Episode 58 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 58 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

صبح کا اُجالا پھیل گیا تھا جب میں چھاکے کے ساتھ گھر آ گیا۔ اُس نے مجھے گھر کے دروازے پر اُتارا اور خود اپنے گھر کی جانب چلا گیا۔ جب تک میں فریش ہوکر اپنے کمرے میں آیا سوہنی ناشتہ لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔
” پتہ ہے اماں کیا کہہ رہی تھی، ابھی مجھ سے۔“
” کیا کہہ رہی تھی؟“ میں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو وہ تَنے ہوئے لہجے میں بولی
” وہ کہہ رہیں تھیں کہ اب جمال کو سکون سے رہنا چاہئے۔
ادھر ادھر کی فضول حرکتوں سے باز آ جائے اور کوئی ڈھنگ کا کام کرے۔“
 ”ویسے اماں ہیں کہاں؟“ میں نے جان بوجھ کر پوچھا تو بولی
” خالہ صغراں کے گھر گئی ہیں، میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔“ 
” اچھا یہ سب ہو جائے تو کیا ہوگا؟“ میں نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا تو وہ تیزی سے بولی 
” اپنا گھر بساؤ، اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہو، جیسا سب کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ اماں کی خواہش ہے ۔“ 
” ٹھیک ہے ، سوچوں گا۔“ میں نے ہولے سے کہا تو تیز لہجے میں بولی 
” ابھی سوچو گے ، مطلب ابھی تک تم نے اس بارے سوچا ہی نہیں ، تمہیں کچھ احساس ہے کہ نہیں؟“
” تم چائے تو بنا کر لائی نہیں ہو ۔ اس کا احساس ہے تمہیں، جاؤ لے کر آؤ ، پھر میں بتاتا ہوں ۔“ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تو وہ غصے میں اُٹھ کر باہر چلی گئی۔
 
 جب تک میں نے سکون سے ناشتہ نہیں کر لیا، تب تک وہ واپس نہیں آئی۔ پھر جب آئی تو چائے تپائی پر رکھ کر پلٹنے لگی تو میں نے اسے کلائی سے پکڑ لیا۔ وہ رک گئی تو میں ایک ہلکا سا جھٹکا دیا ، وہ کٹی ہوئی شاخ کی مانند بیڈ پر آ گری۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
” سوہنی۔! میں جانتا ہوں کہ تو کیا سوچ رہی ہے ۔ اور تمہیں بھی پتہ ہے کہ ہم اس وقت کتنی بڑی دشمنی میں گھرے ہوئے ہیں ۔
ایسے وقت میں گھر بسانا ، اور اپنی بیوی اور گھر کی دیکھ بھال کرنا کتنا مشکل ہے۔ یہ گھر ، بیوی اور بچے ، یہ کمزوری بن جاتے ہیں۔“
” میں اور کچھ نہیں چاہتی ، بس تمہارا نام چاہتی ہوں۔ مجھے کوئی خواہش بالکل نہیں ہے۔“ وہ بھیگے ہو ئے لہجے میں بولی تو میں نے اس کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا
” کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ ہماری دشمنی ختم ہو گئی ہے ؟ “
” نہیں ، لیکن کب تک ، یہ کب تک چلے گی ۔
میں اکتا گئی ہوں۔ میں کہتی ہوں یہ سب زمین جائیداد اُن کے منہ پر مارو اور یہاں سے کسی گمنام جگہ پر جا کر رہتے ہیں۔“ وہ مجھ سے الگ ہو کر تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ بولی تو میں نے سمجھاتے ہوئے کہا
” تم کیا سمجھتی ہو ، وہاں ظالم لوگ نہیں ہوں گے، یہ معاشرہ ، اپنا دشمن آپ ہی بنا ہوا ہے ، میں نے تم سے کہا نہیں ہے کہ یہ دنیا ایک جنگل ہے اور اس میں فقط طاقت کی حکومت ہے۔
” میں نہیں جانتی کسی فلسفے کو اور نہ دنیا کو ،میں بس تجھے چاہتی ہوں۔“ وہ لاپرواہی سے بولی 
” تو بس پھر چاہتی چلی جاؤ۔ سمجھو یہی تیرا نصیب ہے۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ غصے میں اُٹھ کر باہر چلی گئی۔ 
میں ناشتہ کر چکا تو وہ باہر نیم کے درخت کے نیچے اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔میں اس کے پاس جا کر اسی کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا تو وہ سمٹ گئی ۔
پھر لمحہ بھر بعد بولی
” جمال یہ جرائم کی دُنیا دلدل ہے۔ تم اس میں دھنستے چلے جاؤ گے ، واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملے گا تمہیں ۔ پھر۔۔۔۔ “
” مجھے افسوس ہوا ہے سوہنی۔ تم مجھے مجرم سمجھتی ہو؟ میں تو اُس راہ پر چل نکلا ہوں ، جس پر میرے دشمنوں نے مجھے ڈال دیا، اب تو صرف زندگی اور موت کی جنگ ہے ، اور تم چاہتی ہوں کہ میں یہ جنگ ہار جاؤں ۔
چلو۔! میں نہیں اٹھاتا ہتھیار ۔ پھر اگر کسی نے مجھے مار دیایا اپاہج کر دیا تو اس کی ذمے دار تم ہو گی۔“ میں نے جذباتی ہو کر کہا تو تیزی سے بولی 
” یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ یہ خود پر مسلط کی ہوئی جنگ کو تم خود ہی ختم کرو گے۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو میں کوئی بات کئے بنا اُٹھ گیا۔ وہ جس زندگی کی بات کر رہی تھی ۔ و ہ شاید اب میرے مقدر میں نہیں تھی۔
میں الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ صحن سے نکل کر باہر والے کمرے میں آ تو گیا لیکن ایک تیکھی سوچ میرے دماغ میں دَر آئی تھی۔ یہ سوہنی ایک دم سے اتنی خوف زدہ کیوں ہو گئی ہے؟ وہ جو میرے ساتھ زندگی اور موت کے سفر پر چل نکلی تھی، اس نے اس قدر خوف زدہ ہو کر بات کیوں کی تھی ؟ کیا واقعی ہی اماں نے اسے ایسا کہنے کو کہا تھا؟ بہت ساری سوچیں میرے دماغ میں الجھتی چلی جا رہی تھیں۔
میں نے ان سب کو جھٹکا اور اپنا ذہن چھاکے کی طرف لگا دیا، جو ابھی تک واپس نہیں پلٹا تھا۔ میں نے اس کانمبر ملایا، اس کا فون بند تھا۔ مجھے ایک دم سے تشویش ہونے لگی ۔ میں نے فوری طور پر ادھر ُادھر نمبر ملائے، اس کے ان ساتھیوں سے پوچھا ، جو اس کے ساتھ ہمہ وقت رہتے تھے۔ لیکن کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔ ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ انہوں نے کل رات کے بعد اسے نہیں دیکھا ۔
میں نے ہر ایک سے یہی کہا کہ اس کافوراً پتہ کریں کہ وہ کدھر چلا گیا ہے۔ مجھے ایک دم سے اس کے بارے میں تشویش ہونے لگی تھی۔ کیونکہ میں چاہ رہا تھا کہ اس کے ساتھ باہر نکلوں اور معلوم کروں کہ رات کی کارروائی کے بارے میں کسی کو پتہ بھی ہے یا نہیں؟ لیکن چھاکے کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ شاہنواز کاکیا بنا؟ کچھ دیر بعد مجھے یاد آیا تو میں نے رندھاوا کو فون کیا۔
اس نے میری کال کاٹ دی۔ میں نے پھر کوشش کی تو اس کا فون مصروف جا رہا تھا۔ میرا دماغ ایک دم سے گھوم گیا۔ اب سوائے انتظار کے میرے پاس کو ئی چارہ نہیں تھا۔مجھ سے کمرے میں نہیں بیٹھا گیا، میں اٹھا اور صحن میں سے ہو کر گلی میں آگیا۔ میں آہستہ قدموں سے چوک کی طرف جانے لگا تو پیرزادہ وقاص کا فون آ گیا۔
” جی پیرزادہ صاحب، کیسے یاد کر لیا؟“ میں نے اپنے لہجے کو خوشگوار بناتے ہوئے پوچھا تو اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا
” تمہارا یار چھاکا کدھر ہے ، پتہ ہے اس کے بارے میں؟“
” نہیں ، کیوں کیا ہوا اسے ، وہ اپنے گھر میں ہو گا۔
“ میں نے الجھتے ہوئے کہا تو وہ بولا
” اس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ زخمی حالت میں ہسپتال پڑا ہے۔ بتانے والے نے شبہ بتایا ہے ، ممکن ہے وہ نا ہو ، ہسپتال میں پتہ کر لو۔“ اس نے بتایا تو میں ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ میں نے چوک میں پہنچنے تک اس کے ساتھیوں کو فون کر دیا۔کچھ دیر بعد اکبر نامی ایک نوجوان بائیک لے کر آ گیا تاکہ ہسپتال جا کر چھاکے کا پتہ کیا جائے۔
میں اس کے ساتھ بیٹھا اور ہم قصبے کے ہسپتال کی طرف چل دئیے ،جو وہاں سے چند ہی کلومیڑ پرتھا۔
ہم نور نگر سے نکل کر ہسپتال کے آدھے راستے میں تھے ۔ اکبر تیزی رفتار سے بائیک بھگائے لے جا رہا تھااچانک ہمارے دائیں جانب سے ایک کار تیز رفتاری سے نکلی۔ اُس نے کچے میں کار اُتاری تو دھول کا ایک غبار اٹھا جس سے سامنے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔
جیسے ہی دُھول صاف ہوئی تو سامنے سرخ رنگ کی کار بالکل سڑک کے درمیان کھڑی تھی۔ اس کے پیچھے دوسیاہ رنگ کی کیبن گاڑیاں تھیں، جنہوں نے پورا راستہ روکا ہوا تھا۔ میں چونک گیا اور پوری طرح الرٹ ہوگیا۔ اکبر کو بائیک روکنا ہی تھی۔ جیسے ہی اس نے بائیک روکی۔ اچانک ہی سامنے سے کئی سارے لوگ نکل آئے۔ ان میں ایک لمبا تڑنگا نوجوان تھا۔ جس کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔
باقی کئی لوگ گنیں تھامے ہوئے تھے۔ نوجوان نے اپنا چشمہ اتارا، میرے قریب آکر سرد سے لہجے میں بولا
” نیچے اترو۔“
” کیوں؟“ میں نے پوچھا، اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ گھمایا اور اس کا پسٹل سمیت ہاتھ میری گردن پر پڑا۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا، اس نے دوسرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ میں بائیک سے نیچے گرا ہی تھا کہ اس کے ساتھ آئے کئی سارے لوگ میری جانب بڑھے۔
میں نے ایک جست لگاتے ہوئے اونچی آواز میں کہا 
” اکبر نکل جاؤ۔“
انہوں نے اکبر کی طرف دیکھا تک نہیں ، بلکہ میری طرف بڑھ آئے۔کیونکہ میں سڑک کی بائیں جانب کھیتوں کی طرف بھاگاتھا۔ اسی وقت میرے ارد گرد فائر ہونے لگے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ مجھے زندہ پکڑنا چاہتے ہیں۔ میں نے اکبر کو نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا ، اس لئے بے پرواہ ہو کے فصلوں کی جانب بڑھا تھا۔
مگر وہ مجھ سے بھی تیز نکلے تھے ، انہوں نے فائر بند کیا اور میرے پیچھے لپکے۔ میں زیادہ دور تک نہیں جا سکا تھا کہ انہوں نے مجھے پکڑ لیا۔ وہ کئی سارے تھے۔ انہوں نے مجھے پکڑتے ہی بے تحاشا مارنا شروع کر دیا۔ میں نے جہاں تک ہو سکا مزاحمت کی ۔ ایک بار میں ان کے چنگل سے نکل بھاگا تھا۔ مگر وہ سارے ہی فائٹر تھے ۔تقریباً دس بارہ منٹ کے بعد میں اس وقت بے بس ہو گیا، جب کسی نے میرے سر پر پسٹل کا دستہ مارا۔ اس وقت میں ہوش و حواس کھو بیٹھا اور مجھے پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں، اور میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔
                                      #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط