Episode 67 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 67 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

باباجمعہ کو غسل دینے سے پہلے جب امان اللہ کمرے میں آئے تو صرف پانچ افراد تھے کمرے میں بریگیڈیئر امان اللہ، محمد طفیل، محمد اقبال، عادل عقیل اور بلال احمد عادل عقیل نے ایک خط امان اللہ کو تھمایا جو خاکی لفافے میں بند تھا۔“
”یہ باباجی نے آپ کے لیے دیا تھا کل رات کو “ عادل عقیل لفافہ تھماتے ہوئے بولا 
امان اللہ نے خط پڑھنا شروع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے عزیز دوست امان اللہ
امان اللہ تمہارے جیسے دوست ہوں زندگی میں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے۔
تم میرے ساتھ زندگی بھر ہمیشہ کھڑے رہے ہر موسم میں چاہے وہ خزاں ہو۔ یا سخت گرمی …… اللہ تبارک تعالیٰ تمہیں اُن نیکیوں کا اجر عطا کرے۔ (آمین)
مجھے پتہ ہے میرے مرنے کے بعد تم کسی کو بھی ایک روپیہ خرچ نہیں کرنے دوگے اس لیے میں دو لاکھ روپیہ چھوڑ کر جارہا ہوں یہ میری حق حلال کی کمائی ہے۔

(جاری ہے)

اِسے رکھ لینا میری آخری خواہش سمجھ کر اگر زندگی میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو تو وہ بھی معاف کردینا۔

 
تمہارا دوست جمعہ خاں میواتی
عادل عقیل نے ایک پیکٹ بریگیڈئر امان اللہ کو تھمادیا جس کے اندر لاکھ لاکھ کی دوکاپیاں تھیں ہزار ہزار کے نوٹوں کی بریگیڈئر امان اللہ نے اپنے گرتے آنسووٴں کو رومال سے صاف کیا اور بولے ”غسل دے دیں “
” بریگیڈئر صاحب ایک خط اور ہے بلال کے نام“ عادل عقیل نے دوسرا لفافہ بلال کو دے دیا جس کے اوپر لکھا ہوا تھا بلال صاحب کے نام۔
” بلال نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ وہ خاکی لفافہ پکڑا جسے کھولنے کی ہمت اُس نے پیدا کی اور خط نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بیٹا بلال احمد
بلال بیٹا دنیا یہ سمجھتی تھی کہ تم مجھ سے سیکھنے آتے ہو۔ دراصل تم مجھے سکھاکر جاتے تھے۔ ہر دن کچھ نہ کچھ میری 66 سالہ زندگی میں آخری 16 سال تمہارے ساتھ گزرے اب میں سوچتا ہوں پہلے 50 سال تو میں نے ضائع کیے تھے۔
 
میں اپنے مرشد بابا سلانی جتنی ہی تمہاری بھی عزت کرتا ہوں وجہ تم ضرور جاننا چاہو گے میرے مرشد نے دنیا چھوڑ کر مقام بنایا تھا اور تم نے دنیا میں رہ کر مقام بنایا ہے۔ میں دانشور تو نہیں ہوں مگر میں یہ سمجھتا ہوں اس ملک کو تمہارے جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔
میری ایک آخری خواہش ہے، مجھے غسل تم اپنے ہاتھوں سے دینا اور جنازہ بھی تم ہی پڑھانا اور مجھے قبر میں بھی تم ہی اُتار نا اپنے ہاتھوں سے اور ہاں آخری بات جس طرح اپنے ماں باپ کو اپنی دعاوٴں میں یاد رکھتے ہو مجھے بھی یاد رکھنا اپنی دعاوٴں میں کیونکہ میں نے 16 سال سے تمہیں ہی اپنا بیٹا سمجھا ہے۔
اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے۔
فقط تمہارا بابا جمعہ
بلال نے اختصار سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہ خط بریگیڈئر امان اللہ کی طرف بڑھادیا۔ امان اللہ نے وہ خط پڑھا ایک دفعہ پھر اُن کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوگئے تھے۔ ”تم ہو بلال احمد “ خط پڑھنے کے بعد امان اللہ نے روتے ہوئے بلال کو گلے لگالیا۔
”اقبال باباجی کو غسل بلال صاحب دیں گے اور جنازہ بھی یہی پڑھائیں گے “ امان اللہ نے ایک کمانڈر کی طرح آرڈر جاری کردیئے تھے۔
بلال نے باباجی کو غسل دیا اور اُن کو کفن بھی خود پہنایا غسل دینے کے بعد ایک الگ طرح کی بحث چھڑ گئی ”کل کا چھورا وہ بھی داڑھی مُنا “ ایک طرف کُھسر پھسر ہورہی تھی۔ دوسری طرف سے آواز آئی ”کیا اسے نماز جنازہ بھی آتی ہے پتہ کرلو…… “ اب اتنے بڑے بڑے بزرگ اس لونڈے کے پیچھے نماز پڑھیں گے”یہی چھورا…… پر ہے کون؟“ ایک طرف چند بوڑھے میواتی بُول رہے تھے ”ہم ایسا کفر کبھی نہ ہونے دیں گے “ ایک طرف سے چند میواتی نوجوان بول رہے تھے اتنے میں کراچی سے لوگ آگئے تھے ایک دفعہ پھر آہوں سسکیوں کی آوازیں بلند ہوئیں کچھ محلے کی عورتیں جیسے بین ڈالنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئیں تھیں۔
باباجمعہ کی بہنیں آئیں تو اُن عورتوں نے بین ڈالنا شروع کردیئے آدھ گھنٹہ یہ سلسلہ جاری رہاوجہ یہ تھی سارے مرد جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گئے ہوئے تھے بجلی بھی نہیں تھی بابا جمعہ کی بہنوں نے اور اُن عورتوں نے رو رو کر اپنا بُرا حال کرلیا تھا۔ بین ڈال ڈال کر اُن کے گلے بھی بیٹھ گئے تھے۔ 
”دیکھو بھائیوں جنازے کا وقت ہوگیا ہے۔ میں کافی دیر سے سُن رہا ہوں بلال کے بارے میں باتیں یہ بابا جمعہ کا خط ہے میرے ہاتھ میں اُن کی خواہش تھی کہ میرا جنازہ یہ بچہ پڑھائے یہ باباجمعہ کا منہ بولا بیٹا ہے۔
بلال احمد اِسے نماز جنازہ آتی ہے اِس کی میں گواہی دیتا ہوں۔ میں آپ سے کسی مذہبی بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا مجھے نہیں پتہ ایک داڑھی منا نماز جنازہ پڑھاسکتا ہے یا نہیں مگر آپ یہ سوچیں اس گاوٴں کا سب سے نیک اور پارسا آدمی جس کے جنازے کے لیے ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اُس کی آخری خواہش تھی …… بھائیوں باباجمعہ نے کچھ تو دیکھا ہوگا بلال احمد میں“ عوام کو امان اللہ کی بات سمجھ آگئی اورباباجمعہ کی تدفین ہوگئی بغیر کسی بدمزگی کے اُن کی خواہش کے عین مطابق باباجمعہ نے جب اپنا مکان بیچا تھا تو اپنی بہنوں کو فون پر اطلاع کردی تھی۔
انہوں نے باباجمعہ کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اِس مکان سے حاصل شدہ رقم کے بارے میں صرف عادل عقیل جانتا تھا۔ اُس نے بلال کو بھی ابھی اِس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ کل رات کو بلال اور اقبال کے جانے کے بعد جب عادل باباجمعہ کے پاس اکیلا تھا۔ باباجمعہ نے ایک بہت بڑی لکڑی کی بنی ہوئی الماری کھولی جو سکھ سردار جی غدر کے وقت چھوڑ کر گئے تھے وہ الماری بہت مضبوط تھی جس کے اوپر ایک بہت بڑا مضبوط تالا لگا ہوا تھا۔
اُس کے اندر سے دو خط اور ایک پیکٹ کالے شاپر بیگ والا انہوں نے عادل کے حوالے کیا۔ 
” عادل بیٹا یہ رکھو ایک خط امان اللہ کو دے دینا اور دوسرا بلال کو اور اِس میں دو لاکھ روپیہ ہے یہ بریگیڈئر امان اللہ کو دے دینا بلال کا ساتھ دینا ہمیشہ وہ بہت اکیلا ہے …… اور یہ جوتا میں نے تمہارے لیے بنایا تھا اپنے ہاتھ سے“ ایک پشاوری چپل بالکل ویسی جیسی بلال کے پاس تھی۔
عادل خاموش تھا مگر اُس کی آنکھوں سے اشک گررہے تھے۔
”عادل بیٹا موت ایک اٹل حقیقت ہے، تم رومت مجھے آج ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میربلاوا کسی وقت بھی آسکتا ہے اس لیے تمہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور وہ مکان کے پیسے بلال کو بتادینا کہ وہ اپنے اسکول میں لگادے مگر کسی دوسرے کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو۔ یہ راز ہے اور راز ہی رہنا چاہیے۔ تم نے یہ رونے والی شکل کیوں بنارکھی ہے چلو شاباش یہ آنسو صاف کرو ساڑھے 10 بج رہے ہیں، اب تم گھر جاوٴ ماں باپ پریشان ہورہے ہوں گے“
عادل نے اپنے آنسو صاف کیے اب عادل بالکل نارمل تھا اُسے لگا میں تو خوش نصیب ہوں جو باباجی نے مجھے اِس قابل سمجھا اُس نے بلال کی طرح باباجمعہ کا چہرہ غور سے دیکھا جیسے کچھ پڑھنا چاہ رہا ہو اُسے باباجی کا چہرہ مطمئن لگا جس پر کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں تھی۔
عادل بالکل مطمئن ہوگیا تھا ”تکلیف میں انسان ایسا ہی سوچتا ہے “ عادل کے دل میں خیال آیا وہ جانے کے لیے اُٹھا کرسی سے۔
”کل کونسا دن ہے؟ عادل بیٹا باہر کا دروازہ بند کردینا میں بعد کو کنڈی لگالوں گا“ 
باباجمعہ نے ایک ساتھ پوچھا اور حکم دیا یہ بابا جمعہ کے آخری الفاظ تھے۔
”ٹھیک ہے باباجی …… کل جمعہ ہے۔ میں افطاری کا سامان گھر سے تیار کرواکر لاوٴں گا۔
روزہ اکٹھے کھولیں گے“ عادل نے جاتے ہوئے عقیدت سے کہا۔
عادل کے جانے کے بعد باباجمعہ نے اپنی گرم لوئی اُوڑھی اور گیس ہیٹر لگایا اور جائے نماز پر آکر بیٹھ گئے وضو انہوں نے پہلے سے کیا ہوا تھا بس انہوں نے ہاتھ دھوئے او رکلی کی وہ فجر کی اذان تک جائے نماز پر بیٹھے رہے تکلف کی وجہ سے وہ اُٹھ نہیں سکے انہیں پھر سے شدید بخار ہوچکا تھا۔
فجر کی اذان کے فوراً بعد باباجمعہ نے بیٹھے بیٹھے نماز ادا کی نماز سے فارغ ہوکر انہوں نے لمبی دُعا مانگی اِس کے بعد وہ پھر سے سجدے میں گرگئے سجدے ہی میں وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے تھے اُن کی روح اُن کے جسم کو چھوڑ کر جاچکی تھی۔ باباجمعہ 17اکتوبر 1947ء کو بروز جمعہ پیدا ہوئے اور 17جنوری 2014ء بروز جمعہ اِس دنیا سے کوچ کیاباباجمعہ کی پیدائش بھی جمعہ کو ہی ہوئی تھی اور انتقال بھی۔
باباجمعہ کے محلے کی مسجد میں پچھلے پچاس سال میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ باباجمعہ گاوٴں میں بھی تھے اور وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے نہیں آئے تھے نمازیوں نے ایک دوسرے سے باباجمعہ کے متعلق پوچھا سب کو تشویش ہوئی اقبال نے بتایا رات اُن کو بخار تھا۔
سب نمازی باباجمعہ کے گھر کی طرف چل دیئے دروازہ بند تو تھا مگر اندر سے کُھلا ہوا تھا۔ جب وہ سب نمازی کمرے میں داخل ہوئے تو باباجمعہ کا جسد خاکی سجدے میں تھا مگر روح کے بغیر محمد اقبال چائے والے نے سب سے پہلے بریگیڈئر امان اللہ کو فون کیا اُس کے بعد سب کو فون کرکے اطلاع دی تھی۔
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط