Episode 3 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 3 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

کمرے میں گیس ہیٹر کی وجہ سے اچھی خاصی حرارت موجود تھی۔ جہاں آرابیگم ہاتھ میں تسبیح لیے توبہ استغفار میں مصروف تھیں دروازہ کھلتا ہے۔ 
”ماں جی آداب“اندر آتے ہوئے جمال رندھاوا نے کہا۔ جہاں آرا بیگم کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی موونگ چیئر سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ”آپ تشریف رکھیں ماں جی“جمال رندھاوا آگے بڑھ کر گلے ملتا ہے اور ماں کے قدموں میں کارپیٹ پر کُشن کے اوپر بیٹھ جاتا ہے ”میرا بچہ “ہولے ہولے بالوں اور منہ پر پیار کرتے ہوئے جہاں آرا بیگم نے کہا ”کب آئے “جمال رندھاوا نے ہاتھ چومتے ہوئے جواب دیا ”تھوڑی دیر پہلے ، آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“”اللہ کا شکر ہے بیٹا کافی دن لگادیے اس بار “جہاں آرا نے پوچھا ۔
”بس کام کچھ زیادہ تھا ماں جی خیر آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل،“ جمال نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا
”میں گھر میں پڑی رہتی ہوں تمہارا بیٹا اور بیوی اپنی فیکٹری کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

نوشی اور توشی وہ کہا کہتے ہیں اسے “

”بوتیک“جمال نے لقمہ دیا۔ 
”ہاں بوتیک میں مصروف رہتی ہیں“
”اور بلال“جمال نے آنکھوں سے سوال کیا۔
 
”وہ عشا کے بعد آکر میری خدمت گزاری کرتا ہے اور صبح جانے سے پہلے سلام کرنے آتا ہے “جہاں آرا بیگم نے تفصیل سے اپنے بیٹے جمال رندھاوا کو جواب دیا۔ 
###
بلال جاگنگ کرکے اپنے کمرے میں واپس لوٹتا ہے تو سورج کی کرنیں دھند کو کھاجاتی ہیں۔ وہ کمرے کے پردے ہٹاتا ہے تو کرنیں اس کا چہرہ چوم لیتی ہیں۔ سامنے ٹیرس کا شیشے والا دروازہ کھول کر وہ گملوں میں لگے ہوئے پودوں رات کی رانی، سرخ گلاب، موتیا اور دن کا راجہ سے ملتا ہے جو مسکرا کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔
 
رات کی رانی کی خوشبو اب بھی فضا میں موجود ہے۔ تمام پودوں کے پھولوں کا بازار حسن سجا ہوا ہے۔ پھولوں کے چہروں پر ہلکا ہلکا تبسم ہے۔ جن کو دیکھ کر پیام حیات کا احساس ہوتا ہے۔ 
اب باری چھت پر جانے کی ہے وہ کمرے سے باہر آکر داخلی دروازے کے ساتھ اوپر جاتی سیڑھیوں پر چلتا ہوا اپنے کمرے کی چھت پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں جمالیات کی ایک الگ دنیا آباد ہے۔
ایک طرف پودوں کا گرین ہاؤس اور دوسری طرف پرندوں کا ایئر پورٹ ہے۔ چھت کے مشرقی حصے پر بڑے بڑے گملوں کا قبضہ ہے۔ جن کے اندر پودینہ، ہری مرچ، دھنیا کے پودوں کا جم غفیر ہے۔ یہ سارے پودے بلال کی محنت کا ثمر ہیں۔ یہ گرین ہاؤس ہے بلال کا گرین ہاؤس ہے۔ 
چھت کے مغربی حصے پر پرندوں کا مسافر خانہ ہے پرندوں کی خاطر مدارت کے لیے مختلف اقسام کا دانہ اور پانی میسر ہے جوکہ چھوٹی بڑی مٹی کی کنالیوں میں رکھا گیا ہے۔
اکثر مسافر پرندے اس دستر خوان سے پانی پینا اور دانہ چننا عین سعادت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بلال کا دستر خوان ہے۔ بلال کا یہ معمول تقریباً 14 سال سے ہے۔ وہ ہر روز ان کنالیوں میں دانہ اور پانی ڈالتا ہے اور ہفتے میں ایک بار ان کی صفائی کرتا ہے۔ 
###
یہ دو کنال کا خوبصورت بنگلہ ڈیفنس میں واقع ہے جوکہ اب جمال رندھاوا کی ملکیت ہے۔
چوہدری ارشاد رندھاوا نے کئی سال پہلے اپنے دونوں بچوں جمال اور جمیلہ کے لیے دو پلاٹ خریدے، جن پر باہمی مشاورت سے یہ خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا گیا۔ جمال کے پلاٹ پر یہ بنگلہ بنایا گیا اور ساتھ دوسرے پلاٹ پر ایک خوبصورت چھوٹا سا ڈبل یونٹ تعمیر کیا گیا جس کو ڈیزائن خود جمیلہ رندھاوا نے کیا تھا۔ 
اب یہ ایک ہی گھر کا حصہ ہیں ۔ بنگلہ کے سامنے گھر کا خوبصورت لان ہے اور پچھلی سائیڈ پر سرونٹ کواٹرز ہیں۔
ڈبل یونٹ کے سامنے اب گاڑیوں کا پورچ ہے اور اس سے پہلے گھر کا مین گیٹ ہے ۔ مین گیٹ کے ساتھ بائیں جانب سکیورٹی گارڈ کا روم ہے۔ 
یہ بنگلہ جدید فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ بنگلے کے بیرونی حصے پر سرخ گھٹکا لگا ہوا ہے۔ جیسے کوئی دلہن سرخ عروسی لباس پہن کر بیٹھی ہو۔ 
یہ رندھاوا ہاؤس ہے۔
###
بڑے سے ڈائنگ ہال میں جمال رندھاوا بڑے سے ڈائنگ ٹیبل پر اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔
باجی غفوراں اور شاہد محمود سکھیرا کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہال کے عقب میں ایک بڑا دلکش کچن واقع ہے۔ 
”اوئے شاہد آج تو بلال بھی ناشتے کے لیے آئے گا“باجی غفوراں نے کہا جو کہ چائے بنانے میں مصروف تھی۔
”Yes BG“شاہد نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا ۔”اوئے فرنگیوں کی اولاد تجھے کتنی بار سمجھایا ہے یابا جی بول نہیں تو سیدھا غفوراں کہہ لے یہ BGمت کہا کر“باجی غفوراں نے بائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے شاہد محمود کی گردن پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔
 
”یہ ہاتھ چالاکی مت کیا کر باجی غفوراں تجھے کتنی بار کہا ہے “چڑ کر تیور دکھاتے ہوئے شاہد محمود سکھیرا نے تلخ جواب دیا۔ 
”تیری ماں جیسی ہوں تجھے اپنے بچوں کی طرح چوما چاٹا ہے۔ اتنا بھی حق نہیں ہے میرا؟ “بازو سے پکڑ کر جھنجوڑ کر جواب دیا ۔
”چل فیر کوئی گل نہیں“پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح شاہد نے کہا۔ ”تینوں ست خون معاف BG“
”خون تو ایک بھی معاف نہیں ہوتا شاہد“لمبی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے باجی غفوراں بول اٹھی جیسے کوئی زخم ہرے ہوگئے ہوں اسکے۔
 
نوبجنے میں پانچ منٹ باقی تھے جب بلال ڈائنگ ہال میں داخل ہوتا ہے ۔
”السلام علیکم ماموں جان“بلال نے شائستگی سے کہا ۔
”وعلیکم السلام “وال کلاک دیکھتے ہوئے ”ٹائم کی پابندی کوئی تم سے سیکھے “بلال صاحب “گلے لگاکر بلال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا ۔
اتنے میں جہاں آرا بیگم بھی تشریف لے آتی ہیں ڈائننگ ٹیبل کے اطراف میں محفل سج جاتی ہے۔
 
جمال کے دائیں ہاتھ جمال کی بیوی ناہید جمال اور ایک کرسی چھوڑ کر اس کی دونوں بیٹیاں نسیم اور تسلیم یعنی نوشی اور توشی براجمان ہیں، بائیں ہاتھ ایک کرسی خالی ہے۔ جس پر سب کی نظریں ہیں، اس گھر کا ولی عہد شعیب جمال عرف شیعبی جمال کا اکلوتا اور بڑا بیٹا۔ جمال لیڈر آف دا ہاؤس ہے اس کی بالکل سامنے اس کی ماں جہاں آرا بیگم تشریف فرما ہیں جہاں آرا بیگم کے دائیں ہاتھ ان کا نواسہ بلال احمد بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے۔
انتہائی سادہ ناشتہ دوبراؤن بریڈ کے سلائس ایک انڈے کی سفیدی اور چائے کا پھیکا کپ۔ 
جمال رندھا وا خاموشی توڑتے ہوئے ناہید جمال سے مخاطب ہوتے ہیں۔ 
”شعیب صاحب کہاں ہیں “چائے کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔ 
”اپنے کمرے میں ہوگا“ناہید نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھی نظروں سے جمال کو دیکھ کر جواب دیا۔ 
”شاہد …شاہد …“جمال نے رعب دار آواز میں شاہد کو بلایا۔
 
”جی سر“شاہد چند سیکنڈ میں پاس کھڑا عرض کر رہا تھا۔ 
”شعیب صاحب کو بلا کرلاؤ“جمال نے دھیرے سے حکم دیا ۔
شاہد محمود کے جانے سے پہلے آواز آئی ۔ 
”ہیلو ڈیڈ۔۔ ہیلو ایوری باڈی…“شعیب جمال آچکا تھا۔ 
”بیٹا آپ پندرہ منٹ لیٹ ہیں “شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے تبسم بھرے لہجے میں کہا جو کہ ان کے بائیں ہاتھ خالی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ 

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط