Episode 49 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 49 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

بلال اپنی چھت پر گیا، پرندوں کو دانہ ڈالنے کے لیے وہاں پہلے سے توشی موجود تھی جوکہ پانی کی کنالیوں میں پانی ڈال رہی تھی۔ اُس نے دانہ پہلے ہی ڈال دیا تھا۔ اُس کے اِردگرد کافی پرندے دانہ چُن رہے تھے۔ بلال کو دیکھ کر توشی کھڑی ہوگئی اور اُس کی طرف آگئی، بلال اپنے گرین ہاوٴس کے پاس کھڑا تھا۔ بلال اُسے دیکھ کر خاموش رہا، توشی نے بات شروع کی۔

”جو پنچھی نفرت کی قید میں سالوں رہا ہو ……محبت کی فضاوٴں میں اُڑنا اُس کے لیے مشکل ہوتا ہے“ توشی بلال کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی۔ ”ویسے ڈنر کی آفر کس نے دی تھی۔“
”آپ کی بہن نے ……“ بلال نے ہری مرچ کے پودے سے ہری مرچیں توڑتے ہوئے جواب دیا۔
”آج کل ساری باتیں مان لیتے ہو میری بہن کی …… اور اپنے اصولوں کی پروابھی نہیں کرتے“ توشی ایسے بولی جیسے ساس اپنی بہو کو طعنہ دے رہی ہو۔

(جاری ہے)

بلال کھڑا ہوچکا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی باسکٹ تھی، جس میں تازہ دھنیا، پودینہ اور ہری مرچیں تھیں۔ وہ سمجھ گیا تھا توشی کا اشارہ کس طرف تھا۔ وہ نوین کی نوکری کی بات کررہی تھی۔ اُس کے کہنے پر انکار کردیا اور نوشی کے کہنے پر رکھ لیا۔
بلال توشی کی بات سُن کر مسکرایا۔
”محبت آپ کے اصولوں کو نہیں جانتی ……محبت کے اپنے اصول ہیں“ بلال نے جواب دیا۔
”میں اپنی بہن سے جیلس نہیں ہوں …… مگر تم سے گلہ ہے …… میرے کہنے پر انکار اور نوشی کا حکم سر آنکھوں پر ……“ توشی شکایتی نگاہوں سے بولی۔
”ہم دوستوں کو انکار بھی کرسکتے ہیں اور اُن کے ساتھ گلے شکوے بھی کرسکتے ہیں…… مگر ……محبت انکار نہیں سُنتی …… اور گلے شکوے محبت کو کھا جاتے ہیں ……“
بلال سمجھانے کے انداز میں بولا۔
”ڈاکٹر بٹ بالکل ٹھیک کہتے ہیں ……لفظوں کی جادو گری کوئی تم سے سیکھے …… مجھے بھی جیت لیا …… بغیر اپنی محبت کو ہرائے ہوئے “ توشی رشک سے بولی۔
”ویسے ایک بات ہے …… تم بڑی ہوگئی ہو“ بلال نے توشی کو دیکھ کر کہا۔
”اچھا ایک بات تو بتاوٴ …… تم نے نیناں کو پہلے کیوں نہیں رکھا تھا…… وجہ کیا تھی“
”توشی جی اُس کی آنکھیں بولتی ہیں ……“ بلال نے جواب دیا۔
”اچھا جی …… آنکھوں کی زبان پڑھ لیتے ہیں …… آپ …… اُس دن میری آنکھوں میں کیا پڑھ رہے تھے“ توشی نے شرارتی انداز میں پوچھا۔ 
”تمہاری آنکھیں تو معصوم ہیں …… اُن میں سچائی ہے …… مکاری نہیں ……“
”ڈاکٹر بٹ کی آنکھوں میں کیا پڑھا تم نے ؟“ توشی نے جلدی سے سوال کیا۔
”کیوں …… میں سمجھا نہیں …… “بلال نے پوچھا۔
”اُس نے مجھے پروپوز کیا ہے“ توشی گردن جھکائے بولی بلال خاموش رہا۔
”میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے اور تم بُت بنے کھڑے ہو“ توشی نے کہا۔
”ڈاکٹر بٹ اپنی والدہ کو رشتے کے لیے بھیجنا چاہتا ہے۔“
”مشورہ اپنے دل سے کرو اور فیصلہ دماغ سے …… اُس کے بعد اپنی پسند گھر والوں کو بتادو اور حتمی فیصلہ ماموں اور ممانی پر چھوڑ دو ……“
بلال نے اپنا نقطہ نظر بتادیا تھا۔
 
###
بلال کے آفس میں نوین کا آج پہلا دن تھا۔ نوین سانولی سلونی رنگت والی لڑکی تھی جوکہ کالی چادر سے حجاب کرتی تھی۔ صرف اُس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ نوین عرف نیناں زبان سے کم اور آنکھوں سے زیادہ بات کرتی۔
بلال کو نہ تو اُس کے پردے پر اعتراض تھا۔ اور نہ ہی اُس کے دیکھنے پر کھا جانے والی نظروں کے ساتھ وہ اس لیے بلال جب بھی عورتوں سے بات کرتا تو وہ اُن کی طرف بہت کم دیکھتا تھا۔
آج پہلے دن اُن کے درمیان بہت کم بات چیت ہوئی تھی۔
نیناں کی نسبت فوزیہ باتونی لڑکی تھی۔ وہ بلال سے خود باتیں کرتی رہتی اور بلال اُس کی باتوں کا جواب دیتا رہتا یا پھر صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا۔ 
###
”بیٹا آپ کو اِس لیے تکلیف دی کہ فوزیہ نے لیاقت علی سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے“
فوزیہ کی ماں خالہ ثریا نے بلال کو دیکھتے ہی کہہ ڈالا جو کہ گھر کے صحن میں ہی تھا اور فوزیہ کے کمرے میں جانے لگا تھا۔
خالہ نصرت لیاقت کی ماں نے گھر کا دروازہ کھولا تھا مگر وہ خاموش رہیں۔ بلال نے نظریں جھکائے اُن کی ساری بات سُنی اور خاموش رہا۔
”سر …… آپ …… یہاں ……“ فوزیہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔
”واپس چلا جاوٴ …… اگر فوزیہ جی آپ کو اچھا نہیں لگا تو ……“
”نہیں …… نہیں سر …… میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا …… میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا قسم سے …… سر …… قسم سے سچ “ فوزیہ نے اچھی خاصی صفائی پیش کی۔
 
