ایک ہفتے بعد بلال نے اپنے اسکول کا سنگ بنیاد اپنی نانی کے ہاتھ سے رکھوا دیا تھا۔ تعمیر کا کام زوروں سے شروع ہو گیا تھا۔سارا میٹریل بلال نے فراہم کرنا تھا۔ باقی ساری ذمہ داری العزیز کنسٹرکشن کمپنی کی تھی۔
جون کا مہینہ شروع ہو چُکا تھا۔ کچھ اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ اور کچھ میں ہونے والی تھیں۔
توشی نے ایک دن محسن کو خوشخبری دی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔
محسن اور اُس کی ماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
نوشی اور ولید اپنے ہنی مون سے واپس لوٹ چکے تھے۔ پارٹیز ڈنرز فیشن شوز کنسرٹ اُن دونوں کا روز کا معمول تھا۔ ولید نے واپسی پر ناہید سے اور پیسے لیے فضول خرچی قارون کے خزانوں کو بھی کھا جاتی ہے۔
ایک دن رات کو ولید نے نوشی سے کہا تھا۔
(جاری ہے)
”نوشی ہماری شادی کو تین ماہ ہو چکے ہیں بہت انجوائے کر لیا، اب کچھ کام بھی کیا جائے میری جو سیونگ تھی سب ختم ہو گئی ہے۔
“
ولید یہ بول کر پریشانی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ نوشی نے دیکھا تو وہ اُس کے پاس آئی اور اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
”تم پریشان کیوں ہوتے ہوں۔ میرے پاس بینک میں آٹھ دس کروڑ پڑے ہیں وہ لے لو“ نوشی نے تسلی دی تھی۔
”نوشی آٹھ دس کروڑ سے کیا ہوگا۔ تمہیں پتہ ہے جس دن سے ہماری شادی ہوئی ہے تین ماہ میں سات کروڑ خرچ ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی مجھے تمہارے پیسے نہیں چاہیں کروڑوں کی جائیداد ہے میرے حصے میں آتی مجال ہے پیرداود ہاشمی میرے والد متحرم اُس میں سے کچھ دیں کہتے ہیں گاؤں آجاؤ، اور گدی سنبھال لو وہی چھوٹی سوچ۔
چاچو عقیل ہاشمی کو دیکھو کہاں سے کہاں پہنچ گئے ایک سرامکس کی فیکٹری تھی اور اب تین ہیں۔ اُن کے بیٹے کو دیکھو نالائق، چاچو کہتا ہے بزنس پر توجہ دو اور وہ جناب سنا ہے، کسی موچی کے پاس بیٹھتا تھا ولید کا یہ جملہ سن کر نوشی کو ان تین ماہ میں پہلی بار بلال یاد آیا تھا، وہ بھی کسی موچی کے پاس جایا کرتا تھا۔
”میں بزنس کرنا چاہتا ہوں“ ولید یہ بول کر وہاں سے چلا گیا ور نوشی پریشان کھڑی اپنے شوہر کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
جمال اور ناہید کو خبر تھی کہ جہاں آرابیگم اور توشی بلال سے ملتی رہتی ہیں۔ مگر وہ دونوں خاموش تھے۔ توشی اب کسی کی بیوی تھی اور اُس کا شوہر بلال کا بہت اچھا دوست تھا اور جہاں تک جہاں آرابیگم کی بات تھی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ بلال کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔
جہاں آرابیگم اور توشی نے بلال کے لیے، بہت ساری لڑکیاں دیکھیں، اُن دونوں کی نظر ماہ رخ پر جا کر ٹھہر گئی، مگر انہوں نے فرح سے کسی قسم کی بات نہیں کی تھی، وجہ یہ تھی پہلے وہ بلال سے پوچھنا چاہتی تھیں، اور بلال کا سارا فوکس اپنے اسکول کی بلڈنگ پر تھا۔
اِس لیے بات ایک ڈنر سے آگئے نہیں بڑھ سکی، جب فرح نے بلال کی نانی اور کزن کو کھانے پر بلایا تھا وہیں پر ماہ رخ پر اُن کی نظر ٹھہری تھی۔
محمد طفیل نے باقی کے پانچ لاکھ بھی بلال کو واپس کر دیئے تھے۔ بلال نے جو روپے اپنے گھر کے لیے بچا کے رکھے تھے وہ بھی سارے وہ اپنے اسکول میں لگانا چاہتا تھا، سب سے پہلے بلال نے بابا جمعہ کے دئیے ہوئے بیس لاکھ کو اپنے اسکول کی بنیادوں پر خرچ کیا تھا۔
گل شیر خان اور حسیب حسن ملک واپس آچکے تھے۔ جب گل شیر خان کو سارے معاملے کی خبر ہوئی تو ایک دن جمال اندھاوا کے آفس میں گل شیر خان نے کہا۔
”رندھاوا صاحب بہت مبارک ہو آپ نے بچیوں کا فرض ادا کر دیا ہے… لیکن …“یہ بول کر گل شیر خان خاموش ہو گیا۔
”لیکن…کیا…خان میں پوچھ رہا ہوں……بتاؤ مجھے…لیکن کیا……“
جمال رندھاوا جاننا چاہتے تھے۔
”آپ نے بلال کے ساتھ اچھا نہیں کیا…رندھاوا صاحب وہ بچہ ایسا نہیں ہے“
”گل شیر خان تم بھی ایسا سوچتے ہو………“ جمال رندھاوا حیرت سے بولے
”نہیں رندھاوا صاحب میں ایسا مانتا ہوں۔ بلال ایسا ہوہی نہیں سکتا یہ کسی کی سازش ہے“ گل شیر خان کے اعتماد نے جمال رندھاوا کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ گل شیر خان کی ذہانت کا قائل تھا ہمیشہ سے۔
”خان صاحب میں اگلے ہفتے امریکہ جا رہا ہوں ایک ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا۔ وہاں پر میرے واپس آنے تک آپ اس سازش کا پتہ لگائیں واپس آتے ہی مجھے ساری رپوٹ چاہیے“جمال رندھاوا سوچتے ہوئے بولے تھے
”انشااللہ………رندھاوا صاحب……… میں بلال پر لگی اس تہمت کی حقیقت سامنے ضرور لے کرآؤں گا……انشااللہ………“گل شیر خان نے یقین کے ساتھ کہا تھا۔
###
”کیا سوچ رہے ہو ولید میں دیکھ رہی ہوں پچھلے چند دنوں سے تم چپ چاپ ہو ہم کہیں باہر بھی نہیں گئے“ نوشی نے فکر مندی سے پوچھا” کتنے دن ہو گئے ہیں تم نے مجھے کوئی گفٹ بھی نہیں دیا“ ولید نے اپنی شادی کے بعد سے نہ جانے کتنے پرفیومز نوشی کو گفٹ کیے تھے۔ شاید ہی کوئی فرانسیسی سینٹ ہو جو ولید نے نوشی کو گفٹ نہ کیا ہو۔ کیوں نہ کرتا اُس کی ماں کا پیسہ جو تھا۔
کون ساولید کی اپنی جیب ہلکی ہو رہی تھی۔ نوشی اس سب سے بے خبر تھی۔
”نوشی میرا یک دوست ہے دبئی میں اُسکا پرفیومز کا بزنس ہے۔ کل کی بات ہے یہاں پر دھکے کھاتا تھا۔ اور آج بہت بڑا بزنس مین ہے۔
وہ اپنے بھائی کو بھی بزنس شروع کر کے دینے لگا ہے،ا ُس نے مجھے آفر کی ہے کہ ہم پاٹنرشپ کر لیتے ہیں، 20 ملین درہم کی انویسمنٹ ہے 10 ملین درہم اُس کے اور 10ملین درہم میرے میں نے پیر صاحب سے پیسے مانگے تھے وہ دینے کو تیار نہیں، چاچو کے پاس گیا تھا، وہ کہنے لگے اپنے باپ سے لو اُس کے پاس بہت پیسہ ہے۔
“
”10 ملین درہم……“ نوشی نے خود سے کہاں
”جی ہاں 10 ملین درہم یعنی 27 کروڑ روپیہ میرے پاس خود کے سات کروڑ تھے وہ میں نے……“ ولید یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
”میرے پاس 10 کروڑ ہیں، وہ تم لے لو میں نے بینک سے پتہ کیا تھا“ نوشی نے کہا
”پہلی بات تو یہ 10کروڑ سے کچھ نہیں ہوگا، اور دوسری بات مجھے تم سے پیسے نہیں لینے تمہارے گھر والوں کو پتہ چلے گا تو وہ کیا سوچین گے میرے بارے میں“
”ولید تم گھر والوں کی فکرنہ کرو، میں اُنہیں تھوڑی بتاؤں گئی، یہ میرے پیسے ہیں“
”نوشی تم بات سمجھو میں یہ دس کروڑ لے بھی لوں، بات پھر بھی نہیں بنتی“ ولید نے بیزاری سے کہا
”میرے نام پر دو پلازیں اور دو گھر ہیں تم اُنہیں بیچ دو اُن کے پیپر بینک لا کر میں رکھے ہوئے ہیں میں کل تمہیں لادوں گی پراپرٹی کے سارے پیپرز وغیرہ تم خود ہی دیکھ لینا اُن کا کیا کرنا ہے“ ”میں نے تمہیں بتایا تھا، یہ گھر میرا نہیں ہے، رینٹ پر ہے“ ولید نے پریشانی سے کہا تھا ”مجھے معلوم ہے ……تم نے ذکر کیا تھا………میرے چھوٹے والے گھر ہم لوگ شفٹ ہو جاتے ہیں“ نوشی نے مشورہ دیا تھا۔
”لوگ کیا کہیں گے بیوی سے روپے بھی لیے ہیں، بزنس کے لیے اور اُسی کے گھر میں بھی رہ رہا ہے اور آنٹی کیا سوچیں گی میرے بارے میں وہ تو مجھے بڑا خوددار سمجھتی ہیں نوشی تم رہنے دو میں کچھ اور دیکھتا ہوں“ ولید نے مکاری سے کہا تھا۔
”ولید کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی اِس بارے میں، پاپا اور توشی جانتے ہیں پاپا ویسے بھی ایک دو دن کے بعد امریکہ جا رہے ہیں، اور توشی نے پچھلے تین مہینے سے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا ہے، ماما اور شعیب بھائی کو صرف اتنا پتہ ہے کہ پاپا نے ہم دونوں بہنوں کے نام پر کچھ خریدا ہے ماما کو ڈیٹیل کا نہیں پتہ…… ولید تم نے ان ساڑھے تین مہینوں میں مجھے زمانے بھر کی خوشیاں دی ہیں، جو میں نے مانگا تم نے لا کر دیا، جیسا میں نے کہا تم نے وہی کیا، تم سے شادی سے پہلے میں ڈری ہوئی تھی۔