جمال نے ایک بار پھر ناہید کا یہ تضحیک آمیز رویہ بلال کے ساتھ دیکھا تو وہ غصے میں اپنے ہوش کھو بیٹھا
”ناہید………میں تمہیں………طلاق دیتا ہوں……طلاق………طلاق دیتا ہوں، ہاسپٹل کے کوریڈور اور ہال کے اندر خاموشی چھا گئی سب لوگ ایک دوسرے کو حیرت سے تک رہے تھے۔ ایک عجیب طرح کا سناٹا چھا گیا تھا۔
ناہید بکھرے بالوں اور بہتے ہوئے خون کے ساتھ بڑی مشکل سے ایک سیٹ پر بیٹھ پائی تھی۔
توشی اپنی ماں کی طرف لپکی، توشی اپنی ماں کو قصور وار ضرور سمجھتی تھی اس ساری صوتحال کا، اُس کا باپ اُس کی ماں کو یہ سزا دے گا اُس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
”اب تو تم خوش ہو………میرا گھر برباد کر کے……“ ناہید نے روتے ہوئے بلال کی طرف دیکھ کر چیخ کر کہا تھا۔ بلال کے چہرے پر افسردگی تھی۔
(جاری ہے)
وہ اپنے ماموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہوں ماموں جان یہ آپ نے کیا کر دیا ہے۔
جہاں آرابیگم سسکیاں لے لے کررو رہیں تھیں محسن نے اُنہیں سنبھالا ہوا تھا۔
نوشی دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے، نفرت اور غصے کے ساتھ بلال کو دیکھ رہی تھی۔ اس ساری خاموشی کو شعیب کے اندر دوڑ کر آتے ہوئے بوٹوں کی آواز نے توڑا، جب وہ ہال کے اندر آکر رکا۔ اُس کے پیچھے پیچھے گل شیر خان بھاگتا ہوا اندر آیا تھا، پھولی ہوئی سانس کے ساتھ وہ دونوں اس بات سے انجان تھے کہ اندر کیا ہوا ہے، شعیب کی ہلکی سی نظر اپنی ماں کی ناک سے بہتے ہوئے خون پر پڑی تھی۔
وہ ہجوم کو پیچھے ہٹا کر آگے جانا چاہتا تھا گل شیر خان نے شعیب کو بازو سے پکڑا اور زور سے اپنی طرف کھینچا ۔
”شعیب صاحب میں کب سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں آپ کا نمبر بھی بند ہے، آپ نکلو یہاں سے“ گل شیر خان نے دبی ہوئی آواز کے ساتھ شعیب کے کان میں کہا۔ گل شیر خان نے ناہید کو نہیں دیکھا تھا۔ شعیب نے خان کی بات پر دھیان نہ دیا۔ شعیب نے جھٹکے کے ساتھ گل شیر خان سے اپنا بازو چھڑایا اور آگے کی طرف بڑھا۔
”میری بات سنو شعیب صاحب اور نکلو یہاں سے“ گل شیر خان نے شعیب کو پیچھے سے اپنے بازوؤں سے دبوچا اور اُس کے کان میں پھر التجا کی
”چھوڑو مجھے خان………یہ کیا بدتمیزی ہے“ شعیب نے گل شیر خان کی گرفت سے خود کو چھڑایا اور لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اپنی ماں کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ گل شیر خان نے پھر کوشش کی وہ شعیب کے پیچھے آئے جب خان کی نظر ناہید پر پڑی تو وہ سائیڈ پر کھڑے ہوگئے۔
گل شیر خان نے جمال رندھاوا کی طرف دیکھا جواب بھی قہر آلود نگاہوں سے ناہید اور شعیب کو دیکھ رہے تھے۔
جمال کی رگیں ایک بار پھر تن گیں تھیں۔ اُن کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا بھی اس سازش میں برابر کا شریک تھا، جس سے بلال کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ہاں البتہ نوشی کی زندگی ضرور برباد ہو گئی تھی۔ گل شیر خان بغیر دیکھے اور بغیر سنے ہی ساری کہانی سمجھ گئے تھے۔
شعیب نے گردن موڑ کر غصے سے بلال کی طرف دیکھا
”چلوبھی………چلو………سب لوگ اپنا اپنا کام کرو“ گل شیر خان نے کھڑے ہوئے افراد سے کہا ۔
گل شیر خان کا قد کاٹھ اور رعب دار آواز نے سب افراد پر فوراً اپنا اثر چھوڑا سب لوگ ایک منٹ کے اندر ہی دائیں بائیں تتر بتر ہو گئے ۔
اب کوریڈور اور ہال خالی تھا شعیب اُٹھا اور بلال کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا
”تم نے میری ماں کے ساتھ……“ شعیب کو صرف یہ بولنے کا موقع ملا تھا۔
ایک زور دار تھپڑ اُس کے گال پر پڑا جس کی وجہ سے وہ ایک لمحے میں زمین پر گر گیا۔ ایک مضبوط قد کا ٹھ کے شخص نے اُسے گریبان سے پکڑا اور اُٹھایا
”کچھ بھی نہیں ہوا ہے………تمہاری ماں کے ساتھ………یاد کرو تم نے میری معصوم بچی کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا………حرام زادے………میں تجھے عبرت کا نشان بنا دوں گا“
”کرنل حشمت خان چھوڑو میرے بیٹے کو……“ جمال رندھاوا نے غصے سے آگے بڑھتے ہوئے کہا ”جمال رندھاوا میں چوہدری ارشاد رندھاوا کو بھی جانتا تھا۔
اور تجھے بھی جانتا ہوں۔ مجھے خود یقین نہیں آ رہا ہے… کہ تیرا خون اتنا گندا ہو سکتا ہے…چوہدری ارشاد رندھاوا تو لوگوں کی بہو بیٹوں پر چادر ڈالنے والا تھا، تونے کسی پر عزت کی چادر تو نہیں ڈالی مگر کسی عورت کو ساری زندگی گندی نظر سے بھی نہیں دیکھا………پھر یہ سور کس کی اولا د ہے“ کرنل حشمت خان نے ایک اور زور دار تھپڑ شعیب کو مارا دائیں ہاتھ کے ساتھ اور بائیں ہاتھ سے اُس کا گربیان پکڑا ہوا تھا۔
” انکل بتائیں تو سہی آخر بات کیا ہے“ بلال نے تحمل اور ہمدردی سے کرنل حشمت خان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
کرنل کا غصہ دکھ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
”انسپکٹر اسے میری نظروں سے دور لے جاؤ“ پولیس کے آٹھ دس جوان کھڑے تھے اُن کے ساتھ آٹھ دس لوگ سادہ لباس میں تھے شاید خفیہ اداروں کے لوگ ہوں انہوں نے شعیب کو ہتھ کڑی لگائی اور وہاں سے لے گئے۔
”بلال بیٹا اس نے اور اس کے دوستوں نے میری پھول جیسی بیٹی سے زیادتی کی اور اُسے قتل کر کے کھیتوں میں پھینک دیا، بڑا ظلم کیا ہے، جمال رندھاوا کے بیٹے نے……“
کرنل روتے ہوئے بلال کے گلے لگ گیا چند منٹ بالکل خاموشی رہی صرف کرنل کے رونے کی آواز سے ہال اور کوریڈور میں جان تھی۔
”جمال یہ بھی تو تمہارا بھانجا ہے، میری بیوی بہو گھر میں اس کی مثال دیتی ہیں، میرے پوتے اور نواسے اسی کے اسکول میں پڑتے ہیں“
کرنل حشمت خان نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
اب وہ کوریڈور سے چلتا ہوا ہال میں پہنچ گیا وہاں جا کر کرنل صاحب کو نہ جانے کیا خیال آیا وہ رک گیا اور پیچھے مڑکر ناہید کی طرف دیکھا اور ایک نظر جمال پر ڈالی
”جمال اپنی بیوی سے پوچھنا ضرور، وہ سُور کس کی اولاد ہے………“
کرنل حشمت خان جاتے جاتے ناہید کو بہت بڑی گالی دے گیا تھا، سب خاموش تھے۔ کرنل کی گالی سُن کر بھی، جمال کے لیے آج قیامت کادن تھا، وہ طلاق دے کر بھی ذلت محسوس کر رہا تھا۔
وہ باہر کھلی فضا میں جانا چاہتا تھا وہ چلتا ہوا ہاسپٹل کے ہال سے باہر آگیا تھا۔ اُس کے سامنے اُترنے کے چار زینے تھے لان میں جانے کے لیے جو کہ مرکزی ہال کے بالکل سامنے ہی تھا۔
جب جمال نے پہلے زینے پر قدم رکھا اُ سکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جمال نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے کو پکڑا ، پھر بھی وہ اپنے دل کو نہیں سنبھال پایا ۔
دور اتنا شدید تھا کہ جمال رندھاوا گرتا ہوا سیڑھوں سے نیچے تھا۔ بلال کی نگاہیں مسلسل جمال کا تعاقب کررہیں تھیں۔ جب بلال نے جمال کو دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اُسی لمحے دوڑ لگادی تھی، جمال کی طرف تب تک بہت دیر ہو چکی تھی جمال زمین پرگر چکا تھا۔
جمال کو فوراً ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھوڑی دیر بعد سینئر ڈاکٹر نے آکر بتایا
”ہارٹ اٹیک تھا……… جو جان لیوا ثابت ہوا“ ڈاکٹر یہ بتا کر چلا گیا تھا
یہ سن کر جہاں آرا اور توشی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگیں، گل شیر خان بلال کے گلے لگ کر رو رہا تھا۔
محسن کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے شاید وہ بھی یا کوئی اُس کے ساتھ لپٹ کر روتا مگر وہاں تھا کوئی نہیں، ایمرجنسی کے باہر۔ محسن نے نوشی کو جمال کے اٹیک سے پہلے اور شعیب کو پولیس کے لے جانے کے بعد اُس کے بستر پر لٹا دیا تھا، ایک نرس کی مدد سے۔ (مگر ناہید کہاں ہے) محسن نے کہا۔ وہ بھاگتا ہوا کوریڈور میں آیا جہاں پر ناہید اسٹیل کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
اب وہ زمین پر گر چکی تھی اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔
محسن نے ناہید کو تھامتے ہوئے ”ایمرجنسی………ایمرجنسی………“ کی آواز لگائی تھی۔
ناہید پر فالج کا اٹیک ہو اتھا جس کی وجہ سے اس کی زبان بند ہو گئی تھی اور اُس کا دایاں حصہ مفلوج ہو چکا تھا۔یہ رات قیامت کی رات تھی، رندھاوا فیملی پر ،ایک رات کے اندر اندر ہی شعیب سلاخوں کے پیچھے جمال رندھاوا اگلے سفر پر روانہ ہو چکے تھے، اور ناہید ایمرجنسی کے بستر پر نہ مردوں میں اور نہ زندوں میں
###