Episode 35 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 35 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”میرا جانے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا ہے، ایک یہ موسم اوپر سے تمہارا ساتھ کوئی پاگل ہی ہوگا، اتنی سردی میں باہر جائے اوپر سے یہ بادل کالے سیاہ“ولید ہاشمی نے ارم واسطی کی کالی سیاہ زلفوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے …رومینٹک انداز میں کہا، جو اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اُس کے دائیں بازو کے حصار میں ان دونوں کی ٹانگیں سامنے پڑے سینٹر ٹیبل پر تھیں، ارم کے کھلے کالے سیاہ بال اس کے شانوں سے ہوتے ہوئے اس کی چھاتی پر تھے اور وہ پستہ، بادام اور کاجو سے موسم کی ٹھنڈک کو دور کر رہے تھے، جس کی پلیٹ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی ٹھی ۔
 
”میں یہ چاہتی ہوں ہمارا یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے رہے…اسی لیے تمہیں بھیج رہی ہوں یہ عمر انگور کی بیل کی طرح ہوتی ہے، جو چیز قریب مل جائے اسی کیساتھ لپٹ جاتی ہے…اور وہ دونوں بیلیں کسی کے ساتھ لپٹنا چاہتی ہیں…ولید ابھی موقع ہے…اسے کیش کرلو…“
ارم ایک تجربہ کار عورت کی طرح بول رہی تھی عمر 30کے آس پاس مگر اپنی جسامت کی وجہ سے زیادہ نہیں لگتی تھی وہ سلم اینڈ سمارٹ تھی اور پرکشش بھی۔

(جاری ہے)

 
”تم بھی کبھی کسی کے ساتھ لپٹی تھی…“ولید نے مذاق میں پوچھا۔ 
ہاں…دس سال پہلے جب میں بھی انگور کی بیل کی طرح تھی، میں اسے مضبوط درخت سمجھ کر لپٹ گئی…مگر وہ درخت تو تھا…لیکن اندر سے کھوکھلا سوکھا ہوا…میں اس کے مصنوعی پینٹ کو اس کی ہریالی سمجھ بیٹھی تھی“
”پھر کیا ہوا…“ولید نے تجسس سے پوچھا۔ 
ارم واسطی نے گہری ٹھنڈی سانس بھری اور بھری ہوئی آواز سے بولی۔
 
”ہونا کیا تھا …وہی جو ہم جیسیوں کے ساتھ ہوتا ہے…جو ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکالتی ہیں…وہ پوری زندگی ذلیل خوار ہوتی ہیں …ہمارے گاؤں کا رہنے والا تھا، ڈیفنس میں کسی ڈیلر کے پاس کمیشن پر کام کرتا تھا دل نواز چغتائی گاؤں جاتا تو نئی گاڑی ، نئے نئے موبائل، روپیہ پیسہ خوب دکھا کر آتا ، اس کے چچا کی بیٹی میری سہیلی تھی اس کے ذریعے مجھے موبائل اور سم دی، رات کو گھنٹوں میں چوری اس سے باتیں کرتی، اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی، اس نے کہا لاہور آجاؤ، رانی بناکر رکھوں گا پیسے اس نے اپنی چچا کی بیٹی کے ذریعے بھیجے میں ٹھوکر نیاز بیگ آئی وہاں سے وہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر لے آیا…ڈیفنس کے ایک گھر میں ہم پورا مہینہ ساتھ رہے، شادی سے پہلے ہم شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے، میرے گھر والے اسے بھی فون کرتے بیٹا ارم نہیں مل رہی، لاہور پتہ کرنا یہ سپیکر پر مجھے ان کی باتیں سنواتا، مہینہ بعد ایک دن یہ اچانک غائب ہوگیا۔
 دو دن گزر گئے اس کا کوئی پتہ نہیں، موبائل اس کا بند تھا دو دن بعد ایک آدمی آیا اس نے کہا یہ گھر ہمارے انویسٹر کا ہے یہاں سے نکلو، میں نے کہا میں کہاں جاؤں اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی آفر دی، میں ڈرتی ڈرتی اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے مجھے دل نواز کے بارے میں بتایا کہ ہم دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، اور وہ گاڑی بھی میری تھی، میں نے اس سے پوچھا اب دل نواز کہاں ہے…وہ گاؤں چلا گیا ہے اور اپنے چچا کی بیٹی سے اس کی اگلے ہفتے شادی ہے۔
مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا، تب اس نے اپنے موبائل سے اوپن سپیکر پر ڈئیگی سے بات کی، وہ میرے ساتھ گزاری راتوں کا مزہ لے لے کر حال بیان کر رہا تھا…اور میں سن کر شرم سے پانی پانی ہورہی تھی…گاؤں میں اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی، میں کہاں ہوں اور میرے ساتھ ڈئیگی نے کیا کیا تھا، میری سہیلی جس سے شادی کرنے سے ڈئیگی انکاری تھا اس نے ڈئیگی سے کہا اب اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو میں ارم کی کہانی سب کو بتادوں گی۔
ڈئیگی نے میری سہیلی سے شادی کرلی سجاد باجوہ نے مجھے ایک سال رکھیل بناکر رکھا جب اس کا دل بھر گیا تو مجھے چھوڑدیا اور آج میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔“اشکوں سے اس کے گال بھیگ چکے تھے وہ الٹے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئی بولی 
”ولید جو لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگتی ہیں زندگی ختم ہوجاتی ہے مگر ان کا سفر ختم نہیں ہوتا…نہیں ختم ہوتا سفر…نہیں کبھی نہیں…“
”میری انگور کی بیل…“ولید نے اسے اپنے بازو میں لے کر اس کی پیشانی چوم لی۔
اب یہ انگور کی بیل ایک دیسی کیکر کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب یہ بیل شیشم کی لکڑی سے زیادہ مضبوط تھی۔ 
####
ڈھول کی تھاپ پر مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا، ایک طرف عورتوں کی محفل اور دوسری طرف منچلے نوجوان ڈانس اور بھنگڑا ڈال کر ہلکان ہوچکے تھے مگر ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ 
اتنے میں ثانیہ کے باپ کی آواز بلند ہوتی ہے ”بس بھئی بس…بہت ہوگیا اب کھانا کھاؤ…دیر بھی ہوچکی ہے …اور سردی بھی بہت ہے…چلو شاباش…کھانا کھل گیا “
یہ سن کر نوشی ہجوم سے نکل کر واش روم کی طرف بڑھی، مووی میکر کی لائٹ والی کیبل سے اس کا پاؤں پھنسا اور وہ گرتے گرتے بچی۔
 
اگر ولید ہاشمی کے مضبوط بازو اسے سہارا نہ دیتے تو وہ زمین پر تھی۔ ولید نے اسے ایسے سنبھالا جیسے وہ پوزیشن لیے کھڑا ہو، نوشی ولید کی بانہوں میں تھی دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ 
کیکر کے کانٹوں والے درخت نے انگور کی بیل کو تھام لیا…لپٹنا ابھی باقی تھا…نوشی کے لیے یہ نیا تجربہ تھا…وہ زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے بازوؤں میں تھی۔
 
”وہ…میں نے دیکھا نہیں…Thank you“نوشی نے اپنی گولڈن آوارہ لٹیں کان کے پیچھے کیں اور اپنا پیلا جوڑا درست کیا اور شرماتی ہوئی واش روم کی طرف چلی گئی ۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس لوٹی تو ولید وہیں کھڑا تھا، کھانا کھل چکا تھا، اس لیے اس طرف کسی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ 
”آپ بہت خوبصورت ہیں…میں اپنی زندگی میں یہ منظر کبھی نہیں بھلاسکوں گا“ولید نے نوشی کو آنکھ بھر کر دیکھا اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
 
عورت کتنی ہی پڑھی لکھی اور تیز کیوں نہ ہو تعریف کی تیز دھاری تلوار اس کے بت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے اور یہی کچھ نوشی کے ساتھ ہوا تھا۔ 
وہ تعریف کی تلوار سے ریزہ ریزہ ہوچکی تھی، سارے فنکشن کے دوران ولید کا فوکس اس پر تھا، اب موقع ملا تو وہ اپنا کام کرکے جاچکا تھا، بغیر کھانا کھائے ہوئے۔ کھانے سے فارغ ہوکر مہمان جانا شروع ہوچکے تھے۔
دلہن کے پاس صرف نوشی اس کے ساتھ کھسر پھسر کر رہی تھی اس واقعے کے بعد نوشی کی نگاہیں مسلسل کسی تلاش میں تھیں مگر ولید جاچکا تھا۔توشی اور فوزیہ ایک سائیڈ پر صوفے پر بیٹھی تھیں، ان کے سامنے گیس ہیٹر لگا ہوا تھا سارا پروگرام فوزیہ نے اسی جگہ بیٹھ کر دیکھا تھا۔ خالہ نصرت ایک کونے میں اپنی پرانی دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھی۔ 
”کس کے ساتھ آئی تھیں“توشی نے پوچھا۔
 
”رانیہ نے گاڑی بھیجی تھی …ہاں یاد آیا ڈاکٹر بٹ تمہارا پوچھ رہے تھے “فوزیہ نے بتایا۔ 
”وہ کیو ں میرا پوچھ رہا تھا Made in Chinaڈاکٹر“توشی انداز سے بولی۔ 
”مجھے لگتا ہے …ڈاکٹر بٹ دل دے بیٹھا ہے تمہیں“فوزیہ نے شراتی لہجہ میں کہا۔ 
”یہ لو…یہ منہ اور مسور کی دال …چار بچوں کا باپ لگتا ہے …میرا اس سے کیا جوڑ…“توشی جھوٹ موٹ انکار کر رہی تھی۔
 
”قسم سے …تم دونوں کی جوڑی بڑی اچھی لگے گی…نوشی اور سر بلال سے بھی زیادہ “فوزیہ نے نوشی کی طرف دیکھ کر کہا۔ 
”بس…ڈاکٹر بٹ تھوڑے موٹے ہیں…باقی گورے چٹے…اونچے لمبے جوان ہیں۔ دل کے بھی بہت اچھے ہیں…“فوزیہ بول رہی تھی اور توشی غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”چلو فوزیہ بیٹی…بہت دیر ہوگئی ہے …“خالہ نصرت پاس کھڑی بول رہی تھیں۔ 
”ہم چھوڑ دیتے ہیں…آپ کو“توشی نے لفٹ کی آفر کردی اتنے میں نوشی بھی آچکی تھی نوشی نے آتے ہی کہا۔ ”چلو۔۔۔۔ چلیں۔۔۔“
”چلو…چلیں…فوزیہ کو بھی گھر چھوڑنا ہے “توشی بولی۔ 

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط