یہ برصغیر کا وہ دور تھا ، جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئے لگ بھگ ایک برس گذر گیا تھا۔ تحریک آزادی اپنے زوروں پر تھی۔احمد بخش پنچ بہت سمجھدار آدمی تھا۔ اس کے تین بھائی مزید تھے،فتح محمد عرف فتّو، غلام محمد عرف غلاما اور محمد بخش عرف مندو۔ یہ تینوں بھائی ایک جُٹ تھے ۔ خوشحال زمیندار ہونے اور پنچ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں، اوگی پنڈ میں ” لمیّاں دی پتی“ والے مشہور تھے۔
اوگی پنڈ میں جو زمین تھی، وہ تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ زمین تقسیم در تقسیم ہوتی ہوئی لوگوں کے پاس تھوڑی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ احمد بخش پنچ نے سوچا تھا کہ اس کے اپنے چار بیٹے ہیں اور اب پانچواں خوشی محمد بھی آ گیا۔ اسی طرح بھائیوں کے بھی بیٹے ہیں۔زمین جب تقسیم ہوئی تو کچھ بھی نہیں رہے گی۔ پھر کیاہوگا؟ اس کی اولاد، اس تقسیم کے بعد کہاں سے کھائے کمائے گی؟
احمد بخش پنچ کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ نواب آف بہاول پور نے انیس سو ستائیس سے آباد کاری نظام بنایا ہے ۔
(جاری ہے)
جس کے تحت جو جتنی چاہے الاٹمنٹ کروا لیتا، زمین آباد کرتا تو اسے وہ زمین مل جاتی ۔ اس کے اپنے گاؤں اوگی سے اور آس پاس کے گاؤں سے کافی لوگ وہاں چلے گئے تھے۔انہیں زمین مل گئی تھی۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ زمین کی آباد کاری تھا ۔ بے آب وگیاں زمین کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ احمد بخش پنچ نے ایک دن اپنے بھائیوں کو اکھٹا کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی۔
کافی دیر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ یہ ہو اکہ احمد بخش خود اور فتح محمد دونوں وہاں چلے جائیں اور دو بھائی ادھر ہی رہیں۔ جب وہاں زمین کی الاٹمنٹ ہو جائے تو یہ بھی ادھر ہی آ جائیں گے ۔
خوشی محمد کے تقریباً دو سال اس گاؤں میں گذرے۔ اپنے بھائیوں سے زیادہ اس کی کلوندر سنگھ کے ساتھ بنتی تھی۔ دونوں سارا دن کھیلتے، کبھی ہیرا سنگھ کے کنویں پر اور کبھی لمیّاں دی پتّی میں وقت گذرتا ۔
دونوں ہی اپنے پاس غلیل رکھتے تھے۔ سارا دن پرندوں کا شکار کرتے رہتے ۔ کھانا پینا اچھا ملا تو خوشی محمد نے خوب رنگ ڈھنگ نکالا۔ تب ایک دم اسے وہاں سے بھی جانا پڑا ۔ اسے کلوندر سنگھ کا ساتھ چھوٹ جانے کا بہت دکھ تھا۔ پہلے احمد بخش پنچ اور فتح محمد ریاست بہاول پور آئے ، وہاں بات چیت کی ۔ لوگوں سے ملے ۔ ایک دن پلٹے تو دونوں اپنی بیویوں اور بیٹوں سمیت بہاول پور روانہ ہو گئے۔
وہاں انہوں نے دن رات ایک کر دیا۔ صحرائی زمین کو آباد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ انہوں نے لی ہوئی زمین آباد کر لی اور قیام پاکستان ہو گیا۔ لوگ آگ اور خون کا دریا پار کرکے آنے لگے ۔ ان میں احمد بخش پنچ کے دونوں بھائی بھی لٹے پٹے ان کے پاس آگئے ۔ احمد بخش پنچ نے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور زندگی نئے سرے سے شروع کردی۔اوگی پنڈوالی زمین کا کلیم داخل کر دیا گیا۔
یوں کسی کو کہیں زمین ملی اور کسی کو کہیں۔ وہ سب بھائی پاکستان کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔
#…#…#
اس وقت خوشی محمد تیس بر س سے اوپر کا ہو گیا تھا، جب اس کی شادی کی باری آئی۔ چاروں بھائیوں میں سے کسی کی بیٹی ایسی نہیں رہی کہ جس سے خوشی محمد کی شادی ہو سکتی ۔ سب بیاہی جا چکی تھیں۔ احمد بخش اب بوڑھا ہو چکا تھا اور بھاگاں مائی اللہ کو پیاری ہو چکی تھی۔
ایک فتح محمد ہی اس کے پاس تھا۔ اس کی اولاد بھی بیاہی جا چکی تھی۔ احمد بخش نے ساتھ والے گاؤں میں خوشی محمدکی شادی کردی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بڑی عقل مندی کی ،ا سے زمین دینے کا فیصلہ کر لیا۔ نور نگر میں کلیم کی زمین پڑی ہوئی تھی۔ احمد بخش نے وہ زمین خوشی محمد کو دے دی۔ وہ دونوں میاں بیوی وہاں جا کر بس گئے۔
نور نگر کی بستی نجانے کب کی آباد تھی۔
وہاں کے آثار بتاتے تھے کہ یہاں کوئی بستی پہلے بھی آباد تھی۔ وہاں کے لوگ بتاتے تھے کہ یہ پہلے ہندؤں کی آبادی تھی۔ جو کسی وجہ سے ختم ہوگئی تھی۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم تھا کہ یہیں پر شیطانیت اپنا بھیانک روپ دکھاچکی ہے۔ نور نگر کبھی رام گڑھ تھا جو بالکل بدل کر اب مسلمانوں کی بستی بن چکا تھا۔ نور نگر سے فقط دو میل کے فاصلے پر وہ میدان تھا، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔
اب میلے میں کھیلوں کی نوعیت بدل گئی تھی اور مسافر شاہ کے تھڑے کا اضافہ ہو گیا تھا۔
تقریباً سات بر س بیت گئے۔ خوشی محمد نے وہاں جا کر خوب محنت کی ۔ اس علاقے میں پانی اچھا تھا۔ فصلیں شاداب ہونے لگیں۔ بچپن میں غلیل سے پرندوں کا نشانہ لینے والا شوق اب گن کے ساتھ شکار میں بدل گیا تھا۔ اس کا نشانہ غضب کا تھا۔ اور اسی خوبی کے باعث اس علاقے کے بڑے زمیندار کا بیٹا چوہدری شاہ دین اس کا بہت گہرا دوست بن گیا تھا۔
وہ اکثر شکار پر نکل جاتے۔ خوشی محمد کو سب کچھ مل گیاتھا، بس کمی تھی تو اولاد کی نعمت تھی جو ابھی انہیں ملی تھی۔ وہ رَبّ کے ہاں سے ناامید نہیں تھے۔
خوشی محمد کی بیوی صابراں اپنے نام کی طرح صابر و شاکر عورت تھی۔ قدرت نے اسے رنگ روپ بھی خوب دیا تھا۔ وہ سادہ سی گھریلو عورت اپنے رَبّ کی رضا میں راضی تھی۔ اگرچہ اسے اولاد ہونے کا دکھ تو تھا لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اسے صرف شاہ دین کا خوف تھا ، جس کی بری نظر سے بچ جانا چاہتی تھی۔ وہ بہت کم باہر جاتی ۔ خوشی محمد نے دو نوکر رکھ چھوڑے تھے،وہی کام کرتے تھے۔ صابراں نے اشارے کنائے میں خوشی محمد کو شاہ دین کے بارے میں بتایا بھی ، جسے وہ نہ سمجھ سکا ۔ صابراں نے اپنی لَو اپنے رَبّ سے لگا لی ۔ وقت گذرتا گیا ، یہاں تک کہ قدرت ان پر مہربان ہو گئی۔ وہ امید سے ہو گئی ۔
ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام جمال رکھاگیا۔ وہی جمال جو اپنے سامنے سارے منظر دیکھ رہا تھا۔ جب وہ دنیا میں آیا تو اس کا باپ قتل ہو چکا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لئے وہ اس مقام پر آ کھڑا تھا۔ سارے منظر ایک دم سے ختم ہو گئے۔
#…#…#
ہمارے سامنے اندھیرے میں ڈوبا ہوا میدان تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو روہی والے بابا جی وہیں ہمارے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔
ہمیں اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ مسکراتے ہوئے بولے
” جمال، کیا اب تمہیں سمجھ آگئی ہے کہ تم کس حد تک قلندر ہو؟“
” لالو قلندر کی وجہ سے وہ قلندر تھا، اسی ناطے میں بھی ہوں۔ میں جان گیا، مجھے اب کیا کرنا ہے ۔“
” یہ اچھاہوا کہ تم سمجھ گئے ہو ۔ لیکن ابھی منزل بہت دور ہے ، تجھے ابھی بہت سفر کرنا ہے ۔“ بابا جی نے کہا تو میں نے دھیمے سے پوچھا
” یہ آپ نے مجھے میری تین نسلوں کے بارے میں بتایا، آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ، انسان کی عمر تو ایک …“
” بادشاہ کسی شخص کا نام نہیں ہوتا، ایک مقام کا نام ہے ، جو جس وقت بادشاہ ہوتا ہے اسے وہ مقام ملنے کے ساتھ سارے اختیارات بھی مل جاتے ہیں۔
اسے ماضی تو معلوم ہوتا ہے اور مستقبل کی سوچ بھی دی جاتی ہے ۔ “
” مقام ۔!آپ کا …“ میں نے پوچھنا چاہا تو وہ میری بات کاٹ کر بولے
” تیری اور شیطان کی کشمکش جاری رہے گی ۔ جتنا خود کو مضبوط رکھے گا، تیرے اندر جتنی پاکیزگی آ ئے گی، تو اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ اپنی اور اپنے اندر پڑے قطرے کی حفاظت کرنا، تیری حفاظت خود بخود ہو جائے گی۔
“ یہ کہہ کر انہوں نے جسپال کی طرف دیکھا اور کہا
” تیرے پریوار کے ساتھ بہت ظلم ہوا ، تیرے دشمن تجھ سے بہت بھاری ہیں۔ پر ہیرا سنگھ کی مدد کا اُسے حق تو ملنا ہے نا۔ جاؤ ، میرا رَبّ تم دونوں کے ساتھ ہے ۔“ انہوں نے کہا اور مسافر شاہ کے تھڑے سے اُتر گئے۔ وہ کچھ دور تک تو دکھائی دئیے پھر معدوم ہو گئے ۔ ان کے پاؤں تلے روشنی جاگ اٹھی۔ وہ اس لکیر پر چل پڑے۔ پھر لمحوں میں وہ نور نگر میں تھے ۔
#…#…#