اگلے دن یکم جنوری 2014ء کو عذرا اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ڈیفنس پہنچی منگنی کی رسم ادا کرنے کے لیے کہاں 3 لوگ اور کہاں 30 افراد جمال کو اُن کی خوش خوراکی دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا، کہ شادی پر کیا ہونے والا ہے۔ ناہید رندھاوا بظاہر خوش نظر آرہی تھی اندر سے وہ اِن دونوں رشتوں سے خوش نہیں تھی۔ توشی کا تو اُسے شروع سے پتہ تھا کہ یہ اپنے باپ کی مرضی ہی سے شادی کرے گی مگر نوشی کا بلال کے حق میں فیصلہ دے دینا اُسے ہضم نہیں ہورہا تھا۔
اُس نے صرف شعیب کی اُس بات کی وجہ سے ہتھیار ڈالے تھے کہ اِس طرح جائیداد سے حصہ نہیں دینا پڑے گا۔ اگر جمال رندھاوا بلال کی ماں کا قرض اُتارتا تو جائیداد کا تقریباً تیسرا حصہ چلا جاتا کیونکہ وہ زرعی زمین اب کمرشل ہوچکی تھی۔ جمیلہ کی زرعی زمین کے پاس ایک گریڈ اسٹیشن بن گیا تھا جس کی وجہ سے اُس پسماندہ علاقے کی سُنی گئی تھی اور زمین کی قیمتیں آسمان کو چھورہیں تھیں۔
(جاری ہے)
شادی کی تاریخ رکھنے پر کچھ اختلاف تھا، پھر معاملات طے پاگئے۔ ڈاکٹر محسن کی بارات ہفتہ 15مارچ کو طے پائی اور ولیمہ کی دعوت 16 مارچ کو رکھی گئی تھی۔
بلال نے نوشی سے مشورے کے بعد جوکہ اُس نے دوپہر ہی میں کرلیا تھا۔ اپنی خواہش کا اظہار کردیا تھا۔ بلال چاہتا تھا کہ اُس کا نکاح 14 مارچ بروز جمعہ ہو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں اور نکاح بابا جمعہ پڑھائیں جس میں وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو مدعو کرنا چاہتا تھا، اعجاز جنجوعہ اور اُس کے گھر والے، فوزیہ کی فیملی، ڈاکٹر عظمی کی فیملی، طارق رامے، عادل عقیل اور اقبال چائے والا اور یہی مہمان اُس کے ولیمے کی دعوت میں تھے۔
اور ولیمہ وہ 17 مارچ بروز پیر کرنا چاہتا تھا جس میں وہ کھجوریں اور دودھ سے مہمانوں کی تواضع کرنا چاہتا تھا۔ جس پر شدید اعتراض ہوا کیونکہ نوشی بلال کے ساتھ تھی اور بعد میں جہاں آرا بیگم بھی جلدی سے مان گئیں اس لیے فیصلہ بلال کی منشا کے عین مطابق ہوا تھا۔
”یہ شادی ہورہی ہے یا قلوں کا ختم“ ناہید نے طعنہ دیا تیکھے انداز سے جمال رندھاوا نے قہر آلود نگاہوں سے ناہید کی طرف دیکھا جس نے غصے سے نظریں چُرالیں تھیں۔
###
شادی کی تاریخ طے ہونے کے دو ہفتے بعد ایک دن دونوں بہنیں گفتگو کر رہی تھیں۔
”ماما نے ٹھیک کہا تھا۔ شادی ایک بار ہوتی ہے۔ تمہاری شادی تقریباً ختم نیاز جیسی لگ رہی ہے شکر ہے بلال نے مینیو میں بُھنے چنے اور کیا کہتے ہیں۔ وہ سفید سفید گول گول جو میٹھے ہوتے ہیں“ توشی بول رہی تھی نوشی کو تنگ کرنے کے لیے۔
”مخانے جی مخانے“ SMS نے لقمہ دیا جو دونوں بہنوں کو اورنج جوس دینے آیا تھا ”دفعہ ہوجاوٴ SMS ۔
تم سے کسی نے پوچھا ہے“ نوشی غصے سے بھڑکی ”ٹھیک ہے نوشی آپی میں نے تو صرف مخانے کہا ہے اور بس …… “SMS وہاں سے چلا گیا۔
”میں سوچ رہی ہوں تمہیں کسی سائیکاٹرسٹ کو چیک کرواوٴں بائی داوئے بلال نے تمہیں کنوینس کیسے کرلیا“ توشی حیران ہوکر بولی۔
”اس دن دوپہر کو بلال نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ میں بہت کنفیوز تھی۔ وہ میرے سامنے جسٹ دو فٹ کی دوری پر بیٹھا تھا۔
