Episode 41 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 41 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“ تانی نے تشویش سے پوچھا تو میں نے کہا۔
”میں نہیں جانتا ،لیکن اتنا جانتا ہوں کہ رسموں کے وقت ہجوم بہت زیادہ ہوگا۔ وہ ایک دم سے ظاہر ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے وہ خودسامنے نہ آئیں۔“
”لیکن‘ کیسے ، تم یہ کیسے کہہ رہے ہو؟“
”میں نے کہا نا کہ میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔تم امر سنگھ کا نمبر ملاؤ۔
“میں نے اسے کہا تو اس نے اپنے سیل سے نمبر ملائے اور رابطہ ہو جانے پر سیل مجھے دے دیا۔
”جی، دلجیت، کیا بات ہے۔“ وہ بولا۔
”کہاں ہو مجھے ابھی مل سکتے ہو؟“ میں نے پوچھا
”میں گرداورہ کے آفس میں ہوں۔“ اس نے بتایاتو میں نے وہیں آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
وہ آفس میں اکیلا ہی تھا۔ میں نے سیل کی تصویریں اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)

”یہ بندے مل سکتے ہیں؟“
”ابھی کمپیوٹر…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”وہاں ان کا ریکارڈ نہیں ہے۔“
”توپھر کیسے…“وہ ایک دم چونکتے ہوئے بولا
”میں بتاتا ہوں، یہ تصویریں، اپنے ان لوگوں تک پہنچا دو، جن پر تمہیں پورا اعتماد ہے۔ گردوارہ کے اندر کم اور ان جگہوں پر زیادہ تلاش کریں ، جہاں بس تیار ہو رہی ہے، یا یہاں پر آنے والی کوئی سنگت ، جو کسی بھی صورت میں موٹر والی ہو۔
”یہ کیوں ، تم کیا سمجھتے ہو، یہ…“ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ ایک دم سے یوں اٹھ گیا، جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ تانی نے وہ تصویریں اس کے سیل میں ڈال دی تھیں۔ وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ میں نے جسپال کو اطلاع کردی۔
دوپہر کے بعدامر سنگھ نے بتایا۔ایک جگہ سے اطلاع ملی ہے کہ تصویر والے دومشکوک لوگ ایک گر دوراہ میں موجودہیں۔
ان کی تمام تر دلچسپی ایک وین تیار کرنے میں ہے۔ جو وہ جنم استھان لے کر آنے والے ہیں۔کچھ ہی دیر بعدرسمیں شروع ہونے والی تھیں۔میں نے انہیں وہیں رکنے کو کہا اور امر سنگھ کے ساتھ اس گردوارے کی جانب چل پڑا۔ تانی میرے ساتھ تھی، اور گیٹ پر جسپال ہمارے انتظار میں تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم وزیٹرز کی حیثیت سے اس گرودوارے میں پہنچ گئے۔
ایک طرف کچھ لوگ ایک گاڑی کو تیار کر رہے، انہیں میں وہ دو مشکوک بندے بھی تھے۔ جیسے ہی ہم ان کے قریب گئے، ہمارے ارد گرد محافظوں کا دائرہ بن گیا تھا۔
”کیا ہو رہا ہے بھئی؟“ امر سنگھ نے پو چھا۔
”بس سنگت کی تیاری ہو رہی ہے۔“ وہیں پر ایک سکھ نوجوان نے کہا تو امر سنگھ نے ایک مشکوک بندے کی طرف دیکھ کر کہا۔
”یہ نوجوان کہاں سے آ یا ہے بھئی؟“
”یہ۔
اُدھر والے پنجاب سے آیا ہے۔ بڑی سیوا کی ہے جی اس نے،“ اس نوجوان نے کہا تو امر سنگھ نے خوش ہوتے ہوئے کہا
