بانیتا کے اس ”حکم“ میں یہی تھا کہ انہیں محض ڈرانا ہے‘ باندھنے یا گولی مارنے کی منطق عجیب سی تھی۔ میں نے ریوالور میں گولیاں چیک کیں‘ پھران کی طرف سیدھا ہی کیا تھا کہ انہوں نے ہاتھ اٹھادیئے۔
”تمہارے آقا ہمیں ہمارے گھر میں آکر دھمکیاں دیں اور تم لوگ ہمیں بیچ سڑک کے گھیرو… اور پھر ہم جانے دیں۔ ارے میں رتن بابا کو کیا جواب دوں گی‘ یہ کہتے ہوئے اس نے فائر کرنا شروع کردیا۔
وہ نچلے دھڑ میں گولیاں ماررہی تھی۔ میں نے بھی سڑک پرپڑے دونوں کی رانوں میں گولیاں اتاریں اور بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ فاصلے پر ہماری گاڑی کھڑی تھی‘ میں نے پچھلا دروازہ کھولنا چاہا تو بانیتا تیزی سے بولی۔ ”آگے …دلجیت آگے بیٹھو۔“
میں نے دیکھا‘ پچھلی سیٹ پر وہ جوڑا بے ہوش پڑاتھا۔
(جاری ہے)
جیسے ہی گاڑی چلی تو میں نے پوچھا۔
”یہ کیا ہے؟ کیسے کیا تم نے …؟“
”بس ایک ذرا سی نشیلے پاؤڈر کی چٹکی اور یہ غٹرغوں… یہ سارے اس کے سیکیورٹی گارڈ تھے۔
میں تو کب کا انہیں لے کر یہاں گاڑی میں ان کے بے ہوش ہونے کاانتظار کررہی تھی۔“ یہ کہہ کر وہ ہنستے ہوئے بولی۔”یہ سب اس وقت ہوا ‘ جب سیکیورٹی والوں نے تم لوگوں کو دھکے دے کربار سے باہر پھینکا۔“
”یہ تم نے پلان کیاتھا؟“ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”جی… میں نے اور اگر میں تجھے بتادیتی تو پھر نہ تم ایسے لڑتے اور نہ ہی اس میں فطری پن ہوتا‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ان لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ ان پرندوں کواغوا کس نے کیا ہے؟“ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تومیں نے مسکراتے ہوئے داد دینے والے انداز میں کہا۔
”واقعی بانیتا! تمہاری کھوپڑی میں شیطان کا دماغ ہے۔“
”لیکن تم ہو کہ میری صلاحیتوں کا فائدہ ہی نہیں اٹھا رہے ہوظالم۔“ اس نے آنکھ مارتے ہوئے خمار آلود لہجے میں کہا تو میں نے سامنے سڑک پر دیکھتے ہوئے صلاح دی۔
”دھیان سے گاڑی چلاؤ۔“
چونکہ مجھے امرتسر کی سڑکوں کے بارے میں اتنا معلوم نہیں تھا اس لیے خاموشی سے دیکھتا رہا کہ وہ کدھر جاتی ہے‘ کچھ دیر بعد جب وہ اندرون شہر جانے کی بجائے شہر کے باہر والے راستے پر ہولی تو میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”بانیتا! کدھر۔۔۔۔۔ کدھر جارہی ہو‘ کیا ارادے ہیں؟“
”بابا کے ایک دوست ہیں‘ ہم اُن کے فارم ہاؤس پر جارہے ہیں اکثر وہیں جاتے ہیں۔ اب پتہ نہیں ان پرندوں کے لیے کتنے دن لگ جائیں۔ سو ہم اُدھر رہیں گے۔ اِنہیں ہم نے اغوا کیا ہے اور اس کے عوض بہت کچھ ان سے لینا ہے۔“
”بہت کچھ… کتنی رقم …“ میں نے پوچھا تووہ بولی۔
”اوہ نہیں‘ بابا! رقم نہیں لینا‘کچھ دوسری ڈیل کرنا ہے۔