اُس نے پہلی بار مجھے آنکھ اُٹھا کر دیکھا پہلی بار مجھے ایسا لگا جیسے میری سانس رُک گئی ہو میرا گلا خشک ہوگیا مجھے ایسے لگا جیسے اُس نے مجھے قید کرلیا ہو، اپنی آنکھوں کی جیل کے اندر اور میں اُس کی محبت کی قید میں ہوں “ نوشی یہ بتاتے ہوئے رُکی اُس نے ٹھنڈی آہ لی۔”واللہ اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔ میرا ڈوب جانے کو دل چاہا تم صحیح کہتی تھی اُس کے لیے مرجانے کو دل چاہ رہا تھا، اُس وقت پھر بلال بولا نوشی جی میری ایک خواہش ہے اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو پھر اُس نے نکاح والی بات کی میں صرف OKبول سکی بڑی مشکل سے“
”پھر کیا ہوا آگے بتاوٴ…… ہائے اللہ …… سورومینٹک“ توشی بے قراری سے بولی ”پھر اُس نے مجھے سینڈوچ کھلائے ہائے توشی مزا آگیا ۔
ایسے TASTY کیا بتاوٴں“
”یہ لو …… بیڑا غرق …… میں تو سوچ رہی تھی کہ اُس نے تمہیں گلے لگایا ہوگا یا پھر جس طرح پرانی فلموں میں سفید اور گلابی پھول ملتے ہیں۔ ایسا کچھ ہوا ہوگا“توشی کا سارا تجسس ختم ہوگیا ”سینڈ وچ بڑے مزیدار تھے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی اُس نے تمہیں چھواتک نہیں“ نوشی نے بھولی صورت بناکر نفی میں گردن ہلادی۔
”تم چُھولیتی اُسکو آخر تمہارا فیانسی تھا کوئی غیر تھوڑی نہ تھا“ توشی نے اپنا مفید مشورہ دیا ”جہاں تک اُس کے چھونے کی بات ہے جب وہ مجھ پر اپنی کالی چادر ڈالتا تھا۔
تو اپنی انگلیوں کے پوروں تک کو بچاتا میرے جسم کو لگنے سے“ نوشی کھوئی ہوئی بولی خیالوں میں جیسے اُن راتوں کو یاد کررہی ہوں۔
”یہ لو …… یہ کالی چادر والی کہانی کیا ہے“ توشی نے اپنے مخصوص انداز سے کہا۔
نوشی نے اُسے اپنی ساری ملاقاتوں کا احوال سنایا۔ جب وہ تہجد کے وقت بلال کے روم میں جاتی تھی پھر اُن دونوں کی آنکھوں ہی آنکھوں میں بات چیت ہوتی تھی۔
بلال اُسے کافی اور بسکٹ پیش کرتا اور اُسے سردی سے بچانے کے لیے اپنی گرم چادر اُس کے شانوں پر ڈال دیتا۔ ”ایک دن مجھے اُس پر بڑا پیار آیا اور میں اُس کے گلے لگ گئی اُس نے مجھے پیار سے سمجھایا۔ یہ گناہ ہے کبیرہ گناہ نوشی جی آپ میرے نکاح میں نہیں ہو“ نوشی یہ بتاتے ہوئے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے چبارہی تھی اور توشی اپنی چھوٹی انگلی اپنے دانتوں میں جکڑی ہوئی تھی۔
” یہ لو …… “ توشی سلوموشن میں بولی رک رک کر ”نوشی تم کتنی گھُنی ہو اور بلال کتنا میسنا ہے ایک دفعہ تو میں نے تم دونوں کو پکڑا تھا۔ جب میری تمہاری لڑائی ہوگئی تھی “ دونوں بہنیں اب اپنے بستر پر لیٹ چکی تھیں اور کمبل اُن کے اوپر تھا۔ اور وہ کہنیوں کے بل ایک دوسرے کی طرف منہ کیے ہوئے تھیں تب نوشی بولی۔
”توشی ویسے یہ غلط بات ہے مجھ سے سب کچھ پوچھ لیا اور اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا“ ” بتاوٴں خاک کوئی بات ہی نہیں۔
ایک دفعہ ڈنر کے بعد میں نے محسن کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا بڑی ہمت کرکے تو اُس نے ہاتھ ہٹالیا۔ جب میں نے پوچھا کیا ہوا۔ پتہ ہے اُس نے کیا جواب دیا۔
کہنے لگا ناں بابا نا تم بلال کی عزت ہو۔ بلال نے مجھ سے کہا ہے میری عزت کو شادی سے پہلے چھونا مت میلی ہوجائے گی …… کرلو بات“
دونوں بہنیں بہت خوش تھیں وہ دونوں رات گئے تک باتیں کرتی رہیں۔
###
”دو کوڑی کی عزت نہیں ہے میری اِس گھر میں …… تم نے دیکھا اپنے باپ کا رویہ میرے ساتھ خود سارے فیصلے کررہا ہے۔ مجھ سے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا اُس نے، بٹوں کے گھرجاکر بیٹی دے آیا ایسے کیے جاتے ہیں رشتے۔ شادی کے دن رکھ لیے میری مرضی کے بغیر اور تم ہو مجھے صرف مشورے دے رہے ہو کرتے کچھ بھی نہیں “ ناہید غصے سے بھڑک رہی تھی اپنے بیٹے شعیب پر دونوں ماں بیٹا اپنے دفتر میں تھے ”شعیبی میری بات یاد رکھو اِس میں سب سے زیادہ نقصان تمہارا ہی ہے 50 ایکڑ زمین خریدنے میں 45 سے 50کروڑ جائیں گے باپ تمہارا نوشی اور توشی کے حصے میں سے تو زمین نہیں خریدے گا “
” میرے حصے میں سے بھی نہیں خریدیں گے“ شعیبی بولا بے فکری سے۔
” تم بھی پاگل ہو جو تمہارے باپ کا ہے اُس کے بعد سب کچھ تمہارا ہوگا تمہاری بہنیں لکھ کردے چکی ہیں کہ وہ جائیداد سے اپنا اپنا حصہ لے چکی ہیں۔ مگر تم سے تمہارے باپ نے ایسا کچھ نہیں لکھوایا مطلب اب سب کچھ تمہارا ہے“
” تو پھر کیا کیا جائے“ شعیب نے پوچھا اپنی ماں سے سوچتے ہوئے۔
” پھر یہ کسی طرح بلال کا پتا صاف کرو میں چاہتی ہوں نہ تو اُسے زمین ملے اور نہ ہی نوشی کے ساتھ اُس کی شادی ہو“ ناہید کی منافقت اُس کی زبان سے نکل آئی اُس کے ذہن میں ایک گندی سکیم تھی۔
” مگر ماما یہ ہوگا کیسے؟“ شعیب نے پوچھا ناہید سے۔
” ولید ہاشمی کو جانتے ہو“
” ہاں وہ ماڈلنگ کرتا ہے مگر وہ تو بہت بگڑا ہوا ہے“ شعیب کو تشویش ہوئی ولید کا نام سُن کر۔
” ولید ہاشمی مشہور بزنس مین عقیل ہاشمی کا بھتیجا ہے اور اُس کا باپ بہت بڑا پیر ہے اِس خاندان کی بڑی عزت ہے حجرہ شاہ مقیم میں لوگ بڑی عقیدت رکھتے ہیں اِن کے ساتھ ہاتھ پیر چومتے ہیں“
” ماما آپ کو پتہ بھی ہے وہ صرف عیاشی کے لیے ماڈلنگ کرتا ہے چرس، شراب، لڑکیاں سارے شوق ہیں اُس کے اور ہاں بہت بڑا جواری بھی ہے اکثر میچوں پر پیسے لگاتا ہے“
” وہ سارے شوق تو تمہارے بھی ہیں بیٹا میں سب کچھ جانتی ہوں“ ناہید نے ترچھی نگاہوں سے دیکھ کر کہا شعیب کو ”جب وہ اپنے باپ کی جگہ گدی نشین ہوگا یہ سارے گناہ پیر کی گدی کے نیچے دب جائیں گے پھر لوگ اُس کے بھی ہاتھ چومیں گے مجھے نوشی کے لیے وہ لڑکا پسند ہے۔
میری بیٹی راج کرے گی اور ہمارا خاندانی سٹیٹس بھی بڑھ جائے گا۔ ولید نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ یہ شادی رکوادے گا اور تمہارا باپ خود اِس رشتے سے انکار کرے گا “
” اور توشی کے رشتے پر آپ رضامند ہیں؟“ شعیب نے پوچھا۔
” توشی کا تو مجھے بچپن سے معلوم تھا کہ یہ میری مرضی سے تو شادی نہیں کرے گی۔ اُس کی پسند پھر بھی ٹھیک ہے۔ بڑے خاندانی لوگ ہیں کھاتے پیتے اور مزے کی بات حکومت کسی کی بھی ہو اِن کی چلتی ہے حکومتی حلقوں میں اور سارا شادباغ اِن کو جانتا ہے۔
اور بلال کا خاندان سارے فقرے تین بھائی رہتے تھے، پانچ مرلے کے مکان میں اور آج بھی وہی مکان ہے اِس کے چچاوٴں کے پاس اور محسن کے باپ نے اِردگرد کے سارے مکان خرید کر ایک بڑی سی حویلی بنالی ہے، بٹ حویلی کے نام سے مشہور ہے اِن کی حویلی سارے علاقے میں“
ناہید نے محسن بٹ کے متعلق ساری انکوائری کروالی تھی بہت دن پہلے ہی جب توشی پہلی دفعہ اُس کے ساتھ ڈنر کرنے گئی تھی۔
ناہید حاکمانہ ذہن رکھنے والی لالچی خاتون تھی، شروع ہی سے اِسی وجہ سے اُس نے جمال کے گھر میں کسی کی نہیں چلنے دی۔ پوری زندگی اُس نے حکم چلایا اور اُس حکم پر عمل درآمد بھی کروایا اب جمال نے اُس کا یہ اختیار چھین لیا تھا، جو وہ برداشت نہیں کرپارہی تھی اُسے اپنی حکمرانی واپس چاہیے تھی کسی بھی شرط پر۔
###