Episode 73 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 73 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”ماما توشی آ رہی ہے۔ یہاں “ شعیب نے ناہید کو اطلاع دی ناہید نے پھر سے اپنا رنگ بدلا۔
”شعیب آئندہ مجھے اگر پتہ چلا کہ تم نے بلال کے ساتھ کوئی بد تمیزی کی ہے۔ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ “ ناہید اُٹھی صوفے سے اور با آواز بلند شعیب کو ڈانٹ رہی تھی کمرے میں چلتے ہوئے اِدھر سے اُدھر اس سے پہلے توشی وہاں پہنچتی اُس نے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھول دیا تھا تا کہ اُس کی اور شعیب کی آواز باہر دروازے تک جا سکے ناہید کی ٹائمنگ کمال کی تھی۔
جیسے ہی اُس نے دروازہ کھولا توشی چند سیکنڈ بعد دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
”مجھ سے بھی ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئیں تھیں۔ جن کی میں بلال سے معافی مانگ لوں گی اور تمہیں بھی بلال سے معافی مانگنی پڑے گی “ ناہید با آواز بلند بول رہی تھی اور توشی دروازے پر کھڑی ہوئی سن رہی تھی۔

(جاری ہے)

”بلال اگر ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں نہ آتا تو شاید میں اُسے لالچی ہی سمجھتی لیکن اب ایسا نہیں ہے نوشی کے لیے بلال سے اچھا رشتہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا میں غلط تھی شعیب میں غلط تھی۔
“ ناہید نے اپنے مگر مچھ کے آنسو صاف کیے۔
”کون ماں ہوگی جسے اپنی اولاد کی خوشی عزیز نہ ہو۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ نوشی بھی اس رشتے پر بہت خوش ہے۔ شکر خدا کا توشی کے لیے بھی بہت اچھا رشتہ مل گیا ہے۔ “
توشی نے یہ سنا تو وہ باہر ہی سے چلی گئی بغیر ناہید کو ملے ہوئے۔ نوشی نے اُسے دروازے کے پاس سے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب وہ شعیب کے روم کی طرف آ رہی تھی نوشی بغیر ناک کیے ہوئے شعیب کے روم میں چلی آئی۔
”جی ماما آپ نے بلایا تھا “ نوشی نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ہاں میں نے بلایا تھا … وہ توشی کہاں ہے۔ “ ناہید نے پوچھا جو توشی کے جانے سے بے خبر تھی۔
”وہ تو ابھی یہاں سے … “ نوشی نے حیران ہو کر آدھ جملہ ہی کہا تھا کہ ناہید جلدی سے بولی۔
”ہاں ہاں دراصل میں یہ کہہ رہی تھی کہاں گئی ہے توشی۔ “
”شاید اُن کے روم میں گئی ہو گئی۔
“ نوشی نے جواب دیا۔
توشی بلال کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اُس نے کمرے کا جائزہ لیا بلال کو آواز دی باتھ روم میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اچانک اُس کی نظر بلال کے تکیے کی طرف پڑی تکیے کے ایک سرے کے نیچے سے اُسے کوئی گرین چیز نظر آئی توشی کو تجسس ہوا وہ تکیے کی طرف بڑھی اُس نے تکیہ اُٹھایا نیچے ایک پاسپورٹ اور ایک تصویر فریم میں سجی ہوئی تھی تصویر کے دونوں چہروں سے توشی اچھی طرح واقف تھی ایک اُس کی پھوپھو یعنی بلال کی ماں اور دوسرا بلال کا باپ یہ تصویر جمیلہ اور جلال کی شادی کے چند دن بعد کی تصویر تھی۔
”یہ پاسپورٹ کس کا ہے “ توشی پاسپورٹ کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کھولتے ہوئے بولی تھی سب سے پہلے اُس کی نظر تصویر پر پڑی سفید رنگت لائٹ بلو آنکھیں سفید داڑھی والا ایک خوبصورت چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا جب توشی پہلی اور آخری بار بابا جمعہ سے ملی تھی۔
پاسپورٹ کوئی ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی ایشو ہوا تھا توشی کی نظر ایشو ڈیٹ پر پڑی تھی۔
اسی دوران بلال کمرے میں داخل ہوا تھا۔ توشی کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ گھبرا کر بولی۔
”میں تو جا رہی تھی بس نظر پڑ گئی تھی اس لیے دیکھ لیا ورنہ میں نے کبھی بھی تمہاری چیزوں کو چیک نہیں کیا “ بلال نے اُسے نظر بھر کر دیکھا تھا توشی مزید ڈر گئی۔
”بیٹھ جاؤ … اٹس اوکے … “ بلال سنجیدگی سے بولا تھا۔ توشی وہیں بلال کے بیڈ پر بیٹھ گئی گردن جھکائے ہوئے۔
”ایک خوشخبری ہے تمہارے لیے“ توشی نے بات بدلی۔ بلال نے دونوں ابرو کے ساتھ بولنے کا سگنل دیا۔ ”ماما کو کوئی اعتراض نہیں ہے تمہاری اور نوشی کی شادی پر۔“
بلال یہ سن کر خاموش رہا بغیر کسی تاثر کے توشی نے بلال کی طرف دیکھا تو پھر سے بولی۔
”لگتا ہے تمہیں خوشی نہیں ہوئی یہ خوشخبری سن کر۔ “
”توشی جی آپ خبر کو خوشخبری سمجھ رہی ہیں۔
مجھے یہ خبر ہے۔ کہ ممانی کو اس رشتے پر انکار نہیں ہے۔ “
بلال نے جواب دیا توشی کو لگا جیسے بلال کو اُس کی بات پر یقین نہ آیا ہو اس لیے اُس نے کہا۔
”ویسے تم آ کہاں سے رہے ہو۔ “
”میں نانو کے پاس تھا۔ “
”میں تم سے آج بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ “ توشی نے کہا تھا۔
”آپ مجھ سے بہت ساری باتیں پوچھنا چاہتی ہیں۔
“ بلال جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر بولا۔
”نہیں … خیر چھوڑو … مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے تم خوش نہیں ہو۔ “ توشی نے کہا۔
بلال گردن جھکائے مسکرایا پھر بولا۔ ”خوش تو میں ہوں مگر زیادہ فکر مند ہوں۔“
”فکر مند کیوں “ توشی بے نیازی سے بولی فٹا فٹ۔
”توشی جی محبت کے بہت سارے رنگ ہیں اور بہت ساری شکلیں بھی … 
اس کے برعکس عزت صرف اپنی اصل شکل میں ہوتی ہے اور اُس کا صرف ایک رنگ ہے اور وہ رنگ ہے سفید، عزت سفید چادر کی طرح ہوتی ہے، جس پر کسی رنگ کا چھینٹا پڑ جائے تو وہ داغ دار ہو جاتی ہے خواہ وہ چھینٹا ست رنگی محبت ہی کا کیوں نہ ہو …
جب میرے ابا فوت ہوئے تو میں آٹھ ماہ کا تھا۔
میری ماں کو میرے ابا سے بہت محبت تھی۔ مگر اُن کی محبت انہیں چھوڑ کر چلی گئی اُس کے بعد میری محبت کے سہارے میری ماں نے زندگی کا سفر جاری رکھا پھر ایک دن اُن پر چوری کا الزام لگا دیا گیا اُن کی عزت چھین لی گئی میری ماں پر اس صدمے کا گہرا اثر ہوا میری ماں ڈسٹرب تھی اس صورتحال میں تب ممانی نے انہیں پاگل ثابت کرکے مینٹل ہاسپٹل بجھوا دیا اور چند ماہ بعد وہاں سے اُن کی لاش آئی۔
بلال گھائل آواز کے ساتھ اپنی ماں کی رو داد سنا رہا تھا گردن جھکائے کمرے میں تھوڑی دیر خاموش رہی۔
”مجھے میرے ابا کی محبت نہیں ملی۔ اپنی ماں کی محبت سے محروم رہا، پھر مجھے بابا جمعہ کی محبت نے تھام لیا انہوں نے مجھے میرے والدین کی طرح پیار کیا اب وہ بھی مجھے چھوڑ کر جا چکے ہیں……اتنی محبتوں کے چھن جانے کے باوجود میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں … میرا ماننا ہے کسی سے اُس کی محبت چھین لی جائے تو وہ زندہ رہ سکتا ہے اگر اُس سے اُس کی عزت چھین لی جائے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے“
توشی کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہوئے اُس کے سرخ گالوں پر تھے۔
جنہیں اُس نے بائیں ہاتھ کی پشت سے صاف کیا اُس کے دائیں ہاتھ میں اب بھی بابا جمعہ کا پاسپورٹ تھا۔ بلال سنجیدگی سے توشی کو دیکھ رہا تھا۔
”جب میں نے بابا جی کو شادی کی تاریخ کا بتایا تو کہنے لگے تمہاری شادی سے پہلے ہم دونوں عمرہ کرکے آتے ہیں مجھے تاکید کی شادی کے بعد آنے والا حج میری بہو کے ساتھ کرنا … بابا جی کی وفات سے تین چار روز قبل ہم دونوں اُن کا پاسپورٹ لے کر آئے تھے، تب سے یہ میرے پاس ہی ہے۔
“ بلال اب خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔
”عظمی اب بھی … “ توشی نے آدھی بات کی جھجھکتے ہوئے۔
”عظمی اب بھی میری دوست ہی ہے، اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ میرے دوست عادل عقیل سے جلد ہی شادی کر لے گی۔ “ بلال نے توشی کے آدھے سوال کا پورا جواب دیا۔ نوشی کافی دیر سے باہر کھڑی بلال اور توشی کی گفتگو سن رہی تھی۔ جبکہ توشی اور بلال نوشی کی موجودگی سے بے خبر تھے۔
نوشی کو بھی عظمی کا ڈر ستا رہا تھا۔ جب اُس نے یہ سنا تو وہ باہر ہی سے خوشی خوشی لوٹ گئی۔
”میں بھی تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ تمہیں اگر بابا جمعہ کی محبت نے تھام لیا تھا تو ہمیں تمہاری محبت نے تھاما ہوا تھا مجھے اور نوشی کو … میرا سہارا تم تھے اور میں نوشی کا سہارا تھی۔ اور میری بے وقوفی دیکھو میں نے اُس محبت کو دوسری نظر سے دیکھا میں بھی ایڈیٹ ہوں ایک نمبر کی ایڈیٹ سوری بلال صاحب … اب تو مسکرا دو ماما کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ میں اپنے کانوں سے سن کر آ رہی ہوں وہ بہت خوش ہیں ہم دونوں بہنوں کی شادی پر۔ “
توشی نے بلال کو تسلی دی۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط