جسپال اور انوجیت اس وقت دلبیر سنگھ کے پاس اس کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چیف کے پاس جو رویندر سنگھ کے ساتھ مفاہمت ہوئی تھی‘ وہ اس پر سیرحاصل بحث کرچکے تھے۔ آخر میں دلبیر سنگھ نے کہا۔
”بس پتر۔! اب تو سکون سے اپنی جائیداد کو اپنے نام کروالے‘ پھر جو تیری مرضی آئے کرنا‘ یہاں رہنا یاپھر واپس وینکوور چلے جانا۔“
”وینکوور‘ تومجھے واپس جانا ہی جانا ہے‘ آج نہ سہی تو کل‘ لیکن مجھے رویندر سنگھ اور بلجیت سنگھ سے…“
”اور چھوڑ پتر،ایویں ان سے دشمنی کوبڑھائے گا تو اپنا ہی راستہ کھوٹا کرے گا۔
ان کی اصل طاقت سیاست ہے‘ وہ حکومت میں ہیں‘ اس لیے سیاہ کو سفید اور سفید کوسیاہ کرسکتے ہیں۔ بہت ہتھکنڈے ہیں ان کے پاس۔ یہ تووہ اپنی مجبوری میں ایسی مفاہمت کرگیا‘ورنہ وہ باز نہیں آنے والے تھے۔
(جاری ہے)
“دلبیر سنگھ نے تاسف سے کہا تو جسپال تیزی سے بولا۔
”وہ اب بھی باز نہیں آئیں گے باباجی۔ دیکھ لیجیے گا۔“
”ہاں‘ ہیں تو سانپ… کتے اور سانپ میں فرق یہ ہے کہ کتے کو اگر روٹی ڈال دو تو وہ وفاداری کرتا ہے لیکن سانپ کو اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاؤگے تو وہ پھر بھی ڈنگ مارے گا۔
گھٹیا انسان کی فطرت سانپ کی طرح ہوتی ہے‘ لیکن توفکر نہ کر، اب اُن کازہر نکل گیا لگتا ہے۔“
”اگر ان کی طاقت سیاست ہے توہم سیاست کیوں نہیں کرسکتے۔“ جسپال نے کہا تو دلبیر سنگھ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر بولا۔
”یہ بڑا گندہ کھیل ہے پتر‘ یہاں بھارت میں‘ اور تو نہیں سمجھتا پنجاب میں کیا کچھ ہو رہاہے۔ اس کھیل میں کتنی منافقت ہے‘ کتنا لہوبہایا جاتاہے‘ تم تصوربھی نہیں کرسکتے۔
یہ تمہارا وینکوور نہیں ہے۔“
”بابا۔! جہاں تک ہوسکا‘ ہم کریں گے سیاست‘ اوراس کی شروعات یہیں اوگی سے کریں گے۔ آپ کو بنائیں گے یہاں کاسرپنچ‘ پھر دیکھیں گے کیاہوتا ہے۔“ جسپال نے کہا تو انوجیت بولا۔
”اگراب ہمیں موقع مل ہی گیا ہے تو کیوں نہ اس کافائدہ اٹھائیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بلجیت یہاں دوبارہ قدم رکھے گااور پھر کیا یہاں کے لوگ ظلم ہی سہتے رہیں گے‘ کوئی ان کا خیال کرنے والا نہیں ہوگا۔
کیا آپ ان کا بھلا نہیں کرسکتے؟“
”ان کااثرورسوخ تو ہے نایہاں۔ وہ کیسے برداشت کریں گے؟“ دلبیر سنگھ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”وہ آپ کو سرپنچ بنائیں گے تو آپ بنیں گے‘ اس کی مہم ہم چلائیں گے‘ آپ ہاں کریں‘ باقی کام ہمارا ہے‘ ہم بنائیں گے اثرورسوخ۔“ انوجیت نے کہا تووہ چند لمحے سوچتا رہاپھر بولا۔
”ٹھیک ہے‘ جب اوگی والے بنادیں گے تو میں بن جاؤں گا۔
“
”چلیں یہ تو طے ہوگیا‘ لیں باباجی‘ ہم چلتے ہیں‘ کل جالندھر بھی جانا ہے‘ میرے خیال میں کل میرے کاغذات مجھے مل جائیں گے۔“ جسپال نے کہااور اٹھ گیا۔
رات گہری ہوگئی تھی جب وہ واپس اپنی کوٹھی کی جانب آئے۔ رات کے لیے سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ وہ گھر پہنچے تو کلجیت کور ان کے انتظار میں تھی۔ اس نے پوچھا۔
”اتنی دیر لگادی دلبیر ویر کے پاس۔
“
”بس ایک معاملہ طے کرناتھا‘ وہ ہوگیا۔“ انوجیت نے کہا۔
”چلو جاؤ۔! اب سکون کرو‘ بہت دنوں بعد سکون سے سونانصیب ہوگا۔“ کلجیت کور نے کہااور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ دونوں وہیں بیٹھ گئے۔
”دیکھ انوجیت‘مجھے اس سیاست سے کچھ نہیں لینا دینا‘ لیکن اگر تو چاہے تو تیری ساری راہیں ہموار ہوجائیں گی۔ نہیں تو بتا‘ کوئی دوسرا بندہ ہے تیری نگاہ میں۔
“
”جسپال۔! تجھے معلوم ہے کہ میں تنظیم سے تعلق رکھتا ہوں۔ اپنے طو رپر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا‘ میں ان سے تفصیلی بات کرلوں‘ پھر میں بتاتاہوں۔“ اس نے واضح کرتے ہوئے کہا تو جسپال بولا۔
”اوکے۔ لیکن یہ یاد رکھنا‘ جب تک تم تنظیم والے سیاست میں نہیں آجاتے اور اسمبلیوں میں نہیں پہنچ جاتے‘ اس طرح لڑتے رہوگے‘ حکومت خفیہ والوں کے ذریعے تم لوگوں کو دبا کر رکھے گی۔
“
”یہ بات ہم بھی جانتے ہیں لیکن یہاں وراثتی سیاست ہے‘ خیر۔! ہم اپنا زور لگا کر دیکھیں گے‘ آگے جو قسمت۔“ انوجیت نے کہا۔
”اوکے‘ تم کرو آرام‘ کل نکلتے ہیں پھر۔“ جسپال نے اٹھتے ہوئے کہااور پھر سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں جاپہنچا۔ جہاں دھیمی دھیمی روشنی تھی۔ اس نے دیکھا‘ ہرپریت اس کے بیڈ پر پڑی بے خبر سو رہی ہی تھی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بیڈ کے پاس جاپہنچا‘ پہلے اس نے یہی سمجھا کہ اس نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کی ہیں او روہ سوتی ہوئی بن گئی ہے لیکن چند لمحوں بعد اسے یقین ہوگیا کہ وہ واقعتا سو رہی ہے۔
جسپال نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا‘ وہ فریش ہونے کے لیے چلاگیا۔
کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا تو ہرپریت ایسے ہی پڑی ہوئی تھی۔ اس کے گیسو تکیے پر پھیلے ہوئے تھے۔پیازی رنگ کے شلوار سوٹ میں اس کا گلابی رنگ نکھرا نکھرا لگ رہاتھا۔ اس کا آنچل کچھ سینے پر تھااور زیادہ بیڈ پرپھیلا ہوا تھا‘ وہ چت لیٹی ہوئی تھی اور ہلکے ہلکے سانس لے رہی تھی۔ جسپال اسے کافی دیر تک دیکھتا رہا پھر بیڈ کی دوسری طرف یوں لیٹ گیا کہ ہرپریت کی نیند میں خلل نہ ہو۔
وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ اس کے ذہن میں بہت سارے خیال آتے رہے ۔یہ ہرپریت تو پیار اور محبت کوفضول شے سمجھتی تھی‘ اب اس کی محبت میں گھر گئی تھی‘ کیا وہ اس کی محبت کا جواب دے پائے گا؟ یہی ایک سوال اس کے دماغ پر چھاگیا۔ جس کاجواب نہیں میں تھا‘ اب اس کی زندگی ایک نارمل انسان کی نہیں رہی تھی۔ وہ انتقام کی آگ میں جلتا ہوا یہاں آیا تھا۔جسمیندر کی مدد سے اس نے تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرلی تھی اور اس کامیابی میں ہرپریت کا پورا پورا ساتھ تھا لیکن روہی میں جانے کے بعد اس کی سوچ ہی بدل کررہ گئی تھی۔
اب وہ محض جسپال سنگھ نہیں رہاتھا‘ اس کے اندر کے مقصد نے اسے پوری طرح بدل کررکھ دیاتھا۔
رویندر سنگھ کی دشمنی تو اب بہت چھوٹی شے لگنے لگی تھی۔ وہ کسی اور ہی جہان کا راہی ہوگیا تھا‘ جسے راستہ تو معلوم تھا لیکن منزل کی خبر نہیں تھی۔ ایسے میں ہرپریت کا ساتھ وہ کیسے نبھاپائے گا؟ ہرپریت کے اندر جذبہ انتقام کوئی نئی یاانوکھی بات نہیں تھی۔
سکھ قوم کے ہر اس گھر میں ایسا ہی جذبہ انتقام پایا جاتا ہے‘ جن کے آباؤاجداد کو صرف سکھ سمجھ کر قتل کردیا گیا تھا‘ سکھ نسل کشی ہو اور ان میں جذبہ انتقام نہ ہو۔ یہ غیر فطری سی بات تھی۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ ایک لڑکی تھی‘ جس کے اپنے خواب ہوتے ہیں۔ وہ بھی محبت میں گرفتار ہوسکتی ہے۔ بدن کی پکار‘ اسے بھی مجبور کرسکتی ہے۔ وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا یہی سوچ رہاتھا کہ ہرپریت نے کروٹ لی‘ پھرایک دم سے آنکھیں کھول دیں۔
”آگئے جسپال۔“ اس نے خمار آلود لہجے میں پوچھااور پھر اپنا آنچل سمیٹتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔”کب آئے؟“
”ابھی‘ جب تم نے دیکھ لیا‘ مگر تم یہاں؟“ اس نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ہاں میں۔ وہ دراصل میں نے تمہیں بتانا تھا کہ جسمیندر کی کال آئی تھی۔میں نے اس سے رابطہ کیا‘ وہ آن لائن تو نہیں ہوا‘ بہرحال اس نے کچھ میل بھیجی ہیں۔
وہ تم دیکھ لو‘ یہی بتانے کے لیے میں یہاں لیٹی ہوئی تھی۔“
”اوکے میں دیکھتا ہوں‘ تم آرام کرو۔“
”نہیں میں تمہارے لیے چائے بنا کرلاتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی‘ پھر چپل پہن کر دھیمے قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئی۔ اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا نیٹ کا پلگ لگا ہوا تھا۔ اسے آن کیااور اپنی میل دیکھنے لگا۔ جیسے جیسے وہ میل دیکھتا جارہاتھا‘ اس کی سنجیدگی میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔
جسمیندر نے جمال کی تمام تر مصروفیات کااحوال بھیج دیاتھا۔ وہ یہ تو دیکھ کرخوش ہوا کہ اس نے آتے ہی بہت کچھ کیا‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے بے چینی ہونے لگی کہ جسمیندر اگرجمال کے بارے میں جانتا ہے تو کوئی دوسرا بھی آگاہ ہوسکتا ہے۔ یہ اس کے لیے بڑی خطرناک بات تھی۔ وہ ایک دم سے پریشان ہوگیا۔ اس کے پاس جمال کا کوئی رابطہ نہیں تھا کہ وہ فوراً اس بارے میں اسے مطلع کرسکتا‘ اسے اب روہی میں ہی رابطہ کرنا تھا‘ تاکہ یہاں وہ جمال سے مل سکتا‘ وہ رابطے کی کوشش کرنے لگا۔
…###…