” مجھے نہیں پتہ، جب سے ہوش سنبھالا ہے ، سفر ہی میں ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم کہاں کہاں تک گئے ہیں۔“لالو قلندر نے کھرکھراتی ہوئی آواز میں کہا
” کیسی زندگی ہے یار یہ بھی، ہمیشہ سفر میں رہنا۔ آج یہاں تو کل وہاں، اور ہم بیلوں کی جوڑی کی طرح یہیں گھوم رہے ہیں۔“ ہیرا سنگھ نے کہا
” جیسے رَبّ رکھے ،ویسے رہنا پڑتا ہے ۔
میں نے کب کہا تھاکہ میں قلندر بنوں۔ بس بن گیا۔ میں اگر کسی بادشاہ کے گھر پیدا ہو جاتا توشہزادہ ہوتا ۔“ لالو نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے کہا تو ہیرا سنگھ کو دور سے اپنا ملازم آتا ہوا نظر آیا۔
” لے بھئی ، مجھے لگتا ہے ، روٹی آگئی۔ تو منہ ہاتھ دھو لے اور اس بچے کو بھی اُٹھا۔“ ہیرا سنگھ نے کہا اور نل کے پاس جا کر منہ ہاتھ دھویا ۔
(جاری ہے)
ملازم کھانا لے کر پہنچ گیا تو ہیرا سنگھ نے اس سے پوچھا،” کیوں دیر ہوگئی تھی تمہیں؟“
” سردار جی ، اب آپ کچھ دن دیر سویر ہی سے روٹی
کھائیں گے ، آپ کے گھر میں بیٹی ہوئی ہے ۔
“ ملازم نے کہا تو ہیراسنگھ بولا
” اوہ شاباش اے بھئی، سُکھ نال دھی آئی ہے ، تین بھائیوں کی اکیلی بہن، چل اس کا نام ہی سُکھجیت کور رکھ دیتے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے روٹی اپنے سامنے رکھی ، آدھی روٹیاں اور سالن لالو قلندر اور بچے کو دے دیا اور انہیں دوسری چارپائی پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ سب کھانا کھانے لگے ۔ ملازم نے ان کے پاس پانی رکھ دیا۔
کھانا کھا کر وہ آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔ ملازم اپنا کام کرنے لگا اور وہ سو گئے ۔
سہ پہر سے ذرا پہلے سردار ہیرا سنگھ ُاٹھ کر کھیتوں کی طرف نکل گیا تھا۔ ملازم بھی کہیں کام کر رہا تھا۔ بچہ بھی اُٹھ کربندر اور کتے کے ساتھ کھیل رہا تھا، جبکہ لالو قلندر جس کروٹ لیٹا تھا، اسی کروٹ پڑا رہا۔کافی دیر بعد جب سردار ہیرا سنگھ واپس آیا تواس نے لالو قلندر کو غور سے دیکھا اور پھر اسے اٹھایالیکن وہ بے جان تھا۔
اس کی روح پرواز کر گئی تھی ۔ ہیرا سنگھ نے ایک طویل سانس لی اور کھیلتے ہوئے اس بچے کو دیکھا، جسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا بیت گئی ہے۔ہیرا سنگھ کو اس بچے پر بہت ترس آیا۔
ہیرا سنگھ نے اسی وقت اپنی ملازم کو بلایا اور لالو قلندر کی نعش کو بیل گاڑی پر رکھ کر گاؤں کی جانب چل دیا۔ وہ بچہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے باپ کو دیکھ رہاتھا۔
اسے یہ اچھی طرح شعور تھا کہ آج کے بعد وہ اپنے باپ کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا ۔ کیونکہ ایسا ہی اس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ پھر کبھی واپس نہیں آئی تھی اور نہ کبھی اس نے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔ باپ کے بچھڑ جانے کا اسے شدید دکھ تھا ، لیکن اس کی آنکھ میں آنسو نہیں تھا۔
لالو قلندر کی نعش گاؤں میں ہیرا سنگھ کے گھر کے سامنے رکھ دی گئی۔ وہاں چوراہا تھا جس کے درمیان میں بڑ کا درخت تھا اور اس کے نیچے لوگ بیٹھے رہتے تھے ۔
اسے تکیہ کہتے تھے۔ وہاں ہر مذہب کا بندہ آتا تھا۔ ہیرا سنگھ کے گھر کے سامنے احمد بخش پنچ کا گھر تھا۔ وہاں تکیہ پر اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ کیا لالو قلندر کی نعش کو جلایا جائے یا پھر دفن کیا جائے؟ وہ سکھ تھا، ہندو تھا یا مسلمان؟ کون تھا وہ ؟اگرچہ یہ مسئلہ اسے نہلاتے وقت حل ہو سکتا تھا لیکن اسے نہلائے کون؟ تبھی گاؤں کے ایک مسلمان بزرگ احمد بخش پنچ نے اس بچے کو اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھا
” بتا بیٹا۔
! تیرا باپ بھگوان کو مانتا تھا، واہگرو کو مانتا تھا یا پھر اللہ کو؟“
” پتہ نہیں جی، وہ جس کے گھر سے مانگتا تھا، اسی کو دعائیں دیتا تھا، ہندو کے گھر سے مانگتا تھا تو کہتا تھا بھگوان تجھ پہ کرپاکرے، سکھ اُسے کچھ دیتا تھا تو کہتا تھا رَبّ تیرا بھلا کرے مسلمان دیتا تو کہتا اللہ تجھ پہ کرم کرے ۔“ بچے نے معصومیت سے کہا تو احمد بخش پنچ نے اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
” دیکھو بھائیو، یہ بات تو سمجھ میں نہیں آتی۔
یا تو اس قلندر کی نعش کو دیکھ لو، یا پھر جو بندہ بھی اس کی ذمہ داری لیتا ہے، وہ اپنے مذہب کے مطابق اس کی آخری رسومات پوری کردے۔“
تبھی ایک شخص نے اس بچے کی پھٹی ہوئی قمیص کا آگے والا پلّو اٹھاتے ہوئے کہا
” پر یہ بچہ تو مسلمان ہے۔“
اس کے تصدیق کرنے پر احمد بخش پنچ نے خود ذمہ داری لے لی۔ اس نے گاؤں کے ان مسلمانوں سے کہا ، جو وہیں کھڑے تھے کہ اس نعش کو پورے احترام سے دفنا دیا جائے ۔
سو فوری طور پر اسے غسل دیا گیا۔ کفن کا انتظام بھی اسی نے کیا اور مغرب کی نماز کے بعد گاؤں کی مسجد میں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی ۔ پھر اسے گاؤں سے باہر قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ لالو قلندر اس دنیا سے چلا گیا۔
اس بچے کی رات ہیرا سنگھ کے مہمان خانے میں گذری۔ لیکن اس سے پہلے اسے نہلایاگیا۔ کلوندر سنگھ کے کپڑے اسے پہنائے گئے۔ جب وہ دفنا کر آگئے تو اسے خوب کھانا کھلایا گیا۔
پھر جو وہ سویا تو صبح جاگا۔ نجانے اتنی میٹھی نیند اُسے کیسے آ گئی تھی ۔ اگلی صبح جب وہ ناشتہ کر چکا تو کلوندر سنگھ اپنے باپو ہیرا سنگھ کے پاس آیا اور بولا
” باپو ، میں نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے بتایا ہی نہیں، کہتا ہے بس مجھے کاکا کہہ کر پکارتے ہیں، اس کا کوئی نام تو ہونا چاہیے نا؟“
” ہاں پتر ، اس کا کوئی نام تو ہونا چاہیے، پر یہ مسلمان ہے، اب ہم کیا نام رکھیں یار؟“
” کوئی سابھی رکھ لیں۔
“ کلوندر سنگھ نے کہا۔ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ اسے اپنے گھر کے دروازے پر احمد بخش پنچ آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ قریب آیا تو ہیرا سنگھ نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا اور چار پائی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا
” آئیں بھاء جی بیٹھیں۔ “
” میں کھیتوں کی طرف جا رہا تھا کہ مجھے خیال آیا ۔ وہ کل لالو قلندر کے ساتھ جو بچہ تھا، کیا کرنا ہے اس کا؟“ احمد بخش پنچ نے پوچھا
” کرنا کیا ہے ، ادھر رہے گا ہمارے پاس یا جیسا آپ مناسب خیال کریں۔
“ ہیرا سنگھ نے کہا تو اتنے میں ہیرا سنگھ کی بیوی لسّی کا گلاس لے کر آگئی۔ اس نے احمد بخش پنچ کو گلاس تھماتے ہوئے کہا
” بھاء جی ، بچہ بہت معصوم اور بھولا سا ہے ، وہ تو لگتا ہی نہیں کہ اس لالو قلندر کا ہوگا۔“
” پر کیا کریں ، وہ ہے ہی اس کا ۔ قلندر کا پتر قلندر۔“ ہیرا سنگھ نے کہا
” برا مت ماننا ہیرا سنگھ ، تم اسے رکھو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، پر وہ مسلمان بچہ ہے، میں کہتا ہوں جہاں چار دوسرے ہیں وہاں پانچواں یہ بھی سہی۔
“ احمد بخش پنچ نے بہت عقل مندی سے اپنی بات کہہ دی تھی ، ایک تو اسے یہ سمجھا دیاتھا کہ مسلمانوں کے بچے کو مسلمانوں ہی کے گھر میں رہنا چاہئے اور دوسرا وہ اس بچے کو اپنا بیٹا بنا کر رکھے گا، کوئی نوکر چاکر نہیں۔ ہیرا سنگھ اس کی بات سمجھ گیا۔ اس نے فوراً ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا
” جیسے آپ کی مرضی بھاء جی ، میرے گھر میں رہے یا آپ کے گھر میں، ایک ہی بات ہے ۔
آمنے سامنے گھر ہے ۔ ہم سب اس کی دیکھ بھال کریں گے۔“ اس نے بھی احمد بخش پنچ کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ وہ بھی اس بچے کی نگہبانی کرتے رہیں گے۔
” بلاؤ اس کو کہاں ہے وہ ؟“ احمد بخش پنچ نے کہا تو کلوندر بھاگ کر گیا اور اسے لے آیا ۔ واپس آتے ہی اس نے احمد بخش پنچ سے وہی سوال کیا جو وہ اپنے باپو سے کر چکا تھا۔تب احمد بخش پنچ نے کہا
” ہاں ۔
! سوچتے ہیں اس کا نام۔“ پھر اس بچے کو اپنے پاس بلا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس سے پوچھا،” چل اب ہم اپنے گھر چلیں۔“ یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور اسے ساتھ لے کر اپنے گھر چلا گیا۔
اصل میں احمد بخش پنچ کی بیوی بھاگاں مائی نے جب اس بچے کو دیکھا تھا تو اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ وہ اس کا پتر بن جائے۔ ساری رات وہ اسی کے بارے سوچتی رہی۔
صبح نور کے تڑکے وہ بیٹھی رو رہی تھی کہ احمد بخش پنچ نے حیران ہو کر اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو بھاگاں مائی نے اپنے دل کا حال کہہ دیا۔ جہاں وہ اپنے اندر کی مامتا سے مجبور ہو گئی تھی، وہاں اسے وہ اس فرمان کی بھی پیروی کر رہی تھی کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والا بخش دیا جائے گا۔ پھر اسے بچے پر ترس ہی بہت آیا تھا۔ احمد بخش پنچ نے اس سے وعدہ کر لیاتھا کہ وہ اس بچے کو لے آنے کی پوری کوشش کرے گا۔
اس نے بچے کو جیسے ہی بھاگاں مائی کے سامنے کیا، اس نے اپنی دونوں بانہیں پھیلا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ تبھی بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا،”میرا خوشی محمد۔“
” چل یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ اس کا ابھی تک کوئی نام نہیں تھا ، تو نے اسے نام دے دیا۔“ یہ کہہ کر اس نے ہیرا سنگھ کے گھر ہونے والی بات بتا دی
” ہاں بس اس کا نام خوشی محمد ہی ہے۔ میرا پانچواں پتر۔“ بھاگاں مائی نے کہا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ خوشی محمد بھی اس کے ساتھ یوں لگ گیا، جیسے اسے اپنی ماں مل گئی ہو۔
#…#…#