بلال کرسی لے کر بیٹھ گیا فوزیہ کے بالکل سامنے، فوزیہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلال نے فوزیہ کے چہرے کا جائزہ لیا۔
”فوزیہ جی … کیسی طبیعت ہے ……آپ کی ……“ بلال نے پوچھا فوزیہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”سر …… قسم سے …… آپ سب کچھ دیکھ کر …… ایویں پوچھ رہے ہیں…… میں ٹھیک ہوں “
”تو پھر کل سے آفس آجاوٴ ……“ بلال نے سیدھا حکم دے دیا۔
”آفس کل سے …… مگر وہ …… میں نے آپ کو بتایا تو تھا۔ “ فوزیہ سوچ سوچ کر بولی۔
”ٹھیک ہے جب لیاقت علی آئے گا……تو مت آنا آفس“
”سر میں نے لیاقت کو آنے سے روک دیا ہے…… میں نے لیاقت کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گی……کبھی نہیں……“
فوزیہ سنجیدگی سے بولی۔
”ٹھیک ہے …… مت کرو شادی …… میں تو آفس آنے کی بات کہہ رہا ہوں۔
“ بلال نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ فوزیہ کے چہرے پر حیرانی واضح تھی۔ 
”آپ یہاں اس لیے آئے ہیں …… میں تو سمجھی تھی …… آپ کو امی نے بلایا ہے …… مجھے شادی کے لیے رضا مند کرنے کے لیے ……“
”مجھے کیا ضرورت پڑی ہے …… تمہیں شادی کے لیے رضامند کروں …… یہ تمہارا پرسنل میٹر ہے “ بلال نے بغیر تاثر کے کہا
”سر …… قسم سے …… مجھے نوکری بھی نہیں کرنی ہے “ فوزیہ کھوئی ہوئی بولی جیسے سوچ کچھ اور رہی ہو، کہہ کچھ رہی ہو دور سے امارات کے صحراسے ۔
”میں تو تمہیں اپنا دوست سمجھتا تھا…… خیر تم نے مجھے بھی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تمہاری مرضی “ بلال یہ سب کچھ بول کر کرسی سے اُٹھا جانے کے لیے۔
”اچھا …… فوزیہ جی میں چلتا ہوں۔“
”سر …… رکیں …… چائے تو پی کر جائیں ……“ فوزیہ عجلت میں بولی۔
خالہ نصرت چائے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ بلال واپس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔
خالہ نصرت چائے لکڑی کے اسٹول پررکھ کر کمرے سے واپس چلی جاتی ہے۔
”سر …… آپ نے تو میری جگہ …… کسی اور کو رکھ لیا ہے “ فوزیہ خفگی سے بولی۔
”رکھا ہے ایک لڑکی کو …… مگر تمہاری جگہ پر نہیں …… تمہاری جگہ کوئی دوسری لڑکی کبھی نہیں…… “ بلال چائے پینے میں مصروف تھا اور بالکل خاموش تھا۔ 
”سر آپ …… چُپ کیوں …… کیا مجھ سے ناراض ہیں “ فوزیہ فکر مندی سے بولی۔
”ناراض تو بالکل نہیں …… مگر میں سوچ رہا تھا …… ایک دوست کی جگہ اگر کوئی دوسرا نہیں لے سکتا …… تو محبوب کی جگہ …… کوئی کیسے …… خیر تمہارا نجی معاملہ ہے …… مجھے کیا کنسرن“
بلال فوزیہ کی طرف بغیر دیکھے بے فکری سے بولا۔
”مجھے لیاقت سے بدلہ لینا ہے …… اپنی بے عزتی …… اور اُس کی بے وفائی کا ……“
فوزیہ غصے سے چیخی بلال اپنی جگہ سے اُٹھا اور جاتے ہوئے فوزیہ کی طرف پشت کرکے رُک گیا، چند لمحے بعد بولا۔
”من کے میت کو مات نہیں دیتے“
بلال وہاں سے جاچکا تھا۔ گھر کے برآمدے میں فوزیہ کی ماں اور خالہ نصرت کھڑی ہوئیں سب کچھ سُن رہیں تھیں کیونکہ فوزیہ کے کمرے کا دروازہ کُھلا ہوا تھا۔ 
بلال کو دیکھ کر وہ دونوں اُس کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ بلال نے اپنی شہادت کی اُنگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی اور اُنہیں چُپ رہنے کو کہا اور آنکھوں سے تسلی دی اور وہاں سے چلا گیا۔
فوزیہ گُم سم اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اور اُس کے کانوں میں بلال کے الفاظ گونج رہے تھے۔ 
”من کے میت کو مات نہیں دیتے…… من کے میت کو مات نہیں دیتے ……“
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط