اگلے دن اتوار تھا۔ بلال صبح نو بجے گھر سے چلا گیا اور اس کا موبائل بھی آف تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً پچھلے دس سال سے جاری تھا۔ وہ ہر سنڈے 9بجے کے آس پاس گھر سے چلا جاتا اور مغرب کی نماز کے بعد واپس آتا، ہاں عصر کے بعد اس کا نمبر ضرور On ہوجاتا، جب وہ بابا جمعہ کے پاس ہوتا اس سے پہلے وہ کہاں ہوتا، کیا کرتا، کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر کسی نے پوچھا بھی تو اس کا جواب ہوتا میں بتانا نہیں چاہتا۔
اس کی نانی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔کئی سال پہلے اس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔آقا کریم کی ایک حدیث کا مفہوم کہ میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے ایک جھوٹ نہیں بول سکتا اور دوسرا دھوکہ نہیں دے سکتا۔ یہ بات اس کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی ۔ وہ کوشش کرتا ہے ان دونوں باتوں سے بچنے کی…
###
اسی دن یعنی سنڈے کو عصر کے بعد وہ بابا جمعہ کے پاس نالے کے اوپر التی پالتی مار کر اخبار پڑھ رہا تھا اور بابا جمعہ جوتا پالش کرنے میں مصروف تھے ۔
(جاری ہے)
ایک آدمی انتہائی پریشان عمر پچاس کے آس پاس ہوگی شیو بڑھی ہوئی گرم چادر کندھوں پر اور پیروں میں پشاوری کالی چپل پہنے ہوئے آیا۔
”بابا جی مجھے تعویذ دے دیں یا پھر کوئی وظیفہ بتادیں، میں تو برباد ہوگیا ہوں جو بھی کام کرتا ہوں بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ ہر طرف سے بری خبر ہی ملتی ہے۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا کروں تو کیا کروں۔
دوسری بار میرا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔ بڑے بیٹے کو مسقط بھیجا تھا وہ وہاں فارغ بیٹھا ہے نہ کوئی پیسہ نہ کوئی دھیلا بھیجتا ہے۔ “
اس نے ایک ہی ساتھ اپنی دکھ بھری رُوداد سنادی۔ بابا جمعہ نے پالش کرنا چھوڑ دی اس کی ساری بات توجہ سے سنی۔
”بیٹھ جاؤ محمد طفیل…بلال بیٹا طفیل صاحب کو پانی پلاؤ “
بلال اٹھ کھڑا ہوا اور بجلی کے کھمبے کے ساتھ پڑے ہوئے پانی کے گھڑے سے ایک پیالہ پانی محمد طفیل کو دیا جو ایک ہی سانس میں غٹاغٹ سارا پانی پی گیا جیسے پریشانی کی آگ بجھارہا ہو۔
”اب بتاؤ کیا ہوا ہے “بابا جمعہ نے اس سے سوال کیا۔
”ہونا کیا ہے مقدر ماڑے آپ کو توپتہ ہے پوری زندگی ریلوے کی ملازمت کی ، ریٹائرمنٹ سے جو روپیہ ملا تھا اس سے دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کردیے پھر خالی ہاتھ۔ریلوے کواٹر خالی کرنا پڑا“
”گاؤں میں 5ایکڑ زمین تھی وہ بیچ کر ایک چار مرلے کا گھر لیا بڑے بیٹے کو باہر بھیجا جو پیسے بچ گئے اس سے کپڑے کی دکان ڈالی، پندرہ دن بعد دکان میں چوری ہوگئی سارا مال ظالم لے گئے کپڑے کی ایک (لیر) بھی نہیں چھوڑی ظالموں نے…چھوٹا بیٹا شیف ہے کہنے لگا ابا ریسٹورنٹ بناتے ہیں مکان گروی رکھ کر بینک سے لون لیا کام تو اچھا چل پڑا تھا مگر میری قسمت پھر جل گئی ریسٹورنٹ میں آگ لگ گئی۔
سب کچھ جل کر سوا (راکھ) ہوگیا…اب بلڈنگ کا مالک مرمت کے لیے پیسے مانگتا ہے …میں کہاں سے دوں۔ “
محمد طفیل نے گھائل سپاہی کی طرح ساری داستان بیان کردی اور خود گردن جھکائے کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا اُسے اُمید تھی کہ بابا جمعہ کوئی پھونک ماریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا جمعہ بول پڑے۔
”بلال بیٹا طفیل صاحب کو چائے پلاؤ“
”جی ابھی فون کرتا ہوں “بلال نے عقیدت سے جواب دیا ۔ بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف متوجہ ہوئے اور حلیمی سے بولے۔
”دیکھو بھئی…محمد طفیل سچ بولنا اور سچ سننا دونوں ہی مشکل کام ہیں “
”آج ہم دونوں سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے …کچھ غلطیاں تو تم سے بھی سرزد ہوئی ہیں “
”وہ کیا بابا جی؟“محمد طفیل نے حیرت سے پوچھا۔
”گاؤں کی زمین کس کی تھی “
”ابا جی بہشتی کی “
”کتنے بہن بھائی ہو تم سب ؟“بابا جمعہ نے پھر پوچھا۔
”میں ہوں اور تین چھوٹی بہنیں ہیں “محمد طفیل نے بتایا۔
”زمین بیچ کر بہنوں کا حصہ دیا؟“بابا جمعہ نے سیدھا سوال کیا۔
”کیسا حصہ جی …“بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں…اب بھی ان کا حصہ باقی ہے …میں نے ابا جی کے مرنے کے بعد اُن کو پالا ان کی شادیاں کیں اُن کی ہر خوشی غمی میں پہنچتا ہوں۔
آپ اب بھی حصے کی بات کرتے ہیں“محمد طفیل نے بے رخی سے جواب دیا۔
بابا جمعہ مسکرائے جیسے انہوں نے محمد طفیل کی تلخی اور بے رخی دیکھی ہی نہ ہو۔ وہ خاموشی سے محمد طفیل کو سن رہے تھے۔
”میٹرک میں پڑھتا تھا جب ابا جی فوت ہوگئے تھے محنت مزدوری کرکے خود پڑھا بہنوں کو بھی پڑھایا، ایک باپ کی طرح فرض نبھایا ہے میں نے ، بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کردیا میں نے “
”مگر ان کا حق تو نہیں دیا“بابا جمعہ بول اٹھے ”محمد طفیل یہ تمہارا فرض تھا اور فرض کا اجر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ دے سکتا ہے، فرض تو تم نے احسن طریقہ سے ادا کردیا مگر وراثت میں جو حق اللہ تعالیٰ نے بہنوں کا رکھا ہے وہ ادا نہیں کیا جو تم پر اپنی بہنوں کا قرض ہے…اور دوسرا گناہ جو تم کربیٹھے وہ یہ کہ سود پر قرض لے لیا میرا ماننا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سب سے سخت الفاظ سود کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔
یہ دو گناہ تم سے سرزد ہوگئے۔ پہلا بہنوں کا حصہ نہیں دیا اور دوسرا سود پر قرض لے لیا۔ “
محمد طفیل بھڑک اٹھا چائے کاکپ سائیڈ پر رکھا اور غصے سے بولا ۔
”یہ جو اس ملک کے سیاست دان ہیں آج تک کسی کا بھی حق ادا کیا انہوں نے، بینکوں سے اربوں کے قرضے لیے اور کبھی ادا نہیں کیے، عوام کو روٹی میسر نہیں اور ان کے کتے بسکٹ کھاتے ہیں، ان کی تو اللہ پکڑ نہیں کرتا…مجھ غریب سے انجانے میں دو گناہ ہوگئے اور مجھے اتنی بڑی سزا دے دی “
بابا جمعہ نے ٹھنڈی سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا اور بولے۔
”اللہ کا شکر ہے کہ تم گناہ کو گناہ سمجھ گئے ہو، رہی بات اس ملک کے سیاسی لوگوں کی تو وہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق نہیں دیتا تم سچے دل سے توبہ کرو اور سب سے پہلے سود کے پیسے واپس کرو بہنوں کے حق ادا کرنے کی نیت کرو محنت کرو خرچے کم اور کام زیادہ کرو پھر دیکھو کیسے برکت نازل ہوتی ہے “
محمد طفیل عاجزی سے بول پڑا۔
”وہ سب تو ٹھیک ہے مگر کیسے …میرے پاس تو کچھ بھی ہیں …بہنیں الگ ناراض ہیں، اُن سے ادھار کیسے مانگوں، دوسرے رشتہ دار سب مشکل سے دال روٹی کھارہے ہیں۔ دس لاکھ تو بینک کا ہی ہے ۔ دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں۔“
محمد طفیل شکستگی سے سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ بلال ساری گفتگو کے دوران خاموش تھا۔ بابا جمعہ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ بابا جمعہ نے اجازت دی۔ بلال بابا جمعہ کی طرف دیکھ رہا تھا آنکھوں کی زبان سے، بابا جمعہ نے آنکھیں بند کرکے جواب دیا اور اثبات میں سر کو جنبش دی۔”آپ کل تشریف لے آئیں اللہ بہتر کرے گا“بلال نے طفیل صاحب سے کہا۔
”محمد طفیل تم کل آؤ“بابا جمعہ نے حکم صادر کیا۔
###