”اوہ جوان، ذرا ادھر آ ، کچھ ہمیں بھی بتا ، اُدھر کے کیا حالات ہیں۔“
”سردار جی آپ دیکھ رہے ہو، ابھی تو وقت ہی نہیں ہے، ابھی کچھ دیر بعد تو گردوارے جانا ہے، باتیں تو بعد میں ہوتی رہیں گی۔“ اس نے کہا تو امر سنگھ نے کہا۔
”اوہ ادھر تو آ ،ہم بھی تو تیرے ساتھ ہی جائیں گے نا گرو دوارے۔“ امر سنگھ نے کہا تو اس نوجوان نے اس کی طرف دیکھا۔پھر لمحے بعدوہ نوجوان کام چھوڑ کر اس کے پاس آ گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ دوسرا مشکوک نوجوان اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔مجھے تو یقین ہو گیا مگر امر سنگھ ٹھیک کر رہا تھا۔ اسے وہاں سے حکمت کے ساتھ ہی نکالنا تھا۔ امر سنگھ اس نوجوان کے ساتھ بغل گیر ہوا۔
اسی لمحے اس نے اشارہ کر دیا۔ محافظ دوسرے نوجوان پر پل پڑے۔ اگلے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ جسپال کی کار میں تھے۔تبھی امر سنگھ نے وہاں موجود لوگوں سے کہا۔
”تم سب حراست میں ہو۔ اس وقت تک ، جب تک ان کے دو اور ساتھی نہیں مل جاتے ، میں ادھر ہی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم وہاں سے نکل پڑے۔ہمارے آ گے پیچھے گاڑیاں تھیں۔
مجھے یقین تھا کہ امر سنگھ اس وقت تک وہاں رہے گا، جب تک ان کے بارے میں وہاں سے پوری معلومات نہیں لے لیتا۔انتہائی تیزی سے ہم اسی گھر میں آ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ان نوجوانوں کو ایک کمرے میں لے کر فرش پر پھینک دیا گیا۔
”بولو۔ کہاں سے آئے ہو تم لوگ؟“ میں نے ان سے پوچھا تو دونوں نے انتہائی خوف زدہ لہجے میں جواب دیا۔
”جی امرتسر سے جی، ہمارے کاغذات…“
”بکواس نہیں،حقیقت، یہ تصویر کس کی ہے، پہچانو۔
“ میں نے سیل سے تصویر نکال کر اس کے سامنے کی تو چند لمحے دیکھتا رہا ،پھر سر پھیرتے ہوئے بولا 
”مجھے نہیں معلوم جی کون ہے یہ۔“
میں نے دوسرے کو دوسری تصویر دکھائی تو اس نے بھی انکار کر دیا۔
”جسپال یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔ اسے مناؤ، یہاں پاکستان میں نمک بہت سستا ہے۔“میرے یوں کہنے پر اس نے دونوں کو فرش پر الٹا لیٹ جانے کو کہا۔
وہ لیٹ گئے تو میں نے کمر سے بندھی ہوئی کرپان نکالی اور دونوں کے الٹے ہاتھ اوپر نیچے زمین پر رکھ کر اس پر کرپان مار دی۔ ان دونوں کی ایک ساتھ چیخ بلند ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی امر سنگھ کی کال آ گئی۔ وہ پر جوش انداز میں بول رہا تھا
”اوئے دلجیت، ایک طاقت ور بم اس گاڑی کے نیچے سے مل گیا ہے۔ ان بہن… سے باقی کا پوچھ، میں نے ادھر سب کولگا دیا، اوپر اطلاع دے دی ہے۔
تیسرا پکڑنا ہے۔جلدی کر۔“
”میں دیکھتا ہوں۔“ میں نے کہا اور سیل فون بند کر دیا پھر ان کے سامنے بیٹھ کر بولا۔
”بم پکڑا گیا ہے، اگر تم تعاون کرو گے تو میں بھی تیرے ساتھ اچھا سلوک کروں گا۔بتا تیسرا کہاں ہے۔ ورنہ تجھے موت بھی نہیں ملے گی۔“
وہ دونوں گومگو کی حالت میں رہے۔ اتنے میں تانی آگے بڑھی اور ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
”دیکھو۔ ہم نے تم لوگوں کو صرف یہاں سے ہی رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا ہے۔ بلکہ ٹورنٹو سے تم لوگ ہماری نگاہ میں ہو۔ تم دونوں نے شاید غور نہیں کیا کہ تمہاری یہ تصویریں ٹورنٹو ائر پورٹ کی ہیں اور تم جس کے لیے کام کر رہے ہو۔ ہمیں اس کا بھی پتہ ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس سے بات کرادوں تمہاری؟“تانی نے کچھ اس اعتماد سے کہا کہ وہ ایک دم چونک گئے۔
ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ تانی نے ان کے جواب کا انتظار نہیں کیا بلکہ انہی کے سیل فون اپنے سامنے رکھ لئے، جو تلاشی میں ہاتھ آئے تھے۔ تانی نے اپنے سیل سے نمبر دیکھے اور پھر رابطے کا انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد رابطہ ہو گیا۔ اس نے اسپیکر آن کر دیا۔
”ہیلو۔“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
”ہیلو شیام عرف بابو شرما۔“ تانی نے کہا۔
”کون ہو تم؟“
”وہی جس نے تمہارے جنم استھان پربھیجے ہوئے بندے قابو کر لیے ہیں۔ بات کرو گے ان سے؟“ تانی نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”یہ کیا بکواس ہے۔“ دوسری طرف سے چیخ کر کہا گیا تو تانی نے ایک کو بولنے کا اشارہ کیا۔
”میں …میں بات کر رہا ہوں جی“
”میں کسی کو نہیں جانتا۔“
”تم نہ جانو لیکن ہم تمہیں جانتے ہیں۔
تم نے پہل کر لی، اب ہماری باری ہے۔ اب تڑپنا نہیں۔“ تانی نے نفرت سے کہا تو دوسری طرف سے رابطہ ختم کر دیا گیا۔ اسی لمحے امر سنگھ آ گیا۔
”کچھ بتایا ان ماں…نے“
”ابھی تک نہیں۔“ جسپال نے کہا۔
”تو پھر انہیں کرو فورسز کے حوالے، وہ خود پوچھ لیں گے ان سے۔“ امر سنگھ نے کہا تو میں نے آخری کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”اگر تم اب بھی اپنے بارے میں سچ بتادو، تو میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں نہیں ماروں گا۔
تم سے اچھا سلوک کروں گا اور یہاں سے جانے بھی دوں گا۔ ورنہ تمہیں پتہ ہے کہ وہ لوگ تو سب کچھ …“ 
”اگر آپ وعدہ کریں کہ مجھے سرحد پار کروا دیں گے تو میں سب کچھ بتا دیتاہوں۔“ایک نے کہا۔
”بولو۔“ میں نے کہا تو وہ کہتا چلا گیا۔
ان کا تیسرا ساتھی حسن ابدال میں مصروف تھا۔ ان کا پلان یہ تھا کہ جیسے ہی انہوں نے جنم استھان میں دھماکا کرنا تھا، اس دھماکے کی اطلاع اسے مل جانی تھی۔
اسی وقت وہاں بھی دھماکا کر نا تھا۔ اگرچہ وہاں بندے کم تھے۔لوگ کم مرتے یا نہ مرتے ، مگر پاکستان میں موجودہر گردوارے پر خوف چھا جاتا۔
”تو وہ تیسرا، حسن ابدال میں ہے؟“ میں نے پوچھا تو اس نے اس کی ساری تفصیل بتا دی۔ تب میں نے امر سنگھ سے کہا،”دیکھ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اسے کچھ نہ کہنا، میں جب تک حسن ابدال سے واپس نہ آ جاؤں، انہیں کچھ نہیں کہنا، ان کا خیال رکھنا ہے، انہیں سرحد تک بھی لے جانا ہے۔
