Episode 2 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 2 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

بلال وہ اک نام جو اس کی سوچ کی پتھریلی زمین پر، پتھر پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح نقش ہے، وہ نام جسے وہ اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتی تھی ۔ اب اس کی زبان کا کل اثاثہ ہے‘ وہ ایک ہی ورد جھپتی ہے، صبح ہو یا شام بہار ہو یا خزاں اس کے ہونٹوں پر وہی ایک نام ہے، باقی سب کچھ وہ بھول چکی ہے‘ قحط کے دنوں میں میلوں دور تک پھیلے ہوئے ریگستان میں پانی کے آخری کنوئیں سے جیسے زندگی کو امید وابستہ ہوتی ہے۔
اسی طرح وہ نام اس کی زندگی میں پانی کا آخری کنواں ہے، جس سے اس کی زندگی سیراب ہوتی ہے ۔ 
جس نام کا مطلب وہ پوچھا کرتی تھی، اب اسی کا وظیفہ کرتی ہے، اور وہ نام ہے بلال……
وہ جو رنگ و نور کی دنیا میں رہتی تھی، وہ جو رنگوں کو رنگین کردیتی، جسے اپنے حسن پر ناز تھا اور اپنے حسب و نسب پر فخر تھا، اپنی دولت پر اتراتی پھرتی تھی، چاند سا چہرہ تھا، مگر اس میں تپش سورج جیسی علم واجبی تھا اور دانش واجبی سے بھی کم، جاذب نظر اتنی کہ نظر اس کے حضور موٴدب کھڑی رہتی اس کی دلفریبی دیکھ کر اکثر دل فریب کھاجاتے، 
خوشبو کی دلدادہ تھی خوشبو کی دکان میں جاتی تو اپنی خوشبو چھوڑ آتی، اس کا پہناوا دیکھ کر لڑکیاں نقل کرتیں، اس کی وارڈ روب کپڑوں سے فل تھیں، ڈریسنگ ٹیبل پر پرفیوم کی بوتلوں کا قبضہ تھا، جوتوں کا شمار کرنا مشکل تھا۔

(جاری ہے)

 
اس کا کمرہ تتلی سے زیادہ رنگین تھا، لبرل سوچ کی وہ مالک تھی اختصار جس کے پاس سے نہیں گزرا تھا، لیونگ سٹینڈرڈ اپر کلاس والا، پارٹیز میں جانا ڈنرز انجوائے کرنا، فیشن شوز ایگزی بیشن اور کنسرٹ جس کی زندگی تھے۔ 
پھر اس کی زندگی میں ایک تلاطم آیا، یکایک سب کچھ بدل گیا، ان سب نعمتووں سے اس کی علیک سلیک ختم ہوگئی اب 12بائی 14کا کمرہ اس کا مقدر ہے اور یہی اس کی دنیا ٹھٹھرتی راتوں اور پگھلتی دوپہروں میں وہ اکیلی ہے اس کا مال و متاع اس کے کسی کام کا نہیں رہا، وہ خالی خالی نظروں سے دیواروں کو دیکھتی رہتی ہے جن کا کلر آف وائیٹ ہے سفید لباس میں ملبوس جس سنگل بیڈ پر وہ بیٹھی ہے اس کا تکیہ اور بیڈ شیٹ بھی سفید ہیں۔
جنوبی دیوار کی جانب پشت کرکے وہ اپنے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی شمالی دیوار پر اٹیچ باتھ کے دروازے کے اوپر لگی ہوئی پینٹنگ کو دیکھتی رہتی ہے ۔ 
شمالی دیوار پر باتھ روم کے ساتھ 4بائی 6کی کھڑکی ہے، کھڑکی کے نیچے ونڈو ACلگا ہوا ہے۔ ACسے پہلے بلیک لیدر کا لباس پہنے ایک صوفہ پڑا ہوا ہے۔ بیڈ کے دائیں ہاتھ کمرے کا داخلی دروازہ اور بائیں ہاتھ ایک سائیڈ ٹیبل پڑا ہوا ہے، ایک ٹیوب لائٹ اور ایک سفید پنکھا ہے۔
کھڑکی پر لگے پردوں کا رنگ بھی آف وائیٹ ہے، اس کمرے میں اگر کچھ رنگ ہیں بھی تو وہ اس پینٹنگ میں قید ہیں جس سے اس کی نظریں نہیں ہٹتی ہیں۔ 
وہ پینٹنگ رنگین تو ضرور ہے مگر تلاطم خیز موجوں میں پھنسی ہوئی، ناؤ جس کا ماجھی اُسے چھوڑ کر جاچکا ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تن تنہا ماجھی کے بغیر بقا کی جنگ لڑنا ناممکن سا ہے، یہ اس پینٹنگ کا مضمون (کیپشن) ہے۔
یہ بیس کمروں کا وارڈ ہے آمنے سامنے بیچ میں کوریڈور ہے مغرب کی طرف شروع میں کمرہ نمبر 1اور 20آمنے سامنے ہیں اور کوریڈور کے آخر میں مشرق کی طرف کمرہ نمبر 10اور 11آمنے سامنے ہیں، کوریڈور کے آخر میں مشرقی دیوار کے ساتھ 8بائی 10کی ایک بڑی کھڑکی لگی ہوئی ہے۔ 
وہ کمرہ نمبر 11کی ملکہ ہے اس کی سلطنت میں سورج کی کرنوں کا داخلہ منع ہے۔ 
دوسرے تیسرے دن سورج کی کرنیں اس کے دیدار سے فیض یاب ہوتی، جب وہ صبح 10بجے کے آس پاس کوریڈور میں تشریف لاتی ہے کوریڈور میں لگی ہوئی کھڑکی کی دوسری طرف دوکنال کا خالی پلاٹ ہے جہاں جنگلی گھاس کا بسیرا ہے۔
 
ایک بڑا بوڑھا پیپل کا درخت دوکنال کے پلاٹ کا راجہ ہے اور نیم کا درخت اس کا وزیر اور امردو کے کئی چھوٹے درخت سپاہی ہیں۔ پلاٹ کے دوسری طرف سرکاری ہسپتال کا کچن ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبو ہوا کے پروں پر سوار ہوکر اس تک پہنچتی ہے جب وہ کوریڈور میں کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوتی ہے پیپل کا درخت ایک موسیقار کا احساس لیے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہے جو ہلکے سے ہوا کے جھونکے پر اس کو جھوم کر دکھا دیتا ہے جبکہ نیم اور امرود کے درخت اس ہوا کے جھونکے کو محسوس نہیں کرپاتے سورج کی کرنیں پتوں سے لڑتی جھگڑتی اور لوہے کی جالیوں سے بچھتی بچھاتی اس کے رخساروں کا بوسہ لیتی ہیں۔
 
وہ کمرہ نمبر 11کے سامنے کھڑی ہے ایک کے ساتھ ایک کھڑا ہو تو 11بنتا ہے جسے وہ 2کہتی تھی ۔ 
11تو اسے اب بھی یاد نہیں ہاں البتہ 11کہنے والے کا نام یاد ہے۔ بلال……بلال…… بلال……
#…#…#
ڈاکٹر حاجرہ نیازی اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی ہیں عمر 50سال کے آس پاس اس ہسپتال میں تقریباً20سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ان کے سامنے میز کی دوسری طرف ایک مرد اور عورت بیٹھے ہیں عورت زندگی میں تقریباً 25بہاریں دیکھ چکی ہے اس کی گود میں ڈیڑھ دو ماہ کا بچہ ہے، اس کے چہرے پر پریشانی کا پڑاؤ ہے۔
مرد کچھ حد تک مطمئن ہے۔ 
اپنے سامنے پڑی رپورٹس دیکھ کر ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے کہا ”پہلے سے کافی بہتر ہے اب میڈیسن کھالیتی ہے“”اور کھانا“ عورت یک لخت بولی اس کا پوچھنا فکر مندی ظاہر کر رہا تھا پاس بیٹھے مرد نے اپنا ہاتھ اس کے کندھتے پر رکھتے ہوئے کہا ”انشاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گی“ اس نے اپنی طرف سے تشفی دینے کی پوری کوشش کی ۔
”دیکھو بیٹا ہم صرف کوشش کرسکتے ہیں) ڈاکٹر حاجرہ نے نہایت شگفتگی سے کہا اتنے میں آفس بوائے چائے لے کر آگیا اس نے چائے کمرے کے کونے میں پڑے صوفہ سیٹ کے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی۔
 ”میڈیم چائے “ ٹرے میز پر رکھ کر اس نے کہا ”تم جاؤ میں بنالوں گی“ ڈاکٹر حاجرہ نے جواب دیا ”آؤ چائے پیو“ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا اور صوفے پر بیٹھ کر چائے بنانے میں مصروف ہوگئی، عورت نے اپنے اشکوں کو پلکوں کی دہلیز پر زبردستی روکا ہوا تھا۔
مرد نے اسے بازو سے پکڑا اور آنکھوں سے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں اٹھے اور ڈاکٹر حاجرہ کے سامے بیٹھ گئے ان کے بیچ میں سنٹر ٹیبل پڑا ہوا تھا جس پر چائے والی ٹرے پڑی تھی۔ ڈاکٹر حاجرہ نے چائے کا کپ عورت کی طرف بڑھادیا، مرد نے خود اپنا کپ اٹھالیا چائے کا سپ لیتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا ”ریالٹی یہ ہے کہ چانس تو ہے مگر بہت کمI will try my best،Miracle کرنے والی ذات وہ ہے۔
“ عورت کی باڈی لینگویج ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی مانند تھی جو میچ ختم ہونے سے پہلے ہی ہار مان چکا ہو۔
”میں ان سب باتوں میں بھول ہی گئی تمہیں بہت بہت مبارک ہو“ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے دانائی سے موضوع تبدیل کردیا۔ عورت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی جسے وقتی طور پر اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا ہو اور اس کے غم کا مداوا کردیا گیا ہو۔
 
