”ایک دو دن کیوں……ابھی کیوں نہیں……“ نوشی اپنے موقف پر قائم رہی۔
’شادی ہے……گڈی گڈے کا کھیل نہیں……نوشی صاحبہ تم طلاق یافتہ ہو………اور بلال کنوارہ…… طلاق یافتہ کے حصے میں رنڈوے آتے ہیں………کنوارے نہیں………بلال سے درخواست کریں گے……شاید وہ مان جائے………اور جس سے درخواست کرنی ہو اُس کے پاس عرضی لے کرجایا جاتا ہے………اُسے بلایا نہیں جاتا اپنے پاس“توشی نے اپنی بہن کو کھری کھری سنا دیں تھیں۔
”دادو………میں نے فیصلہ کر لیا ہے……اگر بلا ل کو مجھ سے شادی کرنی ہے………تو اُسے ابھی فیصلہ کرنا ہوگا………ہاں یا ناں………“ نوشی نے حتمی فیصلہ سنا تے ہوئے کہا۔
”محسن بیٹا بلال کو فون لگاؤ“دادی نے محسن کو حکم دیا ۔ محسن نے اپنے نمبر سے کال ملا کر دادی کو موبائل پکڑا دیا ۔
(جاری ہے)
”جی محسن صاحب………“ بلال نے کال ریسو کرنے کے بعد کہا ۔
”بلال بیٹا………میں تمہاری نانو…… تم ابھی کے ابھی رندھاوا ہاؤس پہنچو ضروری کام ہے“
”نانو سب خیریت تو ہے“ بلال نے پریشانی سے پوچھا ۔
”بس تم جلدی سے آجاؤ………سب خیریت ہے“ نانی نے تسلی دی
”دادو آپ نے بلال کو کیوں بلایا“ توشی نے دادی سے گلے کے انداز میں کہا
”تمہیں کیا مسئلہ ہے“ نوشی نے توشی کو گھوری ڈالی
چالیس منٹ بعد بلال رندھاوا ہاؤس پہنچا وہ واپس کبھی نہ آتا اگر اُس کی نانی کا حکم نہ ہوتا
”اسلام علیکم………“ بلال نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا
”بلال بیٹا……نوشی تم سے شادی کرنا چاہتی ہے“ جہاں آرابیگم نے بلال کے بیٹھتے ہی کہہ دیا ۔
بلال کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی نانی نے یہ ضروری بات کرنی ہو گی بلال نے سب کی طرف باری باری دیکھا ور آخر میں نوشی پر نظر ڈالی جو پہلے ہی سے بلال کو تک رہی تھی۔
”بلال یہ میری خواہش ہے میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی مرضی سے………“
نوشی نے بغیر کسی شرم وحیا کے اتنی بڑی بات خود ہی بڑے اعتماد سے کہہ دی ۔
”مگر میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتا“بلال نے تحمل سے جواب دیا ۔
”نانو میں چلتا ہوں……مجھے اجازت دیں………“
”رُکو……بلال بیٹا……“ جہاں آرانے فکر مندی سے کہا ۔
”توشی تم ٹھیک کہتی تھی……ایک کنوارہ کیوں ایک طلاق یافتہ سے شادی کرے گا پیار……محبت……عشق……سب ختم ہوگیا میری طلاق سے“
”طلاق کبھی بھی محبت کو ختم نہیں کر سکتی……اور نوشی جی آپ کو کسی نے غلط خبر دی ہے کہ محبت کی منزل شادی ہوتی ہے کسی سے شادی کرنا یا نہ کرنا آپ کا شرعی حق ہے“بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا …’
’Sorry……میں آپ سے شادی نہیں کر سکتا“
”مجھے تم سے محبت ہے……میں عشق کرتی ہوں تم سے………“نوشی نے بے باکی سے کہہ دیا ۔
عموماً کوئی بھی لڑکی ایسی باتیں کھلم کھلا وہ بھی گھر کے بڑوں کے سامنے کبھی نہیں کرتی، نہ جانے آج نوشی کو کیا ہو گیا تھا۔
”نوشی جی……پلیز کچھ تو حیا کرو……نانو بیٹھیں ہیں…… محسن کیا سوچے گا آپ کے بارے میں……“ بلال نے یہ کہا اور وہاں سے چل دیا، نوشی اُس کی طرف لپکی اور بلال کو بازو سے پکڑ کر روک لیا۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں……مجھے عشق ہے تم سے“ نوشی نے بے قراری سے کہا
”کیا جانتی ہو……عشق کے بارے میں………لوہے کے چنے چبانے کا نام ہے عشق آپ کے دانت بہت نازک ہیں……نوشی جی آپ صرف محبت ہی کر لو………وہ بھی خود سے……محبت بھنے ہوئے خستہ چنے چبانے کی طرح ہے، اُس میں بھی کبھی کبھی کوئی کنکر دانتوں کے نیچے آہی جاتا ہے………حلق بھی خشک ہو جاتا ہے……محبت کے خستہ چنے چباتے ہوئے………بڑی پیاس لگتی ہے…نوشی جی میں محبت کرنے والا بندہ ہوں……محبت سے ……محبت کے نام پر کچھ بھی مانگو گی……حتیٰ کہ میری جان بھی میں خوشی سے دے دوں گا“ بلال نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا۔
’
’نوشی جی آپ کی آنکھوں میں مجھے نفرت نظر آرہی ہے……محبت کا نام ونشان نہیں دور……دور تک……“
”بلال اُسی محبت کے نام پر میرا ہاتھ تھام لو………“ نوشی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا ، باجی غفوراں چائے کی ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی ، جہاں آرابیگم نے اُسے اشارہ کیا کہ نوشی کو یہاں سے لے جائے ۔باجی غفوراں نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور وہاں سے لے گئی۔
”بلال بیٹا چائے پی کر چلے جانا“ نانی نے کہا تھا چائے پینے کے دوران سب خاموش تھے سب سوچ رہے تھے اب کیا بات کرنی ہے سب سے پہلے محسن بولا ۔
”دادو پتہ ہے………میں بلال کو اکثر کہتا ہوں………کہ تمہیں ڈاکٹر ہونا چاہیے تھا……یہ چہرے سے مریض کی تکلیف کا اندازہ لگا لیتا ہے………مگر آج اسے نوشی کی تکلیف نظر نہیں آرہی ہے…بلال اُس کے زخموں پر محبت کی مرہم لگا دو…“
بلال نے محسن کی طرف دیکھا توشی بلال کو دیکھ رہی تھی
”بلال ادھر میری طرف دیکھو………یاد ہے تم نے مجھے سے کہا تھا…میری اور ڈاکٹر صاحب کی شادی سے پہلے………نکاح کی برکت سے محبت جنم لیتی ہے………تمہاری کہی ہوئی بات بالکل سچ ثابت ہوئی………بلال پلیز میری بہن کو اپنا لو………پلیز………“
توشی نے بھی چائے پینے کے دوران جو سوچا تھا وہ کہہ دیا تھا
”بلال بیٹا اسے میری آخری خواہش سمجھ لو………“ بلال کی نانی نے بھی اپنا ووٹ نوشی کے حق میں دے دیا تھا بلال تین کے مقابلے میں صفر سے یہ الیکشن ہار گیا تھا۔
”ٹھیک ہے……جیسے آپ سب کی خوشی“اُن تینوں کے چہروں پر اپنے امیدوار کے جیتنے کی خوشی تھی الیکشن میں ووٹ دیکھے جاتے ہیں…جذبات نہیں…’
’کب کرنا ہے…نکاح…؟“ بلال نے پوچھا اپنی نانی کی طرف دیکھ کر
”کل رات کو……اسی وقت……یہاں رندھاوا ہاؤس میں“ نوشی کمرے کے بیرونی دروازے کے ساتھ کھڑی ہوئی بولی
”OK………“ بلال نے صرف یہ کہا اور وہاں سے چلا گیا ،دروازے سے باہر جاتے ہوئے اُس نے ایک نظر نوشی پر ڈالی جو کہ دروازے کے ساتھ ہی کھڑی تھی، نوشی کے لبوں پر جیت کی مسکراہٹ تھی۔
اگلے دن 9 جنوری بروز جمعہ رات 9 بجے بلال کا نکاح رندھاوا ہاؤس میں مقامی مسجد کے مولوی صاحب نے پڑھا دیا تھا۔بریگیڈئیر امان اللہ سے بلال نے رابط کیا تھا۔ وہ شہر سے باہر تھے۔ عادل اور عظمی ملک سے باہر تھے۔نکاح کی یہ تقریب انتہائی سادگی سے سر انجام پائی تھی۔ جس میں صرف گھر کے افراد نے شرکت کی تھی۔ ولیمے کی دعوت کے لیے بلال نے فیصل ٹاؤن کے ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا تھا جس میں صرف بلال کے قریبی دوست مدعو تھے۔
نکاح کے بعد بلال نے خود کہا تھا۔
”نانو……میں ممانی جان سے ملنا چاہتا ہوں“ نوشی کو باقاعدہ دلہن کی طرح توشی نے تیار کروایا تھا۔ اس کے برعکس بلال نے سادہ مگر خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا ،سفید شلوار قمیض اوپر بلیک ویسٹ کوٹ پاؤں میں بابا جمعہ کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چپل۔
”ممانی جان اسلام وعلیکم……“ بلال نے ناہید کے سامنے جاتے ہوئے کہا ۔
توشی اور جہاں آرا صوفے پر بیٹھ چکی تھیں۔ نوشی کھڑی تھی بلال کے ساتھ جو کہ ناہید کے سامنے کھڑا تھا۔ ناہید کی آنکھوں میں آنسو آمڈ آئے خوشی سے یاندامت کے، اللہ ہی جانے یا ناہید کا دل۔ نوشی نے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ کمرے سے چلی گئی ۔
ناہید نے بائیں ہاتھ کے اشارے سے بلال کو اپنے پاس بلایا۔
”بلال بیٹا مجھے معاف کر دو………“ ناہید نے دل میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں، بلال ناہید کے پاس اُس کے بیڈ پر بیٹھ گیا، اور ناہید کا بایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولا
”ممانی جان میں آپ کے لیے دُعا کرتا رہتا ہوں………آپ کی بیٹی کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کروں گا………اگر مجھ سے کبھی کوئی گستاخی ہوئی ہو……تو معاف کر دیجیے گا“ ناہید نے گردن ہلانے کی کوشش کی جیسے کہہ رہی ہو ”نہیں………نہیں……… بلال بیٹا……“ ناہید نے اپنا بایاں ہاتھ بلال کے گال پر رکھنے کی کوشش کی تھی جیسے پیار دی رہی ہو۔
بلال نے ناہید کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دائیں گال سے لگا لیا ۔