“اس نے کہاتو میں خاموش رہا۔
تقریباً ایک گھنٹہ مسلسل ڈرائیونگ کے بعد ہم امرتسر شہر سے باہر ویرانے میں آگئے۔ میرے خیال میں وہ ترن تارن کی طرف جانے والا راستہ تھا‘ جس سے اُتر کر ہم ذیلی سڑک پر آئے تھے‘ پھر اس کے بعد کافی دیر ڈرائیونگ کے بعد ہم ایک فارم ہاؤس میں جاپہنچے۔ وہ ہمارے انتظار میں تھے۔ پھاٹک کھلا تو وہ پورچ میں نہیں رکی بلکہ آگے چلتی چلی گئی۔
کھیتوں کے درمیان کچے راستے پر چلتے ہوئے اچانک سرکنڈے آگئے۔ ویران سی جگہ جیسے جنگل ہو‘ اس کے درمیان درخت اور تین جھونپڑیاں تھیں‘ وہاں جاکر یہی لگتاتھا کہ جیسے ہم کسی فارم ہاؤس کے درمیان میں نہیں بلکہ کسی جنگل میں آگئے ہیں۔ ان تینوں جھونپڑیوں کے پاس اس نے گاڑی جا روکی‘ پھرایک طویل سانس لے کربولی۔
”دلجیت! ان پرندوں کو اتارنے میں مدد کرو۔
“
”اوکے ۔“ میں نے کہااور پہلے لڑکے کواُٹھایااور اسے جھونپڑی میں ڈالا‘ پھر لڑکی کو لانے کے لیے مڑا تو اسے بانیتا اٹھا کر لے آئی۔ اس نے آتے ہی جھونپڑی میں موجود لالٹین جلائی‘ پھر تھیلے سے لائٹ نکال کر بولی۔
”اب ان کا ذرا دھیان رکھنا‘ میں یہاں قریب ہی میں گاڑی کھڑی کرکے آئی۔“ یہ کہہ کر میری سنے بغیر وہ پلٹ گئی۔ گھاس پھوس اور دھان کی ”پرالی“ کاڈھیر تھا‘ جس پران دونوں کو لٹایا ہوا تھا۔
میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔
میں نہیں جانتاتھا کہ ان دونوں کو کیوں اغوا کیا گیا ہے جو مقصد بھی ہوگا سامنے آجائے گا‘ لیکن ان لوگوں کو چھپانے کے لیے جو جگہ منتخب کی گئی تھی‘ وہ بہت لاجواب تھی۔ بالکل ہی جنگل کاماحول لگتاتھا۔ میں اس بندے کی سوچ کو داد دے رہاتھا جس کے ذہن میں ایسا خیال آیا تھا۔ انسان کیسا ہے‘ چند فٹ کے فاصلے پر یاپھراگلے لمحے کے بارے میں نہیں جانتا‘ ایسی ہی اوٹ پٹانگ سوچیں میرے دماغ میں پھررہی تھیں کہ بانیتا واپس آگئی۔
اس نے لائٹ کا رخ ان دونوں کی طرف کردیا۔
”ارے‘ ان دونوں کو ہوش میں نہیں لائے‘ تھیلے میں پانی تھا یار۔“
میں نے تھیلا کھولا‘ اس میں سے پانی کی بوتل نکالی اور پھر ان دونوں کے منہ پر چھینٹے مارے۔ وہ کسمساتے ہوئے اُٹھ گئے۔ تبھی لڑکی نے حیرت سے پوچھا۔
”ہم کہاں ہیں ؟“
”ہم جنگل میں ہیں اور تم دونوں کو ہم نے اغواء کرلیا ہے۔
چیخنے ‘چلانے ‘شور مچانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا‘ بھاگنا چاہوگے تو اردگرد بہت سارے درندے ہیں چیرپھاڑ کر کھاجائیں گے۔ سو‘ تم وہی کروگے جو ہم کہیں گے۔ لہٰذا سکون سے سوجاؤ۔“بانیتا نے اسے کہا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ تبھی لڑکے نے پوچھا۔
”کون لوگ ہوتم‘ اور کیوں کیاہے ہمیں اغواء؟“