”کیا نام رکھا بیٹے کا“بغیر توقف کے ڈاکٹر حاجرہ نے پوچھا ”بلال محسن“مرد نے تفاخر سے جواب دیا۔ ڈاکٹر حاجرہ نیازی نے حیرانی سے ان دونوں کی طرف دیکھا اور آہستگی سے کہا ”پھر سے بلال“
#…#…#
سورج کے بیدار ہونے سے پہلے فجر کے وقت جب چاند اپنے بستر پر جاکر لیٹ چکا تھا۔ سردیوں کی دھند سورج سے دست و گریباں ہونے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔
کمرے میں بڑی پرسکون خاموشی تھی۔ وال کلاک دن کے جاگتے ہی اور رات کے سوتے ہی اپنی آواز سے محروم ہوگیا تھا۔ پرانی وضع کا ایک سنگل بیڈ اور اس کے سامنے دیوار کے ساتھ ایک دیوان اس کا ہم عمر پڑا تھا۔ دیوان کے پڑوس میں رائٹنگ ٹیبل اپنی ساتھی کرسی کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔
 بیڈ کے بائیں جانب دیوار کے ساتھ لاثانی اور لکڑی کی بنی ہوئی ایک وارڈروب تھی اور اس سے پہلے بیڈ کے ساتھ کتابوں کا ایک خوبصورت آشیانہ تھا جہاں مختلف موضوعات کی سینکڑوں کتابیں محفوظ زندگی گزار رہی تھیں۔
ان کتابوں کو دیکھ کر قاری کی نفاست اور ذوق کا اندازہ ہوتاتھا کمرے کا داخلی دروازہ جوکہ مغرب کی طرف تھا دائیں ہاتھ اٹیچ باتھ روم تھا جس کا دروازہ داخلی دروازے کے ساتھ تھا، بائیں ہاتھ ایک دیوارتھی جس کی اندر والی سائیڈ میں سنک لگا تھا ۔ چھوٹے سے کوریڈور سے گزرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر اوپن کچن تھا۔ اس کچن کی جنتا کم ہے ایک چھوٹا سا فریج سینڈوچ میکر، الیکٹرک کیٹل اور چند چینی کی پلیٹس اور کرسٹل کے گلاس اور ایک جگ اور چار بڑے خوبصورت مگ اور کچھ چمچ ہیں۔
 اوون اور چولہے کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ دیوان کے ساتھ جائے نماز پر بندہ اپنے اللہ کے سامنے فجر کا آخری سجدہ ادا کر رہا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور گل شیر خان کی نظر سجدے سے اٹھتے ہوئے جاذب نظر چہرے پر پڑتی ہے وہ رائٹنگ ٹیبل والی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سلام پھیرتے ہی گل شیر خان بول اٹھے ”ماشاء اللہ “”السلام علیکم خان صاحب“نمازی نے جائے نماز لپیٹے ہوئے کہا اور اسے دیوان کے بازو پر رکھ دیا، گل شیر خان یکایک بولے ”وعلیکم السلام میری جان کیسے ہو بلال بیٹا“” اللہ کا شکر ہے“بلال احمد نے جواب دیا جوکہ نماز سے فارغ ہوچکا تھا۔
”آپ کے لیے چائے بناؤں“بلال نے کہا ۔”تو بہ توبہ تمہاری چائے تم ہی پی سکتے ہو، ہم دودھ والا چائے پیتا ہے“ گل شیر نے جواب دیا۔ بلال کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ”آپ کیسے تشریف لائے کچھ کام تھا ؟“بلال نے شائستگی سے پوچھا۔ ”بڑے صاحب آگئے ہیں میں بتانے کے لیے آیا تھا “گل شیر خان نے جواب دیا۔ ”ٹھیک 9بجے ناشتہ ہے “جاتے ہوئے کہا ”جی ٹھیک ہے “بلال نے ہولے سے جواب دیا۔
 گل شیر خان کے جانے کے بعد بلال کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سوچوں کے سفر سے واپس لوٹا تو اس کی نظر وال کلاک پر پڑی جو اب خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ”دیر ہوگئی “اس نے خود سے کہا اور جلدی سے ٹریک سوٹ پہنا اور ململ کا کرتہ لٹھے کا پائجامہ اتار کر واشنگ مشین میں ڈال دیا جوکہ بڑے سے باتھ روم کے ایک کونے میں پڑی تھی اور خود جاگنگ کے لیے چلا گیا۔ 
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط