تم نے میرے سارے ڈر سارے خدشے دور کر دئیے ہیں، مجھے تم پر پورا اعتماد ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو صرف میری خوشی کے لیے، پلیز میری بات مان لو“ نوشی نے محبت سے کہا تھا۔
”میری ایک شرط ہے، میں تمہارے گھر نہیں رہوں گا، اور یہ قرض ہو گا جو میں واپس کروں گا، جیسے ہی میرا بزنس سیٹ ہوتا ہے، ہم دونوں دبئی شفٹ ہو جائیں گے………اس طرح میری اپنے باپ پیردادو ہاشمی سے بھی جان چھوٹ جائے گی، اور اُن کی گدی سے بھی جب بھی ملتے ہیں۔
بیٹا گدی سنبھالو گدی سنبھالو میں تنگ آگیا ہوں یہ سن سن کر میں نے گلبرگ میں ایک اپارٹمنٹ دیکھا ہے، کل ہم وہاں شفٹ ہو رہے ہیں۔“ ولید اور نوشی کی اس گفتگو کے دوران جمال کی نوشی کو کال آئی تھی۔
”ہیلو پاپا بہت لمبی عمر ہے آپ کی ابھی میں ولید سے آپ کا ذکر کر رہی تھی“ نوشی نے جمال سے خوشی خوشی بات کی تھی۔
(جاری ہے)
”نوشی بیٹی تمہاری آواز سن کر مجھے سکون مل گیا ہے میں پرسوں امریکہ جا رہا ہوں اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کل رات کا ڈنر ہم سب اکٹھے کریں تم دونوں کی شادی کے بعد سے تم بہنوں کو اکٹھے نہیں دیکھا ہے، اسی لیے میں نے توشی اور محسن کو بھی بلا لیا ہے گھر پر………نوشی بیٹی ولید سے بات کرواؤ……“
”ہیلو انکل کیسے ہیں آپ میں نوشی کو بتا رہا تھا، آپ بزنس میں میرے آئیڈیل ہیں“
”THANK YOU بیٹا، اچھا کل رات کا ڈنر میرے ساتھ گھر پر“ جمال نے ولید سے کہا
”جی ضرور انکل جیسے آپ کا حکم“ ولید نے جمال کو اچھے تابعدار داماد کا تاثر دیا تھا”مگر کل توہم نے گلبرگ شفٹ ہونا تھا“ نوشی نے یاد کروایا ولید کو
”ہم پرسوں شفٹ ہو جائیں گے، انکل کے جانے کے بعد، انکل نے اتنی محبت سے بلایا ہے“ ”ولید واقعی ماما کا انتخاب لاجواب تھا، تم بہت اچھے ہو، میری سوچ سے بڑھ کر“ نوشی پوری طرح ولید کے جال میں پھنس گئی تھی۔
سب کچھ ولید کے پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔ ایک ایک بات ارم اور ولید نے ڈسکس کی تھی نوشی سے متعلق
”نوشی اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تمہارے گھروالوں کو پتہ چل گیا تو میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کروں گا“ ولید نے اپنے بنائے جال پر ایک اور گرہ لگائی ۔ ”ولید مجھے تو تم پر پورا اعتماد ہے، تم بھی یقین کر لو مجھ پر، یہ بات میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔
“
نوشی نے ولید کو یقین دلایا ولید کے چہرے پر جیت کی مسکراہٹ اُبھری اُس نے نوشی کو گلے لگا لیا تھا ”نوشی مجھے بھی تم پر پورا اعتماد ہے“ ولید نے گلبرک والا فلیٹ نوشی ہی کے نام پر خرید رکھا تھا نوشی کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے ۔
###
ڈنر سے فارغ ہونے کے بعد گھر کے سب افراد لان میں بیٹھے ہوئے تھے 29 جون بروز اتوار 2014 رات کے 10 بج رہے تھے۔
جمال رندھاوا نے گل شیر خان کو آواز لگائی گل شیر خان نے دو لفافے سامنے پلاسٹک کی میز پر رکھے اور واپس چلے گئے وہاں سے۔
”میرے ابّا جی سب لوگوں سے کہتے تھے، کہ اپنی بچیوں کو وارثت سے حصہ دو، جہیز مت دو۔ اسی لیے میں نے اپنی بیٹوں کو اُن کا حصہ شادی سے پہلے ہی دے دیا تھا۔“ جہاں آرابیگم کے چہرے پر ایک طنز یہ مسکراہٹ اُبھری اپنے بیٹے جمال کی بات سُن کر مگروہ خاموش رہی کیونکہ جمال اپنے دامادوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
”یہ بیٹا تم دونوں کے لیے میری طرف سے سلامی ہے۔ یہ دو چیک ہیں، ایک ایک کروڑ کے ایک ولید بیٹا تمہارے لیے اور دوسرا محسن بیٹا تمہارے لیے“
محسن نے یہ بات سن کرتوشی کی طرف دیکھا جو اپنی دادی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ توشی نے اپنی دادو کی طرف دیکھا جنہوں نے آنکھ سے ہاں کا اشارہ کر دیا تھا۔ توشی نے بھی محسن کو چیک لینے کا اشارہ دے دیا، آنکھوں ہی آنکھوں میں ناہید یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ولید نے یہ سن کر اپنی ساس ناہید کی طرف دیکھا، جس نے نہیں کا اشارہ دیا نوشی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
جسے اپنی ماں کے حکم کی خبر ہو چکی تھی۔ مگر وہ خاموش رہی۔ جمال نے پہلے وہ لفافہ جس میں ایک کروڑ کا چیک تھا۔ ولید کی طرف بڑھایا جو کہ جمال کے دائیں ہاتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا۔
”سر مجھے صرف آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، اس سلامی کی نہیں، یہ میں نہیں لے سکتا“ ولید نے دو ٹوک بات کر دی اور وہ چیک نہیں پکڑا جمال نے وہ چیک میز پر رکھ دیا جمال نے دوسرا لفافہ اُٹھایا، اور محسن کی طرف کر دیا جو کہ جمال کے بائیں طرف بیٹھا تھا۔
”ولید نے صحیح کہا ہے انکل ، آپ کی دعائیں زیادہ اہم ہیں ، اس چیک کے مقابلے میں یہ چیک میں آپ کی بیٹی کے کہنے پر لے رہا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے ولید جتنی دعا تو آپ میرے لیے بھی کریں گے۔
توشی اگر نہ بھی کہتی پھر بھی میں یہ رکھ لیتا ۔ میرا دوست بلال کہتا ہے، کسی کی محبت کو انکار مت کرو، اور مانگو صرف اللہ سے کیونکہ دینے والا صرف وہ ہے۔
انکل آپ کی محبت سمجھ کر یہ چیک میں لے رہا ہوں۔ جس کی وجہ سے آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یعنی آپ کی بیٹی یہ رقم میری امانت ہے اُس کے پاس مجھے جب بھی ضرورت ہو گی میں اپنی بیوی سے یہ رقم لے لوں گا۔ توشی جی یہ رقم میری ہے، اور آپ کے پاس امانت کے طور پر پڑی ہے“
محسن نے SMS کو اشارہ کیا جو آئس کریم کی ٹرے لے کر آیا تھا۔ SMS نے وہ چیک لفافے سمیت توشی کو پکڑا دیا محسن سے لے کر سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
آئس کریم کھانے کے بعد سب جا چکے تھے۔ صرف جہاں آرابیگم لان میں بیٹھیں تھیں۔ اور وہ بلال کے روم کو دیکھ رہیں تھیں۔ اور اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ SMS نے جا کے جمال کو اطلاع دی تھی کہ بڑی بیگم صاحبہ ابھی بھی لان میں ہی بیٹھیں ہیں ”چلیں ماں جی اندر چلیں بہت رات ہو گئی ہے“ جمال نے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے کہا تھا۔
”بیٹا تو صرف اپنی بیوی کی کہی ہوئی باتیں یاد رکھتا ہے، آج اپنے باپ کی بات تجھے کہاں سے یاد آگئی،ا ور میری بات تم ایک کان سے سنتے ہو اور دوسرے سے نکال دیتے ہو۔
“
”ماں جی میں نے وہ 50 ایکٹر زمین خریدی ہے، آپ بلال کو بلائیں اُس کے نام پر میں رجسٹری اور انتقال کروا دیتا ہوں“
جمال رندھاوا وہ 50 ایکٹر تجھے مبارک میں نے بلال سے بات کی تھی اُسے وہ زمین نہیں چاہیے اُس نے جاتے ہوئے تیری خیرات تجھے واپس کی یا نہیں؟ بیٹا جس دن تو نے پہلا چیک اپنی بیوی سے چھپ کر دیا تھا، اُس نے اُسی دن وہ چیک مجھے واپس کر دیا تھا، میں نے لینے سے انکار کیا تو بولا نانو میں ماموں جان کا دل رکھنے کے لیے یہ چیک لیتا رہوں گا مگر کیش کبھی نہیں کرواؤں گا۔
ایسا ہی تھا ورنہ میرا بچہ اتنی تنگی سے گزارا نہ کرتا……… جمال رندھاوا تیرا باپ کہا کرتا تھا۔ عورت کی طرح مرد بھی چار رشتے نبھاتا ہے……… نہ تو جمال تم اچھے بیٹے بن سکے، اور نہ ہی اچھے بھائی، توشی کے علاوہ تیرے دونوں بچوں کا اللہ ہی مالک ہے۔ ہاں بیوی کی جی حضوری میں تم نے حق ادا کر دیا ہے۔ تیرے باپ کی کہی ہوئی بات تم نے ایمانداری سے ثابت کی ہے“
”ماں جی باتوں سے گزارا نہیں ہو گا جوتا پکڑیں اور اس رن مرید کو ماریں………“
جمال رندھاوا روتے ہوئے اپنی ماں کے قدموں میں گر گیا تھا۔
جمال رندھاوا زور زور سے رو رہا تھا۔
جہاں آرا کی ممتا جاگ اُٹھی، انہوں نے جمال کو اُٹھایا اپنے قدموں سے اور اپنے سامنے کرسی پر بیٹھایا۔
”جمال اب بھی اپنے گھر کو بچا لو، میں مزید چوکیداری نہیں کر سکتی۔ تمہارے بیٹے کے لچھن ٹھیک نہیں ہیں۔ میں کل بلال کے پاس جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے“ جہاں آرابیگم نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
###