Episode 52 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 52 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”نہیں بیٹا ایسا کچھ نہیں ہے ہم دونوں مسلمان ہیں اور وہ مومن ہے۔ آج کا مومن۔ میں صرف اُسے آج کا مومن سمجھتا ہوں…… اور بس “ بابا جمعہ مسکراکر بولے ”اور مسلمان کو جس بات کی سمجھ نہ آئے اُسے مومن سے پوچھ لینی چاہیے۔“
”آپ جسے مومن کہہ رہے ہیں …… مجھے تو وہ بندہ مریض محبت لگتا ہے“ عادل عقیل نے دو ٹوک بات کردی ”25، 26 سال کی عمر میں 50 سال والی سوچ کا مالک ہے …… اُس کی زندگی بلیک اینڈ وائیٹ ہے۔
رنگوں سے خالی نہ تو وہ پارٹیز میں جاتا ہے اور نہ ہی شادیوں میں، دوست اُس کا کوئی ہے نہیں“
”عادل بیٹا وہ محبت کا مریض نہیں بلکہ مسیحا ہے محبت کا…… وہ دریائے نیل کی طرح ہے۔ دنیا کے تقریباً سارے دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں۔ دریائے نیل جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے“
”مطلب یہ کہ اُلٹا ہے بلال …… “ عادل عقیل عجلت میں بولا جیسے اُس کی من پسند بات کی ہو بابا جمعہ نے، بابا جمعہ اُس کی بات سُن کر مسکرائے۔

(جاری ہے)

”نہ تو دریائے نیل اُلٹا بہتا ہے اور نہ ہی بلال اُلٹا ہے …… وہ الگ ہے …… وہ گہرا ہے، وہ خاموش ہے …… وہ حکم ماننے والا ہے …… اور یہ ساری خوبیاں مومن ہی کی ہیں“
اقبال چائے لے کر آچکا تھا، اُس نے چائے عادل کے سامنے رکھ دی، عادل نے چائے ڈال کر بابا جمعہ کو دی اور کسی نئے سوال کی تلاش میں چائے پیتے ہوئے کھو گیا۔عادل نے چائے ختم کی اور اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا ظہر کی اذان ہونے والی تھی۔
 ”اچھا بابا جی مجھے اجازت دیں“ عادل نے اذان کی آواز سُنی اور اجازت مانگ لی
”عادل بیٹا رُکو …… “بابا جمعہ نے کہا اذان ہورہی تھی اذان ختم ہونے کے بعد بابا جمعہ بولے دُوبارہ سے ”تمہیں پتہ ہے کہ تم میں اور بلال میں کیا فرق ہے“ عادل نے نفی میں سر ہلادیا۔
”عادل بیٹا تم صرف اللہ کو مانتے ہو اور بلال صرف اللہ اور اُس کے محبوب ﷺکی مانتا ہے تم سوال تلاش کرنے میں دماغ لڑاتے ہو اور وہ جواب تلاش کرتا ہے…… 
تم صرف بولتے ہو …… اور وہ صرف سنتا ہے…… 
تم بے چین ہو …… اور وہ پُرسکون ہے…… 
تم محبت مانگتے ہو …… وہ محبت دیتا ہے …… 
تم حق مانگتے ہو …… اور وہ حق دیتا ہے …… 
تم اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنا چاہتے ہو …… وہ چھوٹا بن کر بھی عظیم بن جاتا ہے۔
تمہارے پاس جو کچھ ہے تمہارے باپ کی کمائی ہوئی دولت سے ہے …… اُس نے سب کچھ خود کمایا ہے عزت …… نام …… روپیہ …… اور عاجزی …… اور یہ عاجزی اللہ کے سامنے جھکنے سے نصیب ہوتی ہے، اُس کے بلانے سے بھاگنے پر نہیں…… وہ کہتا ہے آوٴ کامیابی کی طرف مگر ہم ناکامی کی طرف جاتے ہیں“
عادل عقیل منہ کھولے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ دوٹوک بات کرتا مگر آج بابا جمعہ کی حقیقت پر مبنی باتوں نے اُس کے طوطے اُڑادیئے تھے۔
”اگر میری کوئی بات بُری لگی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں“ بابا جمعہ نے کہا اِس کے بعد اُس کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے۔
”مسلمان سے مومن کی طرف پہلا قدم اُٹھاوٴ اور وضو کرو اور اللہ کے حضور عاجزی کا پہلا سجدہ کرو، عاجزی والا سجدہ کرو“ بابا جمعہ نے عادل عقیل کے سر پر ہاتھ پھیرا محبت سے اور اُس کی پیشانی کا بُوسہ لیا۔
نماز پڑھ کر عادل مسجد سے نکلا تو وہ خاموش تھا۔ بابا جمعہ آگئے تھے اور وہ پیچھے تھا۔ وہ خاموشی سے اُن کے پیچھے چل رہا تھا۔ بابا جمعہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے انہوں نے پیسے دیے۔
”روٹیاں لے آوٴ“ بابا جمعہ بولے تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اقبال چائے والا سالن گرم کرکے لے آیا تھا۔ عادل اب بھی خاموش تھا۔ وہ تینوں کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔
آلو میتھی اور ساتھ پودینے کی چٹنی ایسا ذائقہ عادل کو کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ عادل عقیل جس کا لنچ دس طرح کے کھانوں سے ہوتا تھا آج ایک موچی اور چائے والے کے ساتھ آلو میتھی اور پودینے کی چٹنی کھارہا تھا وہ بھی نالے کے اوپر بیٹھ کر رستے میں، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اُس نے بابا جمعہ سے اجازت مانگی اور اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔ سڑک کے دوسری طرف جہاں بلال کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔
وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اس دوران میں ایک بچہ اپنا جوتا مرمت کروانے کے لیے بابا جمعہ کے پاس آگیا بابا جمعہ نے اُس کا جوتا مرمت کرنا شروع کردیا۔
عادل عقیل اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بابا جمعہ کو دیکھ رہا تھا اور سینٹر والے مرر میں اپنی پیشانی کا جائزہ لے رہا تھا جہاں بابا جمعہ نے شفقت کا بوسہ دیا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جو سجدہ کرتے ہوئے زمین پر لگتی ہے۔
اُس کے کانوں میں بابا جمعہ کے میٹھے الفاظ دستک دے رہے تھے اور اُس کے منہ میں آلو میتھی کا ذائقہ تھا۔ اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور جاتے ہوئے بابا جمعہ کو عقیدت کاسلام پیش کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ 
###
”میں نے جس کو دیکھا پالیا مگر تم نے میری ایگو کو ہرٹ کیا، میرے غرور کو للکارا خیر اب تم میری ہو صرف میری“ طلحہ نقوی نے ڈاکٹر منال نقوی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے فخر سے کہا، وہ دونوں جیل روڈ پر ایک مشہور ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
”کبھی تمہارے ساتھ بھی زندگی میں ایسا ہوا ہے تمہیں کوئی پسند آیا ہو اور اُس نے تمہیں لفٹ نہ کروائی ہو“ طلحہ نقوی نے منال نقوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
”زندگی میں صرف ایک بار“ ڈاکٹر منال نے ریسٹورنٹ کے ایک کونے کی طرف دیکھ کر کہا جہاں ایک ٹیبل پر ایک خوبصورت کپل بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر منال کے گال خوشی سے لال تھے۔
”تمہیں کسی نے لفٹ نہ کرائی ہو …… امپاسبل“ طلحہ نقوی حیرت سے بولا ۔
”اچھا ایک بات بتاوٴ میں نے تمہیں Propose کیا تھا، اور تم ایموشنل ہوگئی تھی اور اگلے دن خود ہی ایگری ہوگئی مجھ سے شادی کے لیے “ طلحہ نے پوچھا۔
”میں نے غصہ اِس لیے کیا تھا دو دن پہلے ہی بلال نے مجھے لفٹ نہیں کروائی تھی۔ آپی مجھے ملوانے لے گئیں تھیں اور پھر مان اس لیے گئی کہ تم نے سچ بولا اپنے ماضی کے بارے میں پہلی ہی ملاقات میں اور جب تم نے مجھے Proposeکیا تو تمہاری آنکھوں میں سچائی تھی وہ سچائی جو میں نے بلال کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔
بلال نے مجھے حقیقت سے ملوادیا میں یہ سمجھتی تھی کسی بھی مرد کو پیچھے لگایا جاسکتا ہے، مگر میں غلط تھی اگر اُس وقت میرے ساتھ وہ یہ رویہ نہ اختیار کرتا تو شاید مجھے تم نہ ملتے اور میں تمہارے حق میں فیصلہ نہ دیتی میں دماغ سے آئیڈیل تلاش کررہی تھی مگر پھر میں نے دل کا حکم مانا اور میرے دل نے تمہیں دیکھ کر کہا یہی ہے وہ جس کی تمہیں تلاش تھی“
منال نے طلحہ کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”طلحہ تم سے کہیں زیادہ مجھے تم سے محبت ہے“ طلحہ نے اِردگرد دیکھا۔
”ریسٹورنٹ ہے“ منال کو ہاتھ سے ہلایا ”میں اُس بندے سے ملنا چاہوں گا۔“
”بلال سے …… “منال نقوی نے جلدی سے کہا
”ہاں …… بلال سے …… “طلحہ نقوی نے جواب دیا۔
”چلو پھر اُٹھو …… ابھی ملتے ہیں …… “ منال نقوی نے طلحہ کا ہاتھ پکڑا اور کونے میں لگے ٹیبل کی طرف لے گئی جہاں بلال اور عظمی افگن بیٹھے ہوئے تھے۔
”ہیلو بلال …… “منال نے جاتے ہی کہہ دیا ”ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں“ بلال اُن کو دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا ”میرے ہسبینڈطلحہ نقوی اور یہ میرا دوست بلال احمد دوست کہہ سکتی ہوں تمہیں“ منال نقوی نے ایک نظر عظمی پر ڈالی اوپر سے نیچے تک ۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط