سارا دن آرام کرنے کے بعد باقی وقت میں اماں کے پاس ہی رہا تھا۔وہ جب سونے گئیں تو میں ، جسپال اور تانی اوپر والی منزل کے ایک کمرے میں آبیٹھے۔رات کا پہلا پہر گذر چکاتھا اورہم باتیں کرتے چلے گئے۔ اوگی پنڈ میں اب مکمل خاموشی تھی۔ یہ جسپال کو بھی معلوم تھا۔ انہی باتو ں کے دوران سوہنی وہاں آگئی۔ اس کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھی۔ اس نے آتے ہی معذرت خواہانہ انداز میں کہا
”سوری مجھے دیر ہوگئی۔
اماں کو سونے میں کچھ دیر لگ گئی تھی۔“
”کوئی بات نہیں۔ ادھر بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ چھاکے کا کیا حال ہے۔ گاؤں کیسا ہے ، اس بارے مجھے بتایا ہی نہیں۔“ میں نے پوچھا۔
”وقت ہی کہاں ملا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس دوران تانی نے چائے کے مگ سب کے سامنے رکھ دئیے۔
(جاری ہے)
تبھی وہ بولی،”گاؤں میں سب ٹھیک ہے، شاہ زیب دوبارہ گاؤں میں واپس نہیں گیا ، سنا ہے کہ وہ تب سے ادھر لاہور ہی میں ہے اور آج کل اس کا یارانہ ملک سجاد سے بہت زیادہ ہوگیا ہے اور چھاکا بھی ٹھیک ہے۔
“
”چھاکے کو پتہ ہے کہ میں ا ٓگیاہوں؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”چھاکے سے رابطہ ہو گیا تھا۔ وہ تجھ سے ملنے کے لیے فوراً آنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے وہیں رہنے کو کہا۔ میرا ارادہ تھا کہ ہم خود وہاں جائیں۔ اب دیکھیں کیا حالات بنتے ہیں۔“ سوہنی نے کہا تو‘ جن حالات میں وہاں سے نکلا تھا، انہیں یاد کرتے ہوئے میرے اندر غصہ بھر گیا تھا۔
”ہم جائیں گے اور اس طرح جائیں گے کہ اب کسی شاہ زیب کی اور نہ کسی پیرزادے کی ،کسی کی بھی کوئی جرات نہ ہو۔ تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ ملک سجاد اور شاہ زیب کے بارے میں تجھے کیسے پتہ ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہاں کوئی نہیں ہے، جو بھی معلومات ملتی ہیں، وہ گاؤں ہی سے ملی ہے، زیادہ تر چھاکا ہی بتاتا ہے۔“ سوہنی نے وضاحت کی تومیں خاموش ہو گیا۔
کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ میرا گاؤں جانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔میں چند لمحے سوچتا رہا ، پھر جسپال کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کیوں جسپال چلیں، صبح ہونے سے پہلے پہنچ جائیں گے۔“
”چلو۔“ اس نے یوں کہا جیسے وہ جانے کے لیے پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔
”لیکن تم ایسے کیسے جا سکتے ہو، کیوں جانا ہے اب وہاں ، اتنی پر سکون زندگی گزار رہے ہیں ہم، ہمیں اور کیا چاہئے۔
“ سوہنی نے ایک دم سے کہا تو میں دھیرے سے ہنس دیا اور بولا۔
”اب شاید سکون میری زندگی میں نہیں ہے۔ اب تم اس کی فکر نہ کرو۔“ میں نے کہا تو اس نے یوں میری جانب دیکھا جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن کہہ نہیں پا رہی ہو۔ اس صورت حال کو تانی اور جسپال فوراً سمجھ گئے۔ اسی لیے تانی اٹھتے ہوئے بولی۔
”جمال ، اگر جانا ہے تو بتا دینا، اس وقت تک میں بھی تیار ہو جاؤں۔
“
تانی نکلی تو جسپال بھی باہر چلا گیا۔ تنہائی پاتے ہی وہ دکھ بھرے لہجے میں بولی۔
”جمال لگتا ہے اب تم بہت دور نکل گئے ہو ؟“
”تم ٹھیک سمجھی ہو سوہنی۔اب میری زندگی میری نہیں ہے۔ میں چاہوں بھی تو ان راہوں سے پلٹ کر واپس نہیںآ سکتا۔ میں گاؤں اس لیے جانا چاہتا ہوں کہ میرے کچھ وعدے ادھورے ہیں، ابھی وہاں میرے خواب میرے انتظار میں ہیں۔
کچھ یادوں کے کانٹے اب بھی مجھے چبھ رہے ہیں۔“
”مجھے اب کچھ نہیں چاہئے۔ مجھے ماں مل گئی ، اتنی دولت ہے میرے پاس کہ میں باقی زندگی سکون سے گزار سکوں۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
”سوہنی! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ، کیا یہی زندگی ہے۔ جہاں تک ہماری دسترس ہے ، کیا ہم اللہ کی اِس مخلوق کو اُن ظالموں سے نہیں بچا سکتے ، جنہوں نے انہیں بے دام غلام بنا رکھاہے اور وہ بے چارے لوگ، اس شکنجے کو اللہ کی رضا سمجھنے پر مجبور ہیں۔
“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ہم کہاں تک اورکیا کر سکتے ہیں۔ کتنے لوگوں سے لڑپائیں گے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں تو پورا معاشرہ ان ظالم لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔“ وہ اُکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
”نہیں سوہنی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ سارے لوگ ظالم نہیں ہیں۔ اصل میں ہمارے اس معاشرے کا روگ وہ منافق لوگ ہیں ، جو اپنی خباثت کو دوسرے کی طاقت سے لوگوں پر مسلط کرتے ہیں۔
ظالم اور منافق دونوں بزدل ہوتے ہیں، اور وہ دونوں اپنے اندر کے خوف سے معاشرے میں مجبور لوگوں پر ظلم روا رکھتے ہیں۔انہیں بس کوئی روکنے والا ہو ، یہ کتے کی مانند دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔“ نہ چاہتے ہوئے میرے لہجے میں تلخی آ گئی۔
”اس کا مطلب ہے تم ان سب سے مقابلے کی ٹھان چکے ہو؟“ سوہنی نے حتمی لہجے میں پوچھا تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں اور کیا تم میرا ساتھ نہیں دو گی؟“
”کیوں نہیں، میں تو کب کی آس لگا کر بیٹھی ہوں کہ کب تم مجھے کوئی حکم دو اور میں …“
”نہیں ، میرے لیے نہیں، اُس اللہ کے لیے اور اس کی اُس مخلوق کے لئے، جس نے گورے اور کالے ، عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ مجھے بتاؤ کیا قصور ہے اُن لوگوں کا،جو زمین کے ان خداؤں کے سامنے بے بس ہیں۔
انہیں بے بس کر دیا گیا ہے اس زمینی نظام میں جکڑ کر۔ جہاں تک ہمارا بس چلتا ہے، ہمیں منافقوں اور ظالموں کے خلاف لڑنا ہے۔“
”میں تمہارے ساتھ ہوں، صبح ہم یہاں سے اکٹھے ہی چلیں گے۔“ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو میں نے آنکھوں سے اس کی بات مان لینے کا عندیہ دے دیا۔
سوہنی رات گئے تک میرے پاس بیٹھی رہی۔ میرے جانے سے لیکر اب تک کی تمام روداد مجھے سناتی رہی ، میں بھی اسے بتاتا رہا کہ میرے ساتھ کیا گذری۔
وہ اٹھ کر گئی تو میں لمبی تان کر سو گیا۔
صبح ناشتے کے بعد ہم گاؤں جانے کے لیے تیار تھے کہ اچانک میرا وہ سیل فون بجنے لگا، جو مجھے تانی نے دیا تھا۔ میں کال رسیو کی تو دوسری طرف مہر خدابخش تھا۔ کچھ دیر حال اور احوال پوچھنے کے بعد اس نے کہا۔
”جمال! ابھی تم لاہور ائر پورٹ جاؤ۔ وہاں ایک آدمی شاہدمعین کراچی سے آ رہا ہے ، اسے اپنے ساتھ لاؤ۔
اس کی پوری بات سنو، پھر میں تم سے بات کرتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے ، میں ابھی جاتا ہوں۔“ میں نے فوراً کہا تو اس نے بتایا۔
”اس کی تصویر ، تمہارے سیل فون پر ابھی آ جاتی ہے، اسے بھی میں نے تمہاری تصویر بھیج دی ہے۔“
”جی ، میں نکلتا ہوں۔“ میں نے کہا تو اس نے کال ختم کر دی۔ میں نے سب کو صورت حال بتائی اور ائیر پورٹ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
میں تانی اور جسپال لاہور ائیر پورٹ جا پہنچے۔ میں نے وہ ائیر پورٹ پہلی بار دیکھا تھا۔ ہمیں اندر جا کر زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ شاہد معین ہمیں مل گیا۔ وہ کلین شیو، خوبصورت نقوش والا، وجہہ اورلمبا تڑنگا ، صحت مند نوجوان تھا۔خاص طور پر اس کی آ نکھیں بہت گہری تھیں۔ سادی سی شلوار قمیض اور ویسٹ کوٹ پہنے وہ ہمارے سامنے تھا۔ وہ ہمیں بڑے تپاک سے ملا۔
ہم اسے لے کر واپس آ گئے۔ اطمینان سے بیٹھنے کے بعد اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا
”میں کراچی کا رہنے والا ایک جیولر ہوں۔ یہ کاروبار میرے باپ دادا سے چلتا چلا آرہا۔ انہوں سے اس بزنس میں بہت ترقی کی۔ہمارا شمار کراچی کے ان بڑے جیولرز میں ہوتا ہے، جن کا بزنس دوبئی اور مڈل ایسٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ میں آپ سے ملنے یہاں تک کیوں آ گیا۔
“ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا۔
”ظاہر ہے ہم مطلب کی بات کریں۔“
”یہی تومسئلہ ہے کہ مجھے اپنی بات بتانے اور سمجھانے کے لیے آپ کو ایک چھوٹی سی کہانی سنانا پڑے گی۔ اس سے آپ معاملہ کے ہر پہلو کو اچھی طرح جان جائیں گے۔“ یہ کہہ کر اس نے سب کی طرف دیکھا، جیسے عندیہ چاہ رہا ہو۔
”بے شک آپ اپنی بات کہیں۔ جتنا وقت لیں ،ہم سننے کو تیار ہیں۔
“ میں نے سکون سے کہا تو وہ میری طرف متفکرانہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولا۔
”جمال بھائی۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا ہوں۔ اس لیے میں نے بڑی بے فکری کی زندگی گزاری۔ چھوٹی سی عمر میں ہی میں دنیا گھوما پھرا ہوں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ ہم کرکٹ میچ دیکھنے دبئی یوں چلے جایا کرتے تھے ، جیسے کسی مقامی اسٹیڈیم میں جاتے تھے اور میرے باپ نے مجھے کبھی نہیں روکا۔
“
”ٹھیک ہے ہم نے مان لیا کہ آپ بہت امیر باپ کے بیٹے ہیں، آگے بولیں۔“ تانی نے کہا تو وہ ذرا سا مسکرا دیا۔
”معاف کیجئے گا، میں آپ کو اپنی دولت سے مرعوب نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں لاڈ پیار میں پلا، لاابالی اور بے پروا سا لڑکا تھا۔ جسے نہ بزنس کی سمجھ تھی اور نہ ذمے داری کا احساس۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
چند لمحے چپ رہنے کے بعد وہ گویا ہوا،”ایک دن میرے ابا نے مجھے احساس دلایا کہ میں نے بزنس سنبھالنا ہے ، اب مجھے اس میں دلچسپی لینا چاہئے اور کام سیکھنا چاہئے۔ میں تیار ہو گیااور ایک دن اپنے شوروم پر جا بیٹھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آخر ایک دن مجھے یہی کرناہے“ یہ کہہ کر شاہد معین جیسے خیالوں میں کھو گیا۔
#…#…#