Episode 88 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 88 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

ارم شرمندگی کی تصویر بنے کھڑی ہوئی تھی۔ اس دوران وہ اپنی جگہ سے ایک انچ آگے پیچھے نہیں ہوئی تھی۔
”آپ چلے جائیں … یہاں سے ابھی اسی وقت۔ “ نوشی نے آخری فرمان جاری کر دیا۔ بلال نے نوشی کو آنکھ بھر کر دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔ نوشی جاتے ہوئے بلال کو دیکھ رہی تھی۔ بلال لاؤنج کے دروازے پر جا کر رُکا مڑا اور نوشی کو اُس کے پیروں سے چہرے کی طرف دیکھا نیچے سے اوپر کی طرف۔
نوشی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور اُس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں نمکین پانی سے جلن ہونے لگی۔ بلال نے نوشی کی طرف پہلا قدم اُٹھایا اُس کا وہ قدم 26 سال کی مسافت کے دوران شاید سب سے مشکل قدم تھا۔ نوشی نے اپنی جبین بلال کے قدموں کے سامنے جھکا دی نوشی اپنی طرف آتے ہوئے بلال کے قدم دیکھ رہی تھی۔

(جاری ہے)

نوشی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دھک دھک … دھک دھک۔

”اگر اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو میں کیا کروں گی… میں چلی جاؤں گی بلال کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے … مگر یہ تو … نہیں نہیں … اس نے اپنی بے گناہی ثابت تو نہیں کی … شک کا کالا ناگ پھنکارا … ماما کو چھوڑو … میں نے تو اسے خود یکھا تھا……نیناں کے ساتھ … میں کیسے یقین کر لوں … مجھے نہیں اعتبار بلال کی باتوں پر۔“
نوشی نے چند لمحوں میں اتنی ساری باتیں اپنے دل سے کر لیں تھیں۔
اب بلال اُس کے سامنے کھڑا ہوا تھا، دو فٹ کی دوری پر … بلال کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں، اور وہ نوشی کے قدموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نوشی کے نین بلال کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہے تھے، نوشی کا گلا خشک ہو گیا اور اُس کی آواز جیسے چھین لی گئی ہو۔ بلال اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنی محبت کے سامنے جھک گیا تھا۔بلال نے نوشی کے قدموں سے آگے … پڑا ہوا جائے نماز اُٹھایا … وہ جائے نماز اُسے بابا جمعہ نے تحفہ دیا تھا … جس سے بلال کو بڑی عقیدت تھی … بلال اپنی محبت کے سامنے جھکا ہوا تھا، اپنی عقیدت کی وجہ سے ہمیشہ سے ایسے ہی تھا۔
محبت کسی کو جھکاتی نہیں ہے، محبت تو اُٹھاتی ہے محبت سر جھکا کر نہیں سر اُٹھا کر کی جاتی ہے۔ محبت کسی تذلیل نہیں … محبت تو عزت ہے۔
بلال نے صحیح کہا تھا۔ محبت کے سر کی چادر … عزت ہے … عزت کے بغیر محبت بیہودہ ہو جاتی ہے۔بلال نے بابا جمعہ کے جائے نماز کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اپنی جبین سے لگا لیا۔
نوشی نے گردن جھکا کر دیکھا۔
بلال کی طرف جو اُس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ جائے نماز کو اپنے ماتھے سے لگائے ہوئے۔ بلال نے اپنی عقیدت کو ہونٹوں سے چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ نوشی کی آنکھوں سے رم جھم اشکوں کی بارش شروع ہو گئی، نوشی کے سارے آنسو بلال کے شانوں پر گر رہے تھے۔ بلال وہاں سے اُٹھا اور نوشی کے رُخسار کو دیکھے بغیر چلا گیا مڑ کر دیکھا بھی نہیں، نوشی کی طرف۔
بلال نے اپنی محبت سے منہ موڑ لیا تھا۔
باہر آسمانی بجلی چیخیں مار رہی تھی۔ اور بادل رو رو کر ہلکان ہو رہے تھے۔ تیز بارش ہو رہی تھی۔
بلال بارش میں بھیگتا ہوا اپنی گاڑی تک پہنچا گاڑی اسٹارٹ کی سیکورٹی گارڈ نے گیٹ کھول دیا، بلال نے گھر سے نکل کر پارک کے ساتھ گاڑی رُوک لی اور رندھاوا ہاؤس کو دیکھنے لگا سرخ عروسی لباس پہنے ہوئے یہ دلہن جس کی چھتوں سے گرتا ہوا پانی ایسے محسوس ہو رہا تھا۔
جیسے یہ دلہن آنسو بہا رہی ہو۔
بلال نے اس رندھاوا ہاؤس میں اپنی زندگی کے 25 سال اور 4 مہینے گزارے تھے۔ یہ دلہن رو رہی تھی۔ بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر مگر بلال کی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں نکلا تھا۔ بلال نے گاڑی اسٹارٹ کی اور چلا گیا تھا۔
###
 اللہ حافظ ……………… ماموں جان … تب تک میں جا چکا ہوں گا اس گھر سے جب آپ میرا یہ خط پڑھ رہے ہوں گے۔
یہ خط آج ہی میں نے عصر کی نماز کے بعد لکھا تھا، وجہ یہ تھی میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ میں آٹھ ماہ کا تھا جب میرے ابا فوت ہوگئے۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اس گھر میں آ گیا میں نے آپ کو ہی اپنا باپ سمجھ لیا اور ممانی جان کو ماں اور آپ دونوں سے محبت کرنے لگا۔ میں آپ سب سے محبت کرتا رہا اور آپ نے صرف ممانی جان سے محبت کی ایک شوہر کو اپنی بیوی سے محبت کرنی چاہیے مگر ایسے نہیں جیسے آپ نے کی۔
محبت روشنی کی طرف لے کر جاتی ہے مگر آپ ممانی جان کی محبت میں اندھے ہو گئے تھے۔ میاں بیوی کا رشتہ بڑا مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ آپ نے صرف ایک رشتے کو مقدم جانا اور ساری زندگی اُسی ایک رشتے کے حضور موٴدب کھڑے رہے۔آج ماموں جان میں صرف سچ بولوں گا، اور سچ بولنا بے ادبی نہیں ہوتی۔ممانی نے نانا جان سے بڑی بد تمیزی کی تھی، جس کی وجہ سے اُنہیں ہاٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اس دنیا سے چلے گئے وقت سے بہت پہلے مگر آپ ممانی کی محبت میں خاموش رہے کچھ نہ کہا۔
ممانی نے میری ماں پر جھوٹا الزام لگایا چوری کا وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکیں اور پاگل ہو کر مر گئی آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا آپ پھر سے خاموش رہے آج میرے ساتھ بھی ممانی نے گندا کھیل کھیلا مجھے پتہ ہے آج بھی آپ کچھ نہیں بول سکیں گے آپ جیسے لوگوں کو ہمارے معاشرے میں (رن مرید کہتے ہیں) جی ہاں جو روکا غلام اس گھر کے سارے فیصلے ممانی نے کیے اور آپ نے صرف تماشا دیکھا چپ چاپ۔
آج بھی وہ مجھے ذلیل کرکے اس گھر سے نکالنا چاہتی ہیں، اور آپ آج بھی تماشا دیکھیں گے آپ کی قابلیت پر مجھے پورا یقین ہے۔
میں یہ گھر چھوڑ کر 12 سال پہلے جا چکا ہوتا اگر نانو مجھے قسم دے کر روک نہ لیتیں، میں انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا، مگر وہ تیار نہیں تھیں۔ نانو کی قسم کے علاوہ میرے رکنے کی ایک وجہ اور تھی مجھے ڈر تھا، ممانی نانو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ویسا نہ کر دیں اگر نانو کے ساتھ کچھ ہو جاتا تو آپ اُسے بھی حادثہ سمجھ کر خاموش رہتے۔
ایک دفعہ ممانی نے میرے سامنے سے کھانا اُٹھا لیا تھا، اور مجھے بے عزت کیا اُس سے اگلے دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا آپ پھر بھی خاموش رہے۔
نانو کے کہنے پر آپ نے میری پاکٹ منی لگا دی ،آج سے 12 سال پہلے پھر آپ ہر مہینے مجھے ایک چیک دے دیتے ممانی سے چھپ کر۔ وہ چیک مجھے ہمیشہ خیرات کی طرح محسوس ہوئے ایک ڈر پوک جٹ کی خیرات جو بھیک دیتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔
آج وہ چوری سے دی ہوئی بھیک، آپ کو واپس کر کے جا رہا ہوں۔ پچھلے بارہ سال کے 144 چیک جو میں نے کبھی کیش ہی نہیں کروائے تھے۔
اتنے سالوں کے دوران جب کبھی آپ کو اس یتیم بچے کا خیال آتا تو آپ اسے اپنے بچوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر کھانا ضرور کھلا دیتے اور میں بھی چپ چاپ آپ کا دل رکھنے کی خاطر وہ کھانا کھا لیتا اُس کھانے کے ایک ایک نوالے پرممانی کی نظریں ہوتیں مجھے ایسا محسوس ہوتا اس کھانے سے زہر کھانا بہتر ہے۔
اُس کے علاوہ میں نے آپ کے گھر کا کبھی پانی بھی نہیں پیا تھا۔
ماموں جان ایسی باتیں ہمیشہ ماں باپ اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں۔ نانا جان کو تو میں نے دیکھا نہیں۔ نانو نے بھی کبھی آپ کو کچھ نہیں سمجھایا ہمیشہ خاموش رہیں ضرور کوئی وجہ ہو گی۔
آپ کی عظیم بہن کا نالائق بیٹا بلال احمد
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط