مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر وہ دونوں کھانا کھانے میں مصروف تھے، روزہ انہوں نے پھل اور کھجوروں سے کھولا تھا اور اب وہ دونوں خمیری افغانی روٹی کے ساتھ پیاز گوشت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
یہ چھوٹی سرخ اینٹوں کا دو منزلہ گھر تھا، پیچھے دو کمرے، برآمدے کے بغل میں رسوئی، اس سے آگے بیٹھک جس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا ہے اور ایک گھر کے آنگن میں، گھر میں داخل ہوں تو بڑا لکڑی کا دروازہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
صحیح کہتے ہیں کہ گھر کا دروازہ ماتھے کا جھومر ہوتا ہے اندر داخل ہوں تو سیڑھیوں کے نیچے طہارت خانہ جس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو گھر کا چوبارہ آپ کا استقبال کرے گا، چوبارہ گلی کی طرف بنا ہوا تھا۔
یہ خوبصورت مکان کسی سکھ سردار نے غدر سے پہلے بڑے شوق سے بنوایا تھا اب یہ بابا جمعہ کی ملکیت ہے۔
(جاری ہے)
مکین کون ہوا ہے …اور مکان کس کا تھا…گھر کے آنگن میں بہت سارے پھولوں کے پودے گملوں میں سجے ہوئے تھے گھر میں ہمیشہ بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی، کچھ تو پھولوں کی تھی اور کچھ ایمان کی خوشبو۔ بابا جمعہ کہتے سب سے اچھی خوشبو ایمان کی ہوتی ہے۔
”آپ کو لگتا ہے …مزہ نہیں آیا…“بلال نے مٹی کی پلیٹ میں پیاز گوشت ڈالتے ہوئے بابا جمعہ سے کہا جو کہ اپنی مٹی کی پلیٹ بالکل صاف کرچکے تھے،
”بلال تم بناؤ…پیاز گوشت اور مزہ نہ آئے…یہ کیسے ہوسکتا ہے…“بابا جمعہ مسکراتے ہوئے بولے”مگر بات یہ ہے بھوک مرنے نہ دو…“
”میں سمجھا نہیں…“بلال نے تجسس سے پوچھا۔
”مزہ بھوک کو زندہ رکھنے میں ہے…بھوک کو ختم کرنے میں نہیں، بھوک زندہ رکھو اور لالچ کو ختم کردو“
بلال اپنا کھانا ختم کرچکا تھا، اس نے برتن اٹھائے دسترخوان سمیٹا اور چٹائی کو لپیٹ کر رکھ دیا، اور ہاتھ دھوکر آچکا تھا، بابا جمعہ اپنے پلنگ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اوپر انہوں نے ایک گرم لوئی لی ہوئی تھی۔ بلال ان کے سامنے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”بلال صاحب کمزور انسان بھوک سے مرجاتا ہے راہب اور جوگی…بھوک مار دیتا ہے…مومن کی بھوک ہمیشہ زندہ رہتی ہے…بھوک نیکی کرنے کی، اچھائی، صدقہ ، خیرات، بھلائی کرنے کی…اگر پیٹ کی بھوک کی بات ہو تو اسے بھی زندہ رکھو ختم نہ کرو صحت مند رہوگے۔“
###
وہ دونوں سرونٹ کواٹر میں ایسے کھانا کھارہے تھے جسے باراتی کھاتے ہیں، حق سے رعب سے منہ کھول کر دھڑلے سے اسی وقت باجی غفوراں اندر داخل ہوتی ہے۔
”وے رج کے کمینیو…خصماں نوں کھانے…اِدھر غرق ہوئے نیں …میں نے سارا گھر چھان مارا…“باجی غفوراں بول رہی تھی ۔
”باجی آجا…بڑا مزیدار سالن ہے …“SMSنے دعوت دی۔
”تم دونوں سے کچھ بچے گا…تو کھالوں گی “باجی غفوراں نے جواب دیا۔
”بلال صاحب نے تو …عیاشی کروادی“DJنوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
”بلال نے پکایا ہے …“باجی غفوراں نے محبت سے پوچھا۔
”اگر بلال نے پکایا ہے تو آدھی روٹی کا سالن چھوڑ دینا“
مگر ان دونوں نے پلیٹ صاف کردی، باجی غفوراں نے دیکھ کر کہا۔
”شودے نا ہون تے…“
”یار …DJ…مزہ آگیا“SMSنے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
”واقعی مزہ آگیا…“DJڈکار لیتے ہوئے بولا۔ ”بلال صاحب کے ہاتھ چومنے کو دل کرتا ہے“
”وڈے ہیجلے…بلال کے …اک جاسوس…اور دوسرا چمچہ…“باجی غفوراں نظروں سے تیر چلاتے ہوئے بول کر چلی گئی وہاں سے۔
جب باجی غفوراں پورچ کے پاس سے گزر رہی تھی تو بلال گاڑی سے اتر رہا تھا۔
”باجی آپ…میرے کمرے میں آئیں…“بلال جاتے ہوئے بولا اپنے کمرے کی طرف ۔ باجی غفوراں بلال کے پیچھے اس کے کمرے میں پہنچ گئی۔
”باجی وہ فریج میں آپ کے لیے پیاز گوشت رکھا ہے…وہاں سے لے لیں“بلال وارڈ روب سے کپڑے نکال کر واش روم جاتے ہوئے بولا۔
باجی غفوراں چند منٹ اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں بلال کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہی ہوں اتنی میں بلال کپڑے چینج کرکے آچکا تھا۔
باجی غفوراں بلال کی موجودگی سے بے نیاز اسی جگہ کو دیکھ رہی تھیں۔
”باجی…کہاں کھوگئیں…آپ…خیریت تو ہے…“بلال مسکرا کر بولا۔
”کچھ نہیں بیٹا…سوچ رہی تھی …آج باجی جمیلہ زندہ ہوتیں تو تمہیں دیکھ کر بڑا مان کرتیں“حسرت بھری آواز سے باجی غفوراں بولی۔
”باجی اس کی نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے…مان نہیں…“
”بیٹا…تو بھی بڑا اور تیری باتیں بھی…ہمارے گاؤں میں بڑے میاں جی ہوتے تھے …بڑے سیانے بڑے نیک…جس کو پھونک مار دیتے وہ ٹھیک ہوجاتا …پر تو…تو بغیر پھونک کے ہی…بندے کو ٹھیک کردیتا ہے “
###
”پھر بلال نے کہا فوزیہ کو وہ فرض تو معاف کردیتا ہے …مگر قرض نہیں …“توشی سارے دن کا احوال دادی کو سنارہی تھی، آج اس نے دادی کی ٹانگوں کی مالش بھی کی۔
”نوشی کہاں ہے …“دادی نے پوچھا۔
”وہ ماما کے ساتھ کسی پارٹی میں گئی ہے …“توشی نے بتایا ”کل ہم بھی تیل مہدی پر جوہر ٹاؤن جارہے ہیں “
”جوہر ٹاؤن کون ہے …جس کی تیل مہدی پر جارہے ہو“دادی نے پوچھا۔
”دادو وہ ہماری کلاس فیلو ہے…اس کی شادی ہورہی ہے “
”اور کون…کون جارہا ہے “دادی نے فکر مندی سے پوچھا۔
”میں اور نوشی…DJبھی ساتھ ہوگا۔ “
”بیٹا کوئی سیانا ساتھ ہونا چاہیے… “
”DJساتھ ہے نا …دادو…“
”جھلی نہ ہوئے تے…بھلا DJکب سے سیانا ہوگیا…سیانا بیٹا جیسے گل شیر خان جیسے بلال…“
”دادو اور پاپا…“توشی نے پوچھا۔
”بیٹا تو وہ میرا ہے …مگر سیانا نہیں…لائی لگ ہے…اور لائی لگ اپنی عقل کم اور دوسرے کی بات زیادہ مانتے ہیں…وہ تو اللہ کا کرم ہوگیا…گل شیر خان جیسا ایماندار بندہ مل گیا…تیرے باپ کو ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا…فون آیا تھا…دو تین دن میں آجائے گا …تیرا باپ …“اتنے میں بلال کمرے میں داخل ہوتا ہے۔
”دادو میرا موبائل روم میں پڑا ہے…میں لے کر آتی ہوں…“توشی جاتے ہوئے بولی۔
”کس سے ملا کر لائے ہو …اسے…جب سے آئی ہے …آنٹی عذا ایسی ہیں انہوں نے یہ کہا …ڈاکٹر بٹ ایسا ہے…بڑے اچھے ہیں وہ لوگ “نانی نے بلال سے پوچھا۔
”نانو…وہ میرا کلاس فیلو تھا کالج میں پھر وہ چائنہ پڑھنے کے لیے چلا گیا آج اچانک ملاقات ہوئی“
”حیرت ہے …تمہارا بھی کوئی دوست ہے “
”نہیں وہ…دوست تو …ہاں دوست ہے “بلال سوچ کر بولا۔
”کیسا ہے…گھر بار…دیکھنے میں…خاندان…لوگ کیسے ہیں “نانی نے سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
”ڈاکٹر ہے …دیکھنے میں خوبصورت ہے …شریف لوگ ہیں…اور خاندانی بھی “بلال نے ساری تفصیل بتائی۔
”باپ کیا کرتا ہے…کتنے بہن بھائی ہیں…رہتے کہاں ہیں…“نانی نے پھر سے تفصیل پوچھی۔
”باپ تو فوت ہوچکا ہے…لوہے کا کاروبار کرتا تھا …دو بڑے بھائی ہیں شادی شدہ…اور شادباغ کے رہنے والے ہیں “
شادباغ کا نام سن کر نانی اور بلال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر فوراً نظریں چرالیں ایک دوسرے سے جیسے دونوں کے زخم ہرے ہوگئے ہوں۔
اتنے میں توشی کمرے میں واپس آجاتی ہے خاموشی دیکھ کر بول پڑی۔
”یہ لو…خیریت تو ہے …آپ دونوں اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں…دادو میرا ڈریس…عذرا آنٹی نے دیا ہے“
”سوٹ تو بڑا خوبصورت ہے …اور مہنگا بھی لگتا ہے…“دادی نے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں مجھے یاد آیا…وہ ایک کام تھا …تم سے …“توشی بولی عجلت میں۔
”جی…حکم…فرمائیے“بلال دھیمے لہجے میں بولا۔
”میری ایک دوست ہے …اسے نوکری چاہیے…ٹیچر ہے…بی ایڈ کیا ہوا ہے “
”کیا شادی شدہ ہے ؟“بلال نے پوچھا۔
”پتہ نہیں…“توشی نے گردن ہلا کر جواب دیا۔
”اور وہ تمہاری دوست ہے …تمہیں پتہ ہی نہیں اس کے متعلق “بلال نے حیرت سے کہا۔
”مسٹر بلال تمہاری سائیکی تم ہی جانو۔
کل میں اسے تمہارے آفس بھیج رہی ہوں میں وعدہ کرچکی ہوں…یاد رکھنا…دادو اسے سمجھادیں…ورنہ …میں…“توشی بلال کو انگلی دکھا کر مصنوعی غصے سے چلی گئی۔
”رکھ لینا بیٹا …کیا فر ق پڑتا…وعدہ کربیٹھی ہے “نانی نے بھی سفارش کردی۔
”نانو…وہ تو ٹھیک ہے …فرق مجھے تو کوئی نہیں پڑتا…مگر اسکول کا معاملہ ہے…جوان بچیاں پڑھتی ہیں…لوگ اعتماد کرتے ہیں…بھروسہ کرتے ہیں ۔ …ایک گندی مچھلی…خیر صبح دیکھتے ہیں “بلال ایک زیرک انسان کی طرح بول رہا تھا۔
###