”بچے ،تمہارا سوال فضول نہیں ہے‘ تمہیں یہ پوچھنے کا پورا پورا حق ہے لیکن تمہارے ان دونوں سوالوں کا جواب تمہارے باپ کو دینا ہے‘ بلکہ انہیں بتانا ہے کہ ہم کون ہیں اور تم دونوں کو کیوں اغوا کرلیا گیا ہے۔
اس لیے کوئی سوال مت کرو‘ سکون سے سوجاؤ۔نہیں نیند آتی تو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزارو اور اگر دماغ میں کسی قسم کا کیڑا آیا تو میں وہ ریوالور کی گولی سے نکال دوں گی‘ سمجھے۔“ بانیتا نے بظاہر ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا تھا مگر لہجے میں سفاک پن پوری طرح موجود تھا۔ اس نے تھیلے میں سے ٹن پیک سوڈا نکالااور اس کی طرف پھینک دیا‘ پھر لڑکی کی طرف اور ایک مجھے دے کراپنا ٹن کھول لیا۔
تبھی لڑکے نے ٹن واپس پھینکتے ہوئے کہا۔
”اتنا تو میں جانتا ہوں کہ تم لوگ پاپا کو بلیک میل کروگے‘ لیکن یہ نہیں جانتے کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں مرگیا‘ تب تمہاری کوئی…“ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ بانیتا نے اپناٹن کھینچ کر اس کے منہ پرمارا‘ جو اس کے ماتھے پر لگا‘ اس کے ساتھ خون نکل آیا۔
”ارے بھڑوے کی اولاد، تونے کیامرنا ہے‘ میں تجھے خود ماردوں گی‘ چل اٹھ۔
“ یہ کہہ کر وہ اٹھی‘ ریوالور سیدھا کیا تو لڑکی چیخ پڑی۔
”بھگوان کے لیے ایسا مت کرنا دیدی‘ میں سمجھالوں گی اسے… آپ پلیز…“
”دیکھ تیری گرل فرینڈ تیرے ساتھ کتنی محبت کرتی ہے‘ چل سوجا اب ، صبح بات کریں گے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے نیاٹن نکالا اور پینے لگی۔
ہم دونوں جھونپڑی سے باہر نکل آئے۔ ذرا دور اندھیرے میں ایک درخت کے تنے پربیٹھتے ہوئے میں نے پوچھا۔
”یہ کیا ڈرامہ ہے بانیتا! لگتا ہے لمبی پلاننگ کی ہوئی ہے تم نے؟“
”شاید تمہارے ذہن میں ہو‘ جس نے صبح بتایا تھا کہ وہ ”را“ ہے‘ وہ اس لڑکے کا باپ ہے۔ اس بے غیرت نے کچھ جگہوں پر چھاپے مارے ہیں اور اسلحہ سمیت بندے پکڑ لیے ہیں۔ اس کا رتن بابا سے مطالبہ ہے کہ مجھے اور تجھے اس کے حوالے کردے۔ اب سمجھو‘ سیدھا سیدھا ”را“ کے ساتھ معاملہ ہوگیا ہے۔
“
”وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی اور اس کے وسائل …رتن دیپ سنگھ‘ وہ کیا کرپائے گا؟“میں نے تشویش سے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں‘ اس نے تو کچھ بھی نہیں کرنا‘ بس اب مختلف تنظیمیں حرکت میں آئیں گی‘ اگر ”را“ واقعتا ان کے ساتھ لڑنا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے‘ ہم تو پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں اب”را“ جو مرضی کرے‘ وہ جو چنگاریاں اب شعلہ بننے جارہی ہیں‘ انہیں آگ لگانے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
اب ہماری منزل صرف اور صرف خالصتان ہے اور بس…“ بانیتا نے یوں کہا جیسے وہ اپنا سب کچھ وار چکی ہے۔
”ان کے ساتھ ڈیل کیسے ہوگی‘ فون کے ذریعے وہ ہماری لوکیشن کااندازہ۔“ میں نے کہا تووہ تحمل سے بولی۔
”ڈیل کہیں اور ہو رہی ہے‘ ہمیں بس اتنا حکم ملنا ہے‘ مار دو یا چھوڑ دو‘ بس…“ یہ کہہ کر وہ تنے پر لیٹ گئی۔ اس کا سر میری ران پر تھا۔
میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ وہ میرے لیے ایک لڑکی نہیں‘ حریت پسند تھی‘ آزادی چاہنے والا کوئی بھی ہو‘ میں اس کی دل سے قدر کرتاتھا۔
”اگر تمہیں نیند آرہی ہے تو تم سوجاؤ‘ میں جاگ رہا ہوں اور ان کا…“ میں نے کہنا چاہا تووہ میری بات کاٹتے ہوئے بولی۔
”مجھے نیند نہیں آتی دلجیت ‘نجانے کتنے سال ہوگئے ہیں‘ نیند کوترس گئی ہوں۔
تیرے سامنے شراب بھی پی ہے‘ بس خمار ساآتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔“
”کیوں ہے ایسا؟“ میں نے پوچھا۔
”میں جب بھی سوتی ہوں تومیرے خواب میں میرے ویر‘ میری ماں اور میرا باپو‘ ان سب کی لاشیں صحن میں پڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں‘ اور میں ان کے پاس بین کررہی ہوتی ہوں…“وہ جذباتی لہجے میں بولی‘ پھر ایک دم چونکتے ہوئے بولی۔ ”دیکھو‘ وہ (غلیظ گالی دیتے ہوئے )باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔
“
میں نے فوراً اس طرف دیکھا تووہ لڑکا جھونپڑی سے باہر کھڑا محتاط نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہاتھا‘ اسے یہ خیال ہی نہیں تھا کہ لالٹین کی چھنتی ہوئی روشنی اس پر پڑرہی ہے۔ میں بے آواز قدموں سے بڑھا‘ وہ لڑکا تیز قدموں سے چل پڑاتھا۔ میں نے پیچھے سے جاکرپکڑ لیا۔ تبھی اس نے ایک زور دار گھونسہ میرے جبڑے پر مارا‘بلاشبہ وہ لڑنے کے فن سے آشناتھااور پھر اس وقت وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہاتھا۔
اس کے ساتھ ہی اس نے میری پسلی میں گھونسہ مار دیا۔ میں ایک قدم لڑکھڑاگیا۔ وہ پورے جوش سے میری طرف بڑھا۔ اس نے جھکائی دی اور کھڑا ہاتھ میرے کاندھے پرمارا۔اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کرسکا۔ میں نے اس کی گردن دبوچ لی‘ پھر یونہی اوپر اٹھا کر زور سے زمین پر دے مارا۔ تین چار ٹھوکروں ہی سے وہ ساکت ہوکررہ گیا۔ میں اسے گھسیٹتا ہوا جھونپڑی میں لے آیا۔
میں نے تھیلے میں سے رسی نکالی اور اسے باندھ دیا۔ لڑکی یہ سب دیکھتے ہوئے تھرتھرکانپ رہی تھی۔ میں نے اسے بھی باندھا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ تبھی بانیتا نے اندر آکر کہا۔
”دلجیت تم سوجاؤ‘ میں جاگ رہی ہوں۔“
میں وہیں گھاس پھوس پر سیدھا ہوا‘ پھر کچھ دیر بعد پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کہاں ہوں۔
#…#…#