائیں، سڑک پر نہ رہیں۔

(جاری ہے)

ممکن ہے میرے چکر میں …“

” میں سمجھ گیا ، لیکن تم وہاں سے نکلو، ہم بعد میں دیکھ لیں گے ۔“ اس نے غصے کو دباتے ہوئے کہا تو میں نے فون بند کرکے ”خاموشی“ پر لگا دیا۔
 میں تیزی سے سوچ رہا تھا کہ ان گاڑیوں میں کون گیا ہے ۔ اگر ان میں شاہ زیب یا ملک سجاد ہیں تو میں ان کے پیچھے جاؤں، وہ اگر نہیں ہیں تو ڈیرے میں ہی کوشش کروں۔ میں بے چین تھا کہ مجھے ان کے بارے میں پتہ چلے۔ میں درخت سے نیچے اُتر آیا اور ٹہلنے لگا۔اچانک مجھے شعیب کا فون آگیا تو میں نے فون رسیو کیا تو وہ بولا
” کہاں ہو آپ ؟“
” میں سڑک پرایک جگہ کھڑا ہوں ،کیوں؟اور مجھے کب تک باہر رہنا ہوگا؟“
” آپ کہیں ادھراُدھرہوجائیں۔
ڈیرے سے پتہ چلاہے کہ شاہ زیب کافی سارے لوگوں کو لے کر نکلا ہے آپ کے لئے۔ مخبر نے میرے مطابق ہی اطلاع دی ہے ۔“
” تم کہاں ہو ؟“
” میں شاہنواز کے گھر کے باہر ہوں۔ ڈیرے پرجانے کے لئے وہ کسی وقت بھی نکل سکتاہے۔ شاہ زیب نے اسے صورت حال بتا کر وہیں بلوایا ہے ۔“
” اس کا مطلب ہے ڈیرے پر ملک سجاد ہی ہے؟“
” ممکن ہے ہو یا وہ شاہ زیب کے ساتھ نکل گیاہو، میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
” ڈیرے کے اندر کی صورت حال کا پتہ کرو، اگر ملک سجاد وہاں نہیں ہے توشاہنواز نے وہاں کیاکرنے جانا ہے۔“ میں نے کہا ہی تھا کہ وہ تیزی سے بولا
” وہ نکل آیا ہے ، بعد میں ۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میں جھنجھلا کر رہ گیا۔
میرا ڈیرے پر آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا ۔ میں اکیلے اندھا دھند ڈیرے میں گھس بھی جاتا اور وہاں کوئی نہ ہوتا تو پھر بھی مایوسی ہونی تھی۔
اور پھر یہ ایک بہت بڑا رسک تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا ، اگروہ یہاں نہیں ہیں تو ان تین گاڑیوں میں سے کسی ایک میں تو ہوں گے، وہ میرے شکار پر نکلے ہیں تو کیوں نا میں ان کاشکار کروں؟ یہ سوچتے ہی میں بائیک کی طرف بڑھا۔ لڑکا میرے انتظار میں تھا۔ میں نے اس سے گن پکڑی تو وہ بائیک پر جا بیٹھا۔ میرے بیٹھنے تک اس نے بائیک اسٹارٹ کی ۔میں نے اسے راستہ بتایا، اگلے چند لمحوں میں ہم وہاں سے نکل پڑے۔
 
واپس پکی سڑک پر آتے ہمیں اتنا ہی وقت لگا ۔ میں راستے میں اسے سمجھاتا ہوا آیا کہ کس صورت حال میں کیا کیا جاتا ہے ۔وہاں پہنچ کر اس لڑکے نے کہا
” بھائی جی ۔میں رابطہ کروں گاڑی والوں سے ؟“
” ہاں ، انہیں بتاؤ کہ ہم کہاں پر ہیں ۔“
وہ لڑکا ان سے رابطہ کرنے لگا۔ وہ ہم سے کچھ فاصلے پر ایک ڈیرے پہ ہمارے انتظار میں تھے۔
اس نے اپنی پوزیشن بتاکر فوراً آ جانے کو کہا۔
ہم وہیں کھڑے انتظار کرتے ہوئے اس سمت دیکھ رہے تھے، جدھر سے ہماری گاڑی نے آنا تھا۔ انہی لمحات میں جب ہماری گاڑی کی ہیڈ لائیٹس دکھائی دیں۔ مخالف سمت سے تین گاڑیاں آتی ہوئی دکھائی دیں۔ میرا دوران خون ایک دم ہی سے تیز ہو گیا۔ میں دیکھ رہا تھا۔ تینوں گاڑیاں تیزی سے قریب آرہی تھیں۔ میں نے لڑکے کو بائیک پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ بیٹھ گیا اور اس نے بائیک سٹارٹ کر لیا۔ میں نے گن سیدھی کر لی۔ وہ تینوں گاڑیاں سڑک کے درمیان یوں رک گئیں کہ جیسے انہوں نے راستہ روک لیا ہو۔ ہماری گاڑی ان سے کچھ فاصلے پر رُکی ہی تھی کہ کئی سارے لوگوں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ تیز روشنی میں ان سب کی نقل و حرکت دکھائی دے رہی تھی۔درمیان والی گاڑی میں سے پسٹل لئے شاہ زیب نکلا۔ میں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی، اس کا نشانہ لیااورفائر کر دیا۔
اسی لمحے لڑکے نے جگہ بدل لی۔ میں نے دیکھا شاہ زیب لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر گر گیا تھا۔ وہاں موجود سبھی لوگ اچانک افتاد پر چونک گئے۔وہ توسامنے کی گاڑی کو نشانہ بنانے والے تھے ، لیکن ایک سائیڈ سے حملہ ہو جائے گا۔ یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے فائرنگ نہیں روکی۔ ہماری گاڑی کی طرف سے بھی فائرنگ ہونے لگی۔ پتہ نہیں وہ لوگ کتنے تھے۔ لیکن جو میری رینج میں آ جاتا وہ بچتا نہیں تھا۔
لمحوں میں سڑک پر لاشیں بکھر گئیں۔ اچانک آگے والی گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی ۔ شاید ٹنکی میں کو ئی بلٹ جا گھسی تھی۔ اسی وقت پچھلی گاڑی مڑی اور پھر وہ بھاگتی چلی گئی ۔ کچھ دیر ہی میں سکون ہو گیا۔ میں اپنی گاڑی تک گیا ، وہاں سے ٹارچ لی اور دور ہی سے دیکھنے لگا کہ شاہ زیب ہے بھی یا اسے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ وہ ایک طرف پڑا تھا۔ میں نے دو لڑکوں کو اپنے کور پر لیا اور اس کی جانب بڑھا۔
باقی لوگوں کو پھیلا دیا تھا کہ اگر کوئی دبکا پڑا ہے تو اسے پکڑ لیا جائے۔
میں شاہ زیب کے پاس پہنچ گیا تھا۔ وہ بہت مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ اس کے سینے پر گولی لگی تھی۔ میں نے اسے جھنجھوڑا تو اس نے آ نکھیں کھولیں، میری طرف دیکھ کر اس کے چہرے پر نفرت پھیل گئی ۔
” اب بھی اگرتم کہو کہ دوبارہ اس علاقے میں نہیں آؤ گے تو میں تمہیں بچانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
‘ ‘میں نے کہا تو اس نے مجھ پر تھوک دینا چاہا تو میں نے اپنے پسٹل کی نال اس کے منہ میں رکھتے ہوئے کہا،” ممکن ہے کل صبح تمہیں کوئی پہچان بھی نہ پائے کہ تم شاہ زیب ہو ۔ گھٹیا باپ کی گھٹیا اولاد، کوئی گھٹیا حرکت مت کرنا۔“
میری بات سن کر اس کے وجود میں ایک بارگی جنبش ہو ئی اور پھر وہ ساکت ہو گیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ان میں ملک سجاد بھی تھا یا نہیں،میں نے ایک نگاہ سڑک پر پڑے لوگوں پر ڈالی اور فوراً ہی وہاں سے نکل جانے کے لئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔
اس وقت میں پکی سڑک سے اتر کر حویلی جانے والی سڑک پر تھا ، اس وقت میں ان سب لوگوں کو اتار چکا تھا، جب چھاکے کی کال آئی۔ اس نے انتہائی پرجوش لہجے میں کہا
” تم نے شاہ زیب کو پار کردیا ۔“
” تم تو مجھے روک رہے تھے۔وہ میرا شکار کرنے نکلا تھا۔ خیر، آ کر تفصیل پوچھ لینا۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ حویلی پہنچا تو پُوہ پھٹ چکی تھی۔
میں نہانے کے لئے باتھ روم میں گھس گیا۔
میں فریش ہو کر بیٹھا چائے پی رہا تھا، جب شعیب آیا ۔ اس کے چہرے پر عجیب سر مستی بھری مسکراہٹ چمک رہی تھی۔ اس نے دور ہی سے انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے میری طرف دیکھا تھا۔ میرے قریب آتے ہی بولا
” میں نے اپنا انتقام لے لیا۔ کر دیا شاہنواز کا کام۔وہ نہیں رہا اس دنیا میں۔“
 میں نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے بولا
” مبارک ہو۔
“پھر اسے الگ کرتے ہوئے کہا،” میں سمجھتا ہوں کہ معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے ،لیکن ان حیوانوں ، سانپوں اور موذی جانوروں کو ماردینے کا حکم ہے جو انسانوں کے لئے ضرر رساں ہو جائیں، خیر کیسے ہوا سب ؟“
میں بیٹھ گیا تو وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا
” میں اس کے گھر کے سامنے اس کی تاک میں تھا۔ میرے ساتھ دو مزید لوگ تھے ۔
گیٹ کھلا اور اس کی گاڑی باہر نکلی تو اس کی رفتار نہ ہونے کے برابر تھی۔ جیسے ہی وہ باہر نکلا ہم تین طرف کھڑے تھے اس پر برسٹ مارے ، اس کے گارڈز کوموقع ہی نہیں ملا کہ ہم پر فائر ہی کر سکیں۔“
” تمہیں کیسے یقین ہے کہ وہ ختم ہو گیا،کوئی خبر ۔کوئی اطلاع؟‘ ‘ میں نے پوچھا 
” سارے علاقے میں یہ اطلاع پھیل چکی ہے ، بلکہ شاہ زیب کے مرنے کی بھی ، ملک سجاد تو یہ سنتے ہی واپس بھاگ گیا ہے۔
ڈیرہ سنسان پڑا ہوا ہے ، کوئی اشتہاری وہاں نہیں ہے ۔ اس کا بیٹا ہی ہے ، جو لندن سے آ رہا ہے ، وہ دیکھیں کیا کرتا ہے۔ شاہ زیب والی تو نسل ہی ختم ہو گئی۔“ اس نے دبے دبے جوش سے بتایا
” لیکن شاہ دین کی تو ہے ، اس کی بیٹی سوہنی بی بی۔“ میں نے اسے یاد دلایا تو وہ خاموش ہو گیا۔ تبھی میں نے کہا،” خیر ، تم اب الرٹ رہنا اور پورے علاقے کی خبر رکھنا۔ یہ بہت ضروری ہے ۔“
” جی بہتر۔“ اس نے کہا اور اٹھ گیا۔
میں کافی حد تک پر سکون ہو گیا تھا۔ کم از کم اب یہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ صرف قانونی کارروائیاں تھیں۔
                             #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط