”میم ، پیاز گوشت تو ہمارے مینیو میں ہے ہی نہیں“ ویٹر نے بڑے آدب سے جواب دیا۔
”وہ مجھے بہت پسند ہے اِس لیے زبان سے نکل گیا“ نوشی کھیسانی ہوکر بولی۔
بلال دیکھ رہا تھا نوشی کی کنفیوژن اور انجوائے کررہا تھا۔ پھر اُس نے کھانا خود آرڈر کیا۔ نوشی گردن جھکائے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
”ویسے وہ اشعار تھے کس کے…“ بلال نے نوشی کو تنگ کرنے کے لیے پوچھا۔
”وہ … شعر…کس کے تھے …وہ اِرم واسطی بہت بڑی شاعر تھی۔ اُس کے ہیں“
(یہ بھولا نہیں ابھی تک) نوشی نے دل میں کہا۔
”کیا … اِرم واسطی صاحبہ مرگئیں ہیں…“ بلال نے پھر شرارت کی۔
”ہاں …ہاں … مرگئیں ہیں … پچھلے ہی سال…“ نوشی عُجلت میں بولی۔
نوشی نے وہ شعر اِرم واسطی کی ڈائری سے یاد کیے تھے آج سارا دن رٹا لگا کر اُسے کیا معلوم یہ اشعار کن عظیم شعرا کے تھے۔
(جاری ہے)
وہ تو بس بلال کو امپریس کرنا چاہتی تھی۔ اُسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ شعر سناکر پھنس جائے گی۔
”منجمد خون میں ہلچل کردے
مجھ کو چھو اور مکمل کردے
کتنی پیاسی ہیں یہ بنجر آنکھیں
اَبرزادئے انہیں جل تھل کردے
میں نے وہ درد چھپا رکھا ہے
جو ترے حسن کو پاگل کردے
یہ جناب احمد فراز کے اشعار ہیں“
بلال نے شعر سنانے کے بعد بتایا ”اور جو پہلا شعر آپ نے سنایا تھا وہ فیض احمد فیض صاحب کا تھا۔
“
ویٹر ٹیبل پر کھانا لگارہا تھا۔ دونوں طرف سے خاموشی تھی۔ کھانے کے دوران اُن دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ سوائے اِس کے نوشی تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلال کو چور نگاہوں سے دیکھ لیتی۔
ویٹر نے ٹیبل صاف کردیا۔
”کچھ میٹھا ہوجائے“ بلال نے سنجیدگی سے نوشی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”رس ملائی“ نوشی ہولے سے بولی ” ok دو رس ملائی“بلال نے ویٹر کو دیکھ کر جواب دیا نوشی نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
”محبت میں ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے ۔۔۔ مگر محبت تبدیلی نہیں مانگتی …محبت خود تبدیل کردیتی ہے … محبت شرطوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی …محبت خود شرط ہے …آپ جیسی ہو ویسی ہی رہو…“ بلال کا ایک ایک لفظ نوشی کے دل پر جاکر لگا۔
”مجھے تو آپ سے عشق ہوگیا ہے “نوشی فدا ہوجانے والی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
”توشی ہمیشہ مجھے کہتی ہے۔
آپ کو مجھ سے محبت ہے مگر آپ نے تو کبھی بھی نہیں کہا۔ اپنی زبان سے … کیا یہ سچ ہے…“
”سچ کو سچ ثابت نہیں کرسکتا۔ سچ کو ہمیشہ وقت ثابت کرتا ہے۔۔۔ “ بلال کسی دانشور کی طرح بولا، یہ بڑی بات جوکہ نوشی کی ذہنی سطح سے بلند تھی۔ اُس کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی …
”Will You Mary Me?“ نوشی نے پیاسی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جیسے بلال سے وصل مانگا ہو۔
”My Pleasure…“بلال سنجیدگی سے بولا جیسے اُسے ڈر زیادہ اور خوشی کم ہو پھر بھی اُس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یہ سارا منظر ولید اور ارم اوپر ریسٹورینٹ کی گیلری میں بیٹھے دیکھ رہے تھے۔
”اِس کو چھوڑ کر یہ مجھ سے شادی کیوں کرے گی“ولید حسد سے بولا ارم کو دیکھ کر جوکہ اُس کے سامنے بیٹھی تھی ”کیا پرسنالٹی ہے بندے کی …“
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو واقعی لاجواب پرسنالٹی کا مالک ہے …اور جہاں تک شادی کی بات ہے …جو میں کہتی ہوں بس کرتے جاوٴ“ اِرم واسطی اُن دونوں کی طرف دیکھ کر بولی اُس کے ذہن میں کوئی خرافاتی پلان تھا۔
اِ س دوران بلال ایک کال ریسو کرتا ہے۔
”ایک ایمرجنسی ہے…Sorry…کسی کی زندگی اور موت کا مسئلہ ۔۔۔ مجھے جنرل ہاسپٹل تک جانا ہے“
”میں بھی چلوں …آپ کے ساتھ …“نوشی مزید وقت بلال کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔
بلال نے لمحہ بھر سوچا، بل وہ ادا کرچکا تھا اگر کال ریسو نہ کرتا تو وہ دونوں تھوڑی دیر مزید بیٹھتے پارکنگ میں آکر بلال نے DJ کو روپے دیئے۔
”یہاں سے کھانا لے لو BG, SMS اور سب لوگوں کے لیے مجھے کچھ کام ہے نوشی میرے ساتھ ہیں“ بلال نے DJ کو ساری بات سمجھادی اور وہاں سے چلے گئے تھوڑی دیرر بعد وہ دونوں جنرل ہاسپٹل کے بلڈ بینک ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ بلال خون کی بوتل عطیہ کرنے کے بعد اپنی آستین بند کررہاتھا ایک آدمی عمر 30 کے لگ بھگ شاپر بیگ میں جوس اور دودھ کے ڈبے لیے کھڑا تھا۔
”پاجی … بڑی مہربانی آپ کی…یہ خون ملتا ہی نہیں تھا میرے سارے رشتے داروں، یاروں، دوستوں میں سے کسی کا بھی نہیں تھا۔ ایک دو کا نکلا انہیں پہلے سے ہی یرقان تھا کسی کو پیلا یرقان اور کسی کو کالا …“
”کوئی بات نہیں … پاجی … آپ بھی کسی کے کام آجانا … ویسے کیا نام ہے آپ کا “بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”مستری چمن مسیح راج ہوں“ مشکور نگاہوں ں سے بولا ”یہ آپ کے لیے ۔
۔۔ “ شاپر بیگ بلال کو عقیدت سے دیا، جیسے مرید پیر صاحب کو نذرانہ پیش کر رہا ہو۔
”کاظمی صاحب نے کہا تھا“ چمن مسیح نے دودھ اور جوس لانے کی وجہ بتائی۔
”شکریہ … چمن صاحب اچھا اللہ حافظ …تم جاوٴ مریض کے پاس …ویسے مریض کون ہے “بلال نے پوچھا۔
”بیوی ہے میری …بڑا آپریشن ہے جی اُس کا … بچہ ہونے والا ہے …“
چمن بول رہا تھا، آنسو صاف کرتے ہوئے ”پہلے چار بیٹیاں ہیں اس دفعہ سکرین کروائی تھی ۔
۔۔ خیر سے بیٹا ہے ۔۔۔ “
”یہ تو خوشی کی بات ہے…تم جاوٴ اللہ کرم کرے گا…“ بلال نے چمن مسیح کو تسلی دی اور وہاں سے نکل آیا۔ چمن نے جاتے ہوئے بلال کو دیکھا دور تک ۔
نوشی کے لیے یہ سب کچھ عجیب سا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی سرکاری ہاسپٹل میں گئی تھی۔ اور اُس کے سامنے بلال کی شخصیت کا نیا پہلو آیا تھا۔
”آپ نے خون کیوں دیا…؟“ نوشی نے پوچھا، اعتراض تھا، یا سوال بلال سمجھ نہیں پایا۔
”اِس لیے ہمارے ملک میں خون بہانے والے زیادہ ہیں…اور خون دینے والے کم…“
”بلال ونڈ اسکرین سے باہر نظریں جمائے گاڑی چلا رہا تھا۔“
”آپ کو کس نے فون کیا تھا …اور یہ کاظمی صاحب کون ہیں“ نوشی نے تشویش شروع کی۔
”اندرون لاہور میں …امام حسین بلڈ ڈونر سوسائٹی ہے…اُس کے آفس سے کاظمی صاحب نے فون کیا تھا۔“
”وہ کیا خون…سیل کرتے ہیں؟“ نوشی نے اگلا سوال پوچھا۔
بلال نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”نوشی جی …آپ بھی…ایک پرائیویٹ فلاحی ادارہ ہے جو فی سبیل اللہ لوگوں کے کام آتا ہے ۔۔۔ میں نے چمن کی بیوی کو خون دیا … اب ایک دو دن میں چمن کو فون آجائے گا تو وہ کسی اور مریض کو عطیہ کردے گا اب چمن بھی ممبر بن گیا ہے “
”اگر اُس نے خون عطیہ نہ کیا تو…“ نوشی معصومیت سے بولی۔
”کرے گا … ضرور کرے گا … کیونکہ اب وہ اِس درد سے آشنا ہوچکا ہے …جواپنوں کو تکلیف میں دیکھ کر ہوتا ہے“
”اُس نے یہ کیوں کہا …یہ خون ملتا ہی نہیں ہے۔
“ نوشی کے سوال ختم نہیں ہوئے۔
”اس لیے … O نیگیٹو نایاب ہے سب سے کم لوگوں کا ہوتا ہے میرا بلڈ گروپ O نیگیٹو ہے“
”آپ ہر سنڈے خون دیتے ہیں“ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا۔
”مروانے کا ارادہ ہے…ہر سنڈے …صرف 3 بار ایک سال میں …“
بلال مسکراتے ہوئے بولا ۔
”آپ کو مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ “نوشی نے بلال کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا، گاڑی گھر کے باہر تھی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد بلال نے جواب دیا۔
”مرنے سے ڈر نہیں لگتا …بے وجہ مرنے سے ڈر لگتا ہے …زندگی اللہ تبارک تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اِس کی قدر کرنی چاہیے …موت ایک اٹل حقیقت ہے اُس کی تیاری کرنی چاہیے۔ “
نوشی گاڑی میں بیٹھے ہوئے بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اُس پر مرمٹی ہو۔ بلال نے اُس کی یکسوئی کو توڑا۔
”وہ میں نے …نوین کو جاب دے دی ہے …کل سے آجائے گی ڈیوٹی پر“
”کون نوین …“نوشی بولی جیسے کسی نے نیند سے جگایا ہو ابھی ابھی
”ہاں وہ نیناں …Thank You یہ ڈنر میں کبھی نہیں بھولوں گی Thank You Again…“
###