”چل وعدہ۔“ امر سنگھ نے کہا تو میں اور تانی جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ جسپال نے ڈرائیونگ سنبھال لی۔وہیں سے ایک شخص بھی ہمارے ساتھ ہو لیا۔ سہ پہر کا وقت تھا اور حسن ابدال کا راستہ تقریباً چھ گھنٹے کا تھا۔ راستے میں ہم اپنے لوگوں سے رابطے میں تھے۔ 
رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ جب ہم حسن ابدال کے قریب پہنچے۔ دائیں ہاتھ سے شہر کی جانب مڑے ،پھر اونچی نیچی، ٹیڑھی میڑھی سڑک سے ایک تنگ سی گلی میں آ گئے۔
کار وہیں روکی تو گردوارہ پنجہ صاحب کے دروازے پر کافی لوگ موجود تھے۔ انہیں میں سے ایک بندہ آ گے بڑھا اور اس نے پہچانتے ہوئے ساتھ لیا اور اندر کی جانب چلا گیا۔ دائیں جانب پربندھک کمیٹی کا آفس تھا۔ ہم وہاں چلے گئے، جہاں ایک گیانی ہمارے انتظار میں تھا۔ وہ ہمیں لے کر اوپر کی منزل میں چلا گیا، جہاں رہائشی کمرے تھے۔ انہی میں سے ایک کمرے کے آگے وہ رک گیا۔
دروازہ بجانے کے بعد چند لمحے انتظار کرنا پڑا۔ تبھی کچھ لوگوں کے ساتھ ایک نوجوان نے دروازہ کھولا ،تو اسے باہر نکال لیا گیا۔ میں اس کی تصویر سیل فون میں دیکھ چکا تھا۔ میں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ اسے خاموشی کے ساتھ نیچے چلنے کو کہا۔وہ اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ بات کیا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نہ تو جنم استھان پر دھماکہ ہوا اور نہ ہی پنجہ صاحب کی انتظامیہ نے اسے باہر نکلنے دیا تھا۔
چند لوگ اسے گھیر کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم اسے اپنی گاڑی تک لے آئے اور اسی وقت واپسی کے لیے نکل پڑے۔ حسن ابدال سے نکلتے ہی ہم نے اسے فورسز کے حوالے کر دیا۔ ننکانہ صاحب میں رسومات بڑے امن اور سکون سے ہو گئی تھیں۔ میں نے بھی سکون کا ایک طویل سانس لیا۔ 
اس وقت صبح کے آثار پھیل رہے تھے ، جب ہم موٹر وے سے لاہور پہنچ گئے۔ تانی میرے کاندھے کے ساتھ سر لگائے سو رہی تھی۔
میں نے اسے سونے دیا۔ یہاں تک کہ ایک بڑے سارے بنگلے کے گیٹ پر رُک کر جسپال نے ہارن بجایا۔ گیٹ کھل گیا اور اس کے درمیان میں سے دور پورچ میں میری ماں کھڑی تھی۔ اس کے ساتھ سوہنی تھی ، جس کے چہرے پر بے حد سنجیدگی تھی۔ کار رکتے ہی میں نکلا اور ماں کے سینے سے جا لگا۔ وہ بہت دیر تک مجھے اپنے سینے سے لگائے رہیں۔ پھر مجھے خود سے الگ کر کے میرا سر اور ماتھا چوما۔
سوہنی اشتیاق بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے زور سے بھیچ لیا۔ وہ جلدی سے الگ ہو گئی۔ ہم اندر چلے آئے۔ میری ماں کو شاید میرا سکھ کا روپ اتنا اچھا نہیں لگا تھا۔ میں نے سب سے پہلے اسی روپ کو ختم کرنے کا سوچا اور سیدھا باتھ روم میں جا گھسا۔
                                  #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط